اسلام کی اشاعت

پیٹرک ریان (Patrick Ryan) نے لکھا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی کے بعد اسلام کی غیر معمولی اشاعت زیادہ تر تاجروں (ٹریڈرس) اور صوفیوں کے ذریعہ ہوئی ۔ اسلام کی اشاعت کا مقصد انھوں نے اس طرح حاصل کیا کہ وہ مشترک سماج میں خدا اور رسول کے تابع بن کر رہے ۔ حتی کہ بعض اوقات ایسے ماحول میں بھی جو ان کے لیے غیر ہمدرد تھا۔ جو چیز بالآخر اس کا سبب ہوئی کہ ان کا ماحول بدل کر دارالاسلام بن جائے ، وہ مسلم اقلیت کی عسکریت نہ تھی بلکہ خود غیرمسلم اکثریت کی اسلام میں وہ دل چسپی تھی جس کو انھوں نے پر امن اور پرکشش مذہب کی حیثیت سے دریافت کیا:

This they achieved by learning to live lives of submission to God and to His messenger in a pluralistic, sometimes even unsympathetic environment. What eventually contributed to that environment changing to a 'realm of Islam' (Dar al-Islam) was not the militancy of the Muslim minority but the religious interest of the non-Muslim majority in what they came to recognize as a peaceful and attractive form of faith.

Patrick Ryan, Islam and Politics in West Africa: Minority and Majority Models, Quoted by The Muslim World. January 1987, p. 6.

عام طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ بعد کی صدیوں میں اسلام کی عالمی اشاعت زیادہ تر تاجروں اور صوفیوں کے ذریعہ ہوئی ۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلم تاجروں یا مسلم صوفیوں نے باقاعدہ یا منظم صورت میں اسلام کی تبلیغ کی۔ تاریخ سے اس قسم کی تبلیغی کوشش کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ تاجروں اور صوفیوں کے زمانےمیں اسلام کا پھیلنا بجائے خود ایک تاریخی واقعہ ہے۔ مگر ان تاجروں اورصوفیوں کا باقاعدہ تبلیغی عمل کرنا کوئی ثابت شدہ تاریخی واقعہ نہیں ۔

ایسی حالت میں ان کے زمانے میں اسلام کے پھیلنے کا سبب کیا تھا۔ اس کا سبب سادہ طور پر صرف یہ تھا کہ اس زمانے میں وہ چیز ظہور میں نہیں آئی تھی جس کو موجودہ زمانے میں احتجاجی سیاست کہا جاتا ہے ۔ احتجاجی سیاست جس کو موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے تقریبا ً تمام دنیا میں کسی نہ کسی طور پر اختیار کر رکھا ہے، یہی اسلام کی اشاعت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ اس کی دوسری  وجہ یہ ہے کہ یہ احتجاجی یا مخالفانہ سیاست داعی اور مدعو کے درمیان نفرت اور کھنچاؤ کا ماحول پیدا کرتی ہے ۔ اور نفرت اور کھنچاؤ کے ماحول میں کبھی اسلام کی اشاعت نہیں کی جاسکتی ۔

صدر اول میں جو انقلاب آیا اور جس طرح اسلام کی عظیم تاریخ بنی۔ اس نے اب اسلام کو ایک طاقت ور سیلاب کی حیثیت دیدی ہے ۔ اب اسلام اپنے آپ پھیلنے کی طاقت رکھتا ہے ۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں کی جھوٹی سیاست نے اسلام کے سیلاب کی راہ میں نفرت کا روک کھڑا کر دیا ہے ۔ اس روک کو دور کر دیجئے ۔ اس کے بعد اسلام اپنے آپ پھیلنے لگے گا۔

 قدیم زمانے کے تاجروں اور صوفیوں نے یہی کیا تھا ۔ وہ خاموش اور سادہ انداز میں زندگی گزارتے تھے۔ وہ مدعو قوموں سے کوئی نزاع نہیں کھڑی کرتے تھے ۔ ان کی بے نزاع زندگی نے اسلامی سیلاب کی راہ سے رکاوٹ کو دور کر رکھا تھا۔ چنانچہ اسلام اپنے آپ پھیلتا جا رہا تھا۔ موجودہ زمانے کے مسلم لیڈر تاریخ کا وہ پہلا گروہ ہیں جنھوں نے اپنی جھوٹی سرگرمیوں سے اسلام کے اشاعتی سیلاب کے آگے نفرت کا بند کھڑا کر دیا، اور اس طرح اسلام کے اشاعتی سیلاب کو روک دیا۔

آج مسلم قوموں میں دوبارہ وہی روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس کو پیٹرک ریان نےبجا طور پر ماضی میں اسلام کی اشاعت کا سبب قرار دیا ہے ۔ یعنی دوسری قوموں کے درمیان ٹکراؤ کے بجائے مفاہمت کے انداز میں رہنا۔

دوسری قوموں سے مسلمانوں کا ٹکراؤ کن چیزوں میں ہوتا ہے۔ وہ زیادہ تر سیاسی ، اقتصادی اور سماجی نوعیت کے معاملات میں ہوتا ہے۔ ان معاملات میں مسلمان اگر نزاع کا انداز اختیار کریں تو داعی اور مدعو کے درمیان کش مکش برپا ہوتی ہے ۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ دوسری قوموں میں اسلام کی اشاعت رک جاتی ہے۔

اس کے برعکس اگر مسلمان اس قسم کے دنیوی امور میں صبر اور اعراض کا طریقہ اختیار کریں تو داعی اور مدعو کے تعلقات میں خوش گواری آتی ہے ۔ دوسری قومیں ہمدردانہ ذہن کے ساتھ اسلام کو دیکھتی ہیں ۔ ان میں بہت سے لوگ اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور آخر کار اسلام قبول کرلیتے ہیں  ––––––  دنیوی نقصانات پر صبر کرنے سے اسلام کی اشاعت کا دروازہ کھلتا ہے ، اور دنیوی نقصانات پر صبر نہ کرنا اسلام کی اشاعت کے دروازہ کو بند کر دیتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom