تمہید
جدید دور کو، جہاں تک ا س کے مخالفِ مذہب ہونے کی حیثیت کا تعلق ہے، دورِ الحاد کہا جاتا ہے۔ مگر اس الحاد کا مطلب خدا کا مدّعیانہ انکار نہیں ہے، بلکہ اس کی اپنی تشریح کے مطابق، یہ محض ایک طریق مطالعہ ہے جو ذہنی اور علمی ارتقا کے ایک مخصوص دور میں انسان کو حاصل ہوا ہے۔ اس ارتقائی مطالعہ کا لازمی تعلق کسی چیز کے انکار یا اثبات سے نہیں ہے بلکہ وہ مجرد ایک طریق جستجو ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جدید مفکرین کے نزدیک اس طریق جستجو نے مذہب کو باطل ثابت کر دیا ہے۔ یہاں میں مائلز (T. R. Miles, 1923-2008) کے الفاظ نقل کروں گا:
“موجودہ رجحان ایک ٹیکنیک، ایک طریقہ، سوالات کے مطالعہ کے ایک ڈھنگ کی طرف ہے، نہ کہ مسائل کا قطعی جواب دینا۔ یہ ایک نمایاں تبدیلی ہے، جو پچھلی نصف صدی کے اندر فلسفہ کی دنیا میں ہوئی ہے۔ یہ صورتحال ابھی جاری ہے اور بہت دور تک اس میں ٹھہرائو کی امید نظر نہیں آتی۔‘‘
Religion and the Scientific Outlook, (1959) p. 13
جدید مفکرین کی اپنے موقف کے بارے میں یہ تشریخ خواہ اسے ہم ایک خالص علمی بات سمجھیں یا اس کو یہ حیثیت دیں کہ مذہب بیزاری کے بعد کائنات کی مادی توجیہ ڈھونڈنے میں انسان کو جو ناکامی ہوئی ہے، اس کے بعد یہ ایک خوبصورت جائے پناہ ہے جو اس نے تلاش کی ہے، بہرحال ہماری مدافعانہ کوششوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس صورت حال کو ذہن میں رکھتے ہوئے کام کریں۔
مثال کے طور پر اثباتِ رسالت کے عنوان پر ہمارے یہاں جو کام ہو رہا ہے، اس میں اکثر یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ دورِ جدید کا یہ دعویٰ ہے کہ “محمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے رسول تھے۔‘‘ اور اس کے بعد آپ کو “سچا‘‘ ثابت کرنے پر مواد اکٹھا کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ جھوٹا نبی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سچا نبی بھی ہوتا ہے جب کہ جدید انسان اپنے معلوماتی دائرہ کے مطابق ایسی کسی چیز کے ماننے ہی میں مشتبہ ہے۔ دراصل جھوٹا رسول (false prophet) یہود و نصاریٰ کے مذہبی طبقہ کا پرانا اعتراض ہے جو اپنے انبیاء کی نبوت کو مانتے ہیں مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے منکر ہیں، ورنہ جہاں تک جدیدملحدانہ ذہن کا تعلق ہے اس کے لیے اصل مسئلہ آپ کے “جھوٹے‘‘ یا “سچے‘‘ ہونے کا نہیں ہے، بلکہ اس کے سامنے صرف یہ سوال ہے کہ آپ کے کلامِ نبوت کا سرچشمہ کیا ہے وہ اپنے معلوم ذرائع پر قیاس کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اس کا سرچشمہ انسان کااپنا لاشعور ہے۔ اور لاشعور سے نکلے ہوئے کلام کو وحی و الہام سے تعبیر کرنا محض ایک استعارہ ہے، نہ کہ کسی حقیقتِ واقعہ کا بیان۔
اس لیے رسالت کی بحث میں صرف آپ کو “سچا‘‘ ثابت کرنے سے جدید تقاضے کی تکمیل نہیں ہوتی۔ بلکہ ہمیں یہ بھی بتانا ہو گا کہ الہام کوئی حقیقی چیز ہے۔ وہ مخصوص انسانوں پر اترتا ہے، اور اسی کے اعتبار سے آپ خدا کے رسول تھے۔
یہ تو اس صورتِ حال کی مثال تھی جب کہ جدید فکر کے اصل موقف کو صحیح طور پر سامنے رکھے بغیر اس پر تنقید کی جائے۔ لیکن ایک اور ذہن ہے جو جدید فکر سے واقف ہونے کے باوجود دوسری قسم کی غلطی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مرعوبیت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی اماموں کے نزدیک جن تصورات کو علمی مسلّمہ کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے وہ یقیناً علمی مسلّمہ ہی ہو گی، اس لیے وہ اسلام کی فتح مندی اس میں سمجھتے ہیں کہ ان مسلّمہ تصورات کو قرآن و حدیث سے ثابت کر دکھائیں، یہ اسلام اور غیر اسلام میں مطابقت پیدا کرنے کا وہی انداز ہے جو مغلوب تہذیبیں اپنی غالب تہذیب کے مقابلے میں عموماً اختیار کیا کرتی ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جو طرز فکر اس طرح دنیا کے سامنے آئے وہ تہذیب کے جامے میں پیوند بن کر تو رہ سکتا ہے مگر وہ خود تہذیب کا جامہ نہیں بن سکتا۔ اس طرح کے تطبیقی بیانات سے اگر کوئی یہ امید رکھتا ہے کہ وہ دنیا کی علمی فضا کو بدل دے گا یا لوگوں کو ناحق سے پھیر کر حق کی طرف لانے میں کامیاب ہو گا تو یہ محض اس کی خوش خیالی ہے۔ افکار میں تبدیلی کے لیے انقلابی لٹریچر کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ تطبیقی لٹریچر کی۔
یہ صورت حال اس وقت اور زیادہ خرابی کا باعث بنتی ہے جب کسی بنیادی اور ہمہ جہتی تصور کے بارے میں اس کااظہار ہوا ہو۔ “شہاب ثاقب‘‘ کے بارے میں اگر جدید علمائے فلکیات کی کوئی مختلف تحقیق ہو اور اس کو مان کر آپ قرآن میں تاویل کریں تو اس سے کسی بڑی خرابی کا اندیشہ نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی ایسے تصور کو قبول کر لیا جائے جو محض ایک جزوی اور منفرد نوعیت کی چیز نہ ہو بلکہ دیگر سوالات سے بھی اس کا براہِ راست تعلق ہو تو سارا فلسفۂ دین اس سے متاثر ہو جاتا ہے۔
اس کی واضح مثال ہماری صف کے وہ پڑھے لکھے لوگ ہیں جنھوں نے نظریۂ ارتقاء کو اس بنا پر قبول کر لیا ہے کہ جدید علماء کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے مطالعے اور تجربے سے اس کی صداقت پر مطمئن ہو چکے ہیں۔ اس نظریے کو مان لینے کی وجہ سے ان کو اسلام کی ایک ارتقائی تعبیر کرنے کی ضرورت پیش آ گئی ہے اور اسلام کے جامے کو ارتقاء کی ساخت کے مطابق بنانے کے لیے انھیں پورے کپڑے کو ازسرِ نو تراشنا پڑا ہے۔
مثال کے طور پر “ارتقا‘‘ کا نقطۂ نظر یہ چاہتا ہے کہ انسان بہ حیثیت نوع مسلسل ترقی کر رہا ہو اور زندگی کے انجام پر سب کو اعلیٰ تر مقام حاصل ہو۔ اس طرز فکر کے مطابق ناپسندیدہ صورت حال کو ماضی میں ہونا چاہیے، نہ کہ مستقبل میں۔ اس طرح ارتقاکے فلسفے میں جنت کی زندگی تو مناسب معلوم ہوتی ہے مگر دوزخی زندگی کی تشریح نہیں ہوتی۔ اس دشواری کو حل کرنے کے لیے ارتقا پسند ذہن کو یہ کہنا پڑا کہ جہنم سزا کی جگہ نہیں، بلکہ تربیت حاصل کرنے کی جگہ ہے۔ زندگی ہمیشہ رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد کر کے آگے بڑھتی ہے جو لوگ دنیا میں گناہ کی رکاوٹوں میں گھر کر رہ گئے اور آگے نہ بڑھ سکے، ان کو جہنم کے مشکل حالات میں ڈالنے کا مقصد دراصل ان کی ارتقائی جدوجہد کو اگلی دنیا میں جاری رکھنا ہے اسی “مشکل جدوجہد‘‘ کا نام دوزخ ہے۔ اسی طرح یہ ذہن شخصی ملکیت کے اسلامی قوانین کو “عبوری دور کے احکام‘‘ قرار دیتا ہے کیوں کہ سماجی ارتقا کے تصور کے ساتھ ان احکام کا جوڑ نہیں لگتا۔
یہ دو مثالیں یہ واضح کرنے کے لیے دی گئی ہیں کہ جدید چیلنج کے جواب میں جو کام ہوا ہے اس کی اہمیت کے باوجود اس میں کس طرح کے نقائص باقی رہ گئے ہیں۔ مصنف کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ اس کی کوشش تمام نقائص سے پاک ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کمی کا یہی احساس اس کوشش کا محرک ہوا۔
کتاب میں جس پہلو سے مذہب کی مدافعت ہے یا جس ذہن کے پیش نظر اس کو مدلّل کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس کے دو الگ الگ انداز ہو سکتے ہیں۔ ایک تصوراتی اور دوسرے تجرباتی، یا دوسرے لفظوں میں، ایک فلسفیانہ اور دوسرے سائنٹفک (اگر اس کو سائنٹفک کہا جا سکتا ہو)۔ زیرِ نظر کتاب میں زیادہ تر دوسرے پہلو کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس کی خاص وجہ مصنف کا یہ احساس ہے کہ پہلے طرز پر ہمارے یہاں کافی کام ہو چکا ہے اور اس میں بہت کچھ مواد ہمارے قدیم و جدید لٹریچر میں موجود ہے جب کہ دوسرے پہلو سے نسبتاً بہت کم کام ہوا ہے۔ خاص طور پر جدید سائنسی تحقیقات نے مذہب کے تجرباتی اثبات کے لیے جو وسیع میدان فراہم کر دیا ہے، وہ تو مجھے بالکلسَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا (27:93) کا مصداق معلوم ہوتا ہے۔ یعنی وہ تم کو اپنی نشانیاں دکھائے گا تو تم ان کو پہچان لو گے۔ موجودہ کتاب، ایک لحاظ سے، اسی نئے پیدا شدہ امکان کو منظم طور پر استعمال کرنے کی ایک کوشش ہے۔
تصنیفات کی جدید تقسیم کے مطابق زیر نظر کتاب معروضی مطالعہ (objective study) کی مثال پیش نہیں کرتی۔ بلکہ وہ موضوعی یا داخلی (subjective) انداز میں لکھی گئی ہے۔ یہ جدید ذہن کے نزدیک گویا کتاب کے خلاف خود کتاب کا ووٹ ہے۔ کیوں کہ جو مطالعہ جانبدارانہ ذہن کے تحت کیاگیا ہو، اس کی صداقت کا یقین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں، میں آسٹرین نو مسلم علامہ اسد کاجملہ نقل کروں گا۔ انھوں نے اپنی کتاب کے اسی انداز کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
It does not pretend to be a dispassionate survey of affairs; it is statement of a case of Islam versus western civilisation. (Islam at the Crossroads. p.6)
یعنی اس کتاب میں مصنوعی طورپر غیر جانبدارانہ سروے کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیاہے بلکہ اس کا انداز ایک مقدمہ جیسا ہے— اسلام کا مقدمہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں۔
کتاب میں اکثر “مذہب ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کتاب چوں کہ ایک عمومی موضوع پر ہے اس لیے اس کی مناسبت سے عمومی لفظ زیادہ موزوں تھا۔ مصنف کا ذہن اس بارے میں بالکل صاف ہے کہ مذہب سے مراد کوئی موہوم چیزنہیں بلکہ صرف وہ ہے جو آج مذہب کی حیثیت سے خدا کے یہاں مسلم ہے— یعنی اسلام۔ اگر ہندوستان کے کسی شہری سے کہا جائے کہ تمھیں قانون کی پیروی کرنی ہو گی، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی بھی مجموعۂ الفاظ جس پر قانون یا قانونِ ہند کا اطلاق ہو سکتا ہو، بس اس کی پیروی کر لینا کافی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وہ قانون جو آج ہندستانی باشندوں کے لیے قانون کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو ماننا اور اس کی تعمیل کرنا۔ اسی طرح آج عملی طور پر مذہب سے مراد صرف اسلام ہے۔ اگرچہ لغت کے اعتبار سے اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جو مذہب کے نام سے مشہور ہو۔ دوسرے لفظوں میں تاریخی فہرست بندی کے طور پر خواہ جس چیز کو مذہب شمار کیا جائے۔ مگر خدا کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے آج جو محفوظ مذہب (preserved religion)ہے، وہ صرف اسلام ہے۔ اس لیے اسلام ہی کی پیروی میں آخرت کی نجات ہے، اس کے سوا نجات کی کوئی صورت نہیں۔
یونیورسٹی کے طلبہ کی یونین میں ایک مرتبہ مقالہ پڑھنے کے بعد مجھے ایک سوال سے سابقہ پیش آیا، میں نے اپنے مضمون میں فرائڈ (Sigmund Freud, 1856-1939) کا ایک اقتباس دیا تھا۔ نفسیات کے ایک پروفیسر بھی اتفاق سے مجلس میں موجود تھے۔ انھوں نے مقالہ سننے کے بعد کہا۔ آپ نے فرائڈ کا حوالہ ایک مذہبی بحث میں بطور تائید نقل کیا ہے۔ حالانکہ فرائڈ وہ شخص ہے، جو سرے سے اس مذہبی نقطۂ نظر ہی کے خلاف ہے جس کے آپ نمائندہ ہیں۔
یہی سوال موجودہ کتاب کے بارے میں زیادہ بڑے پیمانے پر کیا جا سکتا ہے کیوں کہ اس میں ایسے بہت سے اقتباسات تائید کے طور پر نقل کیے گئے ہیں جن کے مصنفین کتاب کے اصل مدعا سے اتفاق نہیں کر سکتے۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہو “دلیلِ آخرت‘‘ کا آخری اقتباس۔مگر یہ اعتراض درست نہیں۔ کیوں کہ ان اقتباسات کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ ایک شخص کی ذاتی سند کے طور پر نقل کیے گئے ہیں، یعنی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ چوں کہ فلاں شخص نے اس کی تصدیق کی ہے، اس لیے وہ بات صحیح ہے۔ بلکہ تمام اقتباسات کسی علمی دلیل کی وضاحت میں نقل کیے گئے ہیں۔ مصنف نے ایک دلیل کو پیش کرتے ہوئے کہیں اس کو اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے اور کہیں دوسرے کے الفاظ میں۔
ان اقتباسات میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ عموماً وہ ہیں جو کسی کی ذاتی فکر سے تعلق نہیں رکھتیں،بلکہ وہ علمی دریافتیں ہیں۔ ملحدین نے ان علمی دریافتوں کو لے کر ان کو دوسرے معنی پہنائے ہیں اور ہم نے ان کو مذہب کے حق میں پا کر انھیں کتاب میں جمع کر دیا ہے۔ جو اقتباسات صراحتہً مذہب کی حمایت میں ہیں، وہ عموماً عیسائی علماء کے اقوال ہیں، اور آسمانی مذہب پر عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ان کے اس طرح کے اقوال ہمارے لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، زیر نظر کتاب کا موضوع جدید مادی فکرکے مقابلے میں مذہب کا اثبات ہے۔ اس اثبات کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ثابت کیا جائے کہ مذہب ایک غیرمادی چیز ہے۔اس لیے وہ مادی علوم کی دسترس سے باہر ہے۔ ایسی حالت میں مادی علوم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مذہب کی صداقت پر معترض ہوں۔ اثبات کا یہ انداز اہلِ مذاہب کی طرف سے کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ پھر بیسویں صدی میں اس استدلال میں مزید قوت سائنس کے اس اعتراف سے پیدا ہو گئی ہے — سائنس حقیقت کا صرف جزئی علم دیتی ہے:
Science gives us but a partial knowledge of reality
اس کا مطلب یہ ہے کہ خود مادی علم کے اپنے اعتراف کے مطابق، کچھ ایسے حقائق ہو سکتے ہیں، جو مادی تحقیقات کے دائرے سے باہر ہوں۔ اس جدید امکان پر غالباً سب سے زیادہ کامیاب تصنیف جے۔ ڈبلیو۔ این سولیون کی ہے، جس کا کچھ حصّہ آٹھویں باب کی تیسری بحث میں ملے گا۔
مادی فکر کے مقابلے میں مذہب کے اثبات کی دوسری صورت یہ ہے کہ خود انھیں ذرائع علم کے تحت اس کو ثابت کیا جائے جس کے مطابق مادی علوم میں کسی چیز کو ثابت کیا جاتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں زیادہ تر اسی دوسری صورت کو سادہ انداز میں اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف کی کوشش یہ ہے کہ مادی حقائق کو ثابت کرنے کے لیے موجودہ زمانے میں جو طریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اسی کو عام فہم انداز میں مذہب کے اثبات کے لیے استعمال کیا جائے۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ یہ انداز جس کے تحت اس کتاب میں دین کی حمایت و مدافعت کی گئی ہے، ممکن ہے اہل دین میں سے بعض ذہنوں کو اجنبی یا نامناسب معلوم ہو۔اگر ایسا ہو تو میں کہوں گا کہ اس کتاب کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ ایک متکلمانہ ضرورت کے طور پر لکھی گئی ہے، نہ کہ تشریح دین کے طور پر۔ دین کی مجرد تعبیر و تشریح جو مومن و مسلم طبیعتوں کو سامنے رکھ کر کی جائے اس کا انداز دوسرا ہوتا ہے، لیکن جب سامنے ایسے لوگ ہوں جو ایمان و اسلام کو محض اس قسم کا فریب سمجھتے ہوں اور جب دین و مذہب کے خلاف اٹھائے ہوئے سوالات کا مقابلہ کرنا ہو تو قدرتی طور پر بات کا انداز بدل جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ضروری ہو جاتا ہے کہ معاند کے ذہن کو پیش نظر رکھ کر بات کہی جائے اور اس کی اپنی زبان اور اصطلاحات میں کلام کیا جائے جب کہ مومن و مسلم کا معاملہ ہو تو گفتگو اپنی فطری شکل میں باقی رہتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ موجودہ دور میں فکر اور استدلال کا انداز بالکل بدل گیا ہے۔اس لیے موجودہ دور کا علم کلام بھی پہلے کے مقابلے میں بہت کچھ مختلف ہو گا۔ اگر یہ بات ذہن میں ہو تو کتاب کے مباحث کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہو سکتی۔
وحید الدین خاں
26 اگست1964ء،لکھنؤ