ایثار اور قربانی کی تجدید

عید اضحی کا تیوہار، دوسرے تاریخی تیوہاروں کی طرح ، ایک بڑے تعمیری اور انقلابی واقعہ کی یاد گار ہے۔ ہر سال ہجری کلنڈر کے آخری مہینے میں اس دن کو عید اضحی کے طور پر اس لیے منایا جاتا ہے کہ لوگ اس دن پیش آنے والے عظیم واقعہ کو یاد کریں اور اس کو اپنی زندگیوں میں داخل کرنے کا عہد کریں، یہ دن، ایک لفظ میں ، ایثار اور قربانی کی یادگار ہے ، وہ ایثار اور قربانی کی تجدید کا دن ہے ۔

عید اضحی جس عظیم واقعہ کی یاد گار ہے ، وہ تقریباً چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام ، جو عراق کے متمدن ملک میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کر دیا ۔ یہ قربانی حقیقۃً جسم پر لوہے کی چھری چلانا نہ تھا بلکہ اپنی پوری زندگی پر صبر کی چھری چلانے کے ہم معنی تھا۔ یہ حق کی خاطر اپنی ذات کو نظر انداز کرنا تھا۔ یہ ایک بڑے مقصد کی خاطر چھوٹے تقاضوں کو چھوڑ دینا تھا۔ یہ اپنی منزل کی طرف ہر حال میں آگے بڑھنا تھا، خواہ اس کے لیےاپنی عزیز ترین متاع سے دست بردار ہو جانا پڑے۔

عید اضحی کی مناسبت (relevance) ہمارے لیے   کیا ہے ۔ اور یہ دن ہم سے کس قسم کے ایثار و قربانی کا تقاضا کرتا ہے ، اس کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ حضرت ابراہیم کی قربانی کی حقیقت کیا تھی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی اہمیت کو جاننے کے بعد ہی ہم اپنی زندگیوں میں اس کی اہمیت کو جان سکتے ہیں۔ اوراس کو عملی طور پر اختیار کر سکتے ہیں ۔

ابتدائی طور پر حضرت ابرا ہیم کی قربانی کا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک خواب کے مطابق اپنے عزیز بیٹے اسماعیل کو ذبح کر دینا چاہا۔ مگر اللہ تعالے نے انہیں اس سے روک دیا ۔ اسماعیل کی جان کے فدیہ کے طور پر انہیں مینڈھا ذبح کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اور حضرت اسماعیل کے لیے یہ حکم ہوا کہ ان کو لے جا کر عرب کے صحرا میں بسا دیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اصل منشاء  بیٹے کا وقتی جسمانی ذبیحہ نہ تھا بلکہ اس کا مستقل نفسیاتی ذبیحہ تھا۔ کیونکہ اس وقت عرب کے صحرا میں کسی ذی حیات کو بسانااس کو مستقل طور پر ذبح کی حالت میں ڈال دینے کے ہم معنی تھا ۔

اللہ تعالیٰ کا یہ منصوبہ تھا کہ ایک وسیع اصلاحی انقلاب دنیا میں لایا جائے جوساری انسانیت کے لیے   خیر و فلاح کا باعث ہو۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے   اعلیٰ درجہ کے افراد کی ایک ٹیم درکار تھی ۔ اسی طاقتور ٹیم کو تیار کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نےحضرت ابراہیم علیہ السّلام کے خاندان کو استعمال فرمایا۔

 اس مقصد کے لیے ضرورت تھی کہ ایک ایسا انسانی گروہ تیار کیا جائے جو تمدنی خرابیوں سے پاک ہو جس کے اندر فطری انسانی اوصاف زندہ ہوں جو ان تمام اعلیٰ خصوصیتوں کا مجموعہ ہو جس کو المروءة (مردانگی ) کہا جاتا ہے۔ اس قسم کی نسل شہر کی مصنوعی فضا میں نہیں بن سکتی تھی۔ اس کے لیے   فطرت کا سادہ ماحول درکار تھا۔ یہی منصوبہ ہے جس کی تکمیل ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کے ذریعہ انجام پائی۔ حضرت ابراہیم نے اس اعلیٰ مقصد کی خاطر اپنے بیٹے کو قربان کر دیا۔

