عمل ، رد ِّعمل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے تلاش ِحق میں بے چین رہتے تھے۔ یہاں تک کہ غار حرا میں خدا کا فرشتہ ظاہر ہوا، اس نے خدا کی طرف سے یہ حکم سنایا کہ اقرأ ( پڑھ )کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے "قلم "کے ذریعہ انسانوں کی رہنمائی کا سامان کیا ہے۔ ٱلَّذِي عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ عَلَّمَ ٱلۡإِنسَٰنَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡ [العلق: 4-5]
یہ واقعہ جو اپنی مخصوص صورت میں پیغمبرانہ سطح پر پیش آیا ، یہی دوسروں سے بھی غیر پیغمبرانہ سطح پر مطلوب ہے ۔ آج بھی ضرورت ہے کہ کوئی بندہ ٔ خدا حق و صداقت کی جستجو میں بے چین ہو ۔ اور پھر اس کو غیبی آواز پکار کر کہے کہ "پڑھ" ۔ وہ اس پکار کی اتباع میں قرآن اور حدیث اور سیرت اور صحابہ کی زندگیوں کا گہرا مطالعہ کرے۔ اس مطالعہ کے بعد اس پر کھلے کہ امرِ حق کیا ہے ۔ وہ اس کو لے اور اس کی روشنی میں لوگوں کو رہنمائی دینا شروع کرے ۔
مگر موجودہ زمانہ میں جو مفکر اور رہنما اٹھے، ان میں سے کوئی بھی نہیں جو ان مراحل سے گزرا ہو۔ ہر ایک کا یہ حال ہوا کہ مسلم سلطنت کے زوال کے بعد پیدا ہونے والے حالات کو دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا۔ اور مسلمانوں کی سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی مغلوبیت ختم کرنے کے لیے "جہاد" کرنے لگا۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ رد عمل تھا نہ کہ عمل ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اٹھنے والے مفکرین اور رہنماؤں میں سے کوئی نہیں جو اسلام کی صحیح تشریح کرنے میں کامیاب ہوا ہو۔ ان کی رد عمل کی نفسیات نے انہیں اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف محاذ آرائی کی طرف مائل کر دیا۔جس کو وہ غلطی سے جہاد کہتے رہے۔
یہ مفکرین اگر مذکورہ پیغمبرانہ انداز میں اٹھتے تو ان کے اندر داعیانہ فکر ابھرتا ، جیسا کہ پیغمبر کے اندر "حراء" کے تجربہ کے بعد ابھرا۔ مگر ان کی رد عمل کی نفسیات کی بنا پر ان کے اندر صرف مہاجمانہ (لڑائی بھڑائی) کا ذہن ابھر آیا۔ ان رہنماؤں کی پُر شور تحریکیں ملت کو کوئی مثبت فائدہ نہ پہونچائیں۔ البتہ ان کا نقصان یہ ہوا کہ پوری ملت کا ذہن خراب ہو گیا۔ مسلمان داعیانہ طرز ِفکر سے خالی ہو کرجنگ جویانہ طرز فکر پر قائم ہو گئے ۔
موجودہ ملت مسلمہ کا بلاشبہ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