مخالفین مذہب کامقدمہ
“جس طرح ایٹم کے ٹوٹنے سے مادہ کے بارے میں انسان کے پچھلے تمام تصورات ختم ہوگئے،اسی طرح پچھلی صدی میں علم کی جوترقی ہوئی ہے،وہ بھی ایک قسم کاعلمی دھماکہ (knowledge explosion) ہے، جس کے بعدخدااورمذہب کے متعلق تمام پرانے خیالات بھک سے اڑگئے ہیں‘‘(ہندوستان ٹائمس،سنڈے میگزین،24ستمبر 1961ء)۔
یہ جولین ہکسلے کے الفاظ میں علم جدیدکاچیلنج ہے، اوران صفحات میں مجھے اسی چیلنج کاجواب دیناہے۔مصنف کایقین ہے کہ علم کی روشنی مذہب کی صداقت کواورزیادہ واضح کرنےمیں مددگار ہوئی ہے،اس نے کسی بھی ا عتبارسے مذہب کوکوئی نقصان نہیں پہنچایاہے،دورجدیدکی ساری دریافتیں صرف اس بات کاعتراف ہیں کہ آج سے ڈیڑھ ہزاربرس پہلے اسلام کایہ دعویٰ کہ وہ آخری صداقت ہے اورآئندہ کی تمام انسانی معلومات اس کی صداقت کواورمبرہن کرتی چلی جائیں گی، بالکل صحیح تھا۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
سَنُرِیْھِمْ اٰیٰاتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَفِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنّہُ الْحَقُّ(41:53)۔ یعنی، عنقریب ہم دکھائیں گے اپنی نشانیاں ان کوآفاق میں اورخودان کے اندر یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے کہ وہ حق ہے۔
جدید بے خدامفکرین کے نزدیک مذہب کوئی حقیقی چیزنہیں ہے، وہ انسان کی صرف اس خصوصیت کانتیجہ ہے کہ وہ کائنات کی توجیہ کرناچاہتاہے۔ توجیہ تلاش کرنے کاانسانی جذبہ بذاتِ خودغلط نہیں ہے مگرکم ترمعلومات نے ہمارے پرانے اجدادکوان غلط جوابات تک پہنچادیاجس کوخدایامذہب کہاجاتاہے۔اب جس طرح بہت سے دوسرے معاملات میں انسان نے اپنی علمی ترقی سے ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کی ہے،اسی طرح توجیہ کے معاملے میں بھی وہ آج اس پوزیشن میں ہے کہ اپنی ابتدائی غلطیوں کی اصلاح کرسکے۔
آگسٹ کامٹے (August Comte, 1798-1857)جوانیسویں صدی کے نصف اوّل کافرانسیسی مفکر ہے، اس کے نزدیک انسان کی فکری ارتقاکی تاریخ تین مرحلوں میں تقسیم ہے۔ پہلا مرحلہ الٰہیاتی مرحلہ (Theological Stage)ہے،جس میں واقعات عالم کی توجیہ خدائی طاقتوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔دوسرامرحلہ مابعدالطبیعیاتی مرحلہ (Metaphysical Stage)ہے،جس میں متعین خداکانام توباقی نہیں رہتا،پھربھی واقعات کی توجیہ کے لیے خارجی عناصر کاحوالہ دیا جاتا ہے۔ تیسرا مرحلہ ثبوتی مرحلہ (positive stage)ہے جب کہ واقعات کی توجیہ ایسے اسباب کے حوالے سے کی جاتی ہے،جو مطالعہ اورمشاہدہ کے عام قوانین کے تحت معلوم ہوتے ہیں،بغیر اس کے کہ کسی روحِ خدایامطلق طاقتوں کانام لیاگیاہو۔اس فکر کی روسے اس وقت ہم اسی تیسرے فکری دورسے گزررہے ہیں،اوراس فکرنے فلسفہ میں جونام اختیارکیاہے وہ منطقی ثبوتیت (Logical Positivism) ہے۔
منطقی ثبوتیت یاسائنسی تجربیت(Scientific Empiricim)باقاعدہ تحریک کی شکل میں بیسویں صدی میں شروع ہوئی۔مگرایک طرزفکرکی حیثیت سے یہ پہلے ذہنوں میںپیداہوچکی تھی۔ اس کی پشت پرہیوم (Hume) اورمل(Mill) سے لے کررسل (Russell) تک درجنوں ممتاز مفکرین کے نام ہیں،اور اب ساری دنیامیں اپنے تبلیغی اورتحقیقی اداروں کے ساتھ وہ موجودہ زمانے کااہم ترین طریق فکربن چکاہے۔
ڈکشنری آف فلاسفی (مطبوعہ نیویارک) میںا س طریق فکرکی تعریف مندرجہ ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:
"Every knowledge that is factual, is connected with experiences in such a way that verification or direct or indirect confirmation is possible." (P. 285)
یعنی ہروہ علم جوحقیقی ہے، وہ تجربات سے اس طورپرمتعلق ہوتاہے کہ اس کی جانچ یا براہِ راست یابالواسطہ طریقہ سے اس کی تصدیق حاصل کرناممکن ہو۔ اس طرح مخالفین مذہب کے نزدیک صورت حال یہ بنتی ہے کہ ارتقا کے عمل نے انسان کوآج جس اعلیٰ ترین مقام تک پہنچایاہے،وہ عین اپنے طریق فکر کے اعتبار سے مذہب کی تردیدہے۔ کیوں کہ جدیدارتقا یافتہ علم نے ہمیں بتایاہے کہ حقیقت صرف وہی ہوسکتی ہے جوتجربہ اورمشاہدہ میں آئی ہو۔جب کہ مذہب کی بنیاد حقیقت کے ایک ایسے تصور پر ہے جوسرے سے مشاہدے اورتجربے میں آہی نہیں سکتی،دوسرے لفظوں میںواقعات و حوادث کی الٰہیاتی توجیہ ترقی یافتہ ذرائع سے ثابت نہیں ہوتی اس لیے وہ غیرحقیقی ہے۔
اس طریق فکرکے مطابق مذہب،حقیقی واقعات کی غیرحقیقی توجیہ ہے۔پہلے زمانے میں انسان کاعلم چوں کہ بہت محدودتھا،اس لیے واقعات کی صحیح توجیہ میں اسے کامیابی نہیں ہوئی اوراس نے مذہب کے نام سے عجیب عجیب مفروضے قائم کرلیے،مگرارتقاکے عالمگیرقانون نے آدمی کواس اندھیرے سے نکال دیاہے،اورجدیدمعلومات کی روشنی میں یہ ممکن ہوگیاہے کہ اٹکل پچّو عقائد پر ایمان رکھنے کے بجائے خالص تجرباتی اورمشاہداتی ذرائع سے ا شیاکی حقیقت معلوم کی جائے ({ FR 33 })۔چنانچہ وہ تمام چیزیںجن کوپہلے مافوق الطبیعاتی اسباب کانتیجہ سمجھا جاتاتھا،اب بالکل فطری اسباب کے تحت ان کی تشریح معلوم کرلی گئی ہے۔جدیدطریق مطالعہ نے ہمیں بتادیاہے کہ خداکاوجودفرض کرناانسان کي کوئی واقعی دریافت نہیں تھی،بلکہ یہ محض دورلاعلمی کے قیاسات تھے جوعلم کی روشنی پھیلنے کے بعد خود بخود ختم ہوگئے ہیں۔جولین ہکسلے لکھتاہے:
“ نیوٹن نے دکھادیاہے کہ کوئی خدانہیں ہے،جوسیاروں کی گردش پرحکومت کرتاہو، لاپلاس نے اپنے مشہورنظریے سے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ فلکی نظام کوخدائی مفروضہ کی کوئی ضرورت نہیں، ڈارون اورپاسچر نے یہی کام حیاتیات کے میدان میں کیاہے، اورموجودہ صدی میں علم النفس کی ترقی اورتاریخی معلومات کے اضافے نے خدا کو اس مفروضہ مقام سے ہٹادیاہے کہ وہ انسانی زندگی اورتاریخ کوکنٹرول کرنے والاہے۔‘‘
Religion without Revelation, New York, 1958, p. 58
یعنی طبیعیات،نفسیات اورتاریخ،تینوں علوم نے یہ ثابت کردیاہے کہ جن واقعات کی توجیہ کے لیے پچھلے انسان نے خدااوردیوتاکا وجود فرض کرلیاتھا،یامجردطاقتوں کوماننے لگا تھا، اس کے اسباب دوسرے تھے،مگرناواقفیت کی وجہ سے وہ مذہب کی پراسرارا صطلاحوں میں بات کرتارہا۔
1۔طبیعیاتی دنیامیں اس انقلاب کاہیرونیوٹن ہے۔جس نے یہ نظریہ پیش کیاکہ کائنات کچھ ناقابل تغیر اصولوں میں بندھی ہوئی ہے۔کچھ قوانین ہیں،جن کے تحت تمام اجرام سماوی حرکت کر رہے ہیں۔بعدکو دوسرے بے شمارلوگوں نے اس تحقیق کوآگے بڑھایا۔یہاں تک کہ زمین سے لے کر آسمان تک سارے واقعات ایک اٹل نظام کے تحت ظاہرہوتے ہوئے نظر آئے جس کوقانون فطرت (Law of Nature)کانام دیا گیا۔ اس دریافت کے بعد قدرتی طورپریہ تصور ختم ہو جاتا ہے کہ کائنات کے پیچھے کوئی فعال اور قادر خداہے،جواس کوچلارہاہے،زیادہ سے زیادہ گنجائش اگر ہو سکتی ہے توایسے خداکی جس نے ابتدامیں کائنات کوحرکت دی ہو۔چنانچہ شروع میں لو گ محرّک ِ اول کے طورپر خدا کو مانتے رہے،والٹیرنے کہاکہ خدانے اس کائنات کوبالکل اسی طرح بنایاہے، جس طرح ایک گھڑی سازگھڑی کے پرزے جمع کرکے انھیںایک خاص شکل میں ترتیب دے دیتا ہے، اوراس کے بعدگھڑی کے ساتھ اس کاکوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔اس کے بعدہیوم نے اس”بے جان اوربے کارخدا‘‘کوبھی یہ کہہ کرختم کردیاکہ ہم نے گھڑیاںبنتے ہوئے تو دیکھی ہیں،لیکن دنیائیں بنتی ہوئی نہیں دیکھیں،اس لیے کیوں کر ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم خداکو مانیں۔
سائنس کی ترقی اورعلم کے پھیلاؤ نے اب انسان کووہ کچھ دکھادیاہے،جس کوپہلے اس نے دیکھانہیں تھا۔ واقعات کی جن کڑیوںکونہ جاننے کی وجہ سے ہم سمجھ نہیں سکتے تھےکہ یہ واقعہ کیوں ہوا،وہ اب واقعات کی تمام کڑیوں کے سامنے آجانے کی وجہ سے ایک جانی بوجھی چیزبن گیا ہے۔ مثلاًپہلے آدمی یہ نہیں جانتاتھاکہ سورج کیسے نکلتااور ڈوبتاہے۔ اس لیے اس نے سمجھ لیاکہ کوئی خداہے جوسورج کونکالتاہے اوراس کوغروب کرتاہے،اس طرح ایک مافوق الفطری طاقت کاخیال پیداہوا،اورجس چیزکوآدمی نہیں جانتاتھا،اس کے متعلق کہہ دیاکہ یہ اسی طاقت کاکرشمہ ہے، مگراب جب کہ ہم جانتے ہیںکہ سورج کانکلنا اورڈوبنا،اس کے گردزمین کے گھومنے کی وجہ سے ہوتاہے، توسورج کونکالنے اورغروب کرنے کے لیے خداکوماننے کی کیاضرورت؟ اسی طرح وہ تمام چیزیں جن کے متعلق پہلے سمجھاجاتاتھاکہ ان کے پیچھے کوئی اَن دیکھی طاقت کام کررہی ہے،وہ سب جدیدمطالعہ کے بعدہماری جانی پہچانی فطری طاقتوں کے عمل اورردعمل کانتیجہ نظرآیا— گویاواقعہ کے فطری اسباب معلوم ہونے کے بعدوہ ضرورت آپ سے آپ ختم ہوگئی جس کے لیے پہلے لوگوں نے ایک خدا یا مافوق الفطری طاقت کاوجودفرض کرلیاتھا۔”اگرقوس قزح گرتی ہوئی بارش پرسورج کی شعاعوں کے انعطاف (refraction)سے پیداہوتی ہے تویہ کہنابالکل غلط ہے کہ وہ آسمان کے اوپرخداکانشان ہے‘‘۔ہکسلے اس قسم کے واقعات پیش کرتاہواکس قدریقین کے ساتھ کہتاہے:
“If events are due to natural causes, they are not due to supernatural causes.”
