اصول ، مفاد

موجودہ بائبل اگر چہ محرف ہو چکی ہے ، تاہم اس میں بہت سے اجزاء ایسے ہیں جو نہایت عبرت ناک ہیں۔ بائبل اپنی موجودہ شکل میں سابق اہل کتاب (یہود) کی تاریخ بھی ہے اور ان کے نبیوں کے فرمودات کا مجموعہ بھی ۔ اس میں بار بار بتایا گیا ہے کہ اگر تم خدا کی شریعت پر چلو اور خدا کے حکموں کو مانو تو تمھیں ہر قسم کی کامیابی حاصل ہوگی۔ اور اگر تم خدا کے حکموں کو نہ مانو اور اس کے خلاف چلنے لگو تو خدا تم کو حقیر کر کے تم کو تمہارے دشمنوں کے حوالے کر دے گا (مثال کے طور پر احبار:باب ۲۶)

بعد کے زمانہ میں جب یہود کے اندر بگاڑ آیا تو خدا نے اپنے نبیوں کے ذریعہ مسلسل انھیں انتباہ دیا ۔ اس کی تفصیلات بائبل کے کئی ابواب میں پھیلی ہوئی ہیں (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو، یر میاہ کی کتاب )اس سلسلہ میں چیتاونی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد وہ مردود چاندی کہلائیں گے۔ کیوں کہ خداوند نے ان کو رد کر دیا ہے(یرمیاہ، ۶ : ۳۰ ):

Reprobate silver shall men call them,

because the Lord hath rejected them.

یہود کے بارے میں یہ بات بحیثیت ِنسل نہیں کہی گئی ہے بلکہ بحیثیت ِاہل ِکتاب کہی گئی ہے۔ یہ ان قوموں کے بارے   میں اللہ تعالیٰ کاقا نون ہے جن کو الہامی کتاب بھیجی جائے ، جن کے درمیان پیغمبر خدا کی ہدایت لے کر آئیں۔ ایسی قوم جب خدا کی بتائی ہوئی روش سے ہٹ جائے تو خدا بھی اسے رد کر دیتا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان ایسے ہو جاتے ہیں جیسے مردود چاندی یا ایسا سکہ جس کو بینک نے رد کر دیا ہو۔

اس سلسلے میں بائبل میں (نیز قرآن و حدیث میں ) جو بیانات ہیں ، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ زندگی کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے، خدا کی پسند پر جینا ، اور دوسرا ہے، اپنی پسند پر جینا۔ دوسرے لفظوں میں اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہے ، اصول حق کے لیے جینا، اور دوسراہے، ذاتی مفاد کے لیے جینا۔

جب لوگوں کا حال یہ ہو کہ ان کی تمام سوچ اور ان کے تمام جذبات خدا کی طرف متوجہ ہوں، وہ خدائی ہدایات کو اولیت دیتے ہوں ۔ وہ زندگی کے ہر معاملے میں ربانی مقاصد کو اونچا رکھیں ، تو ایسے لوگ خدا کی نظر میں محبوب اور معزز ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ بندوں کی نظر میں بھی محبوب اور معزز قرار پاتے ہیں ۔

اس کے برعکس جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ خدا کو بھولے ہوئے ہوں ، وہ خود ساختہ شریعت پرچلیں ۔ ان کے ذاتی مفادات ہی ان کی زندگی کا مرکز و محور بن جائیں ، تو خدا ایسے لوگوں کی طرف سے اپنی نظریں ہٹا لیتا ہے ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی قوم لوگوں کے درمیان حقیر اورمغلوب ہو کر رہ جاتی ہے۔

عروج و زوال کا یہی قانون سابق اہل کتاب (یہود) کے لیے تھا۔ اور عروج و زوال کا یہی اٹل قانون موجودہ اہل کتاب (مسلمانوں) کے لیے بھی ہے۔ یہود کی قیمت اللہ کی نظر میں ان کے عمل کے اعتبار سے تھی ، اسی طرح مسلمانوں کی قیمت بھی اللہ کی نظر میں ان کے حقیقی عمل کے اعتبارسے قرار پائے گی نہ کہ کسی اور اعتبار سے ۔

اگر مسلمانوں کا حال یہ ہو جائے کہ ان کے رہنما ذاتی عزت و شہرت (self-glory) کے لیے کام کریں ۔ ان کے دولت مند اپنی دولت کو صرف ذاتی حوصلوں کی تکمیل میں لگائیں۔ ان کا دانشور طبقہ اپنی زبان وقلم کو بازار کا سودا بنا لے ۔ ان کے خواص ان چیزوں کی طرف دوڑیں جن میں اخباری اہمیت (news value) ہوتی ہے ۔ ان کے عوام خود ساختہ رسموں کو اپنالیں ، ان کی اخلاقی حس اتنی کند ہو جائے کہ کوئی شخص عدل، کو عدل اور ظلم کو ظلم کہنے والا باقی نہ رہے ۔ جب ایسا ہو جائے تو مسلمانوں کے حق میں بھی اسی قانونِ خداوندی کے نفاذ کا انتظار کرنا چاہیے جو سابق اہلِ کتاب (یہود) پر نافذ ہوا۔ موجودہ گروہ بھی اسی طرح رد کر دیا جائے جس طرح پچھلا گروہ رد کیا گیا۔

خدا کے یہاں ایک قوم اور دوسری قوم کے درمیان کوئی فرق نہیں ۔ خدائی قانون کے نفاذ میں کسی گروہ کا کوئی استثناء نہیں۔ وہ دوسرے گروہ کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرے گا جو اس نے پہلے گروہ کے ساتھ کیا۔ اس معاملہ میں اگر کسی کو خوش فہمی ہو تو اس کو قر آن کی یہ آیت پڑھنی چاہیے :

لَيۡسَ بِأَمَانِيِّكُمۡ وَلَآ أَمَانِيِّ أَهۡلِ ٱلۡكِتَٰبِۗ ‌مَن ‌يَعۡمَلۡ ‌سُوٓءٗا يُجۡزَ بِهِۦ وَلَا يَجِدۡ لَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيّٗا وَلَا نَصِيرٗا [النساء: 123] نہ تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہل کتاب(یہود) کی آرزوؤں پر ہے ۔ جو شخص بھی برا عمل کرے گا اس کو ضرور اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا حمایتی اور مددگارنہ پائے گا۔

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے جو نوٹ لکھا ہےوہ نہایت با معنی ہے ۔ اس نوٹ کو یہاں نقل کیا جاتا ہے :

"کتاب والوں یعنی یہودیوں اور نصرانیوں کو خیال تھا کہ ہم خاص بندے ہیں۔ جن گنا ہوں پر خِلقت پکڑی جائے گی ، ہم نہ پکڑے جائیں گے ۔ ہمارے پیغمبر حمایت کر کے ہم کو بچالیں گے۔ اور نادان اہلِ اسلام بھی اپنے حق میں یہی خیال کر لیا کرتے ہیں۔ سو فرما دیا کہ نجات اور ثواب کسی کی امید اور خیال پر موقوف اور منحصر نہیں ۔ جو برا کرے گا ، پکڑا جائے گا۔ کوئی ہو ، اللہ کے عذاب کے وقت کسی کی حمایت کام نہیں آسکتی ۔ اللہ جس کو پکڑے ، وہی چھوڑے تو چھوٹے۔ اور جو کوئی عمل نیک کرے گا، بشرطیکہ ایمان بھی رکھتا ہو ، سو ایسے لوگ جنت میں جائیں گے۔ اور اپنی نیکیوں کا پورا ثواب پائیں گے ۔ خلاصہ یہ کہ ثواب و عقاب کا تعلق اعمال سے ہے، کسی کی امید اور آرزو سے کچھ نہیں ہوتا۔ سو ان امیدوں پر لات مارو اور نیک کاموں میں ہمت کرو"۔ (صفحہ۱۲۶)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom