زندگی کی کھیتی
محمد ابن اسحاق (۸۵-۱۵۱ھ) کہتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ۴۰ سال پہلے کعبہ کے اندر ایک پتھر پایا تھا۔ اس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے :
مَنْ يَزْرَعْ خَيْرًا يَحْصُدْ غِبْطَةً، وَمَنْ يَزْرَعْ شَرًّا يَحْصُدْ نَدَامَةً. تَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ، وَتُجْزَوْنَ الْحَسَنَاتِ! أَجَلْ، كَمَا لَا يُجْتَنَى مِنْ الشَّوْكِ الْعِنَبُ۔
(سيرة ابن ہشام، الجزء الاول ، صفحہ ۲۱۳)
جو شخص نیکی بوئے گا وہ قابلِ رشک فصل کاٹے گا۔ اور جو شخص برائی بوئے گا وہ شرمندگی کی فصل کاٹے گا۔ تم برائی کرو گے اور اچھا بدلہ پاؤ گے ہاں ایسا نہیں ہو سکتا ، جس طرح ببول کے پیڑ سےانگور توڑے نہیں جاسکتے۔
گمان غالب ہے کہ یہ کسی پیغمبرانہ کلام کا حصہ ہے جس کو عرب کے کسی صالح مرد نے ایک پتھر پر عربی زبان میں لکھا اور اس کو کعبہ کے اندر محفوظ کر دیا ۔
ان الفاظ میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ ایک ابدی حقیقت ہے ۔ وہ تمام پیغمبروں کی بات ہے۔ وہ قدیم انسان کے لیے بھی تھی، وہ آج کے انسان کے لیے بھی ہے ۔ اور قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے لیے اس کی سچائی باقی رہے گی۔
نباتات کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کا یہ نا قابل تغیر قانون نافذ ہے کہ پھول کی کھیتی سے پھول اگتا ہے اور کانٹے کی کھیتی سے کانٹا ۔ اس ابدی قانون میں کوئی تبدیلی کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس انتہائی ظاہر اور معلوم قانون کے ذریعہ انسان کو ایک سنگین نوعیت کا عملی سبق دیا ہے ۔ وہ یہ کہ نباتات کے لیے جو قانون ہے ، وہی قانون انسان کے لیے ہے۔ جو شخص بھلائی کی فصل بوئے گا ، وہ لازمًا بھلائی کی فصل کاٹے گا ۔ اسی طرح جو شخص برائی کی فصل بوئے گا وہ لاز ماً برائی کی فصل کاٹے گا۔
انسان کو چاہیے کہ اس معاملہ میں وہ آخری حدتک چوکنا ر ہے ۔ جو آدمی ایسا نہیں کرے گا، وہ ابدی طور پر حسرت اور ندامت کی آگ میں جلتا رہے گا ، اور کوئی نہ ہو گا جو اُس کو اس برے انجام سے بچا سکے ۔