تشخص کا مسئلہ
مولا نا عبد المتین بنارسی (مقیم دہلی )نے ۱۰ نومبر ۱۹۸۹ کی ملاقات میں ایک واقعہ بتایا۔ وہ دہلی سے بنارس کے لیے سفر کر رہے تھے۔ ٹرین میں ان کی ملاقات ایک ہند و مسافر سے ہوئی ۔ گفتگو کے دوران انھوں نے مذکورہ ہندو سے پوچھا کہ دسہرہ کیا ہے ۔ ہندو نے فوراً جواب دیا : جیسےآپ کے یہاں تعزیہ ہے ویسے ہی ہمارے یہاں دسہرہ ہے۔
ایک اور مسلمان بزرگ نے بتایا کہ انھوں نے ایک ہندو لیڈر کی تقریر سنی ۔ لیڈر نے تقریر کے دوران کہا کہ مجھے تو مسلمان اور ہندو کا کوئی فرق نہیں معلوم ۔ بس اتنا ہے کہ مسلمان لٹا کر پوجتے ہیں اور ہندو کھڑا کر پوجتے ہیں (یعنی مسلمان قبر کے مردہ کو پوجتے ہیں اور ہندو مندر کی مورتی کو )
ایک بار ایک شہر میں عید میلاد النبی کا جشن تھا۔ روایتی انداز میں لمبا جلوس نکالا گیا۔ ایک ہندو نے اس کو دیکھ کر کہا : آخر ہندؤوں اور مسلمانوں میں کیا فرق ہے ۔ ہندؤوں کے یہاں اگر رام لیلا ہے تو مسلمانوں کے یہاں محمدلیلا۔
ایک مسجد میں روزانہ فجر کی نماز کے بعد لاؤڈ اسپیکر پر" درود وسلام "پڑھا جا تا تھا، نعت خوانی ہوتی تھی ۔ پڑوس کے ایک ہندو نے چند روز اس کو سننے کے بعد کہا : ہندؤوں اور مسلمانوں کا مذہب تو مجھ کو ایک ہی دکھائی دیتا ہے ۔ بس یہ فرق ہے کہ ہندؤوں کے یہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کا نام کیر تن ہے ، اور مسلمانوں کے یہاں جو کچھ ہوتا ہے اس کا نام انھوں نے درود وسلام رکھا ہے۔
اس طرح کے بے شمار واقعات ہیں جو بتاتے ہیں کہ موجودہ مسلمانوں نے اپنے دین میں اتنی بدعات اور تحریفات کی ہیں کہ اب دوسرے مذہب والوں کی نظر میں اسلام اور غیر اسلام کا فرق ہی مٹ گیا ہے ۔ اسلامی تشخص کا سب سے بڑا مسئلہ بلاشبہ یہی ہے ۔ نام نہاد مسلم رہنما شور کرتے ہیں کہ غیر مسلم قومیں ہمارے اسلامی تشخص کو مٹانا چاہتی ہیں ۔ مگر اسلامی تشخص کو مٹانے کا جو واقعہ خود مسلمان انجام دے رہے ہیں ، اس کے خلاف وہ کچھ نہیں بولتے۔ شاید اس لیے کہ دوسری قوم کے خلاف بولنا سب سے زیادہ آسان کام ہے اور اپنی قوم کےخلاف بولنا سب سے زیادہ مشکل کام ۔