جاہلیت کی پکار
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بنی المصطلق (۶ ھ) سے واپس آرہے تھے۔ راستے میں ایک مقام پر آپ نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پرمریسیع نام کا ایک کنواں تھا۔ یہاں پانی لیتے ہوئے دو مسلمانوں میں جھگڑا ہو گیا۔ ایک مسلمان کا تعلق مہاجرین سے تھا اور دوسرے مسلمان کا تعلق انصار سے ۔ جب تکرار بڑھی تو دونوں نے اپنے اپنے قبیلہ کو حمایت کے لیے پکارا۔ ایک نے کہا کہ یا معشر الأنصار (اے گروہ ِانصار) دوسرے نے کہا کہ یا معشر المهاجرين (اے گروہ ِمہاجرین) اس کے بعد دونوں گروہ کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف جمع ہو گئے اور قریب تھا کہ دونوں آپس میں لڑ پڑیں ۔ ایک روایت کے مطابق، پکار کے الفاظ یہ تھے : يَا للأَنْصارِ (اے انصار دوڑو) يَا للْمُهاجِرين (اے مہاجرین دوڑو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ وہاں آئے اور پوچھا کہ یہ جاہلی پکار کیا ہے (مَا بالُ دَعْوى الْجَاهِلِيَّةِ؟) لوگوں نے قصہ بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑو ۔ کیوں کہ یہ سب گندی باتیں ہیں (دَعُوها فَإِنَّهَا مُنْتِنةٌ) حياة الصحابہ ۴۷۲-۷۳/۱
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پکار کو جاہلیت کی پکار کیوں کہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ پکار دو آدمیوں کے انفرادی مسئلہ کو پوری قوم کے لیے غیرت اور حمیت کا مسئلہ بنا رہی تھی ، ہر معاشرہ میں ایسا ہوتا ہے کہ مقامی سطح پر بعض افراد کے درمیان کچھ نزاع پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر ایسی نزاع کو عمومی رنگ دینا اس کو غیر ضروری طور پر بڑھانا ہے ۔ ہروہ پکار جاہلیت کی پکار ہے جس میں کسی ذاتی یا مقامی مسئلہ کو جذباتی نعروں کے ذریعہ پوری قوم کا مسئلہ بنانے کی کوشش کی گئی ہو ۔
جزئی یا مقامی مسئلہ کو جنرئی یا مقامی دائرہ میں رکھ کر اسے حل کرنا چاہیے ۔ اگر ایسے کسی مسئلہ کو جذباتی اشو بنا کر کہا جانے لگے کہ یہ ہمارے قومی وجود کی علامت ہے۔ یہ ملی غیرت کے لیے چیلنج ہے، یہ پوری امت کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، تو یہ سب جاہلیت کی پکار ہوگی۔ اور جاہلیت کی پکار سے بر بادی کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں۔ جزئی مسئلہ کو اگر اپنے حال پر رہنے دیا جائے تو اس کو حل کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ مگر جب اس کو بڑھا دیا جائے تو اس کو حل کر نا اتناہی زیا دہ مشکل ہو گا جتنا زیادہ اس کو بڑھایا گیا ہے ۔