کارساز
ٹائمس آف انڈیا ( ۳۰ نومبر ۱۹۸۹) کے کالم اوپی نین (opinion ) میں ایک عنوان نے مجھے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ اس کے الفاظ تھے –––– میں لا پروا تھا مگر وہ نہ تھے :
I was careless; they were not
یہ نئی دہلی (فرینڈس کا لونی ایسٹ) کے رہنے والے مسٹر کرشن کھنہ کا ایک تجربہ تھا جو مذکورہ سرخی کے ساتھ اخبار میں شائع ہوا ۔ اس سرخی کے نیچے جو مختصر مضمون درج تھا، اس کا ترجمہ یہ ہے :
"میں کالکا سے دہلی کے لیے بذریعہ ٹرین سفر کر رہا تھا ۔ میں نے لا پرواہی میں اپنا پرس ریل کوچ کے اندر گرا دیا ۔ میں نے سمجھا کہ اس کو کسی نے میری جیب سے نکال لیا ہے ۔ مجھے کوئی امید نہ تھی کہ میرا پرس دوبارہ مجھے واپس ملے گا۔ اگلی صبح کو ایک ٹیلی فون آیا ۔ یہ ناردرن ریلوے کے ڈویزنل منیجر کے دفتر سے تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میرا پرس مل گیا ہے اور وہ ان کے پاس موجود ہے۔ انھوں نے پرس کے اندر رکھی ہوئی ایک شناختی سلپ کے ذریعہ مجھے جانا تھا۔ میں دفتر پہونچا تو میرے پرس کی تمام چیزیں پوری طرح محفوظ تھیں ۔ افسر اور اس کے عملہ نے میرے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی کامعاملہ کرتے ہوئے میرا پرس مجھے واپس دے دیا"۔
I was careless enough to drop my wallet in the rail coach I took from Kalka to Delhi. I took my pocket had been picked and had no hope of getting it back. The next morning came a telephone call from the office of Northern Railway's divisional manager to say it had been found. They located me by an identity slip in it. All the contents were intact and I was treated with utmost courtesy by the officer and his staff. (Krishen Khanna)
میں نے اس خبر کو پڑھا تو مجھے کسی فارسی شاعر کا وہ شعر یاد آگیا جو اس نے خدا اور بندے کی نسبت سے کہا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا خدا زیا دہ بہتر طور پر ہماری کار سازی کر رہا ہے :
کار ساز ما بہ فکر کارِ ما فکر ِما در کار ما آزارِ ما
حقیقت یہ ہے کہ یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانہ پر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی بندہ اللہ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر کے یہ کہہ اٹھے کہ –––––– خدایا ، انا عند ظن عبدی بی کے مطابق، میں نے تیرے ساتھ یہ گمان قائم کیا ہے کہ تو میری فکر کرے گا جب کہ میں بے فکر ہو جاؤں۔ تو مجھے یا د رکھے گا جب کہ میں بھول جاؤں۔ تو مجھے سنبھالے گا جب کہ میں پھسلنے لگوں ۔ تو میری کارسازی کرے گا جب کہ میں غفلت میں پڑ جاؤں ۔ تو میرے لیے جاگے گا جب کہ میں سو جاؤں ۔ تو مجھے بخش دے گا جب کہ میں غلطی اور کو تا ہی کروں ۔
جب کوئی بندہ اس طرح خدا کو اپنا رب بنالے تو خدا بھی اسی طرح اُس کو اپنا بندہ بنالیتا ہےجیسا کہ اس نے اپنے رب کے ساتھ گمان کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنے واقعات پیش آتے ہیں، وہ سب سبق کے لیے پیش آتے ہیں۔ مذکورہ بالا قسم کے واقعات بھی در اصل اسی لیے ہیں کہ انسان ان سے سبق حاصل کرے۔ وہ انسانی واقعے میں خدائی معاملے کی جھلک پائے ۔ وہ وقتی تجربے میں اس مستقل اور پائیدار تعلق کا تجربہ کرلے جو بندہ اور خدا کے درمیان قائم ہوتا ہے ، جس کو کبھی ٹوٹنانہیں ہے ۔ جس کا سلسلہ دنیا سے آخرت تک چلا جاتا ہے ۔
خدا بلاشبہ سب سے بڑا کارساز ہے ۔ مگر وہ اسی شخص کا کارساز بنتا ہے جو اس کو اپنا کارساز بنائے ۔ جو اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے ۔