تمدن
اسلام میں قتل عمدکی سزاموت ہے۔ الایہ کہ مقتول کے ورثاء خون بہالینے پرراضی ہوجائیں،لیکن جدیددورِترقی میں جہاں مذہب کی اورتعلیمات کے خلاف ذہن پیداہوا، اسی طرح سزائے قتل کے بارے میں بھی سخت تنقیدیںکی جانے لگیں۔ان حضرات کاخاص استدلال یہ ہے کہ اس قسم کی سزا کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جان کے ضائع ہونے کے بعددوسری انسانی جان کوبھی کھودیا جائے۔ پچھلے برسوں میں اکثرملکوں میں اس رجحان نے بڑی تیزی سے ترقی کی ہے، اور پھانسی کے بجائے قیدکی سزائیں تجویزکی جارہی ہیں۔
اسلام نے قاتل کی جوسزامقررکی ہے،اس میں دواہم ترین فائدے ہیں ، ایک یہ کہ ایک شخص نے سوسائٹی کے ایک فردکوقتل کرکے جس برائی کامظاہرہ کیاہے،اس کی جڑ آئندہ کے لیے کٹ جائے،مجرم کایہ عبرتناک انجام دیکھ کردوسرے لوگ آیندہ اس قسم کی ہمت نہ کرسکیں، اسی کے ساتھ دیت کی جوصورت ہے، اس میں گویااسلام نے نتائج کالحاظ کیا ہے، مثلاًاگرکسی کے والدین بوڑھے ہوں اوران کااکلوتابیٹاقتل ہوجائے تووہ بے سہارارہ جاتے ہیں ،ایسی حالت میں قاتل کوسزائے موت بھی مل جائے توانھیںکیافائدہ، اسلام نے ایسے والدین کی تلافی کے لیے یہ طریقہ رکھاہے کہ قاتل کے ورثاء مقتول کے والدین کوایک خاص رقم بطورخوں بہادے کرانھیں راضی کرلیں،اوروہ قاتل کومعاف کر دیں،اس صورت میں مقتول کے بوڑھے والدین کومثلاًایک بڑی رقم مل جائیگی، اور وہ اس رقم سے اپنی گزربسرکاانتظام کرسکیںگے— مخصوص حالات میں ریاست کوبھی یہ حق ہے کہ وہ دیت کی رقم میں اضافہ کردے تاکہ بے سہاراوارثین کی کچھ مدد ہوجائے۔
یہ ایک نہایت حکیمانہ قانون ہے،اورتجربہ بتاتاہے کہ وہ جہاں رائج ہواقتل کاخاتمہ ہوگیا۔اس کے برعکس، جن ممالک میں سزائے موت کومنسوخ کیاگیاہے،وہاں جرائم گھٹنے کے بجائے اور بڑھ گئے ہیں۔ اعدادوشمارسے معلوم ہواہے کہ ایسے ممالک میں قتل کی وارداتوں میں بارہ فیصد تک اضافہ ہوگیاہے۔
چنانچہ اس کی بھی مثالیں موجودہیں کہ پہلے سزائے موت کو منسوخ کیاگیا۔اوراس کے بعد نتائج دیکھ کردوبارہ اسے بدل دیاگیا۔سیلون (سری لنکا)اسمبلی نے 1956ء میں ایک قانون پاس کیا، جس کے مطابق سیلون کی حدودمیں موت کی سزاکوختم کردیاگیا،اس قانون کے نفاذکے بعدسیلون میں جرائم تیزی سے بڑھناشروع ہوگئے۔ابتدا میں لوگوں کو ہوش نہیں آیا، مگر 26ستمبر1959ء کوجب ایک شخص نے سیلون کے وزیراعظم بندرا نائک کے مکان میں گھس کر نہایت بے دردی کے ساتھ ان کو قتل کردیا توسیلون کے قانون سازوں کی آنکھ کھلی،اوروزیراعظم کی لاش کوٹھکانے لگانے کے فورًابعدسیلون اسمبلی کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا،جس میں چارگھنٹے کے بحث ومباحثہ کے بعدیہ اعلان کیاگیاکہ سیلون کی حکومت 1956ء کے قانون کومنسوخ کرکے ملک میں سزائے موت کودوبارہ جاری کرنے کافیصلہ کرتی ہے۔