معاشرت

اسلام نے عورت اور مردکے درمیان فرق کیا ہے۔وہ دونوں صنفوں کے درمیان آزادانہ اختلاط کو ناپسندکرتا ہے،اوراس کوبندکرنے کاحکم دیاہے۔ اس کے بعدجب صنعتی دور شروع ہوا تو اس اصول کابہت مذاق اڑایاگیا،اوراس کودورجہالت کی یادگار قرار دیا گیا۔ بڑے زورشورسے یہ بات کہی گئی کہ عورت مرددونوں یکساں ہیں ،ان کے میل جول کے درمیان کوئی دیوارکھڑی نہیں کی جاسکتی۔ ساری دنیا میں اورخاص طورسے مغرب میں اس اصول پرایک نئی سوسائٹی ابھرنا شروع ہوئی،مگرطویل تجربے نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ پیدائشی طورپردونوں یکساں نہیں ہیں ، اس لیے دونوں کویکساں فرض کرکے جوسماج بنایا جائے وہ لازمی طورپربے شمار خرابیاں پیداکرنے کاباعث ہوگا( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب، خاتونِ اسلام، مطبوعہ نئی دہلی)۔

پہلی بات یہ کہ عورت اورمردمیں فطری صلاحیتوں کے زبردست نوعی اختلافات ہیں اس لیے دونوں کومساوی حیثیت دینااپنے اندرایک حیاتیاتی تضادرکھتاہے،ڈاکٹرالکسس کیرل عورت اور مردکے فعلیاتی (Physiological)فرق کوبتاتے ہوئے لکھتاہے:

“مرداورعورت کافرق محض جنسی اعضاکی خاص شکل،رحم کی موجودگی،حمل یا طریقۂ تعلیم ہی کی وجہ سے نہیں ہے،بلکہ یہ اختلاف بنیادی قسم کے ہیں ، خود نسیجوںکی بناوٹ اورپورے نظامِ جسمانی کے اندر خاص کیمیائی مادے جو خصیۃالرحم سے مترشح ہوتے رہتے ہیں ،ان اختلافات کاحقیقی باعث ہیں ، صنف نازک کے ترقی کے حامی ان بنیادی حقیقتوں سے ناواقف ہونے کی بنا پریہ سمجھتے ہیں کہ دونوں جنسوں کوایک ہی قسم کی تعلیم،ایک ہی قسم کے اختیارات اورایک ہی قسم کی ذمہ داریاں ملنی چاہئیں،حقیقت یہ ہے کہ عورت،مردسے بالکل ہی مختلف ہے، اس کے جسم کے ہر ایک خلیے میں زنانہ پن کااثر موجود ہوتا ہے،اس کے اعضااورسب سے بڑھ کراس کے اعصابی نظام کی بھی یہی حالت ہوتی ہے۔فعلیاتی قوانین (Physiological Law) اتنے ہی اٹل ہیں ،جتنے کہ فلکیات(Sidereal World) کے قوانین اٹل ہیں ، انسانی آرزؤں سے ان کوبدلانہیں جاسکتا،ہم ان کواسی طرح ماننے پرمجبورہیں ، جس طرح وہ پائے جاتے ہیں ، عورتوں کوچاہیے کہ اپنی فطرت کے مطابق اپنی صلاحیتوں کی ترقی دیں اورمردوں کی نقالی کرنے کی کوشش نہ کریں۔‘‘

Man, the Unknown, p. 93

عملی تجربہ بھی اس فرق کی تصدیق کررہاہے۔ زندگی کے کسی شعبہ میں بھی اب تک عورت کو مرد کے برابردرجہ نہ مل سکا۔حتیٰ کہ وہ شعبے جوخاص طورپرعورتوں کے شعبے سمجھے جاتے ہیں ، وہاں بھی مرد کو عورت کے اوپر فوقیت حاصل ہے۔ میری مرادفلمی ادارے سے ہے۔ نہ صرف یہ کہ فلمی اداروں کی تنظیم تمام ترمردوں کے ہاتھ میں ہے، بلکہ اداکاری کے اعتبارسے بھی مردکی اہمیت عورت سے زیادہ ہے۔ آج (1962 ءمیں )ایک مشہورترین فلم ایکٹرایک فلم کے لیے چھ لاکھ روپے لیتاہے،جب کہ مشہور ترین فلم ایکٹرس کواسی فلم کے لیے صرف چارلاکھ ملتے ہیں۔

مگربات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔اگرہم طبیعی اورفلکیاتی قوانین کوتسلیم نہ کریں اوران کے خلاف چلناشروع کردیں تویہ صرف ایک واقعہ کاانکارہی نہیں ہوگابلکہ ہمیں اس کی بڑی قیمت بھی دینی پڑے گی۔ عورت اورمردکی جداگانہ قابلیت کونظراندازکرکے انسان نے جونظام بنایا،اس نے تمدن کے اندربہت سی خرابیاں پیداکردی ہیں۔مثال کے طورپراس غلط فلسفے کی وجہ سے دونوں صنفوں کے درمیان جوآزادانہ اختلاط پیداہواہے، اس نے جدیدسوسائٹی میں نہ صرف عصمت کا وجود باقی نہیں رکھا،بلکہ ساری نوجوان نسل کوطرح طرح کی اخلاقی اورنفسیاتی بیماریوں میں مبتلاکردیاہے۔

 آج مغربی زندگی میں یہ بات عام ہے کہ ایک غیر شادی شدہ لڑکی ڈاکٹرکے کمرہ میں داخل ہوتی ہے، اس کوسردرداوربے خوابی کی شکایت ہے،وہ کچھ دیراپنی ان تکلیفات پرگفتگوکرتی ہے،اس کے بعد ایک مردکا ذکر شروع کردیتی ہے،جس سے ابھی وہ جلدہی ملی تھی،اتنے میں ڈاکٹرمحسوس کرتاہے کہ وہ کچھ رک رہی ہے،تجربہ کارڈاکٹراس کی بات سمجھ کرآگے بات شروع کردیتاہے:

Well, then he asked you to his flat. What did you say?

لڑکی جواب دیتی ہے:

How did you know? I was just going to tell you that...

اس کے بعدلڑکی جوکچھ کہتی ہے، اس کوناظرین خودقیاس کرسکتے ہیں۔ چنانچہ علمائے جدید خود بھی اس تلخ تجربے کے اس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ آزادانہ اختلاط کے بعد عصمت وعفت کاتحفظ ایک بے معنی بات ہے۔ اس کے خلاف کثرت سے مضامین اور کتابیں شائع کی جارہی ہیں۔ ایک مغربی ڈاکٹر کے الفاظ ہیں :

There can come a moment between a man and a woman when control and judgment are impossible.

یعنی اجنبی مرداوراجنبی عورت جب باہم آزادانہ مل رہے ہوں توایک وقت ایسا آجاتا ہے، جب فیصلہ کرنااورقابورکھناناممکن ہوجاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد کے آزادانہ اختلاط کی خرابیوں کومغرب کے دردمندافرادشدت سے محسوس کررہے ہیں۔ مگراس کے باوجود اس سے ا س قدر مرعوب ہیں کہ اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ایک نہایت قابل اور مشہور خاتون ڈاکٹرمیرین ہلیرڈ(Marrion Hiliard)نے آزادانہ اختلاط کے خلاف سخت مضمون لکھا ہے،وہ کہتی ہیں :

As a doctor, I don’t believe there is such a thing as platonic relationship between a man and a woman who are alone together a good deal.

یعنی بحیثیت ڈاکٹرمیں اسے تسلیم نہیں کرسکتی کہ عورت اورمردکے درمیان بے ضرر تعلقات بھی ممکن ہیں ، مگراس کے باوجودیہی خاتون ڈاکٹر لکھتی ہیں :

“میں اتنی غیرحقیقت پسندنہیں ہوسکتی کہ یہ مشورہ دوں کہ نوجوان لڑکے اورنوجوان لڑکیاں ایک دوسرے کابوسہ لیناچھوڑدیں،مگراکثرمائیں اپنی لڑکیوںکواس سے آگاہ نہیں کرتیں کہ بوسہ صرف اشتہاپیداکرتاہے، نہ کہ وہ جذبات کوتسکین دیتا ہے‘‘۔(ریڈرز ڈائجسٹ، دسمبر1957ء)

خاتون ڈاکٹریہ کہہ کربالواسطہ طورپرفطری قانون کوتسلیم کرتی ہے کہ آزادانہ اختلاط کے ابتدائی مظاہرجومغربی زندگی میں نہایت عام ہیں ، وہ جذبات میں ٹھہراؤ پیدانہیں کرتے،بلکہ اشتہا کو بڑھا کر مزید تسکین نفس کی طرف ڈھکیلتے ہیں ، اوربالآخرانتہائی جنسی جرائم تک پہنچادیتے ہیں۔ مگراس کے باوجوداس کی سمجھ میں نہیں آتاکہ ان محرکات کوکس طرح حرام قراردے۔

یہاں میں اقوام متحدہ کے ڈیموگرافک سالنامہ1959ء کاحوالہ دوں گا۔ اس میں اعداد و شمار کے ذریعہ بتایاگیاہے کہ جدیددنیامیں جوصورتحال ہے،وہ یہ کہ بچے”اندرسے کم اور باہر سے زیادہ‘‘ پیدا ہو رہے ہیں۔ ڈیموگرافک سالنامہ کے مطابق کچھ ملکوں میں ناجائز بچوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے، اور بعض ممالک مثلاًپنامامیں توچاربچوں میں سے تین بچے پادریوں کی مداخلت یاسول میرج رجسٹری کے بغیرہی پیدا ہورہے ہیں ،یعنی75فیصد ناجائز بچے۔لاطینی امریکا میں اس قسم کے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اس ڈیموگرافک سالنامہ سے معلوم ہوتاہے کہ مسلم ملکوں میں ناجائز بچوںکی پیدائش کاتناسب نفی کے برابرہے۔چنانچہ اس میں بتایاگیاہے کہ متحدہ عرب جمہوریہ(مصر) میں ناجائز بچوں کاتناسب ایک فی صدی سے بھی کم ہے،جب کہ متحدہ عرب جمہوریہ تمام مسلم ملکوں میں شاید سب سے زیادہ مغربی تہذیب سے متاثرہواہے۔مسلم ممالک دورجدیدکی اس عام وباسے محفوظ کیوں ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم ممالک مغربی ممالک کے برخلاف عورت اورمرد کے درمیان آزادانہ اختلاط بہت کم ہے۔ اس لیے وہاںناجائزولادت کم ہیں۔

(‘‘More Out Than In’’ مطبوعہ ہندستان ٹائمس،12ستمبر1960ء)

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom