کائنات خداکی گواہی دیتی ہے

 کیرالاکےایک عیسائی مشن نے ایک کتابچہ شائع کیاتھا،جس کانام تھا:

Nature and Science Speak about God

 اس باب کے عنوان کے لیے میں سمجھتاہوں کہ یہ الفاظ موزوں ترین ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ خداکاسب سے بڑاثبوت ا س کی وہ مخلوق ہے، جوہمارے سامنے موجود ہے، فطرت اوراس کے بارے میں ہمارابہترین علم پکاررہاہے کہ بے شک اس دنیاکاایک خدا ہے، ا س کے بغیرہم کائنات کواوراپنے آپ کوسمجھ نہیں سکتے۔

کائنات کی موجودگی، اس کے اندر حیرت انگیزتنظیم اوراس کی اتھاہ معنویت کی اس کی سواکوئی توجیہ نہیں ہوسکتی کہ اس کوکسی نے بنایاہے،اوریہ بنانے والاایک لا محدودذہن ہے، نہ کہ کوئی اندھی طاقت۔

1۔ فلسفیوں میں سے ایک گروہ،نہایت مختصرگروہ،ایساہے جوکسی قسم کے وجودہی میں شک کرتاہے۔ اس کے نزدیک نہ یہاں کوئی انسان ہے اورنہ کوئی کائنات۔بس ایک عدم محض ہے۔ اس کے سوااورکچھ نہیں۔ اگراس نقطۂ نظرکوصحیح مان لیاجائے تویقیناً خدا کا وجودمشتبہ ہو جاتاہے۔لیکن جیسے ہم کائنات کومانتے ہیں ، ہمارے لیے ضروری ہوجاتاہے کہ ہم خدا کو مانیں— کیوں کہ عدم سے وجودکاپیداہوناایک ناقابل ِقیاس بات ہے۔

جہاں تک اس مخصوص قسم کی تشکیک اورلاادریت کاتعلق ہے،وہ ایک فلسفیانہ نکتہ توہوسکتاہے مگر اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔جب ہم سوچتے ہیں توہمارا سوچنا خود اس بات کاثبوت ہوتا ہے کہ ہماراکوئی وجودہے۔ جب راستہ چلتے ہوئے کسی پتھرسے ٹکراتے ہیں ، اورہمیں تکلیف ستانے لگتی ہے تویہ واقعہ اس بات کاثبوت ہوتاہے کہ ہمارے باہر کوئی دنیاہے،جس کا اپنا وجود ہے، اسی طرح ہماراذہن اورہمارے تمام حواس ہرآن بے شمار چیزوں کومحسوس کرتے ہیں ، اوریہ علم و احساس ہر شخص کے لیے اس بات کاایک ذاتی ثبوت ہےکہ وہ ایک ایسی دنیامیں ہے،جوواقعی طور پر اپنا وجود رکھتی ہے۔ اب اگرکسی کافلسفیانہ تفکر اس کے لیے دنیاکے وجودکومشتبہ کر دیتا ہے، تویہ ایک ایسی مستثنیٰ حالت ہے جو کروروں انسانوں کے تجربات سے غیرمتعلق ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں یہی کہاجا سکتا ہے کہ وہ اپنی مخصوص قسم کی ذہنی فضامیں گم ہوگیاہے۔یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوگیاہے۔

اگرچہ کائنات کاموجودنہ ہونابذاتِ خوداس بات کاکوئی لازمی ثبوت نہیں ہے کہ خدابھی موجودنہ ہو، تاہم اپنی انتہائی لغویت کے باوجودیہی ایک نقطۂ نظرہے،جس کے لیے خدا کا وجود مشتبہ ہوسکتاہے۔مگریہ نقطۂ نظرخوداتنابے معنی ہے کہ آج تک نہ توعام انسانوں کے لیے وہ قابلِ فہم ہوسکا،اورنہ علمی دنیامیں اس کوقبول عام حاصل ہواہے۔عام انسان اورعام اہل علم بہرحال اس واقعہ کوتسلیم کرتے ہیں کہ ان کااپناایک وجودہے، اور کائنات بھی اپناوجودرکھتی ہے۔سارے علوم اور زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی علم ویقین کی بنیادپرقائم ہیں۔

پھرجب ایک کائنات ہے تولازمًااس کاایک خداہوناچاہیے۔یہ بالکل بے معنی بات ہے کہ ہم مخلوق کومانیں مگرخالق کاوجودتسلیم نہ کریں۔ہمیں کسی بھی ایسی چیزکاعلم نہیں جو پیدا کیے بغیروجودمیں آگئی ہو۔ ہرچھوٹی بڑی چیزلازمی طوراپناایک سبب رکھتی ہے پھراتنی بڑی کائنات کے بارے میں کیسے یہ یقین کیاجاسکتاہے کہ وہ یونہی وجودمیں آگئی، اس کاکوئی خالق نہیں۔

جان اسٹوارٹ مل (John Stuart Mill, 1806-1873)نے اپنی آٹوبیاگرافی میں لکھا ہے کہ میرے باپ، جیمس مل (James Mill, 1773-1836) نے مجھے یہ سبق دیاکہ یہ سوال کہ کس نے مجھے پیداکیا(who made me)، خدا کے اثبات کے لیے کافی نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کے بعدفورًادوسراسوال پیداہوتاہے کہ خداکوکس نے پیدا کیا(who made God)، چنانچہ برٹرینڈرسل نے بھی اسی اعتراض کوتسلیم کرتے محرک اول کے استدلال کوردکردیاہے:

The Age of Analysis by Morton White, P.21. 22.

یہ منکرین خداکابہت پرانااستدلال ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کائنات کااگرکوئی خالق مانیں تواس خالق کولازمی طورپرازلی مانناپڑے گا۔ پھرجب خداکوازلی مانناہے توکیوں نہ کائنات ہی کوازلی مان لی جائے اگرچہ یہ بالکل بے معنی بات ہے۔کیوں کہ کائنات کی کوئی ایسی صفت ہمارے علم میں نہیں آئی ہے،جس کی بناپر اس کوخوداپناخالق فرض کیاجاسکے— تاہم انیسویں صدی تک منکرین کی ا س دلیل میں ایک ظاہرفریبِ حُسن ضرور موجود تھا، مگراب حرکیات حرارت کے دوسرے قانون (Second Law of Thermodynamics) کے انکشاف کے بعدتویہ دلیل بالکل بے بنیادثابت ہوچکی ہے۔

یہ قانون، جسے ناکارگی کا قانون(Law of Entropy)کہاجاتاہے، ثابت کرتاہے کہ کائنات ہمیشہ سے موجودنہیں ہوسکتی،ضابطۂ ناکارگی بتاتاہے کہ حرارت مسلسل حرارت والے وجودسے بےحرارت وجود میں منتقل ہوتی رہتی ہے،مگراس چکر کو الٹا چلایا نہیں جاسکتا کہ خودبخودیہ حرارت، کم حرارت کے وجودسے زیادہ حرارت کے وجود میں منتقل ہونے لگے، ناکارگی، دستیاب توانائی(available energy)اورغیردستیاب توانائی (unavailable energy)کے درمیان تناسب کا نام ہے، اوراس بناپریہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات کی ناکارگی برابربڑھ رہی ہے، اورایک وقت ایساآنامقدرہے جب تمام موجودات کی حرارت یکساں ہوجائے گی، اورکوئی کارآمدتوانائی باقی نہ رہے گی، اس کانتیجہ یہ نکلے گاکہ کیمیائی اورطبعی عمل کاخاتمہ ہوجائے گا اورزندگی بھی اسی کے ساتھ ختم ہوجائے گی، لیکن اس حقیقت کے پیش نظرکہ کیمیائی اورطبعی عمل جاری اورزندگی کے ہنگامے قائم ہیں ، یہ بات قطعی طورپرثابت ہوجاتی ہے کہ یہ کائنات ازل سے موجودنہیں ہے ورنہ اخراج حرارت کے لازمی قانون کی وجہ سے اس کی توانائی کبھی ختم ہوچکی ہوتی،اوریہاں زندگی کی ہلکی سی رمق بھی موجودنہ ہوتی۔

اس جدیدتحقیق کاحوالہ دیتے ہوئے ایک امریکی عالم حیوانات ایڈورڈ لوتھر كيسل (Edward Luther Kessel, 1904-1997) لکھتاہے:

“اس طرح غیرارادی طورپرسائنس کی تحقیقات نے یہ ثابت کردیاہے کہ کائنات اپناایک آغاز(beginning)رکھتی ہے اورایساکرتے ہوئے اس نے خداکی صداقت کوثابت کردیاہے،کیوں کہ جوچیزاپناایک آغازرکھتی ہووہ اپنے آپ شروع نہیں ہوسکتی، یقیناًوہ ایک محرک اول، ایک خالق، ایک خداکی محتاج ہے۔‘‘

The Evidence of God, p.51

یہی بات سرجیمزنے ان الفاظ میں کہی ہے:

“موجودہ سائنس کایہ خیال ہے کہ کائنات میں ناکارگی (entropy)کاعمل ہمیشہ جاری رہے گا یہاں تک کہ اس کی توانائی بالکل ختم ہوجائے،یہ ناکارگی ابھی اپنے درجہ کونہیں پہنچی ہے،اگرایساہوگیاہوتاتوہم اس کے متعلق سوچنے کے لیے موجودنہ ہوتے،یہ ناکارگی اس وقت بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے،اوراس بناپراس کاایک آغازہوناضروری ہے، کائنات میں لازمًااس قسم کاکوئی عمل ہواہے، جس کوہم ایک وقت خاص میں تخلیق (creation at a ime)کہہ سکتے ہیں ، نہ یہ کہ وہ لامتناہی مدت سے موجودہے۔‘‘

Mysterious Universe, p.133

اس طرح کے اوربھی طبیعیاتی شواہدہیں جویہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات ازل سے موجودنہیں ہے،بلکہ وہ ایک محدودعمررکھتی ہے، مثلاً فلکیات کایہ مشاہدہ ہے کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے،تمام کہکشائیں اور فلکیاتی اجسام مشاہدہ میں نہایت تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے ہٹتے ہوئے نظرآتے ہیں ، ا س صورت حال کی اس وقت نہایت عمدہ توجیہ ہوجاتی ہے،جب ہم ایک ایسے ابتدائی وقت کوتسلیم کرلیں،جب تمام اجزائے ترکیبی مجتمع اورمرکوزحالت میں تھے،اور اس کے بعدان میں حرکت وتوانائی کاآغازہوا،اس طرح کے مختلف قرائن کی بناپرعام اندازہ یہ ہے کہ لگ بھگ پچاس کھرب سال پہلے ایک غیرمعمولی دھماکے سے یہ ساراعالم وجودمیں آیا۔ اب سائنس کی اس دریافت کومانناکہ کائنات محدودعمررکھتی ہے،اوراس کے موجدکونہ ماننا،ایساہی ہے،جیسے کوئی شخص یہ توتسلیم کرے کہ تاج محل ہمیشہ سے موجودنہیں تھا،بلکہ سترھویں صدی عیسوی کے وسط میں بنا، مگر اس کے باوجوداس کاکوئی معماراورانجینئرتسلیم نہ کرے اورکہے کہ وہ بس اپنے آپ ایک مخصوص تاریخ کوبن کرکھڑاہوگیاہے۔

2۔ فلکیات کامطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ دنیاکے تمام سمندروں کے کنارے ریت کے جتنے ذرے ہیں شایداسی قدرآسمان میں ستاروں کی تعدادہے، ان میں کچھ ستارے ایسے ہیں ، جوزمین سے کسی قدربڑے ہیں ، مگربیشترستارے اتنے بڑے ہیں کہ ان کے اندر لاکھوں زمینیں رکھی جاسکتی ہیں ، اوربعض ستارے تواس قدربڑے ہیں کہ اربوں زمینیں ان کے اندرسماسکتی ہیں ، پھر بھی کچھ جگہ خالی رہے گی۔

