چھوٹا واقعہ بڑا سبق
مولاناسید امیرعلی (۱۹۲۱ - ۱۸۵۸) ملیح آباد میں پیدا ہوئے اور لکھنؤ میں وفات پائی ۔ انہوں نے مڈل اسکول تک تعلیم حاصل کی تھی کہ ان کی تعلیم چھوٹ گئی۔ غربت کی وجہ سے انہیں ملازمت تلاش کرنی پڑی۔ بہرائچ کے ایک سب پوسٹ آفس میں ان کو پوسٹ ماسٹر کی جگہ مل گئی۔ ملازمت کی ضرورت کے تحت انھوں نے معمولی انگریزی سیکھ لی اور کام کرنے لگے۔
گھریلو تربیت کے تحت وہ نماز کے پابند تھے ۔ ایک دن وہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد گئے ۔ اسی وقت سرکاری افسر ڈاک خانہ کے معائنہ کے لیے آگیا۔ پوسٹ ماسٹر کو غیر حاضر پا کر وہ بہت غصہ ہوا۔ سید امیر علی صاحب کو مسجد میں اطلاع پہونچی تو وہ وضو کر رہے تھے۔ انھوں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اطمینان کے ساتھ نماز پڑھ کر واپس آئے۔ افسر مذ کور نے پوچھ گچھ کی تو وہ چپ رہے ۔ نہ کوئی جواب دیا اور نہ کسی قسم کی معذرت کی خاموشی کے ساتھ ایک کاغذ لیا۔ اس پر اپنا استعفا لکھا اور افسر کو دے کر گھر چلے گئے۔
سید امیر علی صاحب اس وقت تک صرف اردو اور کچھ انگریزی جانتے تھے ۔ وہ عربی اور فارسی سے ناواقف تھے۔ استعفاء کے بعد انھیں ایک جھٹکا لگا۔ انھوں نے سوچا کہ جس دین کی خاطر میں نے ملازمت سے استعفاء دیا ہے، اس کی بابت براہ راست میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ حتی کہ اس سلسلہ میں کوئی شخص سوال کرے تو میں اس کا جواب بھی نہیں دے سکتا۔ میں نماز ضرور پڑھتا ہوں مگر نماز کا مطلب کیا ہے ، اس سے میں بے خبر ہوں ۔ قرآن و حدیث سے مجھے کوئی واقفیت نہیں۔
اب ان کے اندر ایک نیا جذبہ جاگ اٹھا۔ انھوں نے عربی اور فارسی پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ عربی زبان میں انھوں نے اتنی مہارت پیدا کی کہ ماہر علماء میں شمار کیے جانے لگے ۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں وہ شیخ الحدیث مقرر ہوئے ۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ میں صدر مدرس رہے۔ منشی نول کشور (وفات ۱۸۹۵) کے مطبع سے وابستہ ہو کر بڑی بڑی عربی کتابوں کے اردو ترجمے کیے ، مثلاً صحیح بخاری ، فتاوی عالمگیری، و غیره (قومی آواز ۴ فروری ۱۹۹۰) آدمی کے اندر اگر زندگی ہو تو ایک معمولی واقعہ اس کے اندر حرکت پیدا کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ عالی شان کارنامے انجام دے سکے ۔ اور جس آدمی کے اندر زندگی نہ ہو اس کے ساتھ بڑے بڑے واقعات پیش آئیں گے مگر وہ اس طرح پڑا رہے گا جیسے کہ اس نے نہ کچھ جانا اور نہ کوئی سبق لیا۔