تحقیق ضروری ہے
وَعَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ تَقُولُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ إِنَّمَا مَرَّ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لتعذب فِي قبرها (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، مشكاة المصابيح، 1741)
عمره بنت عبد الرحمن بتاتی ہیں کہ حضرت عائشہ کے سامنے ذکر کیا گیا کہ عبداللہ بن عمرکہتے ہیں کہ مردہ کو زندہ کے رونے پر عذاب دیا جاتا ہے، اس کے بعد میں نے حضرت عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ ،ابو عبدالرحمن کو معاف کرے ، وہ جھوٹ نہیں بولے ۔ مگر وہ بھول گئے یا ان سے غلطی ہوئی۔ اصل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت پر گزرے جس کے مرنے پر لوگ رو رہے تھے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں ، حالاں کہ اس کی قبر میں اس کوعذاب دیا جا رہا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ایک جلیل القدر صحابی تھے ۔ ان کے تقویٰ اور اخلاص اور حسنِ نیت میں کوئی شبہ نہیں ۔ اس کے باوجود انھوں نے ایک ایسی بات کہی جو اصل واقعہ کے مطابق نہ تھی۔ پھر جب ایک ایسا شخص کسی معاملہ کی صحیح نوعیت کو سمجھنے میں غلطی کر سکتا ہے جو مسلمہ طور پر مخلص اور متقی ہو تو عام انسانوں کا کیا شمار۔
اس طرح کی مثالیں بتاتی ہیں کہ کسی معاملے میں رائے دینے کے لیے آدمی کو انتہائی حد تک محتاط ہونا چاہیے ۔ اگر وہ رائے دینا ضروری سمجھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے تمام ضروری تقاضوں کو پورا کرے ۔ وہ نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھ کر ہر پہلو سے اس کی پوری تحقیق کرے۔ اور اگر معاملہ نازک ہو تو اس کے بارے میں دعا اور استخارہ بھی کرے ۔ ان ضروری مرحلوں سے گزرے بغیر جو شخص معاملات میں رائے زنی کرے ، اس کے متعلق شدید اندیشہ ہے کہ وہ غلطی کر جائے ۔ اس کامخلص اور متقی ہونا غلطی نہ کرنے کی کوئی یقینی ضمانت نہیں ۔