ابدی ذلت
مفسر ابن کثیر (م ۷۷۴ ھ) نے بعض علما ءکا قول نقل کیا ہے کہ شرم کرنے والا اور مغرور کبھی علم حاصل نہیں کر سکتا۔ کچھ اور علما ءنے کہا کہ جو شخص ایک گھڑی کے لیے علم سیکھنے کی ذلت برداشت نہیں کرے گا، وہ ہمیشہ جہالت کی ذلت میں رہے گا ۔وَقَالَ بَعْضُ السَّلَفِ: لَا يَنَالُ الْعِلْمَ حَيِيٌّ وَلَا مُسْتَكْبِرٌ۔ مَنْ لَمْ يَصْبِرْ على ذل التعلم ساعة بقي في ذل الْجَهْلِ أَبَدًا (تفسير ابن كثير، الجزء الثانی، صفحہ ۲۴۷)
ایک شخص بے علمی میں پڑا ہوا ہے، یانا واقفیت کی بنا پر ایک غلط رائے قائم کیے ہوئے ہے ۔ اب ایک علم والا اس کے سامنے آتا ہے۔ اس کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ علم والے سے علم سیکھے ۔ اور واقف کار سے معلومات لے کر اپنی غلط فکری کو صحیح کرلے ۔ مگر وہ ایسا نہیں کرتا۔ علم والے کو علم والا مانتے ہوئے اس کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جاہل آدمی اس کو اپنے لیے وقار کا مسئلہ بنا لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے یہ مان لیا کہ میں نہیں جانتا تھا، اور اب فلاں شخص کے ذریعہ مجھے اس کا علم حاصل ہواہے تو اس سے میری عزت میں کمی آجائے گی۔ میں جو
اب تک لوگوں کی نظر میں "جاننے والا "بنا ہوا تھا، اچانک لوگوں کی نظر میں "نہ جاننے والا "بن جاؤں گا ۔ وہ علم کے مسئلے کو معرفت کا مسئلہ نہ بنا کر اس کو وقار (prestige) کا مسئلہ بنا لیتا ہے اور پھر یا تو اس کونظر انداز کرتا ہے ، یا کھلے طور پر اس کا انکار کر دیتا ہے ۔
ایسا آدمی وقار کو بچانے کے نام پر ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو بے وقار بنا رہا ہے۔ وہ وقتی بے عزتی سے بچنے کی خاطر ہمیشہ کے لیے اپنے آپ کو عزت اور احترام سے محروم کر رہا ہے ۔ ایسا آدمی دنیا میں باعتبارِ حقیقت ذلیل ہے۔ آخرت میں وہ حقیقت اور واقعہ دونوں کے اعتبار سے ذلیل و خوار ہو کر رہ جائے گا ۔ اور پھر کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کو دوبارہ عزت دے سکے ، حتی کہ اعتراف بھی نہیں ۔ کیوں کہ اعتراف کی جو کچھ قیمت ہے وہ صرف موجودہ دنیا میں ہے ، آخرت میں اعتراف کی کوئی قیمت نہیں ۔