 اس مقصد کی تکمیل کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو عراق کی تمدنی فضا سے نکالا اور ان کو لا کر عرب کے غیر آباد علاقہ میں ڈال دیا۔ اس وقت وہاں ریت اور پتھر کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔ پانی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں زندگی کا کوئی سامان پایا نہ جاتا تھا۔ تاہم اس بے سامان ماحول میں سب سے بڑا سامان موجود تھا –––––––  وہ سادہ ماحول جہاں انسان اپنی فطرت پر پرورش پائے ، جہاں اس کے پیدائشی انسانی اوصاف کو آزادانہ ترقی کرنے کا موقع ملے ۔

اللہ تعالیٰ نے اس خشک اور خالی علاقہ کو مطلوبہ نئی نسل تیار کرنے کے لیے   منتخب کرلیا ۔ یہ گویا ایک عظیم صحرائی تربیت گاہ تھی جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو لاکر بسا دیا ۔ حضرت اسماعیل جب بڑے ہوئے تو انہوں نے ایک صحرائی لڑکی سے نکاح کر لیا ۔ اس طرح اس صحرائی ماحول میں وہ نسل بننا شروع ہوئی جو بعد کو بنو اسماعیل کہلائی۔یہی بنو اسماعیل ہیں جن کے منتخب افراد کا نام اصحابِ رسول ہے۔

 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اسی قوم (بنو اسماعیل) میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ان کو توحید کے نظریہ پر جمع کیا اور پھر ان کو لے کر وہ عالمی اسلامی انقلاب برپا کیا جس نے انسانی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔ یہ بنو اسماعیل تاریخ کے انوکھے لوگ تھے جو اعلیٰ انسانی اوصاف کا کامل نمونہ تھے ۔ پروفیسر فلپ ہٹی نے بجا طور پر ان کو ہیروؤں کی نرسری (nursery of heroes) کہا ہے ۔

 عید اضحی کے دن جانور کی جوقربانی دی جاتی ہے وہی اصل قربانی نہیں ہے۔ وہ اصل قربانی کی صرف ایک علامت ہے۔ اصل میں تو ہمیں خود اپنے آپ کو قربان کرنا ہے۔ جانور کی قربانی علامتی قربانی ہے ۔ وہ اس لیے   کرائی جاتی ہے تاکہ لوگوں میں قربانی کی اعلیٰ روح زندہ رہے۔ تاکہ وہ ایک عملی واقعہ کے ذریعہ اس کو یاد کرتے یہ ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس مقصد کی طرف انہیں کس طرح آگے بڑھنا ہے۔

 حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے جو قربانی دی ، اس کی حیثیت ایک اعلیٰ مثال کی ہے ۔ تاہم اس کی پیروی ہمیں اس کی اصل روح کے اعتبار سے کرنا ہے نہ کہ اس کی ظاہری شکل کے اعتبار سے۔ اس مثال کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر زمانے میں قربانی کرنے والے لوگ اس کی ظاہری پیروی میں صحرا میں جاکربس جائیں اور وہاں اس پر مشقت تاریخ کو دہرانا شروع کر دیں جو حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ کے ساتھ قدیم عرب میں پیش آئی تھی۔ بعد کے زمانےکے لوگوں کو اس قربانی کی اسپرٹ کو پنانا ہے۔ اس واقعہ کی شکل زمانی ہے ۔ مگر اس کی جو اسپرٹ ہے وہ دوامی اہمیت رکھتی ہے ۔

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل نے انسانیت کے بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے یہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو متمدن دنیا سے نکال کر غیر آباد صحرا میں لے گئے ۔ سرسبز و شاداب عراق کو چھوڑ کر وہ عرب کے خشک بیابان میں جائیے ۔ ظاہری فرق کے ساتھ ہی قربانی اپنے دائرہ میں ہر شخص سے مطلوب ہے۔ ہر ایک کا ایک "سرسبز "عراق ہے ۔ اور ہر ایک کو اپنے سر سبز و شاداب عراق کو چھوڑ کر" صحرائے عرب" میں جا کر آبادہو جانا ہے ۔

ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ آج کے حالات میں یہ ابراہیمی واقعہ کس پہلو سے مطلوب ہے اور خدا ہم سے کس قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ آج کے حالات میں بہتر دنیا کی تعمیر کے لیے افراد سے جو قربانی مطلوب ہے وہ اپنی شکل کے اعتبار سے خواہ جو بھی ہو، مگر اپنی روح کے اعتبار سے وہ ابراہیمی قربانی قرار پائے گی ۔ اور اس میں فنائیت کا ثبوت دینے والے کو وہی کریڈٹ ملے گا جس کو قربانی کہا جاتا ہے ۔

اب اس لحاظ سے سوچئے کہ آج کے حالات میں سنت ابراہیمی کو ادا کرنے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے ۔ وہ کون سی قربانی ہے جو آج کے حالات میں ہم سے مطلوب ہے ۔

ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام نے ایک بہت مخصوص اور منفر د قسم کی قر بانی پیش کی تھی ۔ یہ ایک انتہائی اندازکی قربانی تھی جیسی قربانی دوبارہ کوئی شخص پوری انسانی تاریخ میں پیش نہ کر سکا۔ اس طرح یہ تمام انسانوں کے لیے ایک ممتاز اور معیاری نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح آئندہ تمام لوگوں کو اپنے اپنے دائرہ میں اور اپنے اپنے امکان کے بقدر قربانی پیش کرنا ہے۔ عید اضحی کا دن ہر شخص کو اسی ذمہ داری کا سبق دیتا ہے۔

اس ایثارو قربانی کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی بھی ہو سکتی ہے اور بڑی سے بڑی بھی ۔ بس میں سفر کرتے ہوئے جب آپ ایک خاتون یا ایک بوڑھے مسافر کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی سیٹ دوسرے انسان کے حوالے کر دیتے ہیں تو یہ بھی ایک قربانی ہے۔ آپ ایک ادارہ میں عہدیدار ہیں۔ آپ کے سامنے ایک زیادہ بہتر شخص آتا ہے ۔ آپ عہدہ کی کرسی اس کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں تو یہ بھی ایک قربانی ہے ۔ آپ کے اندر ایک شخص کے خلاف غصہ اور نفرت کی آگ بھڑکتی ہے ۔ آپ اپنے غصہ اور نفرت کی آگ کو صبر و برداشت کے پانی سے بجھا دیتے ہیں تو یہ بھی ایک قربانی ہے ۔ آپ کے پاس مادّی وسائل زیادہ ہیں اور آپ کے ایک بھائی کے پاس کم ۔ آپ اپنے مادّی وسائل کا ایک حصہ اپنے بھائی کو دے دیتے ہیں تو یہ بھی ایک قربانی ہے۔ اس طرح قربانیوں کا یہ سلسلہ پوری زندگی میں اور ہر وقت جاری رہتا ہے ۔ اس قربانی کے بغیربہتر سماجی زندگی کی تعمیر ممکن نہیں ۔

زندگی میں کوئی بڑا کام کبھی قربانی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ ہر بڑا کام لازمی طور پر فنائیت مانگتا ہے ۔ قوم کو اوپر اٹھانے کے لیے اپنے آپ کو پیچھے کر لینا ، ملک کی ترقی کے لیے ذاتی نقصان کو گوارا کر لینا ، انسانیت کو اونچا کرنے کے لیے اپنے جھنڈے کو نیچا کرلینا، اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے   اپنی خواہشات کو دبانا ، اصول کو قائم کرنے کی خاطر اپنی انا کو کچل دینا، پڑوسی کو امن دینے کی خاطر اپنے آپ پر پابندی لگانا ، اس طرح کی تمام چیزیں قربانی کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہی وہ قربانی ہے جس کی اہمیت کو بتانے کےلیے   عید اضحی کا تیوہار منایا جاتا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom