اسلامی نکاح
نکاح عورت اور مرد کے درمیان ایک معاہدہ ہے ۔ یہ معاہدہ مقدّس بھی ہے اور مستقل بھی۔اس موقع پر مرد کی طرف سے عورت کو جو مہر دی جاتی ہے، وہ معاوضہ یا ہدیہ نہیں ہے۔ وہ در اصل ایک علامتی رقم (token money) ہے۔ مہر کی صورت میں مرد ایک علامتی رقم ادا کر کے اس بات کا سنجیدہ عہد کرتا ہے کہ وہ نکاح کی تمام شرعی اور انسانی ذمہ داریوں کو نبھائے گا۔ شریعت کے مطابق مہر کی مقدار ایسی ہونی چاہیے جس کا ادا کرنا آسان ہو۔خَيْرُ الصَّدَاقِ أَيْسَرُهُ(صحيح الجامع، 3279)
مہر کی ذمہ داری مرد پر ڈالنے کی وجہ یہ ہے کہ مرد صنف قوی ہے ۔ عورت کا صنفِ ضعیف ہونا بذات خود اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ معاہدہ کی پابند رہے گی، اس لیے مہر کی ذمہ داری مرد (صنف قوی) پر ڈالی گئی ، تاکہ اس کو اس کی خصوصی ذمہ داری یاد دلائی جائے۔
حضرت انس بن مالک مشہور صحابی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ نے جب نکاح کیا تو اس نے آدھے دین پر عمل کر لیا ۔ پس اس کو چاہیے کہ وہ بقیہ آدھے دین میں اللہ سے ڈرے ۔إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ نِصْفَ الدِّينِ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي( مشكاة المصابيح ، 3096)
اس حدیث کی روشنی میں جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان نکاح اور ازدواجی زندگی کے معاملے میں صرف آدھے دین کی حدتک دین دار ہیں ۔ بقیہ آدھے دین کے معاملے میں وہ خدا سے بے خوفی کی حد تک بے دین بنے ہوئے ہیں۔ ان غیر دینی طریقوں میں سے ایک ، قابل نفرت حد تک قبیح چیز وہ مسرفانہ رسوم ہیں جو شادی کے موقع پر روا جاً ضروری بن گئی ہیں۔ ان جھوٹی رسموں نے موجودہ زمانےمیں بے شمار خاندانوں کو ایک قسم کے سماجی عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔
مسرفانہ تقریبات
نکاح کے ارکان وشروط کے بارے میں فقہاء کے درمیان کچھ لفظی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تاہم اس سے قطع نظر، اصل یہ ہے کہ اسلامی نکاح صرف طرفین کے ایجاب و قبول سے واقع ہو جاتا ہے ، بشرطیکہ اس کا اعلان بھی کیا گیا ہو ، اور ناکح نے منکوحہ کو اس کا ضروری مہر ادا کردیا ہو ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میں نکاح اور شادی کا معاملہ کتنا زیادہ سادہ اور سہل ہے۔
مگر موجودہ زمانے میں مسلم شادیوں میں ایسے برے رواج شامل ہو گئے ہیں جنھوں نے ایک جائز فعل کو نا جائزفعل میں تبدیل کر دیا ہے ۔ ایک یہ کہ شادی کو خاندانی وقار کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نکاح کی سادہ اسلامی تقریب مصنوعی دھوم اور بے جا نمائش کی تقریب بن گئی ہے۔ اس دھوم اور نمائش کو قائم رکھنے کے لیے لوگ مالی اعتبار سے لٹ جاتے ہیں۔ جائدادیں بیچ دیتے ہیں ۔ اور سودی قرض کی لعنت میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک دن کی ظاہری دھوم کی خاطر وہ اپنی پوری زندگی کو بے دھوم بنا لیتے ہیں ۔
یہ تمام چیزیں سراسر غیر اسلامی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کی تقریب کو انتہائی حدتک سادہ اور بے خرچ ہونا چاہیے ۔ وہ ایسا ہی ہونا چاہیے جیسے نماز کا وقت آیا اور آدمی نے مسجد میں جاکر نماز پڑھ لیا۔ نکاح اور شادی کو ایک سنجیدہ فریضہ کی ادائگی کا دن ہونا چاہیے ، نہ کہ شخصی حیثیت یا خاندانی عزت کے اظہار کا دن ۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِنَّ أَعْظَمَ النِّكَاحِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُ مُؤْنَةً (مشكاة المصابيح ، 3097)
بے شک سب سے زیادہ برکت والا نکاح وہ ہے۔ جو سب سے زیادہ ہلکا اور کم خرچ ہو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخصوص مصالح کی بنا پر کئی نکاح کی اجازت تھی ۔ چنانچہ آپ نےمختلف اوقات میں گیارہ خواتین سے نکاح کیا۔ نو خواتین بوقتِ وفات آپ کے یہاں موجود تھیں ۔ ان میں سے کسی بھی نکاح کے موقع پر کسی بھی قسم کی کوئی نمائشی تقریب نہیں کی گئی۔
مثلاً آپ کی ایک اہلیہ سودہ بنت زمعہ تھیں ۔ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں ان کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا۔ سودہ ایک بیوہ خاتون تھیں ۔ آپ کی طرف سے خولہ بنت حکیم نکاح کا پیغام لے کر گئیں ۔ انھوں نے پہلے سودہ سے اس کا ذکر کیا ۔ سودہ نے کہا کہ اگر میرا باپ راضی ہو تو مجھے کوئی عذر نہیں ۔ چنانچہ خولہ نے سودہ کے باپ سے گفتگو کی ۔ انھوں نے اس رشتہ سے اتفاق کیا ۔ اس کے بعد آپ سودہ بنت زمعہ کے مکان پر گئے اور وہاں سادہ طور پر نکاح پڑھا دیا گیا ۔
اصحاب رسول کا طریقہ بھی ہمیشہ یہی رہا۔ حتی کہ صحابہ میں جو لوگ صاحب مال تھے، انھوں نے بھی ہمیشہ سادہ اور بے خرچ انداز میں نکاح کیا ۔ مثال کے طور پر حضرت عبد الرحمن بن عوف ایک تاجر تھے۔ وہ ان چند صحابہ میں تھے جو مالدار شمار کیے جاتے تھے ۔ انھوں نے مدینہ میں ایک خاتون سے نکاح کیا ۔
امام احمد نے حضرت انس کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی مواخاۃ مدینہ میں ایک ایسے مسلمان کے ساتھ کی گئی جو بہت مالدار تھے ۔ انھوں نے اپنے نصف مال کی پیش کش کی ۔ مگر عبد الرحمن بن عوف نے ان کے مال میں سے کچھ نہیں لیا۔ انھوں نے مدینہ میں تجارت شروع کر دی ۔ یہاں تک کہ وہ خود ایک مال دار شخص ہو گئے ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آئے تو ان کے کپڑے پر خوشبو کا اثر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمانی زبان میں فرمایا مَھیم ۔ یعنی کیا بات ہے۔ انھوں نے کہا : یا رسول الله تزوجت امرأة (اے خدا کے رسول ، میں نےایک عورت سے نکاح کر لیا ہے ) الجز ءالاول ، ۳۸۰
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف اگر چہ مدینہ میں تھے مگر انھوں نے اپنے نکاح میں دھوم والی کوئی تقریب نہیں کی۔ حتی کہ رسول اللہ کو اور آپ کے قریبی اصحاب کو بھی شادی کی تقریب میں مدعو نہیں کیا ۔ سادہ طور پر محض ایجاب و قبول کے ذریعہ نکاح کر لیا۔اور مقررہ مہر ادا کر کے ازدواجی زندگی گزارنے لگے۔
تِلَک کی رسم
مسلمانوں میں آج کل جہیز کی جو رسم ہے ، وہ عین اسی ہندوانہ رسم کی نقل ہے جو برادران وطن کے درمیان تلک (dowry) کے نام سے رائج ہے ۔ ہندؤوں میں یہ رسم غالباً زرعی دور میں اس طرح پڑی کہ ان کے مذہبی قانون کے مطابق ، جائداد میں لڑکیوں کا کوئی حصہ نہ تھا ۔ اس کی جزئی تلافی کے لیے شادی کے موقع پر کچھ نقد یا سامان لڑکی کو دینے کا رواج شروع ہوا۔
غیر قوموں کی جن چیزوں کو مسلمانوں نے باقاعدہ اپنا لیا ہے ، ان پر تو وہ دین کی طرح عمل کرتے ہیں۔ لیکن غیر قو میں اگر خود کسی چیز کو ان کے درمیان رائج کرنا چاہیں تو فوراً ان کے تمام اصاغروا کا بر پکار اٹھتے ہیں کہ ان کی ملی شناخت کو مٹانے کی سازش کی جارہی ہے ۔
جہیز کی رسم
مسلمانوں میں آج کل جہیز کی جو رسم ہے ، وہ عین اسی ہندوانہ رسم کی نقل ہے جو برادران وطن کے درمیان تلک کے نام سے رائج ہے پہلے جہیز کا مطلب یہ تھا کہ لڑکی کا سر پرست لڑکی کو نیا گھر بسانے کے لیے ضروری سامان دیدے۔ مگر اس نے باقاعدہ مطالبہ اور خرید و فروخت کی صورت اختیار کرلی ہے ۔ لڑکا جتنا زیادہ بڑی تعلیمی ڈگری رکھتا ہو ، یا جتنا زیادہ بڑی کمائی والا ہو، اتناہی زیادہ شادی کے بازار میں اس کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
پہلے لڑکی کے والدین لڑکی کو ضروری استعمالی اشیاء بطور جہیز دیتے تھے ۔ اب اس میں ناقابل بیان حد تک اضافہ ہو گیا ہے ۔ مثلاً صوفہ سیٹ ، ڈنّرسیٹ ، کوکنگ رینج ، ٹیلی ویژن ،موٹر سائیکل ، ریفریجریٹر، کار ، وغیرہ ، وغیرہ ۔ تاہم اسی پر بس نہیں ۔ اسی کے ساتھ خاطب (لڑکا) مخطوبہ (لڑکی) سے بڑی بڑی رقموں کا مطالبہ کرتا ہے یا متوقع رہتا ہے، جس کی تکمیل کے بغیرشادی لڑکی کے لیے بر بادی کے ہم معنی بن جاتی ہے ۔
ان بھاری رسموں کا نتیجہ یہ ہے کہ شادی ایک ایسا تعیّش بن گئی ہے جو صرف چند خوش نصیب افراد کے بس میں ہو، بے شمار والدین ہیں جو اپنے آپ کو اپنی لڑکیوں کا نکاح کرنے کے لیے بے بس پا رہے ہیں ۔ ان کے سامنے ان کی جوان لڑکیاں حسرت و یاس کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ مگر ان کے امکان میں نہیں کہ شادی کے بازار میں بھاری رقم ادا کر کے ان کے لیے شوہر پاسکیں۔ چنانچہ ایسی مثالیں سامنے آرہی ہیں کہ لڑکیاں خود کشی کر لیتی ہیں۔ مرتد ہو جاتی ہیں۔ اوردوسری برائیوں میں پڑ جاتی ہیں جن کو بیان کرنے کی قلم میں طاقت نہیں ۔
جہیز کی یہ صورتیں سادہ طور پر صرف سماجی برائی نہیں ہیں۔ وہ یقینی طور پر نا جائز اور حرام ہیں۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کے ساتھ آدمی کا نماز روزہ بھی اللہ تعالٰی کے یہاں قبول نہیں کیا جاتا ۔
قدیم زمانےمیں موجودہ قسم کے جہیز کا رواج نہ تھا جس میں لڑکی کا والد لڑکے کو سامان اور نقدرقم ادا کرتا ہے۔ تاہم یہ رسم بر عکس صورت میں جزئی طور پر پائی جاتی تھی۔ یعنی لڑکی والوں کے مطالبہ پر لڑکے والے کچھ سامان یا نقد لڑکی کو ادا کرتے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم زمانہ زراعتی زمانہ تھا ۔ اس زمانے میں مال اور کمائی کے اعتبار سے وہ غیر معمولی فرق نہ تھا جو آج پیدا ہو گیا ہے ۔ قدیم زمانے کی عورت زراعت کے چھوٹے اور ہلکے کام کرتی تھی ۔ اس کے مقابلےمیں مرد زیادہ بڑے اور بھاری کام کرتا تھا۔ اس طرح دونوں صنفوں میں جو فرق تھا وہ صرف کچھ ڈگری کا تھا۔
اب موجودہ زمانے میں کمائی کے نئے اور اتھاہ مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر عورت (خاص طور پر مشرقی معاشرہ کی عورت) بڑی حد تک اپنے سابقہ مقام پر ہے۔ جب کہ مرد کمائی کے اعتبار سے کم از کم امکانی طور پر، نا قابل بیان حد تک آگے بڑھ گیا ہے ۔ اس صورت حال نے شادی کے بازار میں عورت کی اہمیت گھٹا دی ہے ۔ اور مرد کی اہمیت اس کے مقابلےمیں بہت زیادہ بڑھا دی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب لڑکی والے مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ۔ اب یہ حیثیت تمام تر لڑکے کی طرف چلی گئی ہے ۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ، قدیم زمانے میں زیادہ تر خاطب (لڑکے )سے جہیز کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔ اس وقت علما ء سے اس کی بابت فتوی پوچھا گیا تو انھوں نے اس کو رشوت قرار دیا۔ بوقت نکاح اس قسم کی رقم لینے اور دینے کو انھوں نے حرام بتایا اور اس کو اس حدیث کے تابع ٹھہرایا لَعَنَ اللهُ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ .( المصنف - ابن أبي شيبة، 21969)
مجموعہ فتاوی مولانا عبدالحی (۷۴/۲) میں اس نوعیت کے ایک استفتاء کے جواب میں یہ مسئلہ نقل کیا گیا ہے :
لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم الرَّاشِيَوَالْمُرْتَشِيَ۔( سنن الترمذي، 1337) وَمِن الرِّشْوَةِ مَا أَخَذَهُ وَلِىُّ الْمَرْأَةُ قَبْلَ النِّكَاحِ ، إذَا كَانَ بِالسُّؤَال أَوْ كَانَ إعْطَاءُ الزَّوْج بناءً عَلَى عَدَمِ رِضَائِهِ عَلَى تَقْدِيرِ عَدَمِه . ۔(الوسيلۃ الاحمديۃ شرح الطریقہ المحمدیہ )
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے پر لعنت کی ہے۔ اور عورت کا سر پرست نکاح سے پہلے جو کچھ لےوه بھی رشوت ہے ، خواہ مطالبہ کر کے لے، یا شوہر اس وجہ سے دے کہ اس کے بغیر عورت کا سر پرست نکاح پر راضی نہ تھا ۔
موجودہ زمانے میں لوگ شادی کے موقع پر نہایت اطمینان کے ساتھ بڑے بڑے سامان اور رقمیں لیتے ہیں۔ انھیں خیال نہیں آتا کہ اس میں کوئی ہرج ہے ۔ حالاں کہ یہ عین اس حدیث کا مصداق ہے جو صحیح بخاری میں آئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب کہ آدمی جو کچھ لے گا اس کے بارے میں اس کو یہ پروا نہ ہوگی کہ وہ حلال ہے یا حرام ۔يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يُبَالِي الْمَرْءُ مَا أَخَذَ مِنْهُ أَمِنَ الْحَلَالِ أم من الْحَرَام( مشكاة المصابيح ، 2761)
شادی کے معاملے میں نمائشی اور مسرفانہ رسمیں جو آج کل مسلمانوں میں رائج ہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ تمام تر ملک کی غیر مسلم قوموں کے زیر اثر اختیار کی گئی ہیں۔ یہ سب تشبہ بالاجانب ہے ۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انھیں میں سے ہے ۔مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(سنن أبي داود، 4031)
کوئی عالم اگر دھوتی پہن کر بازار میں نکلے تو تمام مسلمان چیخ اٹھیں گے ۔ مگر اس سے زیادہ بڑے بڑے معاملات میں تمام عالم اور غیر عالم غیر قوموں کی نقل کر رہے اور اس پر کوئی چیخ بلند نہیں ہوتی۔
مولانا محمد یوسف کاندھلوی نے حیاۃ الصحابہ (جلد دوم) میں ایک باب اس عنوان کے تحت قائم کیا ہے : نکاح میں کافروں کی مشابہت پر انکار ۔ اس کے ذیل میں انھوں نےایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
الإنكار على من تشبه بالكفرة في النكاح
أَخْرَجَ أَبُو الشَّيْخِ فِي كِتَابِ النِّكَاحِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيم أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنِ قُرْط الثُّمالي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يَعسُّ بِحِمْص ذَاتَ لَيْلَةٍ - وَكَان عاملاً لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فمرَّت بِه عَرُوسٌ وَهُمْ يُوقِدُونَ النّيرَانَ بَيْنَ يَدَيْهَا ، فَضَرَبَهُم بدرته حَتّى تَفَرّقُوا عَنْ عروسهم ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَعَدَ عَلَى مِنْبَرِهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ فَقَالَ : إنَّ أَبَا جَنْدَلَة نَكَح إمَامِه فصنع لها حثيات من طعام ، فَرَحِمَ اللَّهُ أَبَا جَنْدَلَة وَصَلَّى عَلَى أُمامة ، وَلَعَنَ اللَّهُ عروسكم الْبَارِحَة أَوْقَدُوا النِّيرَانَ ، وتشبَّهوا بالكفرة وَاَللَّه مطفىء نُورُهُم . قَال : وَعَبْدُ اللَّهِ بْنِ قُرط مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا فِي الْإِصَابَةِ)۴/ ۳۸ (
عروہ بن رویم کہتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط شمالی حمص میں ایک رات خبر گیری کے لیے پھر رہے تھے ۔ وہ خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کی طرف سے وہاں کے حاکم تھے ۔ انھوں نے دولہا دلہن کی ایک بارات گزرتے ہوئے دیکھی۔ لوگ اس کے آگے آگ جلا کر چل رہے تھے ۔ حضرت عبداللہ نے ان کو اپنے درّے سے مارا ، یہاں تک کہ وہ لوگ بھاگ گئے ۔ جب صبح ہوئی تو وہ اپنے منبر پربیٹھے۔ انھوں نے اللہ کی حمد و ثنا کی اور کہا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابو جندلہ نے امامہ سے نکاح کیا۔ اور ان کے لیے تھوڑا سا کھانا تیار کیا تو اللہ ابو جندلہ پہ رحم کرے اور امامہ پر بھی رحمت فرمائے ۔ اور اللہ گزشتہ رات کے تمہارے دولہا دلہن پر لعنت کرے۔ انھوں نے آگ روشن کی اور کافروں کے ساتھ مشابہت اختیار کی ۔ مگر اللہ ان کی روشنی کو بجھا دینے والا ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن قرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے ۔
ایک وقت تھا کہ شادی میں نسبتاً کم تر درجہ کی غلط رسوم پر اسلام کے حاکم لوگوں کو کوڑے مارتے تھے ، اور علماء ان کے حرام ہونے کا فتویٰ دیتے تھے ۔ آج ان سے بہت زیادہ غلط رسوم مسلم شادیوں میں عام طور پر رائج ہوگئی ہیں، مگر ان کے خلاف کوئی اٹھنے والا نہیں۔ حتیٰ کہ جو لوگ بظاہر اس کے خلاف بولتے ہیں ، وہ بھی اس وقت اسی جاہلانہ دھوم میں شریک ہو جاتے ہیں جب کہ یہ دھوم ان کی اولاد یا ان کے اپنے لوگوں کی طرف سے کی گئی ہو ۔