تقاضا
اوپرہم نے آخرت کے تصورپراس حیثیت سے بحث کی ہے کہ موجودہ کائنات میں کیااس قسم کی کسی آخرت کاواقع ہوناممکن ہے جس کامذہب میں دعویٰ کیاگیاہے، ا س سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ یہ آخرت قطعی طورپرممکن الوقوع ہے، اب یہ دیکھیے کہ کیاہماری دنیاکواس قسم کی آخرت کی کوئی ضرورت بھی ہے، کیاکائنات اپنے موجودہ ڈھانچہ کے اعتبار سے تقاضاکرتی ہے کہ آخرت لازماًوقوع میں آئے؟
1۔سب سے پہلے نفسیاتی پہلوکولیجیے۔ننگھم نے اپنی کتاب (Plato's Apology) میں زندگی بعدموت کے عقیدے کوخوش کن لاادریت (cheerful agnosticism) کہاہے۔ یہی موجودہ زمانے میں تمام بے خدامفکرین کانظریہ ہے، ان کاخیال ہے کہ دوسری زندگی کاعقیدہ انسان کی اس ذہنیت نے پیداکیاہے کہ وہ اپنے لیے ایک ایسی دنیاتلاش کرناچاہتاہے جہاں وہ موجودہ دنیاکی محدودیتوں اورمشکلات سے آزادہوکرخوشی اور فراغت کی ایک دل پسندزندگی حاصل کرسکے، یہ عقیدہ انسان کی محض ایک مفروضہ خوش فہمی ہے،جس کے ذریعہ وہ اس خیالی تسکین میں مبتلا رہنا چاہتا ہے کہ مرنے کے بعدوہ اپنی محبوب زندگی کوپالے گا،ورنہ جہاں تک حقیقت واقعہ کاتعلق ہے، ایسی کوئی دنیاواقعہ میں موجودنہیں ہے مگرانسان کی یہ طلب بذات خودآخرت کاایک نفسیاتی ثبوت ہے، جس طرح پیاس کالگناپانی کی موجودگی اورپانی اورانسان کے درمیان ربط کاایک داخلی ثبوت ہے، اسی طرح ایک بہتردنیاکی طلب اس بات کاثبوت ہے کہ ایسی ایک دنیافی الواقع موجودہے،اورہم سے اس کابراہِ راست تعلق ہے تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ترین زمانے سے عالمگیر پیمانےپریہ طلب انسان کے اندرموجودرہی ہے، اب یہ ناقابلِ قیاس ہے کہ ایک بے حقیقت چیزاتنے بڑے پیمانے پراوراس قدرابدی شکل میں انسان کو متاثر کر دے،ایک ایساواقعہ جوہمارے لیے اس امکان کاقرینہ پیداکرتاہے کہ دوسری بہتردنیاموجودہونی چاہیے،خوداسی واقعہ کو فرضی قرار دینا صریح ہٹ دھرمی کے سوااورکچھ نہیں۔
جولوگ اتنے بڑے نفسیاتی تقاضے کویہ کہہ کرنظراندازکردیتے ہیں کہ یہ غیرحقیقی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ پھراس زمین پروہ کون ساواقعہ ہے جس کووہ حقیقی سمجھتے ہیں ، اور اگر سمجھتے ہیں تواس کے لیے ان کے پاس کیادلیل ہے۔یہ خیالات اگرصرف ماحول کانتیجہ ہیں تووہ انسانی جذبات کے ساتھ اتنی مطابقت کیوں رکھتے ہیں کیادوسری کسی ایسی چیزکی مثال دی جاسکتی ہے، جو ہزاروں سال کے دوران میں اس قدرتسلسل کے ساتھ انسانی جذبات کے ساتھ اپنی مطابقت باقی رکھ سکی ہو،کیاکوئی بڑے سے بڑاقابل شخص یہ صلاحیت رکھتاہے کہ ایک فرضی چیزگڑھے اوراس کو انسانی نفسیات میں اس طرح شامل کردے،جس طرح یہ احساسات انسانی نفسیات میں سموئے ہوئے ہیں۔
انسان کی بہت سے تمنائیں ہیں ، جواس دنیامیں پوری نہیں ہوتیں۔ انسان ایک ایسی دنیا چاہتا ہے جہاں صرف زندگی ہو،مگراسے ایک ایسی دنیاملی ہے،جہاں زندگی کے ساتھ موت کاقانون بھی نافذ ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ آدمی اپنے علم،تجربہ اورجدوجہدکے نتیجہ میں جب اپنی کامیاب ترین زندگی کے آغازکے قابل ہوتاہے،اسی و قت اس کے لیے موت کاپیغام آجاتا ہے، لندن کے کامیاب تاجروں کے متعلق اعدادوشمارسے معلوم ہواہے کہ 45-65سال کے عمرکے درمیان جب وہ اپنا کاروبارخوب جمالیتے ہیں ، اورپانچ ہزار تا دس ہزارپونڈ(ایک لا کھ روپے سے زیادہ )سالانہ کما رہے ہوتے ہیں ، اس وقت اچانک ایک روزان کے دل کی حرکت بندہوجاتی ہے، اور وہ اپنے پھیلے ہوئے کاروبارکوچھوڑکراس دنیاسے چلے جاتے ہیں ،وِنوڈریڈی(Winwood Reade)لکھتا ہے:
“یہ ہمارے لیے ایک غورطلب مسئلہ ہے کہ کیاخداسے ہماراکوئی ذاتی رشتہ ہے، کیااس دنیاکے علاوہ کوئی اوردنیاہے، جہاں ہمارے عمل کے مطابق ہم کوبدلہ دیا جائے گا، یہ نہ صرف فلسفہ کاایک بہت بڑامسئلہ ہے، بلکہ یہ خودہمارے لیے سب سے بڑاعملی سوال ہے، ایک ایساسوال جس سے ہمارامفادبہت زیادہ وابستہ ہے، موجودہ زندگی بہت مختصرہے،اوراس کی خوشیاں بہت معمولی ہیں ، جب ہم وہ کچھ حاصل کرلیتے،جوہم چاہتے ہیں توموت کاوقت قریب آچکاہوتاہے، اگریہ واضح ہو سکے کہ ایک خاص طریقہ پرزندگی گزارنے سے دائمی خوشی حاصل ہوسکتی ہے تو بیوقوف یاپاگل کے علاوہ کوئی بھی شخص اس طرح زندگی گزارنے سے انکارنہیں کرے گا‘‘۔
Martyrdom of Man, p. 414
مگریہی مصنف فطرت کی اتنی بڑی پکارکو ایک معمولی سے اشکال کی بنا پر رد کر دیتا ہے:
“یہ نظریہ اس وقت تک بظاہربڑامعقول نظرآتاتھا،جب تک گہرائی کے ساتھ ہم نے اس کی تحقیق نہیں کی تھی،مگرجب ایساکیاگیاتومعلوم ہواکہ یہ محض ایک لغو(absurd)بات ہے،اوراس کی لغویت کوبآسانی ثابت کیا جاسکتا ہے— محروم العقل آدمی جو کہ اپنے گناہوں کاذمہ دارنہیں ہے، وہ توجنت میں جائے گا، مگر گوئٹے اورروسوجیسے لوگ جہنم میں جلیں گے ! اس لیے محروم العقل پیداہونااس سے اچھا ہے کہ آدمی گوئٹے اورروسوکی شکل میں پیدا ہو،اوریہ بات بالکل لغوہے۔‘‘(ایضًاصفحہ415)
یہ ویسی ہی بات ہے جیسے لارڈکلون (Lord Kelvin, 1824-1907)نے میکس ویل (1831-1879ء) کی تحقیق کو ماننے سے انکار کردیاتھا،لارڈکلون کاکہنا تھا کہ “جب تک میں کسی چیزکامشینی ماڈل (mechanical model) نہیں بنالیتا، میں اسے سمجھ نہیں سکتا‘‘۔ اس بناپراس نے روشنی کے متعلق میکسویل کے برقی مقناطیسی نظریے کو قبول نہیں کیا۔کیوں کہ وہ اس کے مادی فریم میں نہیں آتی تھی۔ طبیعیات کی دنیامیں آج یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے۔جے،ڈبلیو،این سولیون(J.W.N. Sullivan ) کے الفاظ میں —”ایک شخص کیوں ایساخیال کرے کہ فطرت کوایک ایسی نوعیت کی چیز ہونا چاہیے جس کوانیسویں صدی کا ایک انجینئر اپنے کارخانہ میں ڈھال سکتاہو‘‘۔
The Limitation of Science, p. 9
یہی بات میں ونِ وڈ(Winwood Reade) کے مندرجہ بالااعتراض کے بارے میں کہوں گا—”بیسویں صدی کا ایک فلسفی آخریہ سمجھنے کاکیاحق رکھتاہے کہ خارجی دنیا کو اس کے اپنے مزعومات کےمطابق ہوناچاہیے۔‘‘
مصنف کی سمجھ میں اتنی موٹی سی بات نہیں آئی کہ حقیقت واقعہ خارج کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ خود خارج حقیقت واقعہ کامحتاج ہوتاہے:
Winwood Reade failed to understand the plain fact that reality is not dependent upon what is externally manifest. On the contrary, the external itself is dependent upon reality.
جب حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کاایک خداہے، اور اس کے سامنے حساب کتاب کے لیے ہمیں حاضرہوناہے توپھرہرشخص کوخواہ وہ روسو( 1712-1778ء) ہویا ایک معمولی شہری، خداکاوفاداربن کرزندگی گزارنی چاہیے۔ہماری کامیابی حقیقت سے موافقت کرنے میں ہے، نہ کہ اس کے خلاف چلنے میں۔وِن وُڈ (Winwood)روسو اورگوئٹے (1749-1832ء) سے یہ نہیں کہتاکہ وہ اپنے آپ کوحقیقت واقعہ کے مطابق بنائیں، بلکہ وہ حقیقت واقعہ سے چاہتاہے کہ وہ اپنے آپ کوبدل ڈالے،اورجب وہ اپنے اندر تبدیلی کے لیے تیارنہیں ہوتی توحقیقت واقعہ کولغو(absurd) قرار دیتا ہے۔ حالانکہ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص جنگی رازکے تحفظ کے قانون کواس بناپر لغو قرار دے کہ اس کی روسے بعض اوقات ایک معمولی سپاہی کاکام قابل تعریف قرار پاتاہے، اورروزن برگ جیسے ممتازسائنس داں اوراس کی نوجوان اورتعلیم یافتہ بیوی (Rosenberg Pair) کوبجلی کی کرسی پربٹھاکرپھانسی دے دی جاتی ہے۔
ساری معلوم دنیاکے اندرصرف انسان ایک ایساوجودہے، جواپنے اختیار و ارادے کے تحت کل (Tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ یہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کہ وہ مستقبل کے بارے میں سوچتاہے اور اپنے آئندہ حالات کوشعوری طور پر بہتربنانا چاہتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بہت سے جانور بھی “کل‘‘ کے لیے عمل کرتے ہیں۔ مثلاً چیونٹیاںگرمی کے موسم میں جاڑے کے لیے خوراک جمع کرتی ہیں یابَیا (Baya Weaver)اپنے آئندہ پیدا ہونے والے بچوں کے لیے گھونسلابناتاہے۔ مگر جانوورں کااس قسم کاعمل محض جبلّت(instinct) کے تحت غیرشعوری طورپرہوتاہے، وہ”کل‘‘کی ضرورتوں کوسوچ کر بالقصد ایسا نہیں کرتے،بلکہ وہ بلاارادہ طبعی طور پرانجام دیتے ہیں ، اور بطورنتیجہ وہ اِن کے مستقبل میں انھیں کام آتاہے۔”کَل‘‘ کو ذہن میں رکھ کر اس کی خاطرسوچنے کے لیے تصوری فکر (conceptual thought)کی صلاحیت درکار ہے، اوریہ صرف انسان کی خصوصیت ہے کسی دوسرے جاندارکوتصوری فکرکی خصوصیت حاصل نہیں۔
انسان اوردوسری مخلوقات کایہ فرق ظاہرکرتاہے کہ انسان کودوسری تمام چیزوں سے زیادہ مواقع ملنے چاہئیں،جانوروں کی زندگی صرف آج کی زندگی ہے، وہ زندگی کا کوئی “کل‘‘ نہیں رکھتے مگرانسان کامطالعہ صاف طورپربتاتاہے کہ اس کے لیے ایک “کل‘‘ ہونا چاہیے،ایسانہ ہونانظام فطرت کے خلاف ہے۔
بعض لوگوں کاکہناہے کہ موجودہ زندگی میں ہماری ناکامیاں،عام طورپر،ہم کو اس سے بہترایک زندگی کی توقع کی طرف لے جاتی ہیں ،ایک خوش حال فضامیں ایساعقیدہ باقی نہیں رہ سکتا،روم کے غلام،مثال کے طورپربہت بڑی تعدادمیں عیسائی ہوگئے۔کیوں کہ عیسائیت ان کومرنے کے بعد خوشی حاصل ہونے کی امید دلاتی تھی۔یہ یقین کیاجاتاہے کہ سائنس کی ترقی سے انسان کی خوشی اورخوشحالی بڑھے گی، اوربالآخردوسری زندگی کاتصورختم ہوجائے گا۔
مگرسائنس اورٹيکنالوجی کی چارسوسالہ تاریخ اس کی تصدیق نہیں کرتی، ٹيکنالوجی کی ترقی نے سب سے پہلے دنیاکوجوچیزدی وہ یہ تھاکہ سرمایہ رکھنے والے محدودگروہ کوایسے وسائل وذرائع ہاتھ آگئے جس کے بل پروہ چھوٹے کاریگروں اورپیشہ وروں کوختم کرکے دولت کاتمام بہاؤ اپنی طرف کرلیں اورعام باشندوں کومحض اپنامحتاج مزدوربناکررکھ دیں،اس انجام کے ہولناک مناظرمارکس کی کتاب”کیپٹل‘‘ میں تفصیل کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں ، جو گویا اٹھارویں اورانیسویں صدی کے اس مزدورطبقہ کی چیخ ہے،جس کومشینی نظام نے اپنے ابتدائی دورمیں جنم دیاتھا،اس کے بعدردعمل شروع ہوااورمزدورتحریکوں کی ایک صدی کی کوشش سے اب حالات بہت بدل چکے ہیں مگریہ تبدیلی صرف ظاہرکی تبدیلی ہے،بیشک آج کامزدورپہلے کے مزدورکے مقابلے میں زیادہ اجرت پاتا ہے، لیکن جہاںتک حقیقی خوشی کی دولت کاتعلق ہے،اس معاملے میں وہ اپنے پیش رووں سے بھی زیادہ محروم ہے— سائنس اورٹيکنالوجی نے جونظام بنایاہے،وہ کچھ مادی ظواہرانسان کوشاید دے،مگر خوشی اوراطمینان قلب کی دولت پھربھی اسے نہیں دیتا،تہذیب جدیدکے انسان کے بارے میں ولیم بلیک (William Blake, 1757-1827)کے الفاظ نہایت صحیح ہیں :
And mark in every face I meet
Marks of weakness, marks of woe.({ FR 37 })
برٹرینڈرسل نے اعتراف کیاہے کہ”ہماری دنیاکے جانورخوش ہیں ،ا نسانوں کوبھی خوش ہوناچاہیے،مگرجدیددنیامیں انھیں یہ نعمت حاصل نہیں۔‘‘
Conquest of Happiness, p. 11
بلکہ رسل کے الفاظ میں اب توصورت حال یہ ہے کہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ اس کا حصول ممکن ہی نہیں :
Happiness in the modern world has become an impossibility p. 93
نیویارک جانے والا سیاح ایک طرف تواسٹیٹ بلڈنگ جیسی عمارتوں کودیکھتاہے جس کی 102منزلیں ہیں ، اورجواتنی اونچی ہے کہ اس کااوپرکاٹمپر یچر نیچے کے مقابلے میں کافی سرد ہوجاتا ہے، ا س کودیکھ کراتریں تویہ مشکل ہی سے یقین آئے گاکہ آپ اس پرگئے تھے،1250 فٹ بلند عمارت پرچڑھنے میں لفٹ کے ذریعہ صرف تین منٹ لگتے ہیں ، ان عالی شان عمارتوں اور بازاروں کو دیکھ کر وہ کلب میں جاتاہے،وہاں وہ دیکھتاہے کہ عورت مرد مل مل کر ناچ رہے ہیں۔”کتنے خوش نصیب ہیں یہ لوگ‘‘ وہ سوچتاہے،مگرزیادہ دیر گزرنے نہیں پاتی کہ اس جھنڈمیں سے ایک نوجوان عورت آکراس کے پا س کی نشست پر بیٹھ جاتی ہے،وہ بہت افسردہ ہے۔
“سیاح!کیامیں بہت بدصورت ہوں‘‘عورت کہتی ہے۔
“میراخیال توایسانہیں ہے۔‘‘
“مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ مجھ میں رعنائی( Glamour) نہیں ہے۔‘‘
“میرے خیال میں توتم میں گلیمرہے۔‘‘
“شکریہ۔لیکن اب نہ مجھے نوجوان ٹیپ (Tap)کرتے ہیں ،اورنہ ڈیٹ (Date) مانگتے ہیں ، مجھے زندگی ویران نظرآنے لگی ہے۔‘‘
یہ جدیددورکے انسان کی ایک ہلکی سی جھلک ہے،حقیقت یہ ہے کہ سائنس اورٹيکنالوجی کی ترقی نے صرف مکانوں کوترقی دی ہے، اس نے مکینوں کے دل کاسکون چھین لیاہے،ا س نے شاندارمشینیں کھڑی کی ہیں ، مگران مشینوں میں کام کرنے والے انسانوں کوچین سے محروم کردیا ہے، یہ سائنس اورٹيکنالوجی کی 4سوسالہ تاریخ کاآخری انجام ہے، پھرکس بنیاد پر یقین کرلیاجائے کہ سائنس اورٹيکنالوجی وہ سکون اورمسرت کی دنیابنانے میں کامیاب ہوگی جس کی انسان کوتلاش ہے۔
2۔اب اخلاقی تقاضے کولیجیے،ا س حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تودنیاکے حالات شدید طور پر اس بات کاتقاضاکرتے ہیں کہ اس کی ایک آخرت ہو،اس کے بغیرساری تاریخ بالکل بے معنی ہوتی ہے۔
یہ ہماراایک فطری احساس ہے کہ ہم خیراورشرظلم اورانصاف میں تمیزکرتے ہیں ، انسان کے سوا کسی بھی مخلوق کے اندر یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی، مگرانسان ہی کی دنیاوہ دنیا ہے، جہاں ا س احساس کوسب سے زیادہ پامال کیاجارہاہے، انسان اپنے ابنائے نوع پر ظلم کرتاہے،وہ اپنی نوع کو استحصال کرتاہے،اس کو قتل کرتاہے،اور طرح طرح سے اس کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ حالانکہ جانوروں تک کایہ حال ہے کہ وہ اپنی نوع کے ساتھ سفاکی نہیں کرتے،بھیڑیے اور شیراپنی نوع کے لیے بھیڑیے اورشیرنہیں ہیں ، مگرانسان خودانسان کے لیے بھیڑیابناہواہے، بیشک انسانی تاریخ میں حق شناسی کی چنگاریاں بھی ملتی ہیں ، اوروہ بہت قابل قدرہیں ،مگراس کابڑاحصّہ حق تلفی کی رودادسے بھرا ہوا ہے۔ مورخ کوبڑی مایوسی ہوتی ہے،جب وہ دیکھتاہے کہ انسان کاضمیرجوکچھ چاہتاہے،انسانی دنیا کے واقعی حالات اس کے خلاف ہیں۔یہاں میں چند اقوال نقل کروں گا:
والٹیر:”انسانی تاریخ محض جرائم اورمصائب کی ایک تصویرہے۔‘‘
History is nothing more than a picture of crimes and misfortunes.
(The Story of Philosophy by Will Durant, NY, 1926, p. 241)
ہربرٹ اسپنسر:”تاریخ محض بے فائدہ گپ ہے۔‘‘
History is simply useless gossip.
نپولین:”تاریخ تمام کی تمام لایعنی قصّے کانام ہے۔‘‘
History on the whole is another name for a meaningless story.
اڈورڈگبن:”انسانیت کی تاریخ جرائم،حماقت اوربدقسمتی کے رجسٹرسے کچھ ہی زیادہ ہے‘‘۔
History, which is, indeed, little more than the register of the crimes, follies and misfortunes of mankind.
ہیکل:”پبلک اورحکومت نے تاریخ کے مطالعہ سے جوواحدچیزسیکھی ہے،وہ صرف یہ کہ انھوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘
The only thing public and government have learnt from a study of history is only that they have learnt nothing from history. (Western Civilisation by Edward McNall Burns, p.871)
کیاانسانیت کایہ عظیم الشان ڈرامااسی لیے کھیلاگیاتھاکہ وہ اس طرح کی ایک ہولناک کہانی وجودمیں لاکرہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے،ہماری فطرت جواب دیتی ہے کہ نہیں ، انسان کے اندر عدل وانصاف کااحساس تقاضاکرتاہے کہ ایسانہیں ہوسکتا،اورنہ ایساہونا چاہیے،ایک دن ایسا آنا ضروری ہے، جب حق اورناحق الگ ہو،ظالم کواس کے ظلم کا اور مظلوم کو ا س کی مظلومیت کابدلہ ملے۔ یہ ایک ایسی طلب ہے،جس کواسی طرح تاریخ سے الگ نہیں کیاجاسکتاجس طرح اسے انسان سے الگ نہیں کیاجاسکتا۔
فطرت اورواقعہ کایہ تضادبتاتاہے کہ ا س خلاکولازماًپرہوناچاہیے— جوکچھ ہورہا ہے، اور جو کچھ ہوناچاہیے،دونوں کافرق ثابت کرتاہے کہ ابھی زندگی کے ظہورکاکوئی اوراسٹیج باقی ہے،یہ خلا پکار رہا ہے کہ ایک وقت ایسانہیں ہوناچاہیے جب دنیاکی تکمیل ہو،مجھے حیرت ہے کہ لوگ ہارڈی کی فلسفہ پر ایمان لاکردنیاکوظلم اوربے رحمی کی جگہ سمجھنے لگتے ہیں ، مگریہی ظالمانہ صورتِ حال انھیں اس یقین کی طرف نہیں لے جاتی کہ جوکچھ آج موجودنہیں ہے، مگرعقل جس کاتقاضاکرتی ہے،اسے کل وقوع میں آنا چاہیے۔
“قیامت نہ ہوتوان ظالموں کاسرکون توڑے‘‘—یہ فقرہ اکثرایک دردناک آہ کے ساتھ اس وقت میری زبان سے نکل جاتاہے، جب میں اخبار پڑھتا ہوں، اخبار گویا دنیا کے روزانہ حالات کی ایک تصویرہے،مگراخبارہمیں دنیاکے حالات کے بارے میں کیا بتاتے ہیں ، وہ اغوااورقتل کی خبریں دیتے ہیں ،چوری اورالزام تراشی کی داستانیں سناتے ہیں ، سیاسی تجارت اورتاجرانہ سیاست کے جھوٹے پروپیگنڈے ہمارے دماغوں میں بھرتے ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ فلاں حکمراں نے اپنے ماتحت کمزوروں کودبالیا،فلاں قوم نے قومی مفاد کے لیے فلاں علاقے پرقبضہ کرلیا،غرض اخبار،درویش اور سلطان کی عیاریوں کی داستان کے سوااورکچھ نہیں ، اورماضي قریب میں ہندستان میں ہونے والے حادثات خاص طورپرجبل پور،کلکتہ، جمشیدپور اور راوڑکیلا کی قتل وغارت گری کے بعدتوایسامعلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں کسی بھی قابل قیاس یاناقابل قیاس بدترین برائی کوناممکن نہیں سمجھناچاہیے، ایک قوم سیکولرازم، جمہوریت اور اہنسا کی علمبرداربن کروحشیانہ فرقہ واریت سفاکانہ آمریت اور بدترین تشدد کا ارتکاب کرسکتی،ایک لیڈرجس کومحسن انسانیت اورپیغمبرامن واماں کا خطاب دیا گیا ہو عین اس کے اقتدارمیں انسانیت کے اوپرایسے شرمناک مظالم کیے جاسکتے ہیں ، جن سے چیتے اور بھیڑیے اور جنگلی سور بھی پناہ مانگیں، حتیٰ کہ نشرو اشاعت کے اس دور میں یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا کے ایک بہت بڑے ملک میں بہت بڑے پیمانے پرکھلم کھلاایک گروہ کولوٹنے،جلانے اور قتل کرنے کے انتہائی بھیانک واقعات نہایت منظم طریقے پر ہوںاور مہینوں اورسالوں ہوتے رہیں ، مگراس کے باوجود دنیا کا پریس ان سے بے خبرہوااورتاریخ کے صفحات سے وہ اس طرح محو ہوجائیں گویا کچھ ہواہی نہیں — کیا یہ دنیااسی لیے بنائی گئی تھی کہ مکاری، شيطانيت، درندگی اور ڈاکہ زنی کے ان ہولناک ڈراموں کابس ایک اسٹیج بن کررہ جائے اوراس کے بعدنہ ظالم کے لیے کچھ ہو اورنہ مظلوم کے لیے کچھ— حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسی دنیا خود اپنے سارے وجودکے ساتھ اس بات کا اعلان ہے کہ وہ نامکمل ہے، اوراس کانامکمل ہونااس بات کاثبوت ہے کہ ایک وقت آناچاہیے جب وہ مکمل کی جائے۔
اس بات کوایک اورپہلوسے دیکھیے۔قدیم ترین زمانے سے انسان کے سامنے یہ مسئلہ رہا ہے کہ لوگوں کوحق وصداقت کی راہ پرکیسے قائم رکھاجائے۔اگراس مقصدکے لیے تمام افرادکے مقابلے میں کچھ لوگوں کوسیاسی اختیاردیاجائے توہوسکتاہے کہ ان کے ماتحت ان کی گرفت کے خوف سے زیادتیاں نہ کریں — مگر اس تدبیر سے خودان صاحب اختیار افرادکوعدل پرقائم رکھنے کاکوئی محرک موجودنہیں ہے۔اگراس مقصدکے لیے قانون بنایا جائے اورپولیس کامحکمہ قائم ہوتوان مقامات اورمواقع پرآدمی کوکون کنٹرول کرے جہاں پولیس اورقانون نہیں پہونچتے اورنہیں پہونچ سکتے، اگر اپیل اورپروپیگنڈے کی مہم چلائی جائے توسوال پیداہوتاہے کہ محض کسی کی اپیل کی بناپرکوئی شخص اپنے ملتے فائدے کوکیوں چھوڑدے گا،دنیاکی سزاکاخوف بدعنوانیوں کوہرگزروک نہیں سکتا، کیوں کہ ہرشخص اچھی طرح جانتا ہے کہ جھوٹ،رشوت،سفارش،اثرات کاناجائزاستعمال اوراسی قسم کے دوسرے بہت سے ذرائع موجودہیں جوسزاکے ہرامکان کویقینی طورپرختم کرسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی ایسامحرک ہی بدعنوانیوں کوروکنے میں کارگرہوسکتاہے جو انسان کے اپنے اندرموجودہو،جوانسان کے اپنے ارادے میں شامل ہوجائے خارجی محرک کبھی اس معاملے میں کامیاب نہیں ہوسکتا،اوریہ بات صرف آخرت کے تصورمیں ممکن ہے، آخرت کے نظریے میں ایسامحرک موجود ہے جوبدعنوانیوں سے بچنے کے مسئلے کوہر شخص کے لیے ذاتی مسئلہ بنادیتاہے۔وہ ہرشخص کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے، خواہ وہ ماتحت ہویا افسر، اندھیرے میں ہویااجالے میں ،ہرشخص یہ سوچنے لگتاہے کہ اسے خداکے یہاں جاناہے، اور ہرشخص یہ سمجھتاہے کہ خدااسے دیکھ رہاہے،اوراس سے لازماً بازپرس کرے گا،مذہبی عقیدے کی اسی اہمیت کی بناپرسترھویںصدی کے آخرکے ایک نامورجج میتھوہیلز (Mathew Hale, 1609-1676) نے کہاہے— “یہ کہناکہ مذہب ایک فریب ہے۔ان تمام ذمہ داریوں اورپابندیوں کومنسوخ کرناہے جن سے سماجی نظم کو برقرار رکھا جاتا ہے۔‘‘
To say that religion is a cheat is to dissolve all those obligations whereby civil societies are preserved.
Religion Without Revelation, p. 115
نظریۂ آخرت کایہ پہلوکتنااہم ہے،اس کااندازہ ا س سے کیجیے کہ بہت سے لوگ جو خدا پر یقین نہیں رکھتے،اورجواس بات کوبطورایک واقعہ نہیں مانتے کہ کوئی فیصلہ کادن آنے والا ہے، وہ بھی تاریخ کے تجربے کی بناپرماننے پرمجبورہوئے ہیں کہ اس کے سوا اور کوئی چیزنہیں ہے، جو انسان کو قابو میں رکھ سکتی ہو اورہرحال میں اس کوعدل وانصاف کی روش پرقائم رہنے کے لیے مجبور کرسکے، مشہور جرمن فلسفی کانٹ (Immanuel Kant, 1724-1804) نے خداکے تصورکویہ کہہ کر رد کردیا ہے کہ ا س کی موجودگی کاکوئی تسلی بخش ثبوت ہم کونہیں ملتا۔ اس کے نزدیک نظری معقولیت (theoretical reason) تو یقیناً مذہب کے حق میں نہیں ہے،مگراخلاقی پہلوسے مذہب کی عملی معقولیت (practical reason)کووہ تسلیم کرتاہے۔
Story of Philosophy, NY, 1954, p . 279
فرنچ فلاسفر والٹیر (Voltaire, 1694-1778) کسی مابعدالطبیعی حقیقت کونہیں مانتا، مگر اس کے نزدیک:
“خدااوردوسری زندگی کے تصورکی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ وہ اخلاقیات کے لیے مفروضے (postulates of the moral feeling) کا کام دیتے ہیں ، اس کے نزدیک صرف اسی کے ذریعہ سے بہتراخلاق کی فضا پیدا کی جاسکتی ہے،اگریہ عقیدہ ختم ہوجائے توحسن عمل کے لیے کوئی محرک باقی نہیں رہتا، اوراس طرح سماجی نظم کابرقراررہناناممکن ہوجاتاہے۔‘‘
History of Philosophy by Windelband, p.496
جولوگ آخرت کوایک فرضی تصورکہتے ہیں ، ان کوسوچناچاہیے کہ آخرت اگرفرضی ہے تو ہمارے لیے اس قدرضروری کیوں ہے،کیوں ایساہے کہ اس کے بغیرہم صحیح معنوں میں کوئی سماجی نظام بناہی نہیں سکتے، انسانی ذہن سے اس تصورکونکالنے کے بعدکیوں ہماری ساری زندگی ابترہوجاتی ہے، کیا کوئی فرضی چیززندگی کے لیے ا س قدرناگزیرہوسکتی ہے، کیااس کائنات میں ایسی کوئی مثال پائی جاتی ہےکہ ایک چیزحقیقت میں موجودنہ ہومگراس کے باوجودوہ اس قدرحقیقی بن جائے،زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو،مگراس کے باوجودوہ زندگی سے ا تنی متعلق نظرآئے،زندگی کی صحیح اورمنصفانہ تنظیم کے لیے آخرت کے تصورکااس قدر ضروری ہوناخودیہ ظاہرکرتاہے کہ آخرت اس دنیاکی سب سے بڑی حقیقت ہے، بلکہ اگرمیں یہ کہوں تواس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگاکہ تصورآخرت کے حق میں استدلال کایہ ایک ایساپہلوہے، جو اس نظریے کولیبارٹری ٹسٹ کے معیارپرصحیح ثابت کررہاہے۔
3۔اب ایک اورپہلوسے دیکھیے، جس کوہم “کائناتی تقاضا‘‘کہہ سکتے ہیں۔ پچھلے باب میں میں نے کائنات میں خداکے وجودپربحث کی ہے، اس سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ عین علمی اورعقلی مطالعہ ہی کایہ تقاضاہے کہ ہم اس کائنات کاایک خدامانیں،اب اگر اس دنیاکاکوئی خداہے تو یقیناً بندوں کے ساتھ اس کے تعلق کوظاہرہوناچاہیے،یہ کب ظاہر ہوگا، جہاں تک موجودہ دنیاکامعاملہ ہے، یقین کے ساتھ کہاجاسکتاہےکہ آج یہ تعلق ظاہر نہیں ہو رہاہے،آج جوشخص خدا کا منکر ہے، اور کھلے عام یہ اعلان کرتاہے کہ”میں خدا سے نہیں ڈرتا‘‘ اس کولیڈری اور حکومت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس، جوخداکے بندے خدا کا کام کرنے کے لیے اٹھتے ہیں ،ان کی سرگرمیوں کووقت کا اقتدار غیرقانونی قرار دے دیتا ہے، جو لوگ خداکامذاق اڑاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ “ہماراراکٹ چاند تک گیا اورراستہ میں اس کوکہیں خدانہیں ملا‘‘۔ ان کے نظریات کوپھیلانے کے لیے بے شمار ادارے کام کر رہے ہیں ، اورپورے پورے ملکوں کے ذرائع ووسائل ان کی خدمت کے لیے وقف ہیں ، اور جو لوگ خداورمذہب کی بات پیش کررہے ہیں ،ان کوتمام ماہرین اور علمائے وقت رجعت پسند اور ماضی کے اندھیرے میں بھٹکنے والاکہہ کرردکردیتے ہیں ، لوگ پیدا ہوتے ہیں اور مرجاتے ہیں ، قومیں بنتی ہیں اوربگڑتی ہیں ،انقلاب آتے ہیں ، اور چلے جاتے ہیں ، سورج نکلتا ہے، اورڈوب جاتا ہے، مگر خداکی خدائی کاکہیں ظہورنہیں ہوتا، ایسی حالت میں سوال یہ ہے کہ ہم خداکومانتے ہیں یا نہیں ،اگرہم خداکومانتے ہیں توہمیں آخرت کوبھی مانناپڑے گا،کیوں کہ خدا اوربندوں کاتعلق ظاہرہونے کی اس کے سوااورکوئی صورت نہیں۔
ڈارون اس دنیاکاایک خالق (creator)تسلیم کرتاہے، مگراس نے زندگی کی جو تشریح کی ہے، اس کے اندرخالق اورمخلوق کے درمیان کوئی تعلق ثابت نہیں ہوتااورنہ کائنات کے کسی ایسے انجام کی ضرور ت معلوم ہوتی ہے،جہاں یہ تعلق ظاہرہو،مجھے نہیں معلوم کہ ڈارون اپنے حیاتیاتی نقطۂ نظرکے اس خلاکوکیسے پُرکرے گا مگرمیری عقل کویہ بات نہایت عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اس کائنات کاایک خداتوہومگردنیاسے اس کاکوئی تعلق نہ ہو اور بندوں کے مقابلے میں اس کی جومالکانہ حیثیت ہے وہ کبھی سامنے نہ آئے،اتنی بڑی کائنات پیدا ہو کرختم ہوجائے،اوریہ ظاہرنہ ہوکہ اس کے وجودمیں آنے کامقصد کیاتھا، اور جس نے اسے بنایاتھا،وہ کس قسم کی صفات رکھنے والی ہستی تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ اگرمعقولیت کے ساتھ غورکیاجائے گاتودل پکاراٹھے گاکہ بے شک قیامت آنے والی ہے،بلکہ وہ آپ کوبالکل ا ٓتی ہوئی نظرآئے گی۔ آپ دیکھیں گے کہ حاملہ کے پیٹ میں جس طرح اس کا حمل باہرآنے کے لیے بیتاب ہو، اسی طرح وہ کائنات کے اندربوجھل ہورہی ہے، اورقریب ہے کہ کسی بھی صبح وشام وہ انسانوں کے اوپر پھٹ پڑے۔قرآن میں یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان کیا گئی ہے:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً(7:187)۔ یعنی یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے قیامت،کہواس کاعلم توصرف خداکوہے، وہی اپنے وقت پراس کوظاہرکرے گا،وہ زمین وآسمان میں بوجھل ہورہی ہے وہ بالکل اچانک تم پرآپڑے گی۔