J. Huxley, Religion without Revelation, 1929, p. 46
یعنی واقعات اگر فطری اسباب کے تحت صادر ہوتے ہیں تو وہ مافوق الفطری اسباب کے پیدا کیے ہوئے نہیں ہوسکتے۔
2۔ اس کے بعدنفسیات کی تحقیق کی گئی تواس نقطۂ نظرپرمزیدیقین حاصل ہوگیا۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہواکہ مذہب،انسان کے اپنے لاشعور کی پیداوارہے نہ کہ فی الواقع کسی خارجی حقیقت کا انکشاف،ایک عالم کے الفاظ میں:
God is nothing but a projection of man on a cosmic screen.
یعنی خداکی حقیقت اس کے سوااورکچھ نہیں کہ وہ کائناتی سطح پرانسان کی ہستی کاایک خیالی انعکاس ہے،دوسری دنیاکا عقیدہ انسان کی اپنی آرزوؤں کی ایک خوبصورت تصویر (Beautiful Idealisation of Human Wishes)سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا ({ FR 1541 })۔ وحی والہام محض بچپن میں دبے ہوئے خیالات ( childhood repressions) کا ایک غیرمعمولی اظہارہیں۔
ان تمام خیالات کی بنیادنظریۂ لاشعورپرقائم ہے۔جدیدتحقیق سے معلوم ہواکہ انسان کاذہن دو بڑے خانوں پرمنقسم ہے۔ایک خانہ وہ جس کوشعورکہتے ہیں،یہ ہمارے ان افکار کا مرکزہے جوعام طورپر ہوش و حواس کی حالت میں شعوری طورپرہمارے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، دوسراخانہ لاشعور ہے۔ اس حصہ ٔذہن کے خیالات عام طورپرہمارے علم وحافظہ کے سامنے نہیں ہوتے مگروہ اس کی تہ میں موجودرہتے ہیں، اورغیرمعمولی حالات میں یاسوتے وقت خواب میں ظاہرہوتے ہیں، انسان کے بیشترخیالات اسی لاشعورکے خانے میں جاکرمحفوظ ہوجاتے ہیں، اوراس اعتبارسے ذہن کاشعوری حصہ اس کے لاشعورسے بہت کم ہے۔ چنانچہ دونوں کاتناسب ظاہرکرنے کے لیے سمندرکے برفانی تودہ (iceberg) کی مثال دی جاتی ہے،جس کے نوحصے کیے جائیں توآٹھ حصے پانی میں ڈوبے ہوئے ہوںگے اورصرف ایک حصہ اوپردیکھنے والوں کونظرآئے گا (اگرچہ یہ تناسب بھی اضافی ہے)۔
فرائڈ نے طویل تحقیق کے بعدانکشاف کیاکہ بچپن میںانسان کے لاشعورمیں کچھ ایسی چیزیں بیٹھ جاتی ہیں،جوبعدمیں غیرعقلی رویے کاباعث بنتی ہیں۔ یہی صورت مذہبی عقائدکی ہے،مثلاًدوسری دنیا اور جنّت کاتصور دراصل ان آرزوؤں کی صدائے بازگشت ہے، جو بچپن میں آدمی کے ذہن میں پیدا ہوئیں،مگرحالات سازگارنہ ہونے کہ وجہ سے پوری نہیں ہوئیں اوردب کرلاشعورمیں باقی رہ گئیں۔ بعد کو لاشعورنے اپنی تسکین کے لیے ایک ایسی دنیافرض کرلی جہاں وہ اپنی آرزوؤں کی تکمیل کرسکے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی شخص اپنی ایک محبوب چیزکوواقعی دنیامیں نہ پاسکاتووہ نیندکی حالت میں خواب دیکھتا ہے کہ وہ ا س سے ہم کنار ہو رہا ہے۔ اسی طرح بچپن کی بہت سے باتیں جولاشعورمیں تہ نشیں ہو کربظاہرحافظہ سے نکل گئی تھیں، وہ غیرمعمولی حالات مثلاًجنون یاہسٹریامیں یکایک زبان پرجاری ہوگئیں توسمجھ لیا گیا کہ یہ کوئی ماورائی طاقت ہے جوانسان کی زبان سے کلام کررہی ہے۔اسی طرح بڑے اورچھوٹے کے فرق (father complex) نے خدااوربندے کاتصور پیدا کیا، اور جو چیز محض ایک سماجی برائی تھی، اس کوکائناتی سطح پررکھ کرایک نظریہ گڑھ لیاگیا۔ لنٹن (Ralph Linton) لکھتا ہے:
“ایک ایسے قادرمطلق کاتصورجس کے کام خواہ کتنے ہی غیرمنصفانہ معلوم ہوںمگروہ مکمل فرمانبرداری اوروفاداری ہی کے ذریعہ خوش کیاجاسکتاہے، براہِ راست سامی عائلی نظام کی پیداوارتھا۔اس عائلی نظا م نے مبالغہ آمیزفوق الفطری انانیت کوجنم دیا۔ اس کانتیجہ یہ نکلاکہ قانون موسوی کی شکل میں انسانی زندگی اوررویہ کے ہرپہلوکے متعلق محرمات کی ایک مفصل فہرست تیارہوگئی۔محرمات کایہ سلسلہ ان لوگوں نے گر ہ میں باندھ لیاجوبچپن میں اپنے باپ کے احکام کویادرکھنے اوراحتیاط سے اس پرعمل کرنے کے عادی ہوچکے تھے۔خدا کا تصور مخصوص قسم کے سامی باپ کاپرتوہے،جس کے اختیارات اوراوصاف میں تجرد اورمبالغہ پیدا کر دیا گیا ہے۔‘‘
The Hebrew picture of an all-powerful deity who could only be placated by complete submission and protestations of devotion, no matter how unjust his acts might appear, was a direct outgrowth of this general Semitic family situation. Another product of the exaggerated superego to which it gave rise was the elaborate system of taboos relating to every aspect of behaviour. One system of this sort has been recorded and confided in the Laws of Moses. All Semitic tribes had similar series of regulation differing only in content. Such codes provided those who kept them with a sense of security, comparable to that of the good child who is able to remember everything that his father ever told him not to do and carefully abstains from doing it. The Hebrew Yahveh was a portrait of the Semitic father with his patriarchal authoritarian qualities abstracted and exaggerated.
The Tree of Culture, Ralph Linton
New York, Alfred A, Knopf , 1956, p. 288
3۔ مذہب کے خلاف مقدمے کی تیسری بنیادتاریخ ہے۔مخالفین مذہب کادعویٰ ہے کہ ہم نے تاریخ کامطالعہ کیاتومعلوم ہواکہ مذہبی تصورات پیداہونے کی وجہ وہ مخصوص تاریخی حالات ہیں، جواس سے پہلے انسان کوگھیرے ہوئے تھے۔ قدیم زمانے میں سائنس کی دریافتوں سے پہلے سیلاب، طوفان اوربیماری وغیرہ سے بچنے کاانسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ مستقل طور پر اپنے آپ کو غیرمحفوظ زندگی میں پاتاتھا۔ اس لیے ا س نے اپنی تسکین کے لیے کچھ ایسی غیرمعمولی طاقتیںفرض کرلیں،جن کووہ مصیبت کے وقت پکارے اورجن سے دفعِ بلاکی امیدرکھے۔ اسی طرح سماج کے اندر باہمی پیوستگی پیداکرنے اورایک مرکزکے گردلوگوں کوجوڑے رکھنے کے لیے بھی کسی چیزکی ضرورت تھی۔ یہ کام اس نے ایسے معبودوں سے لیاجوسارے انسانوں کے اوپرہوںاورجن کی مرضی حاصل کرناہرایک کے لیے ضروری ہو،وغیرہ غیرہ، علوم اجتماعی کی انسائیکلوپیڈیامیں مذہب (Religion)کامقالہ نگارلکھتاہے:
“جس طرح دوسرے اسباب مذہب کوپیداکرنے میںا ثراندازہوئے ہیں، اسی طرح اس میں سیاسی اورتمدنی حالات کابھی دخل رہاہے۔ خداؤں کے نام اور ان کی صفات خودبخودوقت کے نظام سلطنت کی صورت میں ڈھل گئے۔ خدا کو بادشاماننے کاعقیدہ محض انسانی بادشاہت کی بدلی ہوئی شکل ہے، اورآسمانی بادشاہت صرف زمینی بادشاہت کاایک چربہ ہے۔نیزچوں کہ بادشاہ سب سے بڑاجج بھی ہوتا تھا، اسی طرح خداکوبھی عدالت کی کارروائیاں سپردکردی گئیں اوریہ عقیدہ بن گیاکہ وہ انسان کی بدی یانیکی کے بارے میں آخری فیصلہ کرے گا۔ا س قسم کاعدالتی تصور جو خدا کوحساب لینےوالا اوراختیار والا مانتا ہے، اس نے نہ صرف یہودیت میں بلکہ عیسائیت اوراسلام کے مذہبی نقطۂ نظرمیں بھی مرکزی مقام حاصل کرلیا ہے۔‘‘
Encyclopaedia of Social Sciences, 1957, Vol. 13, p.233
اس طرح مخصوص تاریخی دورکے حالات اوران حالات کے ساتھ انسانی ذہن کے باہمی تعامل نے وہ تصورات پیداکیے جن کومذہب کہاجاتاہے۔ “مذہب انسانی ذہن کی پیداوارہے جوعدم واقفیت اورخارجی قوتوں کے مقابلے میں بے سہاراہونے کی ایک خاص حالت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔ جولین ہکسلے یہ ریمارک دیتاہوالکھتاہے:
"Religion is the product of a certain type of interaction between man and his environment."
Man in the Modern World, 1950, Britain, p. 132
یعنی مذہب نتیجہ ہے انسان اوراس کے ماحول کے درمیان ایک خاص طرح کے تعامل کا۔اب چوں کہ و ہ مخصوص ماحول ختم ہوگیاہے،یاکم از کم ختم ہورہاہے،جو اس طرح کے تعامل کو وجود میں لانے کاذمہ دارتھا۔اس لیے اب مذہب کوزندہ رکھنے کی بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔ ہکسلے مزید لکھتاہے:
“خداکاتصوراپنی افادیت کے آخری مقام پرپہنچ چکاہے، اب وہ مزیدترقی نہیں کرسکتا۔ مافوق الفطری طاقتیں دراصل مذہب کابوجھ اٹھانے کے لیے انسانی ذہن نے اختراع کی تھیں۔پہلے جادوپیداہوا،پھرروحانی تصرفات نے اس کی جگہ لی، پھر دیوتاؤں کا عقیدہ ابھرااوراس کے بعدایک خدا کا تصور آیا۔ اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر کر مذہب اپنی آخری حدکوپہنچ کرختم ہوچکاہے۔ کسی وقت یہ خداہماری تہذیب کے ضروری مفروضے اور مفید تخیلات تھے،مگر اب جدیدترقی یافتہ سماج میں وہ اپنی ضرورت اورافادیت کھوچکے ہیں۔‘‘
The concept of God has reached the limits of its usefulness:it cannot evolve further. Supernatural powers were created by man to carry the burden of religion. From diffuse magic mana to personal spirits; from spirits to gods; from gods to God — so crudely speaking, the evolution has gone. The particular phase of that evolution which concerns us is that of gods. In one period of our western civilization the gods were necessary fictions, useful hypotheses by which to live.
Man in the Modern World, 1950, Britain, p. 134
اشتراکی فلسفہ کے نزدیک بھی مذہب ایک تاریخی فریب ہے۔البتہ اشتراکیت چوں کہ تاریخ کامطالعہ تمام تراقتصادیات کی روشنی میں کرتی ہے۔ اس لیے اس نے تمام تاریخی اسباب کوسمیٹ کرصرف اقتصادی اسباب میں مرکوزکردیا۔ اس کے نزدیک مذہب کوجن تاریخی حالات نے پیداکیاوہ دورقدیم کاجاگیردارانہ اورسرمایہ دارانہ نظام تھا۔ اب چوں کہ یہ فرسودہ نظام اپنی موت مر رہا ہے۔اس لیے مذہب کوبھی اسی کے ساتھ ختم سمجھناچاہیے۔انگلس کے الفاظ میں”تمام اخلاقی نظریے،اپنے آخری تجزیے میں، وقت کے اقتصادی حالات کی پیداوارہیں‘‘۔
Antzs Duhring, Moscow, 1954 , p. 131
انسانی تاریخ طبقاتی لڑائیوں کی تاریخ ہے جس میں سربرآوردہ طبقہ پسماندہ طبقہ کا استحصال کرتارہاہے، اورمذہب واخلاق صرف وضع کیے گئے تاکہ سربرآوردہ طبقہ کے مفادات کومحفوظ کرنے کے لیے نظریاتی بنیادحاصل ہوسکے۔
“قانون،اخلاق، مذہب،سب بورژواکی فریب کاری ہے،جس کی آڑمیں اس کے بہت سے مفادات چھپے ہوئے ہیں‘‘ (کمیونسٹ مینی فسٹو)۔
نوجوان کمیونسٹ لیگ کی تیسری کل روس کانگریس (اکتوبر1920) میں لینن نے کہا تھا:
“یقیناًہم خداکونہیں مانتے۔ہم خوب جانتے ہیں کہ ارباب کلیسا، زمیندار اور بورژوا طبقہ جوخداکے حوالے سے کلام کرتے ہیںوہ محض استحصال کرنے والے کی حیثیت سے اپنے مفادات کاتحفظ کرناچاہتے ہیں۔ ہم ایسے تمام اخلاقی ضابطوں کا انکارکرتے ہیں،جوانسانوں سے ماوراکسی مافوق طاقت سے اخذکیے گئے ہوں یاطبقاتی تصورپرمبنی نہ ہوں، ہم کہتے ہیں کہ یہ ایک دھوکاہے، ایک فریب ہے، زمینداروں اورسرمایہ داروں کے مفادکے لیے مزدوروں اور کسانوں کی فکر پرپردہ ڈالنا (befogging of the minds) ہے۔ہم کہتے ہیں کہ ہماراضابطۂ اخلاق تمام تر صرف پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہدکے تابع ہے، ہمارے اخلاقی اصول کاماخذ پرولتاریہ کی طبقاتی جدوجہد کا مفاد ہے۔‘‘(لینن سلکٹڈ ورکس، ماسکو،1947، جلد2 صفحہ 667)
یہ ہے مخالفین مذہب کاوہ مقدمہ جس کی بنیاپردورجدیدکے بہت سے لوگ، فزیالوجی کے ایک امریکی پروفیسرکے الفاظ میں، کہتے ہیں— سائنس نے ثابت کردیاہے کہ مذہب تاریخ کاسب سے زیادہ دردناک اورسب سے بدترین ڈھونگ تھا:
Science has shown religion to be history’s cruelest and wickedest hoax.
Quoted by C. A. Coulson, Science and Christian Belief, p. 4