دعوت یا نفرت
پرانی دہلی کے ایک محلہ میں ایک شخص نے دکان کھولی ۔ اس کے بعد محلہ کا ایک آدمی اس کی دکان پر آنے لگا۔ وہ روزانہ آتا اور دوکان پر بیٹھ کر محلہ والوں کی برائیاں بیان کرتا۔ دکاندار نے پہلے نرمی کے ساتھ اس کو اس قسم کی باتوں سے روکنے کی کوشش کی ۔ مگر وہ نہ رکا۔ آخر دکاندار ایک روز ہاتھ باندھ کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا : میاں صاحب ! بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ میری دکان پر نہ آئیں ۔ آپ جن لوگوں کی برائیاں کرتے ہیں وہ سب میرے گاہک ہیں ، آپ کی باتیں سن کر اگر میرے دل میں ان کی نفرت آجائے تو میں ان کے ساتھ دکانداری نہیں کر سکتا۔ دکانداری پیارکا سودا ہے ۔ وہ نفرت اور حقارت کا کاروبار نہیں۔
موجودہ زمانے میں جو مسلمان اسلام کے مسائل پر لکھنے اور بولنے کے چیمپین بنے ہوئے ہیں، اسلام بھی ان سے بزبان خاموش کہہ رہا ہے کہ آپ کا بہت کرم ہو گا ، اگر آپ لوگ میرے بارے میں لکھنے اور بولنے کا موجودہ کام ختم کر دیں۔ کیوں کہ آپ کا سارا کلام منفی کلام ہے ، اور یہ منفی کلام میرےتمام دعوتی امکانات کو مسلسل طور پر برباد کر رہا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے جو لکھنے اور بولنے والے ہیں ، وہ سب کے سب اس سادہ حقیقت سے بے خبر نظر آتے ہیں جس کو مذکورہ واقعہ میں ایک معمولی دکاندار نے اول روز جان لیا تھا۔ ہمارے لکھنے اور بولنے والے دعوت کا نام لیتے ہیں ۔ وہ فخر کے ساتھ اپنے آپ کو داعی کہتے ہیں ۔ مگر اسی کے ساتھ وہ ایسی باتیں لکھنے اور بولنے میں مشغول ہیں جو مسلمانوں کے اندر اپنی مدعو قوموں کے خلاف نفرت اور بغض کی فصل اگانے والی ہوں ۔
موجودہ مسلم دنیا میں جو لوگ لکھنے اور بولنے کا کام کر رہے ہیں ، ان کے کلام کا مشترک خلاصہ ایک لفظ میں شکایت اور احتجاج ہے۔ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی غیر مسلم فرقہ یا گروہ کی برائیاں بیان کرنے میں لگا ہوا ہے۔ کوئی مغربی مستشرقین کی سیہ کاریوں کا اعلان کر رہا ہے اور کوئی صہیونی یہودیوں کی مکاری کا۔ کوئی استعماری طاقتوں کے ظلم کا افشاء کر رہا ہے اور کوئی صلیبی قوموں کی معاندانہ کاروائیوں کا۔ کوئی مسیحی مبلغین کی سازشوں کا انکشاف کر رہا ہے اور کوئی ہندو احیاء پرستوں کے خفیہ منصوبوں کا۔اسی طرح کوئی مسلم اقلیت کے خلاف غیر مسلم اکثریت کے امتیاز کے اعداد و شمار چھاپ رہا ہے ۔ اور کوئی مسلمانوں کے ملی تشخص کو ختم کرنے کے لیے اغیار کی معاندانہ کوششوں پر فریاد کرنے میں مشغول ہے۔ وغیرہ
دعوت کی شریعت میں یہ تمام چیزیں ناجائز کے درجہ میں غلط ہیں ۔ یہ تمام لوگ جن کے خلاف موجودہ قلمی اور لسانی جہاد کیا جا رہا ہے، وہ وہی ہیں جن پر ہمیں دعوت کے فرض کو انجام دینا ہے۔ وہ سب کے سب ہمارے لیے مدعو کے درجہ میں ہیں۔ مذکورہ قسم کی تقریریں اور تحریریں مسلسل طور پر مسلمانوں کو اپنے مدعو گروہ سے متنفر کر رہی ہیں۔ اور جن لوگوں کے خلاف آدمی کے دل میں نفرت پیدا ہو جائے ، وہ ان کے اوپر دعوت کا عمل جاری نہیں کر سکتا ۔
دعوت کا عمل محبت اور خیر خواہی کے سرچشمہ سے نکلنے والا عمل ہے ۔ وہ نفرت اور بغض سے بھرے ہوئے سینے سے ظاہر ہونے والا عمل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں داعی کو یک طرفہ طور پر صبر اور اعراض کی روش پر قائم ہونے کا حکم دیا گیا ہے ۔ دعوت اور صبر دونوں لازم اور ملزوم ہیں۔ جو لوگ مدعو کی زیادتیوں پر صبر نہ کرسکیں، وہ خدا کے دین کو خدا کے بندوں تک پہونچانے کام بھی نہیں کر سکتے۔
ایسی حالت میں مسلمانوں کے جو لکھنے اور بولنے والے یہ کر رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی مدعو اقوام کے ظلم اور ان کی سازشوں کے خلاف فریاد کرنے کی ایجنسی لیے ہوئے ہیں، وہ در حقیقت شیطان کے ایجنٹ ہیں ۔ شیطان چاہتا ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان تلخیوں کو خوب بڑھائے تا کہ داعی اپنے مدعو سے اتنا متنفر ہو جائے کہ اس کے دل میں مدعو کے اوپر دعوتی عمل کرنے کا جذبہ ہی باقی نہ رہے ۔ یہی وہ کام ہے جو آج ہمارے تمام لکھنے اور بولنے والے انجام دے رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ شیطان کے مقصد کی تکمیل ہے نہ کہ خدا کے منصوبے کو بر روئے کار لانے کی جدوجہد ۔