احتساب یا استقبال
اکسپریس ٹرین تیزی سے دہلی کی طرف بھاگی چلی جارہی تھی ۔ گھڑی بتارہی تھی کہ اسٹیشن اب قریب آگیا ہے۔ فرسٹ کلاس ڈبہ میں ایک عورت اپنی چھوٹی بچّی کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ۔ ماں اور بیٹی کے درمیان طرح طرح کی تفریحی باتیں جاری تھیں۔ اتنے میں بچّی نے اپنی مخصوص زبان میں اپنی ماں سے کہا: ممّی ، نانی کا گھر کب آئے گا۔
بے خبر بچّی صرف اپنی نانی کو جانتی تھی ۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ وہ "نانی کے گھر "جارہی ہے ۔ مگر یہ اس کی سادگی تھی ۔ کیوں کہ بچّی اور دوسرے تمام مسافر حقیقۃً " خدا کے گھر" کی طرف جارہے تھے۔ دہلی ان کادرمیانی اسٹیشن تھانہ کہ آخری اسٹیشن۔
آدمی اگر اس حقیقت کو جانے تو اس کو ایسا محسوس ہو گا گویا کہ وہ انسانی ٹرین پر نہیں ہے ، بلکہ وہ خدائی سواری پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس سواری کو کھینچنے والا کوئی دخانی یا کہر بائی انجن نہیں ، بلکہ یہ خدا کے فرشتے ہیں جو اس کو دنیا سے آخرت کی طرف لے جا رہے ہیں ۔
مسافروں میں اگر یہ احساس زندہ ہو تو ان کا حال کچھ سے کچھ ہو جائے ۔ اس کے بعد جب وہ وقت آئے گا کہ ٹرین دہلی کے اسٹیشن پر رکے تو نادان بچی کے لیے اگر چہ وہ " نانی کا گھر" ہوگا جہاں اس کی نانی اس کا استقبال کرنے کے لیے پہلے سے اسٹیشن پر موجود ہوگی۔ مگر سچےّ مسافر کے لیے وہ خدا کا گھر ہو گا جہاں خدا کے فرشتے ہر آنے والے کو اپنے قبضہ میں لے رہے ہوں گے ۔
آج کی دنیا میں ہر آدمی چھوٹی نادان بچّی کی طرح بنا ہوا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی "نانی کے گھر "جارہا ہے ۔ حالاں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ " خدا کے گھر" کی طرف جارہا ہے ۔ وہ استقبال کے اسٹیشن پر نہیں بلکہ احتساب کے اسٹیشن پر اترنے والا ہے ۔
کتنا زیادہ فرق ہے لوگوں کی سوچ میں اور اصل حقیقت واقعہ میں ۔ لوگ اپنے" اسٹیشن " پر استقبال کرنے والوں کی بھیٹر دیکھ رہے ہیں۔ حالاں کہ صحیح بات یہ تھی کہ انھیں اسٹیشن کے اوپر احتساب کرنے والے فرشتوں کا ہجوم نظر آنے لگے ۔
بے خبری کی تمام قسموں میں یہ بے خبری سب سے زیادہ عجیب ہے ۔