یہ کائنات اس قدروسیع ہے کہ روشنی کی مانندایک انتہائی ممکن حدتک تیزاڑنے والاراکٹ جس کی رفتارایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل فی سکنڈہو،وہ کائنات کے گردگھومے تواس ہوائی جہازکوکائنات کاپوراچکرلگانے میں تقریباً ایک ارب سال لگیں گے پھراتنی وسعت کے باوجودیہ کائنات ٹھہری ہوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہرلمحہ اپنے چاروں طرف پھیل رہی ہے،اس پھیلنے کی رفتاراتنی تیزہے کہ ایڈنگٹن کے اندازے کے مطابق، ہر 1300 ملینسال کے بعد کائنات کے تمام فاصلے دگنے ہوجاتے ہیں۔اس طرح ہمارایہ خیالی قسم کاغیرمعمولی تیزرفتارخلائی راکٹ بھی کائنات کا چکر کبھی پورانہیں کرسکتا،وہ ہمیشہ اس بڑھتی ہوئی کائنات کے راستہ میں رہے گا۔(یہ کائنات کی وسعت کے بارے میں آئن سٹائن کانظریہ ہے۔مگریہ صرف ایک “ریاضی داں کاقیاس ہے‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ انسان ابھی تک کائنات کی وسعت کوسمجھ نہیں سکاہے)۔

آسمان گردوغبارسے پاک ہو توپانچ ہزارستارے خالی آنکھ سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ لیکن معمولی دوربینوں کی مددسے یہ تعدادبیس لاکھ سے زیادہ ہوجاتی ہے،اوروقت کی سب سے بڑی دوربین جو ماؤنٹ پیلومرپرلگی ہوئی ہے،ا س سے اربوں ستارے نظرآتے ہیں۔ مگریہ تعداداصل تعدادکے مقابلے میں بہت کم ہے،کائنات ایک بے انتہاوسیع خلاہے،جس میں لاتعدادستارے غیرمعمولی رفتار سے مسلسل حرکت کررہے ہیں ، کچھ ستارے تنہا سفر کر رہے ہیں ، کوئی دویازیادہ ستاروںکے مجموعوں کی شکل میں ہیں اوربے شمارستارے ایسے ہیں ، جوستاروں کے جھرمٹ کی صورت میں متحرک ہیں ،روشن دان سے کمرے میں آنے والی روشنی کے اندرآپ نے بے شمارذرے اِدھراُدھردوڑتے ہوئے دیکھے ہوں گے اسی کواگرآپ بہت بڑے پیمانے پرقیاس کرسکیں توکائنات کے اندرستاروں کی گردش کا آپ ہلکاسااندازہ کرسکتے ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ ذرے باہم ملے ہوئے حرکت کرتے ہیں ، اور ستارے تعدادکی ا س کثرت کے باوجوددوسرے ستاروں سے بے اندازہ فاصلے پر سرگرم سفرہیں ،جیسے وسیع سمندروں میں چندجہازجوایک دوسرے سے اتنی دوری پرچل رہے ہوں کہ انھیں ایک دوسرے کی خبرنہ ہو۔

یہ ساری کائنات ستاروں کے بے شمارجھرمٹوں کی صورت میں ہے۔ ہرجھرمٹ کو کہکشاں کہتے ہیں ، اوریہ سب کے سب مسلسل حرکت میں ہیں۔ سب سے قریبی حرکت جس سے ہم واقف ہیں ، وہ چاندہے،چاندزمین سے دولاکھ چالیس ہزار میل دوررہ کر اس کے گردمسلسل اس طرح گھوم رہاہے کہ ہر ساڑھے 29 دن میں زمین کے گرداس کاایک چکر پوراہوجاتاہے۔ اسی طرح ہماری زمین جوسورج سے ساڑھے نوکروڑ میل دورہے،وہ اپنے محورپرایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے گھومتی ہوئی سورج کے گرد انیس کروڑمیل کادائرہ بناتی ہے جوایک سال میں پوراہوتاہے۔ اسی طرح زمین سمیت نوسیارے ہیں ، اوروہ سب کے سب سورج کے گردمسلسل دوڑرہے ہیں۔ ان سیاروںمیں بعیدترین سیارہ پلوٹو ہے جو ساڑھے سات ارب میل کے دائرہ میں چکرلگارہاہے۔یہ تمام سیارے اپنے سفرمیں اس طرح مصروف ہیں کہ ان کے گرداکتیس چاند(2020 کی سائنسی تحقیق کے مطابق، 640 چاند ) بھی اپنے اپنے سیاروں کے گردگھوم رہے ہیں۔ ان کے علاوہ تیس ہزارچھوٹے سیاروں (asteroids) کاایک حلقہ (2020 میں امریکن خلائی ادارہ ناسا کے مطابق، چھوٹے سیاروں کی تعداد 1,068,760) ہے۔ ہزاروں دم دار ستارے اور لاتعدادشہاب ثاقب ہیں ، جواسی طرح گردش میں مصروف ہیں۔ ان سب کے بیچ میں وہ ستارہ ہے،جس کوہم سورج کہتے ہیں ، اورجس کاقطر(diameter) آٹھ لاکھ 65 ہزارمیل ہے، اوروہ زمین سے بارہ لاکھ گنابڑاہے۔

یہ سورج خودبھی رکاہوانہیں ہے بلکہ اپنے تمام سیاروں اورسیارچوں کولیے ہوئے ایک عظیم کہکشانی نظام کے اندرچھ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتارسے گردش کررہاہے،اسی طرح ہزاروں حرکت کرتے ہوئے نظام ہیں ، جن سے مل کرایک کہکشاں وجودمیں آتی ہے، کہکشاں گویاایک بہت بڑی پلیٹ ہے،جس پربے شمارستارےانفردی طور پر اورجھرمٹ کی شکل میں لٹوؤں کی طرح مسلسل گھوم رہے ہیں ، پھریہ کہکشائیں خودبھی حرکت کرتی ہیں ، چنانچہ وہ قریبی کہکشاں جس میں ہماراشمسی نظام واقع ہے، وہ اپنے محورپراس طرح گردش کررہی ہے کہ اس کاایک دوربیس کروڑسال میں پورا ہوتا ہے۔

علمائے فلکیات کے اندازے کے مطابق کائنات پانچ سوملین،(2020 کی تحقیق کے مطابق، ایک سو بلین سے دو سو بلین ) کہکشاؤں پرمشتمل ہے،اورہرکہکشاں میں ایک لاکھ ملین یااس سے کم و بیش ستارے پائے جاتے ہیں ، قریبی کہکشاں جس کے ایک حصے کوہم رات کے وقت سفیددھاری کی شکل میں دیکھتے ہیں ، اس کارقبہ ایک لاکھ سال نورہے،اورہم زمین کے رہنے والے کہکشاں کے مرکز سے تیس ہزارنوری سال کے بقدردورہیں ،پھریہ کہکشاں ایک اوربڑی کہکشاں کا جزء ہے، جس میں اسی طرح سترہ کہکشائیں حرکت کررہی ہیں ، اورپورے مجموعہ کاقطربیس لاکھ سال نورہے۔

ان تمام گردشوں کے ساتھ ایک اورحرکت جاری ہے، اوروہ یہ کہ ساری کائنات غبارکی طرح چاروں طرف پھیل رہی ہے ہماراسورج ہیبت ناک تیزی کے ساتھ چکر کھاتا گھومتا ہوا بارہ میل فی سيکنڈکی رفتار سے اپنی کہکشاں کے بیرونی حاشیے کی طرف مسلسل بھاگ رہا ہے، اور اپنے ساتھ نظام شمسی کے تمام توابع کوبھی لیے جارہاہے اسی طرح تمام ستارے اپنی گردش کوقائم رکھتے ہوئے کسی نہ کسی طرف کوبھاگ رہے ہیں ، کسی کے بھاگنے کی رفتار آٹھ میل فی سيکنڈہے،کسی کی33میل فی سيکنڈکسی کی84میل فی سيکنڈ،اسی طرح تمام ستارے انتہائی تیزرفتاری کے ساتھ دوربھاگے چلے جارہے ہیں۔

یہ ساری حرکت حیرت انگیزطورپرنہایت تنظیم اورباقاعدگی کے ساتھ ہورہی ہے، نہ ان میں باہم کوئی ٹکراؤ ہوتااورنہ رفتارمیں کوئی فرق پڑتا،زمین کی حرکت سورج کے گرد حددرجہ منضبط ہے،اسی طرح اپنے محور کے اوپراس کی گردش اتنی صحیح ہے کہ صدیوں کے اندربھی اس میں ایک سيکنڈکافرق نہیں آنے پاتا،زمین کاسیارہ جس کوچاندکہتے ہیں ، اس کی گردش بھی پوری طرح مقررہے،اس میں جوتھوڑاسافرق ہوتاہے،وہ بھی ہر ساڑھے 18 سال کے بعدنہایت صحت کے ساتھ دہرا دیا جاتا ہے، یہی تمام اجرام سماوی کاحال ہے،حتّیٰ کہ ماہرین فلکیات کے اندازے کے مطابق اکثرخلائی گردش کے دوران ایک پورا کہکشانی نظام،جو اربوں متحرک ستاروں پرمشتمل ہوتاہے، دوسرے کہکشانی نظام میں حرکت کرتا ہوا داخل ہوتا ہے اورپھر اس سے نکل جاتاہے مگرباہم کسی قسم کاکوئی ٹکراؤ پیدا نہیں ہوتا۔ اس عظیم اورحیرت انگیزتنظیم کودیکھ کرعقل کواعتراف کرناپڑتاہے کہ یہ اپنے آپ قائم نہیں ہے، بلکہ کوئی غیرمعمولی طاقت ہے جس نے اس اتھاہ نظام کوقائم رکھاہے۔

یہی ضبط ونظم جوبڑی بڑی دنیاؤں کے درمیان نظرآتاہے،وہی چھوٹی دنیاؤں میں بھی انتہائی مکمل شکل میں موجودہے، اب تک کی معلومات کے مطابق سب سے چھوٹی د نیا ایٹم ہے، ایٹم اتناچھوٹاہوتاہے کہ کسی بھی خوردبین سے نظرنہیں آتا، حالانکہ جدیدخوردبین کسی چیز کو لاکھوں گنا بڑھا کردکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایٹم کی حقیقت انسانی قوت بصارت کے اعتبار سے “لاشے‘‘ سے زیادہ نہیں ، مگر اس انتہائی چھوٹے ذرے کے اندرحیرت انگیزطورپر ہمارے شمسی نظام کی طرح ایک زبردست گردشی نظام موجودہے،ایٹم برق پاروں کے ایک مجموعے کانام ہے،مگریہ برق پارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ ان کے درمیان ایک طویل خلائی حجم ہوتاہے،سیسے (lead) کاایک ٹکڑاجس میں ایٹمی ذرات کافی سختی اورمضبوطی کے ساتھ آپس میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں ، یہ برق پارے حجم کے سو کرور حصوں میں سے ایک حصہ بھی مشکل سے گھیرتے ہیں ، بقیہ حصے بالکل خالی ہوتے ہیں ، اگر اليکٹرون اورپروٹون کے دوٹکڑوں کی حیثیت سے تصویربنائی جائے تودونوں کادرمیانی فاصلہ تقریباً350گزہوسکتاہے یاایٹم کاتصورگردکے ایک غیرمرئی ذرہ کی حیثیت سے کیاجائے توالکٹرون کی گردش سے جوحجم بنتاہے، ا س کی مقدارایک ایسے فٹ بال کی سی ہوسکتی ہے، جس کاقطرآٹھ فٹ ہو۔

ایٹم کے منفی برق پارے جواليکٹرون کہلاتے ہیں ، وہ مثبت برق پارے کے گردگھومتے ہیں ، جن کوپروٹون کہاجاتاہے،یہ برقیے،جوروشنی کی کرن کے ایک موہوم نقطہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے، اپنے مرکزکے گرداسی طرح گردش کرتے ہیں ،جیسے زمین اپنے مدار پر سورج کے گرد گردش کرتی ہے،اوریہ گردش اتنی تیزہوتی ہے کہ الکٹرون کاکسی ایک جگہ تصور نہیں کیاجاسکتا،بلکہ ایسا محسوس ہوتاہے،گویاوہ پورے مدارپرایک ہی وقت میں ہرجگہ موجودہے، وہ اپنے مدارپرایک سکنڈ میں ہزاروں ارب چکرلگالیتاہے۔

 یہ ناقابل قیاس اورناقابل مشاہدہ تنظیم اگرسائنس کے قیاس میں اس لیے آجاتی ہے کہ اس کے بغیرایٹم کے عمل کی توجیہ نہیں کی جاسکتی توٹھیک اسی دلیل سے آخرایک ایسے ناظم کاتصورکیوں نہیں کیاجاسکتاجس کے بغیرایٹم کی اس تنظیم کابرپاہونامحال ہے۔

ٹیلی فون کی لائن میں تاروں کاپیچیدہ نظام دیکھ کرہمیں حیرت ہوتی ہے ہم کوتعجب ہوتاہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ لندن سے ملبورن کے لیے ایک کال چندمنٹ میں مکمل ہوجاتی ہے،مگریہاں ایک اورمواصلاتی نظام ہے،جواس سے کہیں زیادہ وسیع اوراس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے،یہ ہمارااپناعصبی نظام (nervous system)ہے،جوقدرت نے قائم کررکھاہے، اس مواصلاتی نظام پررات دن کروڑوں خبریں اِدھرسے ا ُدھردوڑتی رہتی ہیں ، جودل کوبتاتی ہیں کہ وہ کب دھڑکے،مختلف اعضاکوحکم دیتی ہیں کہ وہ کب حرکت کریں، پھیپھڑے سے کہتی ہیں کہ وہ کیسے اپناعمل کرے،اگرجسم کے اندریہ مواصلاتی نظام نہ ہوتو ہماراپوراوجودتاش کے پتوں کی مانند منتشر ہوکر رہ جائے۔

اس مواصلاتی نظام کامرکزانسان کابرین (brain)ہے۔آپ کے برین کے اندرتقریباًایک ہزار ملین عصبی خانے (nerve cells) ہیں۔ ہرخانے سے بہت باریک تارنکل کرتمام جسم کے اندرپھیلے ہوتے ہیں جن کوعصبی ریشے (nerve fibers)کہتے ہیں۔ ان پتلے ریشوں پر خبروصول کرنے اورحکم بھیجنے کاایک نظام تقریباً ستر(70) میل فی گھنٹہ کی رفتارسے دوڑتا رہتاہے۔انھیں اعصاب کے ذریعہ ہم چکھتے ہیں ،سنتے ہیں ،دیکھتے ہیں ،محسوس کرتے ہیں ، اور ساراعمل کرتے ہیں۔ زبان میں تین ہزار ذائقہ خانے (taste buds) ہیں ،جن میں ہرایک اپنے علیٰحدہ عصبی تارکے ذریعہ دماغ سے جڑا ہوا ہے۔انھیں کے ذریعہ وہ ہرقسم کے مزوں کومحسوس کرتاہے، کان میں ایک لاکھ تعدادمیں سماعت خانے ہوتے ہیں۔انھیں خانوں سے ایک نہایت پیچیدہ عمل کے ذریعہ ہمارادماغ سنتاہے۔ ہرآنکھ میں 130ملین روشنی اخذ کرنے والے(light receptors) ہوتے ہیں ، جو تصویری مجموعے دماغ کوبھیجتے ہیں۔ہماری تمام جلدمیں حسیاتی ریشوں کاایک جال بچھاہواہے۔ اگر ایک گرم چیزجلدکے سامنے لائی جائے تو تقریباً 30ہزار “گرم خانے ‘‘اس کومحسوس کرکے فوراًدماغ کو اس کی خبردیتے ہیں۔اسی طرح جلدمیں دولاکھ پچاس ہزارخانے ایسے ہیں ،جوسردچیزوں کو محسوس کرتے ہیں۔ جب کوئی سردچیزجسم سےملتی ہے تودماغ اس کی خبروں سے بھرجاتاہے، جسم کانپنے لگتا ہے،جلدکی رگیں پھیل جاتی ہیں ،فوراًمزیدخون رگوں میں دوڑکرآتاہے تاکہ زیادہ گرمی پہونچائی جاسکے۔اگرہم شدید گرمی سے دوچارہوں توگرمی کے مخبرین دماغ کواطلاع کرتے ہیں ، اورتین ملین پسینہ کے غدود (glands) ایک ٹھنڈاعرق خارج کرناشروع کرتے ہیں۔

عصبی نظام (nervous system) کی کئی تقسیمیں ہیں۔ ان میں سے ایک خودکار عصبی نظام (autonomic nervous system [ANS]) ہے۔یہ ایسے افعال انجام دیتا ہے، جو خودبخود جسم کے اندر ہوتے رہتے ہیں۔مثلاًہضم، سانس لینااوردل کی حرکت، وغیرہ۔پھراس عصبی شاخ کے بھی تین حصّے ہیں ، ایک کانام ہے، مشارک نظام (sympathetic nervous system جوکہ حرکت پیدا کرتا ہے، اور دوسرا parasympathetic nervous system ہے، جوروک کاکام کرتا ہے،اور تیسرا enteric nervous system ہے، یہ ہضم کا نظام کنٹرول کرتا ہے۔ اگرجسم تمام ترپہلے کے قابومیں چلا جائے تو، مثال کے طورپر، دل کی حرکت اتنی تیزہوجائے کہ موت آجائے، اور اگر بالکل دوسرے کا اختیار ہو جائے تودل کی حرکت ہی رک جائے،وغیرہ۔ یہ تینوں شاخیں نہایت صحت کے ساتھ مل کراپنااپناکام کرتی ہیں۔ جب دباؤ کے وقت فوری طاقت کی ضرورت ہوتی ہے تومشارک نظام کوغلبہ حاصل ہو جاتا ہے، اور دل اورپھیپھڑے تیزی سے کام کرنے لگتے ہیں ، اسی طرح نیندکے وقت parasympathetic کاغلبہ ہوتا ہے۔ یہ تمام جسمانی حرکتوں پرسکوت طاری کر دیتا ہے۔ ہاضمے کا موقع آئے تو تیسرا نظام اپنا کام کرتا ہے۔( ریڈر ز ڈائجسٹ، اکتوبر1956ء(

اس طرح کے بے شمارپہلو ہیں ، اوراسی طرح کائنات کی ہرچیزمیں ایک زبردست نظام قائم ہے جس کے سامنے انسانی مشینوں کابہترسے بہتر نظام بھی مات ہے، اوراب توقدرت کی نقل بھی سائنس کاایک مستقل موضوع بن چکاہے۔ اس سے پہلے سائنس کا میدان صرف یہ سمجھاجاتاتھاکہ فطرت میں جوطاقتیں چھپی ہیں ، ان کودریافت کرکے استعمال کیاجائے، مگراب قدرت کے نظاموں کوسمجھ کر ان کی میکانکی نقل کوخاص اہمیت دی جارهي ہے، اس طرح ایک نیاعلم وجودمیں آیا، جس کو بایونکس (Bionics)کہتے ہیں ، بایونکس، یا حیاتیاتی نظام (Biological Systems)اورطریقوں کااس غرض سے مطالعہ کرتی ہے کہ جومعلومات حاصل ہوں انھیں انجینئرنگ کے مسائل حل کرنے میں استعمال کیاجائے۔

قدرت کی نقل کرنے کی اس قسم کی مثالیں ٹيکنالوجی میں پائی جاتی ہیں۔مثلاًکیمرہ دراصل آنکھ کی میکانکی نقل ہے، کیمرے کالينس (lens) آنکھ کے ڈھیلے کا بیرونی پردہ ہے، ڈائفرام (diaphragm) پردہ شبکی (iris)ہے، اورروشنی سے متاثرہونے والی فلم آنکھ کاپردہ ہے، جس میں عکس دیکھنے کے لیے ڈورے اورمخروطی شکلیں ہوتی ہیں۔(کوئی ذی ہوش یہ کہنے کی غلطی نہیں کرے گاکہ کیمرہ اتفاق سے بن کرتیارہوگیاہے، مگراس کے باوجوددنیاکے بہت سے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ “آنکھ محض اتفاق سے وجودمیں آگئی ہے۔‘‘) ما سکو یونیورسٹی میں زیرصوتی ارتعاش (infrasonic vibrations)معلوم کرنے اوراس کی پیمائش کرنے کاایک نمونے کاآلہ تیارکیاگیا ہے،جوطوفان کی آمدکی اطلاع 12سے 15 گھنٹے پہلے تک دے دیتاہے، یہ مروجہ آلوں سے پانچ گنازیادہ طاقت ورہے، اس کاخیال کس نے پیداکیا؟مچھلی (Jelly Fish)نے۔انجینئروں نے اس کے اعضاکی نقل کی، جو زیرصورت صوتی ارتعاش محسوس کرنے میں بڑے حساس ہوتے ہیں۔

Soviet Land, December 1963

اس طرح کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ، طبیعیاتی سائنس اورٹکنالوجی درحقیقت نئے تصورات کی نقل قدرت کے زندہ نمونوں سے حاصل کرتی ہے، بہت سے مسائل جوسائنس دانوں کے تخیل پربوجھ بنے ہوئے ہیں ، قدرت ان کومدتوں پہلے حل کرچکی ہے،پھرجس طرح کیمرہ اورٹیلی پرنٹرکاایک نظام انسانی ذہن کے بغیروجودمیں نہیں آسکتا، اسی طرح یہ بھی ناقابل تصورہے کہ کائنات کاپیچیدہ ترین نظام کسی ذہن کے بغیراپنے آپ قائم ہو، کائنات کی تنظیم قدرتی طورپرایک انجینئر اور ایک ناظم کاتقاضاکرتی ہے،اسی کانام خداہے،ہم کوجوذہن ملاہے، وہ ناظم کے بغیر تنظیم کاتصورنہیں کر سکتا،اس لیے غیرمعقول بات یہ نہیں ہے کہ ہم کائناتی تنظیم کے لیے ایک ناظم کا اقرارکریں،بلکہ یہ غیرمعقول رویہ ہوگاکہ ہم کائناتی تنظیم کے ناظم کوماننے سے انکارکردیں،حقیقت یہ ہے کہ انسانی ذہن کے پاس خداسے انکارکے لیے کوئی عقلی بنیادنہیں ہے۔

3۔ کائنات کوڑاکرکٹ کے ڈھیرکے مانندنہیں ہے بلکہ اس کے اندرحیرت انگیز معنویت ہے،یہ واقعہ صریح طورپراس بات کاثبوت ہے کہ اس کی تخلیق وتدبیرمیں کوئی ذہن کام کررہاہے،ذہنی عمل کے بغیر کسی چیز میں ایسی معنویت پیدانہیں ہوسکتی،محض اندھے مادی عمل سے اتفاقی طورپروجودمیں آجانے والی کائنات میں تسلسل نظم اورمعنویت پائے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ کائنات اس قدرحیرت انگیزطورپرموزوں اورمناسب ہے کہ یہ ناقابل تصورہے کہ یہ مناسبت اور موزونیت خودبخودمحض اتفاقًاوجود میں آگئی ہو— چاڈواش (Chadvalsh)کے الفاظ ہیں :

“ایک شخص،خواہ وہ خداکااقرارکرنے والاہویااس کامنکرہو،جائزطورپراس سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ دکھائے کہ اتفاق کاتوازن اس کے حق میں کس طرح ہوجاتاہے۔‘‘

The Evidence of God, p. 88

 زمین پرزندگی کے پائے جانے کے لیے اتنے مختلف حالات کی موجودگی ناگزیرہے کہ ریاضیاتی طورپریہ بالکل ناممکن ہے کہ وہ اپنے مخصوص تناسب میں محض اتفاقاًزمین کے اوپر اکٹھا ہوجائیں،اب اگرایسے حالات پائے جاتے ہیں تولازمًایہ مانناہوگاکہ فطرت میں کوئی ذی شعور رہنمائی موجودہے جوان حالات کوپیداکرنے کاسبب ہے۔

زمین اپنی جسامت کے اعتبارسے کائنات میں ایک ذرے کے برابربھی حیثیت نہیں رکھتی، مگراس کے باوجودوہ ہماری تمام معلوم دنیاؤں میں اہم ترین ہے،کیوں کہ ا س کے اوپرحیرت انگیزطورپروہ حالات مہیاہیں ، جوہمارے علم کے مطابق اس وسیع کائنات میں کہیں نہیں پائے جاتے۔

سب سے پہلے زمین کی جسامت کولیجیے،اگراس کاحجم کم یازیادہ ہوتاتواس پرزندگی محال ہوجاتی۔ مثلاًکرۂ زمین،اگرچاند اتناچھوٹاہوتا،یعنی اس کاقطرموجودہ قطرکی نسبت سے ایک چوتھائی 1/4 ہوتا تو اس کی کشش ثقل، زمین کی موجودہ کشش کا 1/6 رہ جاتی، کشش کی اس کمی کانتیجہ یہ ہوتاکہ ہماری زمین پانی اورہواکواپنے اوپرروک نہ سکتی،جیساکہ جسامت کی اسی کمی کی وجہ سے چاندمیں واقع ہوا ہے،چاندپراس وقت نہ توپانی ہے،اورنہ کوئی ہوائی کرہ ہے، ہواکاغلاف نہ ہونے کی وجہ سے وہ رات کے وقت بیحد سرد ہوجاتا ہے، اوردن کے وقت تنور کے مانندجلنے لگتاہے، اسی طرح کم جسامت کی زمین جب کشش کی کمی کی وجہ سے پانی کی اس کثیر مقدارکوروک نہ سکتی جوزمین پرموسمی اعتدال کوباقی رکھنے کاایک اہم ذریعہ ہے،اوراسی بنا پر ایک سائنس داں نے اس کوعظیم توازنی پہیہ (Great Balance-Wheel) کانام دیا ہے (دیکھیےThe Evidence of God )، اورہواکاموجودہ غلاف اڑکرفضامیں گم ہوجاتا تواس کاحال یہ ہوتاکہ اس کی سطح پردرجہ حرارت چڑھتاتوانتہائی حدتک چڑھ جاتا، اورگرتاتوانتہائی حدتک گرجاتا،اس کے برعکس اگرزمین کا قطر موجودہ کی نسبت سے دگنا ہوتا تواس کی کشش ثقل بھی دگنی بڑھ جاتی، کشش کے اس اضافہ کانتیجہ یہ ہوتا کہ ہوا،جواس وقت زمین کے اوپرپانچ سومیل کی بلندی تک پائی جاتی ہے،وہ کھنچ کربہت نیچے تک سمٹ جاتی،اس کے دباؤ میں فی مربع انچ 15تا30پونڈکااضافہ ہوجاتا،جس کا ردعمل مختلف صورتوں میں زندگی کے لیے نہایت مہلک ثابت ہوتا،اوراگرزمین سورج کے برابر ہوتی اوراس کی کثافت برقراررہتی تواس کی کشش ثقل دیڑھ سوگنابڑھ جاتی، ہواکے غلاف کی دبازت گھٹ کرپانچ سومیل کے بجائے صرف چارمیل رہ جاتی،نتیجہ یہ ہوتاکہ ہواکادباؤ ایک ٹن فی مربع انچ تک جا پہنچتا، اس غیر معمولی دباؤ کی وجہ سے زندہ اجسام کانشوونماممکن نہ رہتا،ایک پونڈوزنی جانورکاوزن ایک سو پچاس پونڈہوجاتاانسان کاجسم گھٹ کرگلہری کے برابرہوجاتااوراس میں کسی قسم کی ذہنی زندگی ناممکن ہوجاتی،کیوں کہ انسانی ذہانت حاصل کرنے کے لیے بہت کثیرمقدارمیں اعصابی ریشوں کی موجودگی ضروری ہے، اوراس طرح کے پھیلے ہوئے ریشوں کانظام ایک خاص درجہ کی جسامت ہی میں پایا جاسکتا ہے۔

بظاہرہم زمین کے اوپرہیں ، مگرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ہم اس کے نیچے سرکے بل لٹکے ہوئے ہیں۔زمین گویافضامیں معلق ایک گیندہے،جس کے چاروں طرف انسان بستے ہیں ، کوئی شخص ہندستان کی زمین پرکھڑاہوتوامریکا کے لوگ بالکل اس کے نیچے ہوں گے، اورامریکا میں کھڑا ہو تو ہندستان اس کے نیچے ہوگا۔پھرزمین ٹھہری ہوئی نہیں ہے۔بلکہ ایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے مسلسل گھوم رہی ہے۔ایسی حالت میں زمین کی سطح پرہماراانجام وہی ہوناچاہیے،جیسے سائیکل کے پہیے پرکنکریاں رکھ کر پہیے کوتیزی سے گھمادیاجائے۔ مگرایسانہیں ہوتا۔کیوں کہ ایک خاص تناسب سے زمین کی کشش اورہوا کا دباؤ ہم کوٹھہرائے ہوئے ہیں۔ زمین کے اندرغیرمعمولی قوت کشش ہے جس کی وجہ سے وہ تمام چیزوں کواپنی طرف کھینچ رہی ہے،اوراوپرسے ہواکامسلسل دباؤ پڑتاہے۔ اسی دوطرفہ عمل نے ہم کوزمین کے گولے پرچاروں طرف لٹکارکھاہے۔ ہوا کا دباؤ انسانی جسم پر ہر ایک مربع انچ کے اوپر ساڑھے پندرہ پاؤنڈ پڑتا ہے۔آدمی اس وزن کومحسوس نہیں کرتا۔ کیوں کہ ہواجسم کے چاروں طرف ہے۔ دباؤ ہرطرف سے پڑتاہے۔ اس لیے آدمی کو محسوس نہیں ہوتا،جیساکہ پانی میں غوطہ لگانے کی صورت میں ہوتاہے۔

اس کے علاوہ ہوا— جومختلف گیسوں کے مخصوص مرکب کانام ہے،اس کے بے شمار دیگر فائدے ہیں ، جن کابیان کسی کتاب میں ممکن نہیں۔

نیوٹن اپنے مشاہدہ اورمطالعہ سے اس نتیجہ پرپہنچاتھاکہ تمام اجسام ایک دوسرے کواپنی طرف کھینچتے ہیں ،مگراجسام کیوں ایک دوسرے کوکھینچتے ہیں۔ اس سوال کااس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، چنانچہ اس نے کہاکہ میں اس کی کوئی توجیہ پیش نہیں کرسکتا۔وائٹ هيڈ (A. N. Whitehead) اس کاحوالہ دیتے ہوئے کہتاہے:

“نیوٹن نے یہ کہہ کرایک عظیم فلسفیانہ حقیقت کااظہارکیاہے،کیوں کہ فطرت اگر بے روح فطرت ہے، تووہ ہم کوتوجیہ نہیں دے سکتی،ویسے ہی جیسے مردہ آدمی کوئی واقعہ نہیں بتاسکتا، تمام عقلی اورمنطقی توجیہات آخری طورپرایک مقصدیت کااظہارہیں ،جب کہ مردہ کائنات میں کسی مقصدیت کاتصورنہیں کیاجاسکتا۔‘‘

The Age of Analysis, p. 85

وائٹ ہڈکے الفاظ کوآگے بڑھاتے ہوئے میں کہوں گاکہ کائنات اگرکسی صاحبِ شعورکے زیراہتمام نہیں ہے، تواس کے اندراتنی معنویت کیوں پائی جاتی ہے۔

زمین اپنے محورپرچوبیس گھنٹے میں ایک چکرپوراکرلیتی ہے،یایوں کہیے کہ وہ اپنے محورپرایک ہزارمیل فی گھنٹہ کی رفتارسے چل رہی ہے۔فرض کرواس کی رفتاردوسومیل فی گھنٹہ ہوجائے اوریہ بالکل ممکن ہے۔ایسی صورت میں ہمارے دن اورہماری راتیں موجودہ کی نسبت سے دس گنازیادہ لمبے ہوجائیں گے۔گرمیوں کاسخت سورج ہردن تمام نباتات کو جلادے گااورجوبچے گاوہ لمبی رات کی ٹھندک میں پالے کی نذرہوجائے گا۔سورج جو اس وقت ہمارے لیے زندگی کاسرچشمہ ہے۔اس کی سطح پربارہ ہزارڈگری فارن ہائٹ کا ٹمپریچرہے، اورزمین سے اس کافاصلہ تقریباًنوکروڑتیس لاکھ میل ہے اوریہ فاصلہ حیرت انگیزطورپرمسلسل قائم ہے۔یہ واقعہ ہمارے لیے بے حداہمیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اگریہ فاصلہ گھٹ جائے۔مثلاًسورج نصف کے بقدرقریب آجائے توزمین پراتنی گرمی پیداہوکہ اس سے کاغذجلنے لگے،اوراگرموجودہ فاصلہ دگنا ہوجائے تو اتنی ٹھنڈک پیدا ہو کہ زندگی باقی نہ رہے۔ یہی صورت اس وقت پیدا ہوگی جب موجودہ سورج کی جگہ کوئی دوسراغیرمعمولی ستارہ آجائے۔ مثلاًکوئی بہت بڑاستارہ جس کی گرمی ہمارے سورج سے دس ہزارگنازیادہ ہے،اگروہ سورج کی جگہ ہوتاتوزمین کوآگ کی بھٹی بنادیتا۔

زمین 23درجہ کازاویہ بناتی ہوئی فضامیں جھکی ہوئی ہے۔یہ جھکاؤہمیں ہمارے موسم دیتاہے۔ اس کے نتیجے میں زمین کازیادہ سے زیادہ حصہ آبادکاری کے قابل ہوگیاہے، اور مختلف قسم کے نباتات اورپیداوارحاصل ہوتی ہیں۔ اگرزمین اس طرح سے جھکی ہوئی نہ ہوتی توقطبین پرہمیشہ اندھیر ا رہتا۔ سمندر کے بخارات شمال اورجنوب کی جانب سفر کرتے اور زمین پریاتوبرف کے ڈھیرہوتےیا صحرائی میدان۔ اس طرح کے اوربہت سے اثرات ہوتے جس کے نتیجے میں بغیرجھکی ہوئی زمین پرزندگی ناممکن ہوجاتی۔

یہ کس قدرناقابل قیاس بات ہے کہ مادہ نے خودکواپنے آپ اس قدرموزوں اور مناسب شکل میں منظم کرلیا!اگرسائنس دانوں کاقیاس صحیح ہے کہ زمین سورج سے ٹوٹ کرنکلی ہے تواس کامطلب یہ ہے کہ ابتدائی زمین کادرجۂ حرارت وہی رہاہوگاجوسورج کاہے،یعنی بارہ ہزارڈگری فارن ہائٹ، اس کے بعدوہ دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہوناشروع ہوئی، آکسیجن اورہائیڈروجن کاملنااس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتاجب تک زمین کادرجۂ حرارت گھٹ کرچارہزارڈگری پرنہ آجائے،اسی موقع پردونوں گیسوں کے باہم ملنے سے پانی بنا، اس کے بعدکروڑوں سال تک زمین کی سطح اوراس کی فضا میں زبردست انقلابات ہوتے رہے، یہاں تک کہ غالباً ایک ملین سال پہلے زمین اپنی موجودہ شکل میں تیارہوئی، زمین کی فضامیں جوگیسیں تھیں ان کاایک بڑاحصّہ خلامیں چلاگیا،ایک حصہ نے پانی کے مرکب کی صورت اختیار کی، ایک حصہ زمین کی تمام چیزوں میں جذب ہوگیا،اورایک حصّہ ہواکی شکل میں ہماری فضامیں باقی رہ گیا جس کابیشترجزءآکسیجن اورنائٹروجن ہے یہ ہوااپنی کثافت کے اعتبارسے زمین کاتقریباًدس لاکھواں حصّہ ہے— کیوں نہیں ایساہواکہ تمام گیسیں جذب ہوجاتیں یا کیوں ایسانہیں ہواکہ موجودہ کی نسبت سے ہواکی مقداربہت زیادہ ہوتی، دونوں صورتوں میں انسان زندہ نہیں رہ سکتاتھا،یااگربڑھی ہوئی گیسوں کے ہزاروں پونڈفی مربع انچ بوجھ کے نیچے زندگی پیدابھی ہوتی تویہ ناممکن تھاکہ وہ انسان کی شکل میں نشوونما پا سکے۔

زمین کی اوپری پرت اگردس فٹ موٹی ہوتی توہماری فضامیں آکسیجن کاوجودنہ ہوتا،جس کے بغیرحیوانی زندگی ناممکن ہے۔ اسی طرح اگرسمندرکچھ فٹ اورگہرے ہوتے تو کاربن ڈائی آکسائڈ اور آکسیجن کوجذب کرلیتے اورزمین کی سطح پرکسی قسم کی نباتات زندہ نہ رہ سکتیں،اگرزمین کے اوپرکی ہوائی فضاموجودہ کی نسبت سے لطیف ہوتی توشہاب ثاقب (meteoroid)جوہرروزاوسطًادوکروڑکی تعدادمیں اوپری فضا میں داخل ہوتے ہیں اوررات کے وقت ہم کوجلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ زمین کے ہرحصّے میں گرتے۔یہ شہابیے (meteoroids) چھ سے چالیس میل تک فی سکنڈکی رفتار سے سفرکرتے ہیں۔ وہ زمین کے اوپر ہر آتش پذیرمادے کو جلا دیتے اورسطح زمین کو چھلنی کردیتے، شہاب ثاقب بندوق کی گولی سے نوے گنا زیادہ رفتار کے ساتھ انسان جیسی مخلوق کومحض اپنی گرمی سے ٹکڑے کردیتی، مگرہوائی کرہ اپنے نہایت مناسب موٹائی کی وجہ سے ہم کو شہابِ ثاقب کی آتشیں بوچھارسے محفوظ رکھتاہے۔ ہوائی کرہ ٹھیک اتنی کثافت رکھتاہے کہ سورج کی کیمیائی اہمیت رکھنے والی شعائیں (actinic rays)اسی مناسب مقدارسے زمین پر پہنچتی ہیں ،جتنی نباتات کواپنی زندگی کے لیے ضرورت ہے جس سے مضر بیکٹیريامرسکتے ہیں ، جس سے وٹامن تیارہوسکتے ہیں ، وغیرہ وغیرہ۔

زمین پر ہر چیز کااس طرح عین ہماری ضرورتوں کے مطابق ہوناکس قدرعجیب ہے۔

زمین کی اوپری فضاچھ گیسوں کامجموعہ ہے،جس میں تقریباً78فیصد نائٹروجن اور 21فیصد آکسیجن ہے،باقی گیسیں بہت خفیف تناسب میں پائی جاتی ہیں ،اس فضاسے زمین کی سطح پر تقریبا ً 15پونڈفی مربع انچ کادباؤ پڑتاہے، جس میں آکسیجن کاحصّہ 3پوندفی مربع انچ ہے،موجودہ آکسیجن کا بقیہ حصّہ زمین کی تہوں میں جذب ہے، اوروہ دنیاکے تمام پانی کا دس میں سے آٹھ حصہ بناتاہے آکسیجن تمام خشکی کے جانوروں کے لیے سانس لینے کاذریعہ ہے،اوراس مقصدکے لیے فضاکے سوا کہیں اور سے حاصل نہیں کیاجاسکتا۔

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ یہ انتہائی متحرک گیسیں کس طرح آپس میں مرکب ہوئیں اورٹھیک اس مقداراوراس تناسب میں فضاکے اندرباقی رہ گئیں جوزندگی کے لیے ضروری تھا،مثال کے طورپر آکسیجن 21فیصد کے بجائے پچاس فیصد یااس سے زیادہ مقدارمیں فضاکاجزہوتاتوسطح زمین کی تمام چیزوں میں آتش پذیری کی صلاحیت اتنی بڑھ جاتی کہ ایک درخت میں آگ پکڑتے ہی ساراجنگل بھک سے اڑجاتا،اسی طرح اگراس کاتناسب گھٹ کر10فیصد رہتاتوممکن ہے زندگی صدیوں کے بعدہم آہنگی اختیارکرلیتی مگرانسانی تہذیب موجودہ شکل میں ترقی نہیں کرسکتی تھی، اور اگر آزاد آکسیجن بھی بقیہ آکسیجن کی طرح زمین کی چیزوں میں جذب ہوگئی ہوتی توحیوانی زندگی سرے سے ناممکن ہوجاتی۔

آکسیجن، ہائیڈروجن، کاربن ڈائی آکسائڈاورکاربن گیسیںالگ الگ مختلف شکلوں میں مرکب ہوکرحیات کے اہم ترین عناصر ہیں ،یہی وہ بنیادیں ہیں ،جن پرزندگی قائم ہے، اس کاایک فی ارب بھی امکان نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں کسی ایک سیارہ پراس مخصوص تناسب کے ساتھ اکٹھاہوجائیں، ایک عالم طبیعیات کے الفاظ ہیں — سائنس کے پاس ان حقائق کی توجیہ کے لیے کوئی چیزنہیں ہے، اوراس کواتفاق کہناریاضیات سے کشتی لڑنے کے ہم معنی ہے:

“Science has no explanation to offer for the facts, and to say it is accidental is to defy mathematics.”

(The Age of Analysis, p. 33)

ہماری دنیامیں بے شمارایسے واقعات موجودہیں جن کی توجیہ اس کے بغیرنہیں ہوسکتی کہ اس کی تخلیق میں ایک برترذہانت کادخل تسلیم کیاجائے۔

 پانی کی مختلف نہایت اہم خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ برف کی کثافت (density)پانی سے کم ہوتی ہے،پانی وہ واحدمعلوم مادہ ہے، جوجمنے کے بعد ہلکا ہوجاتا ہے، یہ چیز بقائے حیات کے لیے زبردست اہمیت رکھتی ہے،ا س کی وجہ سے یہ ممکن ہوتاہے کہ برف پانی کی سطح پر تیرتا رہتا ہے، اوردریاؤں جھیلوں اورسمندروں کی تہ میں بیٹھ نہیں جاتا،ورنہ آہستہ آہستہ ساراپانی ٹھوس اور منجمد ہوجائے،یہ پانی کی سطح پرایک ایسی حاجب تہہ بن جاتاہے کہ ا س کے نیچے کادرجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے اوپرہی اوپر رہتا ہے، ا س نادر خاصیت کی وجہ سے مچھلیاں اوردیگرآبی جانورزندہ رہتے ہیں ، ا س کے بعدجونہی موسم بہار آتا ہے،برف فورًاپگھل جاتاہے، اگرپانی میں یہ خاصیت نہ ہوتی توخاص طور پر سرد ملکوں کے لوگوں کوبہت بڑی دقت کاسامناکرناپڑتا۔

بیسویں صدی کے آغازمیں جب کہ امریکا میں انڈوتھیا(Endothia) نام کی بیماری شاہ بلوط (Chestnut) کے درختوں پرحملہ آورہوئی اورتیزی سے پھیلی توبہت سے لوگوں نے جنگل کی چھتری میں شگاف دیکھ کرکہا،”یہ شگاف اب پُرنہیں ہوں گے‘‘ امریکی شاہ بلوط کی بالادستی کوابھی تک کسی اورقسم کے اشجارنے نہیں چھیناتھا،اونچے درجے کی دیر پا عمارتي لکڑی اوراس طرح کے دوسرے فوائداس کے لیے خاص تھے،یہاں تک کہ 1900 میں ایشیاسے انڈوتھیانام کی بیماری کا ورود ہوااس وقت تک یہ جنگلات کابادشاہ خیال کیاجاتاتھا، مگر اب جنگلات میں یہ درخت تقریباً ناپید ہوچکاہے۔

لیکن جنگلات کے یہ شگاف جلدہی پرہوگئے،کچھ دوسرے درخت (Tulip Trees) اپنی نشوونما کے لیے شایدانھیں شگافوں کاانتظارکررہے تھے، شگاف پیداہونے سے پہلے تک یہ درخت جنگلات کا معمولی ساجزءتھے،اورشاذہی بڑھتے اورپھولتے تھے، لیکن اب شاہ بلوط کی عدم موجودگی کاکسی کو احساس تک نہیں ہوتا،کیوں کہ اب دوسری قسم کے درخت پوری طرح ان کی جگہ لے چکے ہیں ، یہ دوسرے درخت سال بھرمیں ایک انچ محیط میں اورچھ فٹ لمبائی میں بڑھتے ہیں ، اتنی تیزی کے ساتھ بڑھنے کے علاوہ بہترین لکڑی جوبالخصوص باریک تہوں کے کام آسکتی ہے، ان سے حاصل کی جاتی ہے۔

اسی صدی کاواقعہ ہے،ناگ پھنی کی ایک قسم آسٹریلیامیں کھیتوں کی باڑھ قائم کرنے کے لیے بوئی گئی آسٹریلیامیں اس ناگ پھنی کاکوئی دشمن کیڑانہیں تھا، چنانچہ وہ بہت تیزی سے بڑھناشروع ہوگئی، یہاں تک کہ انگلینڈ کے برابررقبہ پرچھاگئی،وہ شہروں اور دیہاتوںمیں آبادی کے اندرگھس گئی، کھیتوں کوویران کردیااورزراعت کو ناممکن بنادیا،کوئی تدبیربھی اس کے خلاف کارگرثابت نہیں ہوتی تھی،ناگ پھنی آسٹریلیا کے اوپرایک ایسی فوج کی طرح مسلط تھی جس کااس کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا، بالآخرماہرین حشرات الارض دنیابھرمیں اس کاعلاج تلاش کرنے کے لیے نکلے، یہاں تک کہ ان کی رسائی ایک کیڑے تک ہوئی جوصرف ناگ پھنی کھاکرزندہ رہتا تھا، اس کے سوااس کی کوئی خوراک نہیں تھی،وہ بہت تیزی سے اپنی نسل بڑھاتا تھا، اور آسٹریلیامیں اس کاکوئی دشمن نہیں تھا،اسی کیڑے نے آسٹریلیامیں ناگ پھنی کی ناقابل تسخیرفوج پرقابوپالیااور وہاں سے ا س مصیبت کاخاتمہ ہوگیا۔

قدرت کے نظام میں یہ ضبط وتوازن (Checks and Balances) کی عظیم تدبیریں کیا کسی شعوری منصوبے کے بغیرخودبخودوجودمیں آجاتی ہیں ؟

کائنات میں حیرت انگیزطورپرریاضیاتی قطعیت پائی جاتی ہے، یہ جامدوبے شعورمادہ جو ہمارے سامنے ہے، اس کاعمل غیرمنظم اوربے ترتیب نہیں بلکہ وہ متعین قوانین کا پابند ہے “پانی‘‘کا لفظ خواہ دنیاکے جس خطہ میں اورجس وقت بھی بولاجائے اس کاایک ہی مطلب ہوگا— ایک ایسا مرکب جس میں 1،11فیصدہائیڈروجن اور88,9فیصدآکسیجن۔ایک سائنس داں جب تجربہ گاہ میں داخل ہوکرپانی سے بھر ے ہوئے ایک پیالے کوگرم کرتا ہے، تو وہ تھرمامیٹرکے بغیریہ بتاسکتاہے کہ پانی کانقطۂ جوش 100درجہ سینٹی گریڈہے، جب تک کہ ہوا کا د باؤ (Atmospheric Pressure) 670 ایم ایم رہے،اگرہواکا دباؤ اس سے کم ہوتواس حرارت کووجودمیں لانے کے لیے کم طاقت درکار ہوگی جوپانی کے سالمات کو توڑ کر بخارات کی شکل دیتی ہے، اس طرح نقطۂ جوش سودرجہ سے کم ہوجائے گا، یہ تجربہ اتنی بار آزمایاگیاہے کہ ا س کویقینی طورپرپہلے سے بتایاجاسکتاہے کہ پانی کانقطۂ جوش کیا ہے، اگرمادہ اورتوانائی کے عمل میں یہ نظم اورضابطہ نہ ہوتاتوسائنسی تحقیقات اور ایجادات کے لیے کوئی بنیادنہ ہوتی،کیوں کہ پھراس دنیامیں محض اتفاقات کی حکمرانی ہوتی اورعلمائے طبیعیات کے لیے یہ بتاناممکن نہ رہتاکہ فلاں حالت میں فلاں طریق عمل کے دہرانے سے فلاں نتیجہ پیداہوگا۔

کیمیاکے میدان میں نوواردطالب علم سب سے پہلے جس چیزکامشاہدہ کرتاہے،وہ عناصر میں نظم اوردَوریت ہے، سوسال پہلے ایک روسی ماہرکیمیامنڈلیف(Mendeleev ) نے جوہری قدرکے لحاظ سے مختلف کیمیائی عناصرکوترتیب دیاتھا، جس کودَوری نقشہ (Periodic Chart) کہا جاتا ہے،اس وقت تک موجودہ تمام عناصردریافت نہیں ہوئے تھے،اس لیے اس کے نقشہ میں بہت سے عناصرکے خانے خالی تھے،جو عین اندازے کے مطابق بعدکوپرہوگئے ان نقشوں میں سارے عناصرجوہری نمبروں کے تحت اپنے اپنے مخصوص گروپوں میں درج کیے جاتے ہیں ،جوہری نمبرسے مراد مثبت برقیوں (Protons) کی وہ تعدادہے جوایٹم کے مرکزمیں موجودہوتی ہے،یہی تعدادایک عنصرکے ایٹم اور دوسرے عنصرکے ایٹم میں فرق پیداکردیتی ہے، ہائیڈروجن جوسب سے سادہ عنصر ہے۔ اس کے ایٹم کے مرکزمیں ایک پروٹون ہوتاہے،ہیلیم میں دواورلیتھیم میں تین،مختلف عناصر کی جدول تیارکرنااسی لیے ممکن ہوسکاکہ ان میں حیرت انگیزطورپرایک ریاضیاتی اصول کارفرما ہے، نظم و ترتیب کی اس سے بہترمثال اورکیاہوسکتی ہے کہ عنصر101کی شناخت محض اس کے 17پروٹونوں کے مطالعہ سے کرلی گئی،قدرت کی اس حیرت انگیزتنظیم کوہم دوری اتفاق (Periodic Chance) نہیں کہتے،بلکہ اس کو دوری ضابطہ(Periodic Law) کہتے ہیں ، مگرنقشہ اورضابطہ جویقینی طور پر ناظم اورمنصوبہ ساز کا تقاضاکرتے ہیں ، منکرِ خدا اس کا انکار کر دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدیدسائنس اگر خدا کو نہ مانے تووہ خوداپنی تحقیق کے ایک لازمی نتیجے کاانکارکرے گی۔

11اگست 1999ءمیں ایک سورج گرہن واقع ہوگاجوکارنوال (Cornwall) میں مکمل طورپردیکھاجاسکے گا‘‘—یہ محض ایک قیاسی پیشین گوئی نہیں ہے بلکہ علمائے فلکیات یقین رکھتے ہیں کہ نظام شمسی کے موجودہ گردشی نظام کے تحت اس گہن کاپیش آنایقینی ہے،جب ہم آسمان میں نظرڈالتے ہیں توہم لاتعدادستاروں کوایک نظام میں منسلک دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ ان گنت صدیوں سے اس فضائے بسیط میں جوعظیم گیندیں معلق ہیں۔ وہ ایک ہی معین راستے پرگردش کرتی چلی جارہی ہیں۔ وہ اپنے مداروں میں اس نظم کے ساتھ آتی اورجاتی ہیں کہ ان کے جائے وقوع اوران کے درمیان ہونے والے واقعات کاصدیوں پیشتربالکل صحیح طورپراندازہ کیاجاسکتاہے۔ پانی کے ایک حقیر قطرے سے لے کر فضائے بسیط میں پھیلے ہوئے دوردرازستاروں تک ایک بے مثال نظم وضبط پایا جاتا ہے۔ ان کے عمل میں اس درجہ یکسانیت ہے کہ اس بنیادپرقوانین مرتب کرتے ہیں۔

نیوٹن کانظریۂ کشش فلکیاتی کروں کی گردش کی توجیہ کرتاہے۔ا س کے نتیجے میں A.C. Adams اورلاویرے(U. Leverrier) کووہ بنیادملی، جس سے وہ دیکھے بغیر ایک ایسے سیارے کے وجود کی پیشین گوئی کرسکیں، جواس وقت تک نامعلوم تھا۔چنانچہ ستمبر 1946ء کوایک رات کوجب برلن آبزرویٹری کی دوربین کارخ آسمان میں ان کے بتائے ہوئے مقام کی طرف کیاگیاتوفی الواقع نظر آیاکہ ایساایک سیارہ نظام شمسی میں موجود ہے،جس کوہم اب نیپچون (Neptune) کے نام سے جانتے ہیں — کس قدرناقابل قیاس بات ہے کہ کائنات میں یہ ریاضیاتی قطعیت خودبخودقائم ہوگئی ہو۔

کائنات کی حکمت ومعنویت کاایک پہلویہ بھی ہے کہ اندرسے ایسے امکانات رکھے گئے ہیں کہ انسان بوقت ضرورت تصرف کرکے اس کواپنے لیے استعمال کرسکے،مثال کے طورپرنائٹروجن کے مسئلہ کولیجیے،ہواکے ہرجھونکے میں نائٹروجن 78فی صدہوتاہے،اس کے علاوہ بہت سے کیمیائی اجزاء ہیں ، جن میں نائٹروجن شامل ہوتاہے، ان کوہم مرکب نائٹروجن کہہ سکتے ہیں ، یہی وہ نائٹروجن ہے،جس کوپودے استعمال کرتے ہیں اورجن سے ہماری غذاکانائٹروجنی حصّہ تیارہوتاہے،اگریہ نہ ہوتوانسان اورجانوربھوکے مرجائیں۔

صرف دوطریقے ہیں ،جن سے قابل تحلیل نائٹروجن مٹی میں مل کرکھادبنتاہے،اگریہ نائٹروجن مٹی میں شامل نہ ہوتوکوئی بھی غذائی پودانہ اُگے،ایک طریقہ جس سے یہ نائٹروجن مٹی میں شامل ہوتاہے وہ مخصوص بیکٹیریائی عمل ہے،یہ بیکٹیریا دال کے پودوں کی جڑوں میں رہتے ہیں ، اورہواسے نائٹروجن لے کراس کومرکب نائٹروجن کی شکل دیتے رہتے ہیں ، پودا جب سوکھ کرختم ہوجاتاہے تواس مرکب نائٹروجن کاکچھ حصّہ زمین میں رہ جاتاہے۔

دوسراذریعہ جس سے مٹی کونائٹروجن ملتاہے،وہ بجلی کاکڑکاہے۔ہربارجب بجلی کی رو فضا میں گزرتی ہے تووہ تھوڑے سے آکسیجن کونائٹروجن کے ساتھ مرکب کردیتی ہے جوکہ بارش کے ذریعہ ہمارے کھیتوں میں پہنچ جاتاہے،اس طرح سے جونائٹریٹ نائٹروجن حاصل ہوتاہے،اس کا اندازہ سالانہ ایک ایکڑزمین میں پانچ پونڈہے جوکہ تیس پونڈسوڈیم نائٹریٹ کے برابرہے۔

Lyon, Bockman and Brady, The Nature and Properties of Soil

 یہ دونوں طریقے بہرحال ناکافی تھے، اوریہی وجہ ہے کہ وہ کھیت جن میں عرصہ دراز تک کھیتی ہوتی رہتی ہے،ان کانائٹروجن ختم ہوجاتاہے، اوراسی لیے کاشتکارفصلوں کاالٹ پھیرکرتے رہتے ہیں یہ کس قدرعجیب بات ہے کہ ایک ایسے مرحلے میں جب کہ اضافہ آبادی اور کثرت کاشت کی وجہ سے مرکب نائٹروجن کی کمی محسوس کی جانے لگی تھی، اورانسان کومستقبل میں قحط کے آثارنظرآنے لگے تھے، اوریہ صرف موجودہ صدی کے آغازکی بات ہے کہ عین اس وقت وہ طریقہ دریافت ہوگیا جس سے ہواکے ذریعہ مصنوعی طورپرمرکب نائٹروجن بنایا جاسکتا ہے،مرکب نائٹروجن بنانے کے لیے جو کوششیں کی گئیں،ان میں سے ایک یہ تھی کہ فضامیں مصنوعی طورپربجلی کا کڑکا پیدا کیا گیا، کہا جاتا ہے کہ ہوامیں بجلی کی چمک پیداکرنے کے لیے تقریباًتین لاکھ ہارس پاورکی قوت استعمال کی گئی، اور جیساکہ پہلے سے اندازہ کیا جاچکا تھا، ایک قلیل مقدارنائٹروجن کی تیارہوگئی،مگراب انسان کی خداداد عقل نے ایک قدم اورآگے بڑھایااورانسانی تاریخ کے دس ہزارسال بعدایسے طریقے معلوم کرلیے گئے ہیں ، جن سے وہ اس گیس کوکھادمیں تبدیل کرسکتاہے، اس کے بعدانسان اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ اپنی غذاکے اس لازمی جزءکوتیارکرسکے جس کے بغیروہ بھوکوں مرجاتا،یہ نہایت عجیب حسن اتفاق ہے کہ زمین کی تاریخ میں پہلی بارعین وقت پرانسان نے قلت خوراک کاحل دریافت کرلیا،یہ المیہ ٹھیک اس وقت رفع ہوگیاجب کہ اس کے واقع ہونے کاامکان تھا۔

کائنات میں اس طرح کی حکمت ومعنویت کے بے شمارپہلوہیں ، ہماری تمام سائنسوں نے ہم کو صرف یہ بتایاہے کہ جوکچھ ہم نے معلوم کیاہے، اس سے بہت زیادہ ہے وہ چیز، جس کومعلوم کرناابھی باقی ہے،تاہم جوکچھ انسان معلوم کرچکاہے، وہ بھی اتنا زیادہ ہے کہ اس کے صرف عنوانات کی فہرست دینے کے لیے موجودہ کتاب سے بہت زیادہ ضخیم کتاب کی ضرورت ہوگی،اورپھربھی عنوانات بچ رہیں گے،انسان کی زبان سے آلاءِ رب اورآیات ِالٰہی کا ہراظہارناقص اظہارہے،اس کی جتنی بھی تفصیل کی جائے،جہاں زبان وقلم رکیں گے وہاں یہ احساس ضرورموجودہوگاکہ ہم نے “بیان‘‘ نہیں کیابلکہ اس کی “تحدید‘‘ کردی، حقیقت یہ ہے کہ اگر سارے علوم منکشف ہوجائیں، اور اس کے بعدسارے انسان اس طرح لکھنے بیٹھ جائیںکہ دنیاکے تمام وسائل ان کے لیے مددگار ہوں، جب بھی کائنات کی حکمتوں کابیان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن کے الفاظ میں :

 وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ (31:27)۔ یعنی اگرزمین کے تمام درخت قلم ہوں اورموجودہ سمندروں کے ساتھ سات اور سمندر ان کی سیاہی کاکام دیں،جب بھی خداکی باتیں ختم نہ ہوں گی۔

جس نے بھی کائنات کاکچھ مطالعہ کیاہے، وہ بلاشبہ اعتراف کرے گاکہ کتاب الٰہی کے ان الفاظ میں ذرابھی مبالغہ نہیں ،وہ صرف ایک موجودہ حقیقت کاسادہ سااظہارہے۔

 پچھلے صفحات میں کائنات کے حیرت انگیزنظم اوراس کے اندر غیرمعمولی حکمت و معنویت کا جو حوالہ دیاگیاہے۔ مخالفین مذہب اس کوبطورواقعہ تسلیم کرتے ہوئے اس کی دوسری توجیہ کرتے ہیں ، اس میں انھیں کسی ناظم ومدبرکااشارہ نہیں ملتا،بلکہ یہ سب کچھ ان کے نزدیک محض’’اتفاق‘‘سے ہوگیا ہے۔ ٹی ایچ ہکسلے کے الفاظ میں چھ بندراگرٹائپ رائٹر پربیٹھ جائیں اورکروڑوں سال تک اسے پیٹتے رہیں توہوسکتاہے کہ ان کے سیاہ کیے ہوئے کاغذات کے ڈھیرمیں سے آخری کاغذ پر شیکسپیئرکی ایک نظم (Sonnet) نکل آئے، اسی طرح اربوں اورکھربوں سال مادہ کے اندھا دھند گردش کے دوران میں موجودہ کائنات بن گئی ہے۔

The Mysterious Universe, p. 3-4

یہ بات اگرچہ بجائے خودبالکل لغوہے،کیوں کہ ہمارے آج تک کے تمام علوم ایسے کسی اتفاق سے قطعًاناواقف ہیں جس کے نتیجہ میں اتناعظیم،اس قدربامعنی اورمستقل واقعہ وجود میں آجائے جیسی کہ یہ کائنات ہے،بلاشبہ ہم بعض اتفاقات سے واقف ہیں ، مثلاً ہوا کا جھونکا کبھی سرخ گلاب کے زیرہ(pollen)کواڑاکرسفیدگلاب پرڈال دیتاہے،جس کے نتیجے میں زردرنگ کاپھول کھلتا ہے، مگراس قسم کااتفاق صرف ایک انتہائی جزئی اوراستثنائی واقعہ کی توجیہ کرتاہے۔گلاب کاپورا وجود کائنات کے اندرایک حالت میں ا س کی مسلسل موجودگی اورسارے نظام عالم سے اس کا حیرت انگیز ربط، ہواکے اتفاقی جھونکے سے سمجھا نہیں جاسکتا۔’’اتفاقی واقعہ‘‘ کے لفظ میں ایک جزئی صداقت ہونے کے باوجودکائنات کی توجیہ کے اعتبارسے وہ ایک لغوبات ہے۔ پروفیسرایڈون (Edwin Conklin)کے الفاظ میں “زندگی کابذریعہ حادثہ(accident)وقوع میں آجاناایساہی ہے جیسے پریس میں دھماکہ ہوجانے سے ایک ضخیم لغت کاتیارہوجانا۔‘‘

The Evidence of God, p. 174

کہاجاتاہے کہ “اتفاق‘‘ کے حوالے سے کائنات کی توجیہ کوئی الل ٹپ بات نہیں ہے، بلکہ سرجمیزکے الفاظ میں وہ خالص ریاضیاتی قوانین اتفاق (purely mathematical laws of chance)پرمبنی ہے۔

The Mysterious Universe, p. 3

 اتفاق کی توجیہ کرتے ہوئےایک مصنف لکھتاہے:

“اتفاق (Chance) محض ایک فرضی چیزنہیں ہے بلکہ ایک بہت ہی ترقی یافتہ حسابی نظریہ ہے،جس کااطلاق ان امورپرکیاجاتاہے جن میں قطعی معلومات ممکن نہیں ہوتیں،اس نظریے کے ذریعہ ایسے بے لاگ اصول ہمارے ہاتھ آجاتے ہیں جن کی مدد سے ہم صحیح اورغلط میں بآسانی امتیازکرسکتے ہیں ، اورکسی خاص نوعیت کے واقعہ کے صادر ہونے کے امکانات کاحساب لگاکرصحیح صحیح اندازہ کرسکتے ہیں کہ اتفاقًا اس کاپیش آجاناکس حد تک ممکن ہے۔‘‘

The Evidence of God, p. 23

اگرہم یہ فرض کرلیں کہ مادہ کسی خام حالت میں خودسے کائنات میں موجودہو گیا، اور پھریہ بھی فرض کرلیں کہ ا س میں عمل اورردعمل کاایک سلسلہ بھی اپنے آپ شروع ہوگیا،اگرچہ ان مفروضات کے لیے کوئی بنیادنہیں ہے— جب بھی کائنات کی توجیہ حاصل نہیں ہوتی— کیوں کہ یہاں ایک اوراتفاق مخالفینِ مذہب کی راہ میں حائل ہوگیاہے،بدقسمتی سے ہماری ریاضیات جوقانونِ اتفاق کاقیمتی نکتہ ہمیں دیتی ہے،وہی اس بات کی تردیدبھی کررہی ہے کہ قانون اتفاق،موجودہ کائنات کاخالق ہوسکتاہے،کیوں کہ سائنس نے معلوم کرلیاہے کہ ہماری دنیاکی عمراورجسامت کیاہے، اور جو عمر اور جسامت اس نے معلوم کی ہے،وہ قانون اتفاق کے تحت موجودہ دنیاکے وقوع میں آنے کے لیے بالکل ناکافی ہے۔

“اگرتم دس سکّے لواوران پرایک سے دس تک نشان لگادو،اس کے بعد انھیں اپنی جیب میں ڈال کراچھی طرح ملادو،اب ان کوایک سے دس تک بالترتیب اس طرح نکالنے کی کوشش کروکہ ایک سکہ نکالنے کے بعد ہر بار اس کودوبارہ جیب میں ڈال دو— یہ امکان کہ نمبرایک سکّہ پہلی بار تمھارے ہاتھ میں آجائے دس میں ایک ہے،یہ امکان کہ ایک اوردوبالترتیب تمھارے ہاتھ میں آجائیں سومیں ایک ہے،یہ امکان کہ ایک ِدواورتین نمبرسلسلہ وار تمھارے ہاتھ میں آجائیں ایک ہزار میں ایک ہے،یہ امکان کہ ایک، دو، تین اورچارنمبرکے سکے بالترتیب نکل آئیں دس ہزارمیں ایک ہے،یہاں تک کہ یہ امکان کہ ایک سے دس تک تمام سکّے بالترتیب تمھارے ہاتھ آجائیںدس بلین (دس ارب) میں صرف ایک بارہے‘‘۔

یہ مثال نقل کرنے بعدکریسی ماریسن(A. Cressy Morrison)لکھتاہے:

"The object in dealing with so simple a problem is to show how enormously figures multiply against chance."

(Man does not Stand Alone, p. 17)

یعنی یہ سادہ مثال اس لیے دی گئی تاکہ یہ امراچھی طرح واضح ہوجائے کہ واقعات کی تعدادکی نسبت سے امکانات کی تعدادکتنی زیادہ ہوتی ہے۔

اب اندازہ کیجیے کہ اگرسب کچھ محض اتفاق سے ہوگیاہے،تواس کے لیے کتنی مدت درکار ہوگی، ذی حیات اشیا کی ترکیب زندہ خلیوں (Living Cells) سے ہوتی ہے، خلیہ ایک نہایت چھوٹا اور پیچیدہ مرکب ہے جس کامطالعہ علم الخلیہ ( Cytology)میں کیا جاتا ہے،ان خلیوں کی تعمیر میں جو اجزاء کام آتے ہیں ، ان میں سے ایک پروٹین ہے، پروٹین ایک کیمیائی مرکب ہے، جوپانچ عناصر کے ملنے سے وجودمیں آتاہے — کاربن، ہائیڈروجن،نائٹروجن، آکسیجن اورگندھک پروٹینی سالمہ ان عناصر کے تقریباً چالیس ہزار جواہر (atoms) پرمشتمل ہوتاہے۔

کائنات میں سوسے زیادہ کیمیائی عناصربالکل منتشراوربے ترتیب بکھرے ہوئے ہیں ، اب اس امرکاامکان کس حدتک ہے کہ ان تمام عناصر کے بے ترتیب ڈھیرمیں سے نکل کریہ پانچوں عناصر اس طرح باہم ملیں کہ ایک پروٹینی سالمہ آپ سے آپ وجودمیں آجائے،مادے کی وہ مقدارجسے مسلسل ہلانے سے اتفاقًا یہ نتیجہ نکل سکتاہواوروہ مدت جس کے اندراس کام کی تکمیل ممکن ہو، حساب لگا کر معلوم کی جاسکتی ہے۔

سوئزرلینڈکے ایک ریاضی داں پروفیسرچارلس ایوجین گائی(Charles Eugene Guye)نے اس کاحساب لگایاہے، اوراس کی تحقیق یہ ہے کہ اس طرح کے کسی اتفاقی واقعہ کاامکان 10160 کے مقابلے میں صرف ایک درجہ ہوسکتاہے۔160 10 کامطلب یہ ہے کہ دس کودس سے ایک سو ساٹھ مرتبہ پے درپے ضرب دیاجائے۔ دوسرے لفظوں میں دس کے آگے ایک سوساٹھ صفر(zero)۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایساعددہے جس کوالفاظ کی زبان میں ظاہر کرنا مشکل ہے۔

صرف ایک پروٹینی سالمہ کے اتفاقًاوجودمیں آنے کے لیے پوری کائنات کے موجودہ مادہ سے کروڑوں گنازیادہ مقدارمادہ مطلوب ہوگی جسے یکجاکرکے ہلایاجائے، اور اس عمل سے کوئی نتیجہ برآمدہونے کاامکان 10143سال بعدہے۔

پروٹین، امینوایسڈ (Amino Acids) کے لمبے سلسلوں سے وجودمیں آتے ہیں ، اس میں سب سے زیادہ اہمیت اس طریقہ کی ہے،جس سے یہ سلسلے باہم ملیں۔اگریہ غلط شکل میں یکجاہوجائیں تو زندگی کی بقاکاذریعہ بننے کے بجائے مہلک زہربن جاتے ہیں ، پروفیسر جے۔ بی لیتھیز (J. B. Leathes) نے حساب لگایاکہ ایک سادہ سے پروٹین کے سلسلوں کواربوں اورکھربوں 1048 طریقے سے یکجاکیاجاسکتاہے۔یہ ناممکن ہے کہ یہ تمام امکانات ایک پروٹینی سالمہ کووجودمیں لانے کے لیے محض اتفاق سے یکجاہوجائیں۔

واضح ہوکہ اس انتہائی بعیدامکان کامطلب بھی یہ نہیں ہے کہ بے شمارمدت کی تکرارکے بعدلازماًیہ واقعہ ظہورمیں آجائے گا،اس کامطلب صرف یہ ہے کہ ممکن ہے، ایسا ہوجائے، دوسری طرف یہ امکان بھی ہے کہ ہمیشہ دہراتے رہنے کے باوجودکبھی بھی ایسا کوئی واقعہ ظہور میں نہ آئے۔

پھرپروٹین خودمحض ایک کیمیائی شے ہے،جس میں زندگی موجودنہیں ہوتی، پروٹین کے خلیہ کاجزءبننے کے بعداس میں زندگی کی حرات کیسے پیداہوئی،ا س کاجواب اس توجیہ میں نہیں ہے،پھریہ بھی خلیہ کے صرف ایک ترکیبی جزءپروٹین کے صرف ایک ناقابل مشاہدہ ذرہ کے وجود میں آنے کی توجیہ ہے،جب کہ صرف ایک ذی حیات جسم کے اندرسنکھ (100 quadrillion) مہاسنکھ (10 quintillion)کی تعدادمیں ایسے مرکبات ہوتے ہیں۔

لے کامٹے ڈو نوائے (Le Comte Du Nouy) نے اس پربہت عمدہ اور مفصل بحث کی ہے، جس کاخلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کے امکان کے ظہورمیں آنے کے لیے جس وقت،جس مقدار مادہ اورجس پہنائی کی ضرورت ہوگی وہ ہمارے تمام اندازوں سے ناقابل یقین حدتک زیادہ ہے، اس کے لیے ایک ایسے عالم کی ضرورت ہے جس کادائرہ اتنا بڑا ہو جس میں روشنی1082 سال نور (دس کے آگے 82صفر)سفرکرکے اس کوپارکرسکتی ہو، یہ حجم موجودہ کائنات سے بہت زیادہ ہے،کیوں کہ ہماری بعیدترین کہکشاں کی روشنی چند بلین سال نورمیں ہم تک پہنچ جاتی ہے،اس کامطلب یہ ہے که آئن سٹائن نے کائنات کی وسعت کا جو اندازہ کیاہے، وہ ا س عمل کے لیے قطعاًناکافی ہے، پھر اس مفروضہ کائنات میں پانچ سو ٹریلین حرکت فی سيکنڈکی رفتارسے مادہ کی مفروضہ مقدار کو ہلایا جائے تب کہیں اس امر کا امکان پیدا ہوگا کہ پروٹین کا ایک ایسا سالمہ اتفاق سے وجود میں آئے جو زندگی کے لیے ضروری اور مفید ہے، اوراس سارے عمل کے لیے جس مدت کی ضرورت ہے وہ 10243(ایک کے آگے 243صفر) بلین سال ہے۔مگر”ہمیں بھولنانہیں چاہیے‘‘۔ ڈونوائے لکھتا ہے “کہ زمین صرف دوبلین سال سے موجودہے اوریہ کہ زندگی کی ابتداصرف ایک بلین سال پہلے ہوئی جب کہ زمین ٹھنڈی ہوئی۔‘‘

Human Destiny, p.30-36

سائنس نے اگرچہ ساری کائنات کی عمردریافت کرنے کی کوشش کی ہے،چنانچہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ کائنات پچاس کھرب سال سے موجودہے،ظاہرہے کہ یہ طویل عمربھی ایک مطلوبہ پروٹینی سالمہ کواتفاقًاوجودمیں لانے کے لیے ناکافی ہے،مگرجہاں تک زمین کاتعلق ہے جس پرہماری معلوم زندگی پیداہوئی اس کی عمرتونہایت قطعیت کے ساتھ معلوم کرلی گئی ہے۔

ماہرین فلکیات کے اندازے کے مطابق زمین سورج کاایک ٹکڑاہے،جوکسی بڑے ستارے کے کشش سے ٹوٹ کرفضامیں گردش کرنے لگاتھا،اس وقت زمین سورج کی مانند ایک مجسم شعلہ تھی، جس میں کسی بھی قسم کی زندگی پیداہونے کاکوئی سوال نہیں تھا۔اس کے بعد وہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوکرمنجمدہوئی،اس انجمادہی کے بعدیہ امکان پیداہوتاہے کہ ا س میں زندگی کاآغازہو۔

زمین کی عمرجب سے کہ وہ ٹھوس ہوئی مختلف طریقوں سے نہایت صحیح طورپرمعلوم کی جاسکتی ہے، ان میں سب سے عمدہ طریقہ تابکارعناصر(Radio-Active Elements) کے ذریعہ معلوم ہوا ہے، تابکار عناصرکے ایٹم کے برقی ذرات ایک خاص تناسب سے مسلسل خارج ہوتے رہتے ہیں ، اوراسی لیے وہ ہم کو روشن نظرآتے ہیں ، اس اخراج یا انتشارکی وجہ سے ان کے برقی ذرات کی تعداد گھٹتی رہتی ہے، اوروہ دھیرے دھیرے غیرتابکاردھات میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں ، یورنیم اسی قسم کا ایک تابکارعنصرہے، وہ عمل انتشارکی وجہ سے ایک خاص اورمتعین شرح سے سیسہ (Lead) میں تبدیل ہوتا رہتا ہے، یہ پایاگیاہے کہ ا س تبدیلی کی شرح کسی بھی سخت ترین حرارت یادباؤ سے متاثرنہیں ہوتی، ہم تبدیلی کی اس رفتارکواٹل سمجھنے میں حق بجانب ہیں ، یورنیم کے ٹکڑے مختلف چٹانوں میں پائے جاتے ہیں ، اوربلاشبہ وہ اس وقت سے چٹان کاجزءہیں ، جب کہ یہ چٹان منجمدہوئی یورنیم کے ساتھ ہم سیسه (Lead)پاتے ہیں ، ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ تمام سیسہ جویورنیم کے ساتھ پایا جاتا ہے، وہ یورنیم کے انتشار (disintegration of Uranium)سے وجودمیں آیاہے۔کیوں کہ یورنیم سے بناہواسیسہ، عام سیسے سے کچھ ہلکاہوتاہے، ا س لیے سیسہ کے کسی بھی ٹکڑے کے بارے میں یہ کہناممکن ہے کہ وہ یورنیم سے بناہے یانہیں ،اس سے ہم حساب لگاسکتے ہیں کہ یورنیم جس چٹان میں ہے وہاں کتنی مدت سے اس پر انتشارکاعمل ہورہاہے،اورچوں کہ یورینیم چٹان میں اس وقت سے ہے، جب کہ وہ چٹان منجمدہوئی،اس لیے ہم اس کے ذریعے سے خودچٹان کے انجمادکی مدت معلوم کرسکتے ہیں۔

اس طرح اندازے بتاتے ہیں کہ چٹان کے انجمادکوکم از کم چودہ سوملین سال گزر چکے ہیں۔ یہ اندازے ان چٹانوں کے مطالعہ پرمبنی ہیں ، جوموجودہ علم کے مطابق، زمین کی قدیم ترین چٹانیں ہیں۔ چنانچہ جے،ڈبلیو،این، سولیون نے زمین کی عمرکاایک بہتراوسط دو ہزارملین سال قرار دیا ہے۔

Limiations of Science, p. 78

 اب ظاہرہے کہ جب صرف ایک غیرذی روح پروٹینی سالمہ کے مرکب کو اتفاقاً وجودمیں لانے کے لیےسنکھ (100 quadrillion) مہاسنکھ (10 quintillion)س ے بھی زیادہ مدت درکارہے توصرف دوہزارملین سال میں زمین کی سطح پر زندہ اورمکمل اجسام رکھنے والے حیوانات کی دس لاکھ سے زیادہ اورنباتات کی دولاکھ سے زیادہ اقسام کیسے وجودمیں آگئیں اورہرقسم میں لاتعداد حیوانات ونباتات پیداہوکرخشکی اورتری میں کیسے پھیل گئے، اورپھرانھیں ادنیٰ درجہ کی ذی روح اشیاسے اتنی قلیل مدت میں انسان جیسی اعلیٰ مخلوق اتفاقاً کیسے وجود میں آگئی جب کہ نظریۂ ارتقا انواع میں جن اتفاقی تبدیلیوں کے اوپر اپنی بنیادکھڑی کرتاہے،ان میں سے ہرتبدیلی کاحال یہ ہے کہ ماہرریاضی پاچو(Patau) نے حساب لگایاہے کہ کسی ذی حیات میں نئی تبدیلی کومکمل ہوتے ہوتے دس لاکھ پشتوں کے گزرجانے کا امکان ہے۔

The Evidence of God , p. 117

اس سے اندازہ کیجیے کہ اگرمحض ارتقا کے اندھے مادی عمل کے ذریعہ کتے کی طرح پانچ انگلیاں رکھنے والے جدامجدکی نسل میں بے شمارتبدیلیوں کے جمع ہونے سے گھوڑے جیسامختلف جانوربن گیاہے، تواس کے بننے میں کتناعرصہ درکارہوگا۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی عالم عضویات ایم۔بی کریڈر(Martin Broks Kreider)کے الفاظ کس قدرصحیح ہیں :

“The mathematical probability of a chance occurrrnce of all the necessary factors in the right proportion is almost nil.” (The Evidence of God, p. 67)

یعنی تخلیق کے تمام ضروری اسباب کاصحیح تناسب کے ساتھ اتفاقًا اکٹھاہوجانے کاامکان ریاضیاتی طورپرقریب قریب نفی کے برابر ہے۔

یہ طویل تجزیہ محض اتفاقی پیدائش کے نظریے کے لغویت واضح کرنے کے لیے کیا گیا ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ “اتفاق‘‘ سے نہ کوئی ایٹم یامالے کیول وجودمیں آسکتا ہے، اورنہ وہ ذہن پیدا ہوسکتاہے،جویہ سوچ رہاہے کہ کائنات کیسے وجودمیں آئی،خواہ اس کے لیے کتنی ہی طویل مدت فرض کی جائے،یہ نظریہ نہ صرف ریاضیاتی طورپرمحال ہے، بلکہ منطقی حیثیت سے بھی وہ اپنے اندرکوئی وزن نہیں رکھتا،یہ ایسی ہی لغوبات ہے،جیسے کوئی کہے کہ ایک گلاس پانی فرش پرگرنے سے د نیاکانقشہ مرتب ہوسکتاہے،ایسے شخص سے بجاطورپر پوچھاجاسکتاہے کہ اس اتفاق کے پیش آنے کے لیے فرق، زمینی کشش،پانی اورگلاس کہاں سے وجودمیں آگئے۔

علم حیاتیات کامشہورعالم ہیکل (Haeckel)نے کہاتھا۔”مجھے ہوا،پانی،کیمیائی اجزاء اوروقت دو،میں ایک انسان بنادوں گا۔‘‘مگریہ کہتے ہوئے وہ بھول گیاکہ اس اتفاق کووجودمیں لانے کے لیے ایک ہیکل اورمادی حالات کی موجودگی کوضروری قراردے کروہ خوداپنے دعوي کی تردیدکررہاہے،بہت خوب کہاہے ماریسن نے:

“ہیکل نے یہ کہتے ہوئے جین اورخودزندگی کے مسئلہ کونظرانداز کردیا، انسان کو وجود میں لانے کے لیے اس کوسب سے پہلے ناقابل مشاہدہ ایٹم فراہم کرنے ہوں گے،پھر ان کو مخصوص ڈھنگ سے ترتیب دے کرجین بنانا ہوگا، اور اس کوزندگی دینی ہوگی،پھربھی ا س کی اس اتفاقی تخلیق کاامکان کروروں میں ایک کاہے، اور بالفرض اگروہ کامیاب بھی ہوجائے تو اس کووہ اتفاق (accident) نہیں کہہ سکتا بلکہ وہ اس کواپنی ذہانت (intelligence) کاایک نتیجہ قرار دے گا۔‘‘

Man does not Stand Alone, p. 87

اس بحث کومیں ایک امریکی عالم طبیعیات جارج ارل ڈیوس (Earl Davis) کے الفاظ پر ختم کروں گا:

“اگرکائنات خوداپنے آپ کوپیداکرسکتی تواس کامطلب یہ ہوگاکہ وہ اپنے اندر خالق کے اوصاف رکھتی ہے،ایسی صورت میں ہم یہ ماننے پرمجبورہوں گے کہ کائنات خودخداہے،اس طرح اگرچہ ہم خداکے وجودکوتوتسلیم کرلیں گے،لیکن وہ نرالاخدا ہوگا جو بیک وقت مافوق الفطرت بھی ہوگااورمادّی بھی، میں اس طرح کے کسی مہمل تصورکواپنانے کے بجائے ایک ایسے خداپرعقیدے کوترجیح دیتاہوں جس نے عالم مادی کی تخلیق کی ہے،اوراس عالم کاوہ خودکوئی جزءنہیں ،بلکہ اس کا فرمانروا اورناظم ومدبرہے۔‘‘

The Evidence of God, p.71

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom