فتح ِاسلام
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے ۔ مکہ کے مخالفین نے مشورہ کیا کہ اپنے اندر کے ایک سمجھ دار شخص کو چنیں تاکہ وہ پیغمبر اسلام کے پاس جا کر ان سے گفتگو کرکے انھیں قائل کر سکے ۔ اس مقصد کے لیے ابو الولیدعتبہ بن ربیعہ کا انتخاب کیا گیا جو مکہ کے سرداروں میں سےتھا اور نہایت ذہین اور ہوشیار آدمی سمجھا جاتا تھا ۔
عتبہ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ سے تفصیلی گفتگو کی ۔ اس گفتگو کے آخر میں پیغمبر اسلام نے عتبہ کو قرآن (حٰم السجدہ) کی ابتدائی آیتیں سنائیں ۔
روایات بتاتی ہیں کہ عتبہ اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف زمین پر ٹیک کر بیٹھ گیا اور حیرت اور خاموشی کے ساتھ قرآن کی آیتیں سنتا رہا۔ اس کے بعد عتبہ وہاں سے واپس ہوا تو حسب وعدہ اپنے ساتھیوں کے پاس نہیں گیا، بلکہ اپنے گھر پر بیٹھ گیا ۔
ابو جہل کو معلوم ہوا تو اس کو اندیشہ ہوا کہ عتبہ شاید محمد کے کلام سے متاثر ہو گیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ عتبہ کے گھر گیا۔ اس نے کہا کہ خدا کی قسم اے عتبہ ، ہم تمہارے پاس صرف اس لیے آئے ہیں کہ ہم کو اندیشہ ہے کہ تم محمد کی طرف مائل ہو گئے اور محمد کا دین تم کو پسند آگیا ۔وَاللَّهِ يَا عُتْبَةُ مَا جِئْنَا إِلَّا أَنَّكَ صَبَوْتَ إِلَى مُحَمَّدٍ وَأَعْجَبَكَ أَمْرُهُ۔(السيرة النبوية 1/ 502)
اس سلسلہ میں کافی تفصیل سیرت کی کتابوں میں نقل کی گئی ہے ۔ خلاصہ یہ کہ عتبہ نے کہا کہ خدا کی قسم ، اس آدمی کی زبان سے میں نے ایسا کلام سنا جیسا کلام میرے کانوں نے کبھی نہیں سنا تھا ۔ اس کو سن کر میں اتنا مسحور ہو گیا کہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس کا کیا جواب دوں :
فو الله لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ هَذَا الرَّجُلِ كَلَامًا مَا سَمِعَتْ أُذُنَايَ كَلَامًا مِثْلَهُ، وَمَا دَرَيْتُ مَا أَرُدُّ عَلَيْهِ(السيرة النبوية (1/ 505(
اسلام کی چودہ سو سال کی تاریخ میں مسلسل ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں جب کہ ایک شخص کسی دوسرے مقصد کے تحت اسلام سے قریب ہوا۔ مگر جب اس نے اسلام کی تعلیمات کو جانا تو اس کے دل نے اس کی سچائی پر گواہی دی ، اور اس نے خود اپنے جذبہ کے تحت اسلام قبول کر لیا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام عین فطرت ِانسانی کے مطابق ہے ۔ چنانچہ جب کوئی شخص اسلام سے قریب ہوتا ہے تو وہ عین اپنی اندرونی فطرت کے زور پر اسلام کی طرف کھنچ اٹھتا ہے اوراس کے دائرہ میں داخل ہو جاتا ہے۔
ایسے واقعات ماضی میں بھی کثرت سے پیش آئے ، اور حال میں بھی کثرت سے پیش آرہے ہیں ۔ الرسالہ دسمبر ۱۹۷۶ میں اسی قسم کا ایک واقعہ جاپان سے متعلق شائع کیا گیا تھا۔
مسٹر سبورو ایک جاپانی پر وفیسر تھے۔ ان سے کہا گیا کہ وہ جاپانی انسائیکلو پیڈیا کے لیے اسلام پر ایک آرٹیکل تیار کریں۔ اس مقصد کے تحت انھوں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا۔ مطالعہ کے دوران ان پر اسلام کی سچائی روشن ہوتی چلی گئی ۔ ان کے دل نے گواہی دی کہ یہی انسانیت کا حقیقی مذہب ہے ۔ یہاں تک کہ جب ان کا آرٹیکل تیار ہوا تو وہ خود بھی اسلام قبول کر کے عملاً اسلام کے دائرہ میں داخل ہو چکے تھے ۔ یہ واقعہ ۱۹۳۰ کا ہے (صفحہ ۳۴)
اس سلسلے کی ایک تازہ مثال وہ ہے جو مکہ کے عربی ہفت روزہ اخبار العالم الاسلامی( ۲۹ ربیع الثانی ۱۴۱۰ھ، ۲۷ نومبر ۱۹۸۹ء ) میں شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک تفصیلی رپورٹ ہے جس کا عنوان ہے :
فشل المخطط الكنسى لأفرقة التنصير
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عیسائی تنظیموں نے اعلیٰ تربیت کے ذریعہ ۶۴۵۳ مبلغین تیار کیے اور ان کو افریقی ملک لیبیریا کی راجدھانی منروویا (Monrovia) بھیج دیا ۔ ان کا مشن یہ تھا کہ وہ خاموش تبلیغ کے ذریعہ لیبیریا (Liberia) کے دس لاکھ مسلمانوں کو مسیحی مذہب میں داخل کر دیں ۔
یہ مسیحی مبلغین تمام علمی اور مادی ذرائع سے پوری طرح مسلح تھے ۔ ان کو اتنا زیادہ تیار کیا گیا تھا کہ وہ لیبیری قبائل کی مقامی زبانیں ، مانکا، بانیکا، منیکا، کیسکا، بلیسکا، نہایت روانی کے ساتھ بولتے تھے ۔
ان تمام تیاریوں کے باوجود نتیجہ الٹا ہوا ۔ ان مسیحی مبلغین کی بیشتر تعداد نے وہاں پہونچ کر اسلام قبول کر لیا ۔ جس ملک میں وہ مسیحیت کی تبلیغ کے لیے بھیجے گئے تھے ، وہاں اب وہ اسلام کی تبلیغ کرنے میں مشغول ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تربیت کے دوران انھیں مختلف مذہبوں کا مطالعہ کر ایا گیا تھا ، مگر اس نظام کے تحت انھیں اسلام کی صرف مسخ شدہ تعلیمات ہی سے واقف کرایا گیا۔ لیبیریا میں جب ان کا سابقہ مسلمانوں سے ہوا تو انھیں موقع ملا کہ وہ اسلام کو زیادہ صحیح صورت میں جان سکیں ۔ اس واقفیت کے بعد ان کی آنکھ کھل گئی ۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عیسائی تنظیموں نے اس مقصد کے لیے افریقی نسل کے مسیحیوں کا انتخاب کیا تھا تا کہ وہ لیبیریا پہونچیں تو وہ وہاں کے لوگوں کو اجنبی نہ دکھائی دیں۔ ان کو بتایا گیا کہ وہ ملک کی قبائلی زبانوں میں مہارت حاصل کریں اور وہاں کے سماج میں گھل مل کر خاموشی کے ساتھ اپنا کام کریں ۔ چنانچہ یہ لوگ مسلم آبادیوں کے درمیان غیر محسوس طریقہ پر آباد ہو گئے ۔ ان میں بہت سے لوگوں نے لیبیریا کی نیشنلٹی کا سرٹیفکٹ بھی حاصل کر لیا۔اسی خاص انداز کار کی وجہ سے اس منصوبہ کا نام افرَقَةُ التنصير رکھا گیا تھا ۔
لیبیریا کی مسلم تنظیموں کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو انھوں نے شوروغل کا طریقہ اختیارنہیں کیا۔ بلکہ جوابی تبلیغی عمل شروع کر دیا ۔ مثلاً انھوں نے ملک کے مختلف شہروں ––––– فونجاما ، کا کا تا، سنکولی ، کاتیلا وغیرہ میں اجتماعات شروع کیے اور آل مذاہب کانفرنسیں منعقد کیں ۔ ان میں لوگوں کو موقع دیا گیا کہ وہ ہر مذہب کے بارے میں کھل کر بحث و مذاکرہ کریں۔ ان کانفرنسوں میں مسیحی علماء کو سخت ناکامی ہوئی۔ مسلم علماء کے مقابلے میں وہ نہ علمی سطح پر اپنا دفاع کر سکے اور نہ دلائل کے ذریعہ اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
دوسری طرف ان کا نفرنسوں کے ذریعہ یہ ہوا کہ اسلام کی سچائی اور برتری نمایاں ہو کر سامنے آگئی ۔ اس سے ان مسیحی مبلغین میں مایوسی اور ذہنی انتشار پیدا ہوا۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اپنے موجودہ مشغلہ کو اپنی فطرت کی آواز کے خلاف سمجھا۔ وہ عیسائیت کے بجائےاسلام کی مزید تحقیق میں لگ گئے ۔ یہاں تک کہ ان کی اکثریت نے قبول اسلام کا اعلان کر دیا۔ جو لوگ مسیحی مبلغین بن کر آئے تھے ، وہ اسلام کے مبلغ اور اس کے علم بردار بن گئے۔
جس اسلام کی طاقت اتنی زیادہ ہو، اس کے ماننے والے اگر یہ نعرہ لگائیں کہ اسلام خطرہ میں ہے (Islam is in danger) تو ایسے لوگوں سے زیادہ نادان قوم اس دنیا میں اور کوئی نہیں۔