جس زندگی کی ہمیں تلاش ہے
جرمن مفکر فریڈرش انگلس(Friedrich Engels, 1829-1895) نے کہا ہے—’’آدمی کوسب سے پہلے تن ڈھانکنے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کوروٹی چاہیے،اس کے بعدہی وہ فلسفہ وسیاست کے مسائل پرغور کرسکتا ہے۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے انسان سب سے پہلے جس سوال کاجواب معلوم کرناچاہتاہے،وہ یہ سوال ہے —”میں کیاہوں‘یہ کائنات کیاہے‘میری زندگی کیسے شروع ہوئی اورکہاںجاکرختم ہوگی‘‘ یہ انسانی فطرت کے بنیادی سوالات ہیں ،آدمی ایک ایسی دنیامیں آنکھ کھولتاہے،جہاں سب کچھ ہے مگریہی ایک چیزنہیں ،سورج اس کوروشنی اورحرارت پہونچاتا ہے مگروہ نہیں جانتاکہ وہ کیاہے اور کیوں انسان کی خدمت میں لگاہواہے، ہوااس کوزندگی بخشتی ہے مگرانسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اس کوپکڑکرپوچھ سکے کہ تم کون ہواورکیوں ایساکررہی ہو، وہ اپنے وجود کو دیکھتا ہے،اورنہیں جانتاکہ میں کیاہوں اورکس لیے اس دنیامیں آگیاہوں ان سوالات کا جواب متعین کرنے سے انسان کاذہن قاصرہے،مگرانسان بہرحال ان کومعلوم کرنا چاہتا ہے، یہ سوالات معلوم کرناچاہتاہے،یہ سوالات خواہ لفظوںکی شکل میں متعین ہوکرہرشخص کی زبان پرنہ آئیں مگروہ انسان کی روح کوبے چین رکھتے ہیں ، اورکبھی کبھی اس شدت سے ابھرتے ہیں کہ آدمی کوپاگل بنادیتے ہیں۔
انگلس کودنیاایک ملحدانسان کی حیثیت سے جانتی ہے،مگراس کاالحاداس کے غلط ماحول کا ردعمل تھاجوبہت بعدکواس کی زندگی میں ظاہرہوا،اس کی ابتدائی زندگی مذہبی ماحو ل میں گزری،مگرجب وہ بڑاہوااورنظرمیں گہرائی پیداہوئی تورسمی مذہب سے بے اطمینانی پیدا ہوگئی، اپنے اس دورکاحال وہ ایک دوست کے خط میں اس طرح لکھتاہے:
“میں ہرروزدعاکرتاہوں اورتمام دن یہی دعاکرتارہتاہوں کہ مجھ پر حقیقت آشکارا ہو جائے، جب سے میرے دل میں شکوک پیداہوئے ہیں یہی دعا کرنا میرا مشغلہ ہے، میں تمہارے عقیدے کوقبول نہیں کرسکتا،میں یہ سطریں لکھ رہاہوں اور میرا دل آنسوؤں سے امڈاچلاآرہاہے، میری آنکھیں رو رہی ہیں ، لیکن مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ میں راندۂ درگاہ نہیں ہوں، مجھے امید ہے کہ میں خداتک پہونچ جاؤں گا،جس کے دیدار کا میں دل وجان سے متمنی ہوں، اورمجھے اپنی جان کی قسم !یہ میری جستجو اور عشق کیاہے،یہ روح القدس کی جھلک ہے،اگرانجیل مقدس دس ہزارمرتبہ بھی اس کی تردیدکرے تومیں نہیں مان سکتا۔‘‘
(David Riazanov:Essays on the History of Marxism, p. 36, copied from "Max Eastman:Marx, Lenin and the Science of Revolution," p. 148, accessed from Google Book, 07.04.2020)
یہ وہی حقیقت کی تلاش کافطری جذبہ ہے جونوجوان انگلس میں ابھراتھا،مگراس کی تسکین نہ مل سکی اورمروجہ مسیحی مذہب سے غیرمطمئن ہوکروہ معاشی اورسیاسی فلسفوںمیں گم ہوگیا۔
اس طلب کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک خالق اورمالک کاشعور پیدائشی طور پر پیوست ہے،وہ اس کے لاشعورکاایک لازمی جزءہے۔”خدامیراخالق ہے، اورمیں اس کا بندہ ہوں‘‘یہ ایک خاموش عہدہے جوہرشخص اول روزسے اپنے ساتھ لے کراس دنیا میں آتا ہے۔ایک پیداکرنے والے آقاومحسن کاتصورغیرمحسوس طورپراس کی رگوں میں دوڑتا رہتا ہے، اس کے بغیروہ اپنے اندرعظیم خلا محسوس کرتاہے،اس کی روح اندرسے زور کرتی ہے جس آقاکواس نے نہیں دیکھا،اس کو وہ پالے،وہ اس سے لپٹ جائے اور اپناسب کچھ اس کے حوالے کردے۔
خداکی معرفت ملنا گویااس جذبے کے صحیح مرجع کوپالیناہے، اورجولوگ خداکو نہیں پاتے ان کے جذبات کسی دوسری مصنوعی چیزکی طرف مائل ہوجاتے ہیں ، ہرشخص اپنے اندر یہ خواہش رکھنے پرمجبورہے کہ کوئی ہوجس کے آگے وہ اپنے بہترین جذبات کو نذر کر دے۔ 15اگست 1947ء کوجب ہندستان کي سرکاری عمارتوں سے یونین جیک اتار کر ملک کاقومی جھنڈالہرایا گیاتویہ منظردیکھ کران قوم پرستوں کی آنکھوںمیں آنسوآگئے جواپنے ملک کوآزاددیکھنے کے لیے تڑپ رہے تھے،یہ آنسودراصل آزادی کی دیوی کے ساتھ ان کے تعلق کااظہارتھا— یہ اپنے معبودکوپالینے کی خوشی تھی، جس کے لیے انھوں نے اپنی عمرکا بہترین حصہ صرف کردیاتھا،اسی طرح ایک لیڈرجب “قوم کے باپ ‘‘کی قبر پر جاکر پھول چڑھاتاہے،اوراس کے آگے سرجھکاکرکھڑاہوجاتاہے،تووہ ٹھیک اسی عمل کودوہراتا ہے جوایک مذہبی آدمی اپنے معبودکے لیے رکوع اورسجدے کے نام سے کرتاہے، ایک کمیونسٹ جب لینن کے مجسمے کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنی ہیٹ (hat) اُتارتاہے، اوراس کے قدموں کی رفتارسست پڑجاتی ہے تواس وقت وہ اپنے معبودکی خدمت میں اپنے عقیدت کے جذبات نذرکررہاہوتاہے،اسی طرح ہرشخص مجبورہے کہ کسی نہ کسی چیزکو اپنا معبود بنائے اوراپنے جذبات کی قربانی اس کے آگے پیش کرے۔
مگرخداکے سواجن جن صورتوں میں آدمی اپنایہ نذرانہ پیش کرتاہے وہ سب شرک کی صورتیں ہیں ، اورقرآن کے الفاظ میں —”اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ ‘‘(31:13)۔ یعنی شرک سب سے بڑاظلم ہے۔ ظلم کے معنی ہیں کسی چیزکواس کی اصل جگہ کے بجائے دوسری جگہ رکھ دینامثلاًڈبہ کے ڈھکن سے آپ بچے کی ٹوپی کاکام لیناچاہیں تویہ ظلم ہوگا۔ گویا آدمی جب اپنے نفسیاتی خلا کو پر کرنے کے لیے خداکوچھوڑکرکسی اورطرف لپکتا ہے، جب وہ خداکے سواکسی اورکواپنی زندگی کا سہارا بناتاہے تووہ اپنے اصل مقام کوچھوڑ دیتا ہے،وہ ایک صحیح جذبے کاغلط استعمال کرتاہے۔
یہ جذبہ چوں کہ ایک فطری جذبہ ہے، اس لیے ابتداً وہ ہمیشہ فطری شکل میں ابھرتا ہے، اس کاپہلارخ اپنے اصلی معبودکی طرف ہوتاہے،مگرحالات اورماحول کی خرابیاں ا س کوغلط سمت میں موڑ دیتی ہیں ، اورکچھ دنوں کے بعدجب آدمی ایک مخصوص زندگی سے مانوس ہوجاتاہے تواس میں اس کولذت ملنے لگتی ہے،برٹرینڈرسل اپنے بچپن میں ایک کٹر مذہبی آدمی تھا،وہ باقاعدہ عبادت کرتا تھا— اسی زمانے میں ایک روزاس کے داداجان نے پوچھا “تمہاری پسندیدہ دعاکون سی ہے‘‘؟ چھوٹے رسل نے جواب دیا”میں زندگی سے تنگ آگیا ہوںاوراپنے گناہوں کے بوجھ سے دبا ہوا ہوں۔‘‘اس زمانے میں خدا برٹرینڈرسل کا معبود تھا، لیکن جب رسل تیرہ برس کی عمر کو پہنچاتواس کی عبادت چھوٹ گئی اور مذہبی روایات اور پرانی قدروں سے باغیانہ ماحول کے اندر رہنے کی وجہ سے خوداس کے اندر بھی ان چیزوں سے بغاوت کے رجحانات ابھرنے لگے، اوربالآخر برٹرینڈرسل ایک ملحد انسان بن گیا، جس کی محبوب ترین چیزیں ریاضی اورفلسفہ تھی۔ 1959ء کاواقعہ ہے۔ بی بی سی لندن پرایک بات چیت پروگرام میں فری مین نے رسل سے پوچھا— “کیاآپ نے مجموعی طورپرریاضی اور فلسفے کے شوق کومذہبی جذبات کانعم البدل پایا ہے؟‘‘۔رسل نے جواب دیا”جی ہاں، یقیناً میں چالیس برس کی عمرتک اس اطمینان سے ہم کنار ہوگیا تھا، جس کے متعلق افلاطون نے کہا ہے کہ آپ ریاضی سے حاصل کرسکتے ہیں — یہ ایک ابدی دنیاتھی،وقت کی قیدسے آزاد دنیا،مجھے یہاں مذہب سے ملتاجلتاایک سکون نصیب ہوگیا۔‘‘
برطانیہ کے اس عظیم مفکرنے خداکواپنامعبودبنانے سے انکارکردیا۔مگرمعبودکی ضرورت سے پھربھی وہ بے نیازنہ رہ سکا،اورجس مقام پرپہلے اس نے خداکوبٹھا رکھا تھا، وہاںریاضی اورفلسفے کو بٹھانا پڑا،اور یہی نہیں بلکہ ریاضی اورفلسفے کے لیے وہ صفات بھی تسلیم کرنی پڑیںجوصرف خداہی کی صفت ہوسکتی ہے۔ابدیت اوروقت کی قیدسے آزادی۔ کیوں کہ اس کے بغیراسے مذہب سے ملتاجلتاوہ سکون نہیں مل سکتاتھا،جودراصل اس کی فطرت تلاش کررہی تھی۔
“نہرو رکوع میں ‘‘—اگریہ خبرکسی دن اخبارمیں چھپے توکسی کویقین نہیں آئے گاکہ یہ واقعہ ہے لیکن ہندستان ٹائمس(دہلی) کی 3اکتوبر1963ء کی اشاعت کے آخری صفحہ پرشائع شدہ تصویر اس کی تصدیق کررہی ہے۔اس تصویرمیں نظرآرہاہے کہ ہندستان کے سابق وزیراعظم جواہرلال نہرو دوزانوہوکراورہاتھ جوڑکررکوع کی مانند جھکے ہوئے ہیں۔ یہ گاندھی جینتی کے موقع کی تصویر ہے، اور دہلی کے نہروراج گھاٹ میں گاندھی سمادھی پرقوم کے باپوکوخراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔
اس قسم کے واقعات ہرسال اورہرروزساری دنیامیں ہوتے ہیں ،لاکھوں ایسے لوگ جو خدا کو نہیں مانتے اورپرستش کوبے معنی چیزسمجھتے ہیں — وہ اپنے خودساختہ بتوں کے آگے جھک کراپنے اندرونی جذبۂ عبودیت کوتسکین دیتے ہیں ،یہ حقیقت ہے کہ “الٰہ‘‘ انسان کی ایک فطری ضرورت ہے،اوریہی اس کاثبوت ہے کہ وہ حقیقی ہے،انسان اگرخداکے سامنے نہ جھکے تواس کودوسرے الہٰوںکے سامنے جھکناپڑے گا،کیوں کہ “الٰہ‘‘ کے بغیراس کی فطرت اپنے خلا کو پُر نہیں کرسکتی۔
مگربات صرف اتنی نہیں ہے، اس سے آگے بڑھ کرمیں کہتاکہ جولوگ خداکے سوا کسی اور کو اپنامعبودبناتے ہیں ،وہ ٹھیک اسی طرح حقیقی سکون سے محروم رہتے ہیں ، جیسے کوئی بے بچہ ماں پلاسٹک کی گڑیاخریدکربغل میں دبالے اوراس سے تسکین حاصل کرنا چاہے،ایک ملحدانسان خواہ وہ کتناہی کامیاب کیوں نہ ہو، اس کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں ،جب وہ سوچنے پرمجبورہوتاہے کہ حقیقت اس کے سواکچھ اورہے جومیں نے پائی ہے۔
آزادی سے بارہ سال پہلے 1935ءمیں جب پنڈت جواہرلا ل نہرو نے جیل خانے میں اپنی آپ بیتی مکمل کی تواس کے آخرمیں انھوں نے لکھا:
“میں محسوس کرتاہوںکہ میری زندگی کاایک باب ختم ہوگیااوراب اس کا دوسرا باب شروع ہوگا،اس میں کیاہوگا،اس کے متعلق میں کوئی قیاس نہیں کرسکتا، کتاب زندگی کے اگلے ورق سربمہر ہیں۔‘‘
Nehru— An Autobiography, London, 1953, p. 597
پنڈت نہروکی زندگی کے اگلے اوراق کھلے تومعلوم ہواکہ وہ دنیاکے تیسرے سب سے بڑے ملک کے وزیراعظم ہیں ، اوردنیاکی آبادی کے چھٹے حصہ پربلاشرکت حکومت کررہے ہیں ، مگر اس کامیابی نے نہروکومطمئن نہیں کیااوراپنے انتہائی عروج کے زمانے میں بھی وہ محسوس کرتے رہے کہ کتابِ زندگی کے مزیدکچھ اوراق ہیں جوابھی تک بندہیں ، اوروہی سوال آخرعمرمیں بھی ان کے ذہن میں گھومتا رہا، جس کولے کرہرانسان پہلے روز پیدا ہوتا ہے۔چنانچہ جنوری 1964ء کے پہلے ہفتہ میں مستشرقین کی بین الاقوامی کانفرنس نئی دہلی میں ہوئی، جس میں ہندوستان اوردوسرے ملکوں کے بارہ سوڈیلی گیٹ شریک ہوئے،پنڈت نہرونے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا:
“میں ایک سیاست داں ہوں اورمجھے سوچنے کے لیے وقت کم ملتاہے پھر بھی بعض اوقات میں یہ سوچنے پرمجبورہوجاتاہوں کہ آخریہ دنیاکیاہے،کس لیے ہے،ہم کیا ہیں اور کیاکررہے ہیں ،میرایقین ہے کہ کچھ طاقتیں ہیں جو ہماری تقدیرکو بناتی ہیں۔‘‘
National Herald, Jan 6, 1964
یہ ایک عدم اطمینان ہے،جوان تمام لوگوں کی روحوں پرگہرے کہرکی طرح چھایا رہتا ہے، جنھوں نے خداکواپناالٰہ اورمعبوبنانےسے انکارکیا۔دنیاکی مصروفیتوںاوروقتی دلچسپیوں میں عارضی طور پرکبھی ایسامحسوس ہوتاہے کہ وہ اطمینان سے ہم کنار ہیں ،مگرجہاں یہ مصنوعی ماحول ختم ہوا، حقیقت اندر سے زورکرناشروع کردیتی ہے،اورانھیں یاددلاتی ہے کہ وہ سچے اطمینان سے محروم ہیں۔
خداسے محروم قلوب کایہ حال صرف ایک دنیوی بے اطمینانی کامعاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اس سے بہت زیادہ اہم ہے۔یہ چندروزہ مسئلہ نہیں بلکہ دائمی مسئلہ ہے۔ یہ دراصل اس تاریک اوربے سہارازندگی کے آثارہیں ،جس کے کنارے وہ کھڑاہواہے۔یہ اس ہولناک زندگی کی ابتدائی گھٹن ہے،جس میں ایسے ہرآدمی کوموت کے بعدداخل ہوناہے، اوراس خطرے کا ایک پیشگی الارم ہے، جس میں اس کی روح کوبالآخر مبتلاہوناہے۔مختصر یہ کہ وہ اس جہنم کادھواں ہے جوہرکافرومشرک کے لیے تیارکی گئی ہے گھرمیں آگ لگ جائے تو اس کادھواں سوتے ہوئے آدمی کے دماغ میں گھس کر اس کوآنے والے خطرے سے باخبر کرتا ہے۔اگروہ دھوئیں کی گھٹن سے جگ گیاتواپنے آپ کو بچالے جائے گا،لیکن جب شعلے قریب آجائیں تووہ انتباہ کاوقت نہیں ہوتا،بلکہ وہ ہلاکت کافیصلہ ہوتا ہے،جواس کو چاروں طرف سے گھیرلیتاہے،اس کامطلب یہ ہوتاہے کہ تمہاری بے حسی اوربے خبری نے تمہارے لیے مقدرکردیاہے کہ تم آگ میں جلو۔
کیاکوئی ہے جووقت سے پہلے بیدارہوجائے،کیوں کہ بیداری وہی ہے،جووقت سے پہلے ہو،وقت پربیدارہونے کاکوئی فائدہ نہیں۔
میک گل یونیورسٹی کے پروفیسرمائیکل بریچر (Michael Brecher) نے جواہر لال نہرو کی سیاسی سوانح حیات لکھی ہے۔ اس سلسلے میں مصنف نے پنڈت نہروسے ملاقات بھی کی تھی۔نئی دہلی کی ایک ملاقات میں 13جون1956ء کوانھوں نے پنڈت نہروسے سوال کیا—
“آپ مختصرطورپرمجھے بتائیں کہ آپ کے نزدیک اچھے سماج کے لیے کیا چیزیں ضروری ہیں ، اورآپ کابنیادی فلسفۂ زندگی کیاہے؟‘‘
ہندستا ن کے سابق وزیراعظم نے جواب دیا:
“میں کچھ معیاروں کاقائل ہوں،آپ ان کو اخلاقی معیار(moral standards) کہہ لیجیے،یہ معیارہرفرداورسماجی گروہ کے لیے ضروری ہیں ، اگر وہ باقی نہ رہیں توتمام مادی ترقی کے باوجودآپ کسی مفیدنتیجے تک نہیں پہنچ سکتے،ان معیاروں کوکیسے قائم رکھا جائے، یہ مجھے نہیں معلوم۔ایک تومذہبی نقطۂ نظرہے، لیکن یہ اپنے تمام رسوم اور طریقوں کے ساتھ مجھے تنگ نظرآتا ہے۔میں اخلاقی اور روحانی قدروں کو مذہب سے علیٰحدہ رکھ کر بہت اہمیت دیتا ہوں، لیکن میں نہیں جانتاکہ ان کو ماڈرن زندگی میں کس طرح قائم رکھا جا سکتاہے، یہ ایک مسئلہ ہے۔‘‘
Nehru:A Political Biography, London, 1959, p. 607-8
یہ سوال وجواب جدید انسان کے اس دوسرے خلاکوبتاتاہے،جس میں آج وہ شدت سے گرفتار ہے، افرادکودیانت واخلاق کے ایک خاص معیارپرباقی رکھناہرسماجی گروہ کی ایک ناگزیر ضرورت ہے اس کے بغیر تمدن کانظام صحیح طورپربرقرارنہیں رہ سکتا، مگر خدا کو چھوڑنے کے بعدانسان کو نہیں معلوم کہ وہ اس ضرورت کوکیسے پوراکرے سیکڑوں سال کے تجربے کے بعدوہ ابھی بدستور تلاش کی منزل میں ہے،پبلک اورحکام کے درمیان عمدہ تعلقات پیدا کرنے کے لیے خوش اخلاقی کا ہفتہ (Courtesy Week) منایا جاتا ہے، مگر اس کے بعدبھی جب سرکاری ملازموں کي افسرانہ ذہنیت ختم نہیں ہوتی تومعلوم ہوتاہے کہ یہ مقصد اس طرح حاصل نہیں ہوتا ہے کہ ہم ڈکشنری سے “اخلاق‘‘ کا لفظ نکال کر لوگوں کے سامنے رکھ دیں۔ بے ٹکٹ مسافروں کي بڑھتی ہوئی تعدادکوروکنے کے لیے تمام اسٹیشنوں پربڑے بڑے پوسٹرلگائے جاتے ہیں — بے ٹکٹ سفرکرناسماجی گناہ ہے:
“Ticktless travel is a social evil”
مگرجب اس کے باوجودبے ٹکٹ سفرختم نہیں ہوتاتویہ ثابت ہوجاتاہے کہ”سماجی گناہ‘‘کے لفظ کا حوالہ وہ احساس پیدانہیں کرسکتا،جونظم وضبط کی تعمیل کے لیے محرک بن سکے۔پریس کے ذریعہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ جرم کاانجام اچھانہیں ہوتا(crime does not pay)۔ مگرجرائم کی بڑھتی ہوئی رفتاربتاتی ہے کہ دنیوی نقصان کے اندیشہ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ آدمی کوجرم سے باز رکھے، تمام دفتروں کی دیواریں مختلف زبانوں کے ان الفاظ سے رنگین کردی جاتی ہیں —”رشوت لینااوررشوت دیناپاپ ہے‘‘۔ مگرجب ایک شخص دیکھتا ہے کہ ہرمحکمے میں عین انھیںالفاظ کے نیچے رشوت کاکاروبار پورے زورشور سے جاری ہے تووہ یہ اعتراف کرنے پرمجبورہوتاہے کہ اس قسم کے سرکاری پروپیگنڈہ رشوت کوروکنے میں کسی درجہ میں بھی مفیدنہیں ہیں ، ریل کے تمام ڈبوں میں اس مضمون کے کتبے لگائے جاتے ہیں — “ریلوے قوم کی ملکیت ہے، اس کانقصان پوری قوم کا نقصان ہے‘‘۔مگراس کے باوجودجب لوگ کھڑکیوں کے شیشے توڑڈالتے ہیں ،اوربجلی کے بلب غائب کردیتے ہیں ،تویہ اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ”قوم‘‘کے مفاد میں اتنا زور نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے ایک شخص اپنے ذاتی مفادکوقربان کردے۔”اجتماعی ذرائع کو ذاتی مفادکے لیے استعمال کرناملک وقوم سے غداری ہے‘‘۔ ایک طرف لیڈروں اور حکمرانوں کی زبان سے یہ اعلان ہورہاہے،دوسری طرف بڑے بڑے قومی منصوبے اس لیے ناکام ہو رہے ہیں کہ سرمایہ کابڑاحصہ اصل منصوبہ پرلگنے کے بجائے متعلقہ کارکنوں کی تحویل میں چلا جاتاہے، اسی طرح ساری قومی زندگی کی انتہائی کوشِش کے باوجودان معیاروں سے محروم ہوگئی ہے جوقومی تعمیر کے لیے ضروری ہیں ، اوران معیاروں کو پیدا کرنے کے لیے جتنے ذرائع استعمال کیے گئے، وہ سب کے سب قطعی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
یہ علامتیں اس بات کاثبوت ہیں کہ بے خداتہذیب نے انسانیت کی گاڑی کودلدل میں لا کر ڈال دیاہے، اس کو اس پٹری سے محروم کردیاہے،جس کے اوپرچل کروہ اپنا سفر بحسن وخوبی طے کر سکتی ہے،زندگی کی کشتی بے لنگر اوربغیربادبان ہوگئی ہے، اس کا واحدحل یہ ہے کہ انسان خداکی طرف پلٹے،وہ زندگی کے لیے مذہب کی اہمیت کوتسلیم کرے۔ یہی وہ تنہا بنیاد ہے، جس پرزندگی کی بہتر تعمیر ممکن ہے، اس کے سواکسی بھی دوسری بنیاد پرزندگی کی تعمیرنہیں کی جاسکتی۔
ہندستان میں امریکا کے سابق سفیرمسٹرچسٹرباولز(Chester Bowles)لکھتے ہیں :
“زیرترقی ممالک صنعتی ترقی حاصل کرنے کے سلسلے میں دوطرح کے مسائل سے دوچار ہیں اوردونوں نہایت پیچیدہ ہیں ، ایک یہ سرمایۂ خام اشیا اورفنی مہارت جوانھیں حاصل ہیں ،ان کوکس طرح زیادہ بہتر طورپراستعمال کریں۔دوسراپیچیدہ مسئلہ وہ ہے جس کاتعلق عوام اورادارہ سے ہے، صنعت کوتیزی سے آگے بڑھانے کے ساتھ ہمیں یہ تیقن بھی حاصل کرناہے کہ وہ جتنی خرابیوں کودورکرے اس سے زیادہ خرابیاں پیدانہ کردے، مہاتما گاندھی کے الفاظ میں “سائنسی معلومات اوردریافتیں محض حرص کوبڑھانے کا اوزارثابت ہو سکتی ہیں ،اصل قابل لحاظ چیزانسان ہے۔‘‘
The Making of a Society, Delhi, 1963. p 68-69
باولزکے الفاظ میں عوام گویاوہ ماحول ہیں ،جس کے اندرترقیاتی پروگرام جاری ہوتے ہیں۔ ترقی کے ضروری سامان— سرمایہ اورفنی مہارت وغیرہ تمدنی اورسیاسی خلامیں کارگرثابت نہیں ہو سکتے۔(ص31)
یہ خلاکیسے پُرہواوروہ ماحول کیسے بنے جس میں عوام اورسرکاری کارکن دیانتداری اوراتحاد کے ساتھ ترقیاتی کاموں میں اپنے آپ کوصرف کریں، اس سوال کاکوئی جواب جدید مفکرین کے پاس نہیں ہے، اورحقیقت یہ ہے کہ بے خداتہذیب کے ماحول میں نہیں ہوسکتا،بے خداتہذیب کے اندر ہر ترقیاتی اسکیم ایک زبردست تضادکاشکارہوتی ہے، اوروہ یہ کہ اس کاشخصی نظریہ اس کے سماجی تصورسے ٹکراتاہے،اس کااجتماعی پروگرام یہ ہے کہ ایک پرامن اورخوشحال سماج کی تعمیرکی جائے، مگراس کے ساتھ اس کے مفکرین جب یہ کہتے ہیں —”انسان کامقصدمادی خوشی حاصل کرنا ہے‘‘تووہ اپنی پہلی بات کی تردید کردیتے ہیں ، وہ پورے سماج کوجیسادیکھناچاہتے ہیں ،سماج کے افراد کواس کے خلاف بنارہے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی کسی اسکیم کواب تک اپنے مقصدمیں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوئی،تمام مادی فلسفے زندگی کابہترنظام بنانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔
مادّی خوشی کوزندگی کامقصدبنانے کامطلب یہ ہے کہ ہرشخص اپنی اپنی خواہش پوری کرناچاہے، لیکن اس محدوددنیامیں یہ ممکن نہیں ہے کہ ہرشخص دوسرے کومتاثرکیے بغیر یکساں طورپراپنی اپنی خواہش پوری کرسکے، نتیجہ یہ ہے کہ ایک آدمی جب اپنی تمام خواہشیں پوری کرناچاہتاہے تووہ دوسروں کے لیے مصیبت بن جاتاہے،فردکی خوشی،سماج کی خوشی کو درہم برہم کردیتی ہے۔ ایک محدود آمدنی والا شخص جب دیکھتاہے کہ اس کی اپنی آمدنی اس کی خواہشوں کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہو رہی ہے تووہ حق ماری،بددیانتی،چوری،رشوت اورغبن کے ذریعہ اپنی آمدنی کی کمی کو پورا کرتا ہے، مگر اس طرح جب وہ اپنی خواہش پوری کرلیتاہے تووہ سماج کواسی محتاجی میں مبتلا کردیتا ہے،جس میں وہ خود پہلے مبتلاتھا۔
جدیددنیاایک عجیب وغریب قسم کی نہایت خطرناک مصیبت میں مبتلاہے،جس کا تاریخ میں کبھی تجربہ نہیں ہواتھا۔یہ جرم کم سنی (juvenile delinquency) ہے، جو جدید زندگی کاایک لازمہ بن چکاہے۔ یہ کمسن مجرمین کہاں سے پیداہوتے ہیں ، ان کی پیدائش کاسرچشمہ وہی مادی خوشی کو پوراکرناہے۔ایک شادی شدہ جوڑاکچھ دنوں ساتھ رہنے کے بعدایک دوسرے سے اکتا جاتے ہیں ، اوراپنی جنسی خوشی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ نیاجسم اورنیاچہرہ تلاش کریں۔ اس وقت وہ طلاق لے کرایک دوسرے سے علیٰحدہ ہو جاتے ہیں۔ اس علیٰحدگی کی قیمت سماج کو ایسے بچوں کی شکل میں ملتی ہے،جواپنے ماں باپ کی موجودگی میں ”یتیم‘‘ہوگئے ہیں ،یہ بچے والدین سے چھوٹنے کے بعد ماحول کے اندر اپنی کوئی جگہ نہیں پاتے،ایک طرف وہ بالکل آزاد ہوتے ہیں ،اوردوسری طرف ماحول سے بیزار،یہ صورت ِحال بہت جلدانھیں جرائم تک پہنچادیتی ہے،سرالفرڈڈیننگ (Alfred Denning, 1899-1999) نے بہت صحیح لکھاہے کہ “اکثرکمسن اور نابالغ مجرمین اجڑے ہوئے گھرانوں (broken homes)سے نمودارہوتے ہیں۔‘‘
The Changing Law, p. 111
اسی طرح موجودہ زندگی میں تمام خرابیوںکی جڑ صرف یہ واقعہ ہے کہ جدید دنیا کا انفرادی فلسفہ اوراس کے اجتماعی مقاصدایک دوسرے سے متضادہیں ،وہ تمام واردات جن کوہم ناپسندکرتے ہیں ، اوران کوجرم، برائی اوربدعنوانی کہتے ہیں ، وہ دراصل کسی شخص یا پارٹی یاقوم کی اپنی مادّی خوشی حاصل کرنے کی کوشش ہی ہوتی ہے،اوراسی کوشش کا سماجی انجام قتل، بدکاری، لڑائی،اغوا، جعل سازی،ڈاکہ،لوٹ کھسوٹ،جنگ اوراس طرح کی دوسری بے شمار صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔
یہ تضادبتاتاہے کہ زندگی کامقصد اس کے سواکچھ اورنہیں ہوسکتاکہ دنیاکی مادّی چیزوں کے بجائے آخرت میں خداکی خوشنودی حاصل کرنے کومقصدبنایاجائے،یہی وہ مقصد ہے، جو فرد اور سماج کوباہمی تضادسے بچاکرموافق ترقی کی راہ پرگامزن کرتاہے۔ نظریۂ آخرت کی یہ خصوصیت جہاں یہ ثابت کرتی ہے کہ وہی وہ واحدبنیادہے،جوترقیاتی اسکیموں کوصحیح طورپرکامیاب کرسکتی ہے، اسی کے ساتھ وہ يه بھی ثابت کرتی ہے کہ وہی حقیقی مقصد ہے، کیوں کہ غیرحقیقی چیززندگی کے لیے اتنی اہم اوراس سے اتنی ہم آہنگ نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانے میں میڈیکل سائنس میں حیرت انگیزترقی ہوئی ہے۔ اب یہ خیال کیا جانے لگا ہے کہ سائنس موت اوربڑھاپے کے سواہرجسمانی تکلیف پرقابوپاسکتی ہے، مگر اسی کے ساتھ بیماری کی اقسام میں نہایت تیزی سے ایک نئے نام کااضافہ ہورہاہے— اعصابی بیماری(nervous diseases)۔ یہ”اعصابی بیماریاں‘‘ کیاہیں ؟یہ دراصل اسی تضاد کا ایک عملی ظہور ہے،جس میں جدید سوسائٹی شدت سے مبتلاہے۔مادّی تہذیب نے انسان کے ا س حصّے کوجونمکیات معدنیات اور گیسوں کامرکب ہے،ترقی دینے کی کافی کوشش کی۔ مگرانسان کاوہ حصّہ جوشعور،خواہش اورارادہ پر مشتمل ہے، اس کی غذااس کو فراہم نہ کرسکا۔نتیجہ یہ ہوا کہ پہلاحصہ تو بظاہر فربہ اورخوش منظر دکھائی دینے لگا۔ مگردوسرا حصّہ جواصل انسان ہے، وہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلاہوگیا۔
موجودہ امریکا کے بارے میں وہاں کے ذمہ دارذرائع کااندازہ ہے کہ وہاں کے بڑے شہروں میں 80فیصد مریض ایسے ہیں جن کی بیماری بنیادی طور پر نفسیاتی سبب (psychic causation) کے تحت واقع ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات نے ا س سلسلے میں جو تحقیقات کی ہیں ،ان سے پتہ چلتاہے کہ ان بیماریوں کے پیداہونے کے چند اہم ترین وجوہ یہ ہیں — جرم، ناراضگی، اندیشہ، پریشانی، مایوسی، تذبذب، شبہ، حسد، خودغرضی اور اکتاہٹ (boredom)، وغیرہ۔ یہ سارے عوارض، اگرگہرائی کے ساتھ غورکیجیے توبے خدا زندگی کا نتیجہ ہیں۔ خداپرایمان آدمی کے اندروہ اعتماد پیدا کرتا ہے، جومشکلات میں اس کے لیے سہارا بن سکے،وہ ایسابرترمقصداس کے سامنے رکھ دیتاہے، جس کے بعد وہ چھوٹے چھوٹے مسائل کونظراندازکرکے اس کی طرف بڑھ سکے،وہ اس کوایسامحرک دیتاہے، جو سارے اخلاقی محاسن کی واحدبنیادہے،وہ عقیدے کی وہ طاقت دیتاہے،جس کے متعلق ڈاکٹر سرولیم اوسلر(Sir William Osler, 1849-1919) نے کہاہے:”وہ ایک عظیم قوت محرکہ (great moving force)ہے،جس کونہ کسی ترازومیں تولا جاسکتا ہے، اور نہ لیبارٹری میں اس کی آزمائش کی جاسکتی ہے۔‘‘یہی عقیدے کی طاقت دراصل نفسیاتی صحت کاخزانہ ہے،جونفسیات اس سرچشمہ سے محروم ہووہ”بیماریوں‘‘ کے سواکسی اورانجام سے دوچارنہیں ہوسکتی،یہ انسان کی بدقسمتی ہے کہ وقت کے ماہرین نے نفسیاتی یااعصابی عوارض کاکھوج لگانے میں توکمال درجے کی ذہانت کاثبوت دیاہے،مگران نودریافت بیماریوں کاصحیح علاج تجویزکرنے میں وہ سخت ناکام ہوئے ہیں ، ایک عیسائی عالم کے الفاظ میں “نفسیاتی علاج کے ماہرین (Psychiatrists) صرف اس تالے کی باریک تفصیلات بتانے میں اپنی کوشِش صر ف کررہے ہیں ، جوہمارے اوپرصحت کے دروازے بندکرنے والاہے۔‘‘
جدیدمعاشرہ بیک وقت دومتضادعمل کررہاہے،ایک طرف وہ مادّی سازوسامان فراہم کرنے میں پوری قوت صرف کررہاہے،دوسری طرف مذہب کوترک کرکے وہ حالات پیدا کررہا ہے،جس سے زندگی طرح طرح کے عذاب میں مبتلاہوجائے،وہ ایک طرف دوا کھلا رہا ہے، اور دوسری جانب زہرکاانجکشن دے رہاہے،یہاںمیں ایک امریکی ڈاکٹر ارنسٹ اڈولف (Paul Ernest Adolph)کاایک اقتباس نقل کروں گا،جواس کے سلسلے میں ایک دلچسپ شہادت فراہم کرتاہے:
“جن دنوں میں میڈیکل اسکول میں زیرتعلیم تھا،میں ان تبدیلیوں سے آگاہ ہوا جوزخم ہوجانے کی صورت میں جسم کے اخلاط (body tissues) میں رونماہوتی ہیں ، خوردبین کے ذریعہ نسیجوں کامطالعہ کرتے ہوئے میں نے دیکھاکہ نسیجوں پر جو مختلف موافق اثرات کے واقع ہونے سے زخم کااطمینان بخش اندمال ہوجاتاہے، اس کے بعدجب تعلیم ختم کر کے میں عملاًڈاکٹری کے پیشے میں داخل ہواتومجھے اپنے اوپر بڑا اعتمادتھاکہ میں زخم اور اس کے ٹھیک کے طریقوں کواس حدتک جانتا ہوں کہ میں یقینی طورپرموافق نتیجہ پیدا کرسکتا ہوں جب کہ میں اس کے ضروری طبی وسائل مہیا کرکے اس کواستعمال میں لاؤں، لیکن جلد ہی میری اس خوداعتمادی کوصدمہ پہنچا، مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اپنی میڈیکل سائنس میں ایک ایسے عنصرکو نظرانداز کردیا تھا،جوسب سے زیادہ اہم ہے — یعنی خدا۔
اسپتال میں جن مریضوں کی نگرانی میرے سپردکی گئی ان میں ایک ستّر (70) سال کی بوڑھی عور ت تھی،جس کاکولھازخمی ہوگیاتھا،ايکسرے تصاویرکے معائنہ سے معلوم ہواکہ اس کی نسیجیں(tissues)بڑی تیزی سے ٹھیک ہورہی ہیں ،میں نے اس سرعت کے ساتھ شفایابی پراس کومبارکباد پیش کی،انچارج سرجن نے مجھے ہدایت کی کہ اس خاتون کو 24گھنٹے میں رخصت کردیاجائے،کیوں کہ اب وہ کسی سہارے کے بغیرچلنے پھرنے کے قابل ہوگئی ہے۔
اتوارکادن تھا، اس کی بیٹی ہفتہ وارملاقات کے معمول کے مطابق اسے دیکھنے آئی، میں نے اس سے کہاکہ چوں کہ اس کی ماں اب صحت یاب ہے، اس لیے وہ کل آکر اسے اسپتال سے گھرلے جائے،لڑکی اس کے جواب میں کچھ نہیں بولی اورسیدھی اپنی ماں کے پاس چلی گئی،اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ اس نے اپنے شوہرسے اس کے بارے میں مشورہ کیا ہے، اوریہ طے ہواہے کہ وہ اس کواپنے گھرنہ لے جاسکیں گے، اس لیے زیادہ بہترانتظام کی صورت یہ ہے کہ اس کوکسی اولڈ ایج ہوم (Old People's Home)میں پہنچا دیا جائے۔
چندگھنٹوں کے بعدجب میں اس بڑھیاکے پاس گیاتومیں نے دیکھاکہ بڑی تیزی کے ساتھ اس پرجسمانی انحطاط طاری ہورہاہے،چوبیس گھنٹے کے اندرہی وہ مرگئی — کولھے کے زخم کی وجہ سے نہیں بلکہ دل کے صدمے کی وجہ سے:
Not of her broken hip, but of a broken heart
ہم نے ہرقسم کی ممکن طبّي امداداسے پہنچائی،مگروہ جانبرنہ ہوسکی،اس کے کولھے کی ٹوٹی ہوئی ہڈی توبالکل درست ہوچکی تھی،مگراس کے ٹوٹے ہوئے دل کاکوئی علاج نہ تھا، وٹامن، معدنیات اورٹوٹی ہوئی ہڈی کواپنی جگہ لانے کے لیے سارے ذرائع استعمال کرنے کے باوجودوہ صحت یاب نہیں ہوئی، یقینی طورپراس کی ہڈیاں جڑچکی تھیں، اوروہ ایک مضبوط کولھے کی مالک ہوچکی تھی،مگروہ بچ نہ سکی،کیوں،اس لیے کہ اس کی صحت کے لیے اہم ترین عنصرجودرکارتھا،وہ وٹامن نہیں تھا،نہ معدنیا ت تھے اورنہ ہڈیوں کا جڑنا تھا، یہ صرف امنگ(hope) تھی، اور جب زندگی کی امنگ ختم ہوگئی توصحت بھی رخصت ہوگئی۔
اس واقعہ نے مجھ پرگہرااثرکیا،کیوں کہ اس کے ساتھ مجھے شدیداحساس تھاکہ اس بوڑھی خاتون کے ساتھ ہرگزیہ حادثہ پیش نہ آتا،اگریہ خاتون خدائی امید (God of Hope) سے آشناہوتی،جس پرایک عیسائی کی حیثیت سے میں اعتقاد رکھتاہوں۔‘‘
The Evidence of God, pp. 212-14
اس مثال سے اندازہ ہوتاہے کہ جدیدترقی یافتہ دنیاکس قسم کے تضادسے دوچار ہے، وہ ایک طرف سارے علوم کواس نہج پرترقی دے رہی ہے،جس سے خداکاوجودحرف غلط ثابت ہو جائے،تعلیم وتربیت کے پورے نظام کواس ڈھنگ سے چلایاجارہاہے،جس سے خدا اور مذہب کے احساسات دلوں سے رخصت ہوجائیں،ا س طرح روح— اصل انسان— کو موت کے خطرے میں مبتلاکرکے اس کے جسم— مادی وجود— کو ترقی دینے کی سعی کی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عین ا س وقت جبکہ بہترین ماہرین اس کی ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑ نے میں کامیابی حاصل کرچکے ہوتے ہیں ،عقیدے کی اندرونی طاقت کی محرومی کی وجہ سے اس کادل ٹوٹ جاتاہے،اوربظاہرجسمانی صحت کے باوجودوہ موت کے آغوش میں چلا جاتا ہے۔
یہی وہ تضادہے، جس نے آج پوری انسانیت کوتباہ کررکھاہے،خوش پوش جسم حقیقی سکون سے محروم ہیں ،عالی شان عمارتیں اجڑے ہوئے دلوں کامسکن ہیں ،جگمگاتے ہوئے شہرجرائم اورمصائب کامرکزہیں ،شان دارحکومتیں اندرونی سازش اوربے اعتمادی کاشکار ہیں ، بڑے بڑے منصوبے کردار کی خامی کی وجہ سے ناکام ہورہے ہیں — غرض مادّی ترقیات کے باوجودانسان کی حقیقی زندگی بالکل اجڑگئی ہے، یعنی روحانی زندگی، اوریہ سب نتیجہ ہے صرف ایک چیز کا — انسان نے اپنے خدا کو چھوڑ دیا، اس نے ا س سرچشمہ سے اپنے آپ کومحرو م کرلیا،جواس کے خالق ومالک نے اس کے لیے مہیاکیاتھا۔ انسانی فطرت کا تقاضا ایک روحانی چیز۔ پھر ایک مادی چیز ایک روحانی سوال کا جواب کس طرح بن سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کا جواب صرف خداوند تعالی ہے۔ مخلوق اپنے خالق کی تلاش میں ہے، اور خالق کو پانے کے بعد ہی مخلوق کو سکون حاصل ہوسکتاہے:اَلا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ القُلُوبُ(13:28)۔
نفسیاتی امراض کی نوعیت جواوپربیان کی گئی ہے، وہ ا تنی واضح حقیقت ہے کہ خوداس فن کے علما نے ا س کااعتراف کیاہے، نفسیات کے مشہورعالم پروفیسریُنگ (Carl Gustav Jung, 1875-1961) نے اپنی زندگی بھرکاتجربہ ان الفاظ میں بیان کیاہے:
“پچھلے تیس برسوں میں روئے زمین کے تمام متمدن ممالک کے لوگوں نے مجھ سے (اپنے نفسیاتی امراض کے سلسلے میں ) مشورہ حاصل کرنے کے لیے رجوع کیا ہے، میرے مریضوں میں زندگی کے نصف آخرمیں پہونچنے والے تمام لوگ— جو کہ 35سال کے بعدکہی جاسکتی ہے— کوئی ایک شخص بھی ایسانہیں تھا، جس کا مسئلہ اپنے آخری تجزیے میں زندگی کامذہبی نقطۂ نظرپانے کے سواکچھ اورہو،یہ کہنا صحیح ہوگاکہ ان میں سے ہرشخص کی بیماری یہ تھی کہ اس نے وہ چیزکھودی تھی جوکہ موجودہ مذاہب ہردورمیں اپنے پیروؤں کودیتے رہے ہیں ، اوران مریضوں میں سے کوئی بھی حقیقۃًاس وقت تک شفایاب نہ ہوسکا،جب تک اس نے اپنامذہبی تصوردوبارہ نہیں پالیا۔‘‘
Quoted by C.A.Coulson, Science and Christian Belief, p.110
یہ الفاظ اگرچہ سمجھنے والے کے لیے بجائے خودبالکل واضح ہیں ،تاہم اگرمیں نیویارک اکیڈمی آف سائنس کے صدراے،کریسی ماریسن کے الفاظ نقل کردوں توبات بالکل مکمل ہوجائے گی:
“ادب واحترام،فیاضی،کردارکی بلندی،اخلاق،اعلیٰ خیالات اوروہ سب کچھ جس کو خدائی صفات(Divine Attributes) کہاجاسکتاہے،وہ کبھی الحادسے پیدا نہیں ہوسکتیں جوکہ دراصل خودبینی کی عجیب وغریب قسم ہے،جس میں آدمی خود اپنے آپ کوخداکے مقام پربٹھالیتاہے، عقیدے اوریقین کے بغیرتہذیب تباہ ہو جائے گی،نظم،بے نظمی میں تبدیل ہوجائے گی،ضبط نفس اوراپنے آپ پرکنٹرول کا خاتمہ ہوجائے گا— اوربرائی ہرطرف پھیل جائے گی،ضرورت ہے کہ ہم خدا پر اپنے یقین کودوبارہ مضبوط کریں۔‘‘
Man Does not Stand Alone, p.123