دعوتی تسخیر
حال میں فرانس کے ایک مشہور آرٹسٹ نے اسلام قبول کر لیا ہے ۔ اس کا سابقہ نام برنارڈ جو ہے۔ اور موجودہ اسلامی نام عبد العزیز ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ مجھے اپنے فن سے عشق تھا اور اس کے لیے میں دنیا کے مختلف ملکوں میں کثرت سے سفر کر تا تھا۔ اس سلسلے میں میں مصر گیا اورقاہرہ اور اسکندریہ میں چند روز قیام کیا۔
ایک روز جب کہ میں قاہرہ کی سڑکوں پر چل رہا تھا، میرے کان میں ایک پرکشش آواز آئی۔ یہ اذان کی آواز تھی جو مسجد کے میناروں سے بلند ہو رہی تھی ۔ اس قسم کی آواز میں نے پہلی بارسنی تھی۔ مجھے مزید جستجو ہوئی۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ نماز کی پکار ہے تو میں مسجد میں گیا اور لوگوں کو صف بستہ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ اذان کی آواز اور نمازکے مناظر نے مجھے غیر معمولی طور پر متاثر کیا۔ میں فرانس واپس آیا تو میں نے اسلامی لٹریچر تلاش کر کے اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا۔ میں نے قرآن کی تلاوت کے کیسٹ بھی سنے ۔ ان عربی کیسٹوں کو اگر چہ میں سمجھتا نہ تھا، مگر ان کا سننا مجھے اچھا لگتا تھا، اس لیے میں ان کو سنتا رہا۔
اس کے بعد میں دوبارہ مصر گیا۔ وہاں میں نے الازھر کے علماء کے سامنے اسلام قبول کر لیا۔ اب میں محسوس کرتا ہوں کہ سابق "برنارڈ جو "اور موجودہ "عبد العزیز" میں بہت زیادہ فرق ہے۔ اسلامی عقیدہ نے میرے طریقہ کو بدل دیا ہے ۔ تاریکی کے بعد اب میں روشنی میں آگیا ہوں ۔ مجھے اپنے اندر ایک ایسا سکون محسوس ہو رہا ہے جس سے میں اس سے پہلے کبھی آشنا نہ تھا۔ اسلام میری روح اور میرے جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہے (صفحہ ۶)
یہ کوئی ایک مثال نہیں ۔ فرانس میں (اور اسی طرح دوسرے مغربی ملکوں میں )کثرت سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ خود فرانس میں پچھلے سالوں میں روجیہ جا رودی ، مائیکل شود کیو نبز اور موریس بیجار وغیرہ جیسے بہت سے مشہور اور ممتاز لوگ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں اور برابر داخل ہورہے ہیں ۔ ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ریاض کے ہفت روزہ الدعوة (۲ جمادی الاولی ۱۴۱۰ ھ ، ۳۰ نومبر ۱۹۸۹ء) نے لکھا ہے :
رَغْمَ كُلَّ مُحاولاتِ الحاقِدينَ مِن مُسْتَشْرِقِیْنَ أَو غیرھم والذین یحاولون النیل مِنْ الْإِسْلَامِ وَ تَشْوِیْہِ صُورَتِہِ إلَّا أنہ یَنْتَشِرُ کَالْبَلْسَمِ الشَّافِیِّ لِجُرُوحِ الْإِنْسَان علی الأرض۔فلا الْحُرُوب الصلبیۃ کَسَرَتْ شَوْکَتَہُ وَلَا المستشرقین نَالُوا منہ و لَا الآیات الشیطانیۃ حَدَّت مِنْ دُخُولِ النَّاسِ فی دین اللہ أفواجاً۔ اگر چہ مستشرقین اور دوسرے مخالفین اسلام کو بد نام کرنے اور اس کی تصویر بگاڑنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ، اس کے باوجود اسلام انسانوں کے زخموں کے لیے ایک شفا بخش مرہم کی طرح دنیا میں پھیل رہا ہے۔ صلیبی لڑائیاں اس کی عظمت کو توڑ نہ سکیں اور نہ مستشرقین کی تحریریں یا (آیات شیطانی ) جیسی کتابیں لوگوں کو دین خدا میں فوج در فوج داخل ہونے سے روکنے والی ثابت ہوئیں ۔
یہ واقعات ظاہر کر رہے ہیں کہ مخالفین کی مخالفتوں سے گھبرانے یا ان پر شور و غل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اسلام کی اپنی تسخیری طاقت پر اعتماد رکھیں ، وہ دوسروں کی مخالفانہ کارروائیوں کو کوئی اہمیت نہ دیں۔
تاریخ نے بار بار یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام خود اپنی ذات میں ایک طاقت ہے۔ اس کی یہ طاقت نہ سیاست کے خاتمہ سے فنا ہوتی اور نہ دوسروں کی سازشوں سے۔ اسلام ہر حال میں خود اپنی فکری اور نظریاتی طاقت کے بل پر پھیلتا ہے۔ حتی کہ مسلمانوں کا اخلاقی یا قومی زوال بھی اس کے اشاعتی عمل کو روکنے والا نہیں ۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے زوال کے زمانےمیں اسلام نے انتہائی تیزی کے ساتھ لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا ہے۔ اس نے مسلمانوں کے بگاڑ کے زمانے میں بھی اپنی پیش قدمی برابر جاری رکھی ہے ۔ ایسی حالت میں مایوسی یا فریاد کی کیا ضرورت۔