ردِّ عمل کے تحت

مشہور اخبار زمیندار کے اڈیٹر مولانا ظفر علی خاں (۱۹۵۶ - ۱۸۷۳) سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور اپنے وطن کرم آباد (پنجاب) میں انتقال کیا۔ نوائے وقت (۲۷ نومبر ۱۹۸۹) میں ان کی بابت مفصّل معلومات شائع ہوئی ہیں۔ ایک اقتباس یہ ہے:

"ظفر علی خاں کے والد مولانا سراج الدین کشمیر کے محکمۂ ڈاک میں ملازم تھے ۔ اوائلِ عمر میں مولانا ظفر علی خاں کو کشمیر میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ان کی قومی غیرت کو تڑپا دیا۔ مولانا ظفر علی خاں کے سوانح نگار محمد اشرف خاں عطا لکھتے ہیں کہ میٹرک پاس کر لینے کے بعد مولانا ظفر علی خاں اپنے والد سے ملنے گلمرگ (کشمیر)گئے   ۔ وہاں ایک دن وہ ڈاک خانہ کے باہر بیٹھے تھے ۔ اسی اثنا میں ایک انگریز فوجی افسر گھوڑے پر وہاں آگیا ۔ اس نے بڑی تمکنت سے ظفر علی خان کو بلایا اور کہا کہ اے لڑکے ، جب تک میں اندر سے واپس نہیں آتا ، تم میرے گھوڑے کی لگام پکڑے یہاں کھڑے رہو ۔ نوجوان ظفر علی خاں کو اس فرنگی کی بات سخت ناگوار گزری ۔ انھوں نے اس کو دو ٹوک انداز میں جواب دیا ۔ اس کو سن کر انگریز سکتہ میں آگیا۔ اس نے اس گستاخی کی شکایت حکام ِبالا سے کر دی۔ نتیجۃ ً  ظفرعلی خاں کو اپنے والد کے کہنے پر واپس پنجاب آنا پڑا۔ یہ بات عمر کے ساتھ ساتھ شعوری طور پر مولانا ظفر علی خاں کی شخصیت کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کر گئی"۔

اخبار مذکور نے لکھا ہے کہ مولانا ظفر علی خاں کا شمار فرنگی حکومت کے صف اول کے مخالفوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے دنیائے اسلام کی ہر اس تحریک میں حصہ لیا جو کسی بھی ملک میں کسی بھی قیادت کے تحت انگریزوں کے خلاف اٹھی۔ مثلاً  تحریک خلافت، تحریک مسجد کانپور، تحریک آزادیٔ  ہند وغیرہ ۔ اخبار کے الفاظ میں : " ان کی نظروں کے سامنے سلطنت عثمانیہ کا سقوط ہوا۔ خود ان کا خمیر مغلیہ سلطنت کے عظیم کھنڈروں کی راکھ سے اٹھا جس میں امت مرحومہ کی چنگاری ابھی سلگ رہی تھی۔ انھوں نے نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر کی حدوں تک پھیلی ہوئی مسلم سلطنت کو پارہ پارہ ہوتے دیکھا۔ ان کے سامنے ہی شیراز کا بلبل بغداد کی تباہی پر نالہ کش ہوا ۔ اور داغ دہلی کی بربادی پر رویا اور ابن بدروں غرناطہ کے زوال پر نوحہ کناں ہوا"۔

ان حادثات (صحیح تر لفظ میں مسلمانوں کی غفلت سے پیش آنے والے واقعات) نے مولانا ظفر علی خاں کو تڑپا دیا ۔ وہ اپنی تڑپ کو نظم و نثر میں انڈیلتے رہے ۔ یہاں تک کہ ۲۷ نومبر ۱۹۵۶  کو اس دنیا سے چلے گئے  ۔

مولانا ظفر علی خاں یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی یہ منفی چیخ پکار مثبت نتیجہ پیدا کرے گی۔ انھوں نے پر جوش طور پر کہا تھا :

عنقریب اسلام کی فصلِ بہار آنے کو ہے

مگر یہ سراسر خوش خیالی تھی جو کبھی پوری نہیں ہوئی۔ یہ ایک مولانا ظفر علی خاں کی بات نہیں۔ یہی موجودہ زمانےکے تمام رہنماؤں کا حال ہے ۔ وہ اپنی منفی کاشت سے مثبت فصل کی امید کرتے رہے۔ وہ دوسروں کی تخریب میں اپنی تعمیر کا خواب دیکھتے رہے ۔ یہ سلسلہ آج بھی اسی جوش کے ساتھ جاری ہے۔ مگر یہ یقینی ہے کہ اس قسم کی کوششوں سے نہ ماضی کے لیڈر کوئی نتیجہ بر آمد کر سکتے تھے اور نہ حال کے لیڈر کوئی نتیجہ بر آمد کر سکیں گے۔ اس قسم کی تمام سرگرمیاں ضیاع ِوقت کے خانے میں جانے والی ہیں نہ کہ تعمیر قوم کے خانے میں ۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom