اثبات ِرسالت

مذہب کا ایک اہم عقیدہ رسالت یاوحی والہام ہے،یعنی یہ کہ خدا انسانوں میں سے کسی انسان پراپناکلام اتارتاہے،اوراس کے ذریعہ سے تمام انسانوں کواپنی مرضی سے باخبر کرتا ہے، اب چوں کہ بظاہرہمیں خدااورصاحب وحی کے درمیان ایسا کوئی”تار‘‘نظرنہیں آتاجس پر خدا کا پیغام سفرکرکے انسانوں تک پہونچتاہو،اس لیے بہت سے لوگ اس دعوے کے صحیح ہونے سے انکار کر دیتے ہیں ،حالانکہ وحی کا تصور اس وقت ہمارے لیے بالکل قابلِ فہم ہوجاتا ہے، جب ہم اس کو دوسرے معلوم واقعات کے ساتھ ملا کر دیکھیں۔

ہمارے گردوپیش ایسے واقعات موجودہیں ،جوہمارے محدوددائرہ سماعت سے کہیں بالاتر ہیں ، مگر اس کے باوجودانھیں اخذکیاجاسکتاہے،انسان نے آج ایسے آلات ایجاد کرلیے ہیں ، جن سے وہ ایک مکھی کے چلنے کی آوازمیلوں دورسے ا س طرح سن سکتاہے، جیسے وہ اس کے کان کے پردہ پر رینگ رہی ہو،حتیٰ کہ وہ کائناتی شعاعوں (cosmic rays)کے تصادم تک کو ریکارڈ کرلیتا ہے، اس طرح کے آلات اب کثرت سے انسان کوحاصل ہوچکے ہیں ،جویہ ثابت کرتے ہیں کہ اخذ و سماعت کی ایسی صورتیںبھی ممکن ہیں جومعمولی حواس کے ذریعے ایک شخص کے لیے ناممکن اورناقابل قیاس ہوں۔

پھریہ مخصوص ذائع ادراک صرف مشینی آلات تک محدودنہیں ،بلکہ حیوانوں کامطالعہ بتاتاہے کہ فطرت نے خودذی حیات اشیا کے اندرایسی طاقتیں رکھی ہیں۔ مثلاً کتااپنی متجسس ناک سے اس جانور کی بوسونگھ لیتاہے،جوراستہ سے نکل گیا۔چنانچہ کتّے کی ا س صلاحیت کوجرائم کی تفتیش میں استعمال کیاجاتاہے، چورجس تالے کوتوڑکرکمرے میں گھسا ہے، اس تالے کوجاسوسی کتے (Scott Dog)کوسونگھایاجاتاہے، اوراس کے بعداسے چھوڑ دیا جاتاہے۔ وہ سیکڑوں انسانوں کے درمیان ٹھیک اس شخص کوتلاش کرکے اس کاہاتھ پکڑ لیتا ہے،جس نے اپنے ہاتھ سے تالے کوچھواتھا۔کتنے جانور ہیں ، آوازیں سنتے ہیں ،جوہماری قوت سماعت سے باہرہیں۔ بے شک انسان کے حواس بہت محدودہیں ، مگراس جانور کے حواس کامعاملہ مختلف ہے۔

تحقیق سے معلوم ہواہے کہ جانوروں میں اشراق (Telepathy)کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے، ایک مادہ پتنگے(moth) کوکوٹھے میں کھلی کھڑکی کے پاس رکھ دیجیے۔وہ کچھ مخصوص اشارے کرے گی۔ یہ اشارے اسی نوع کے نرپتنگے حیرت انگیزفاصلے سے سن لیں گے اوراس کاجواب دیں گے۔ جھینگر اپنے پاؤں یاپرایک دوسرے پررگڑتا ہے،رات کے سناٹے میں آدھے میل دور تک یہ آواز سنائی دیتی ہے، یہ چھ سوٹن ہوا کو ہلاتا ہے،اوراس طرح اپنے جوڑے کوبلاتاہے،اس کی مادہ جو بظاہر بالکل خاموش ہوتی ہے۔ مگر پراسرار طریقہ پرکوئی ایسابے آوازجواب دیتی ہے جو نر تک پہنچ جاتا ہے۔ نر اس پراسرار جواب کوجسے کوئی بھی نہیں سنتا،حیرت انگیزطورپرسن لیتا ہے،اورٹھیک اسی سمت میں اس کے مقام پر جاکراس سے مل جاتاہے اندازہ لگایاگیاہے کہ ایک معمولی ٹڈے (grasshopper) کی قوت سماعت اس قدرتیزہوتی ہے کہ ہائیڈروجن کے ایٹم کے نصف قطر کے برابرکی حرکت تک کووہ محسوس کرلیتاہے۔

اس طرح کی کثیرمثالیں موجودہیں ،جویہ بتاتی ہیں کہ ایسے ذرائع مواصلات ممکن ہیں ، جو بظاہر نظرنہ آتے ہوں مگراس کے باوجودوہ بطورواقعہ موجودہوں اورمخصوص حواس رکھنے والے ذی حیات اس کاادراک کرلیتے ہوں، ان حالات میں اگرایک شخص یہ د عویٰ کرتاہے کہ”مجھے خداکی طرف سے ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں ،جن کوعام لوگ نہیں سنتے‘‘ تواس میں اچنبھے کی کیابات ہے،اگراس دنیامیں ایسی آوازیں ممکن ہیں ، جوآلات سنتے ہوں مگر انسان نہ سنتے ہوں،اگریہاںایسی پیغام رسانی ہورہی ہے،جس کوایک مخصوص جانورتو سن لیتا ہے، مگردوسرااسے نہیں سنتا،توآخراس واقعہ میں استبعادکاکیاپہلوہے کہ خدا اپنی مصالح کے تحت بعض مخفی ذرائع سے ایک انسان تک اپناپیغام بھیجتاہے،اوراس کے اندر ایسی صلاحتیں پیدا کردیتاہے کہ وہ اس کواخذکرسکے اوراس کوپوری طرح سمجھ کرقبول کرلے، حقیقت یہ ہے کہ وحی والہام کے تصوراورہمارے مشاہدات وتجربات میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ یہ اسی قسم کے مشاہدات کی ایک برترصورت ہے،جس کامختلف شکلوں میں ہم تجربہ کرچکے ہیں۔ یہ ایک امکان کوواقعہ کی صورت میں تسلیم کرناہے۔

پھراشراق اورغیب دانی کے تجربات بتاتے ہیں کہ یہ چیزصرف حیوان تک محدودنہیں بلکہ انسان کے اندربھی بالقوہ اس قسم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹرالکسس کیرل کے الفاظ میں — فردکی نفسیاتی سرحدیں مکاں اورزماں کے اندر محض فرضی (suppositions)ہوتی ہیں :

The psychological frontiers of the individual in space and time are obviously suppositions. (Man, the Unknown, p. 244)

 چنانچہ ایک عامل کسی آوازاورخارجی ذریعہ کے بغیراپنے معمول پرتوجہ ڈالتا ہے، جس کے نتیجہ میں وہ اس پرمصنوعی نیند(Hypnotic Sleep)طاری کرسکتا ہے، اس کو ہنسا یا رلاسکتاہے،اس کے ذہن میں مخصوص خیالات القاء کرسکتاہے یہ ایک ایساعمل ہے، جس میں نہ کوئی ظاہری آلہ استعمال ہوتااورنہ عامل اورمعمول کے سواکوئی شخص اسے محسوس کرتا، پھراسی نوعیت کا واقعہ بندے اورخداکے درمیان کیوں ہمارے لیے ناقابل تصور ہو، خداکوماننے اورانسانی زندگی میں اشراقی قوت کاتجربہ کرلینے کے بعد ہمارے لیے وحی والہام سے انکارکی کوئی بنیادباقی نہیں رہتی۔

دسمبر1950ء کاواقعہ ہے۔بویریاکے حکام (Bavarian authorities)نے ایک عامل توجہ (Hypnotist) فرنٹرسڑوبل(Fronter Strobel) پر ایک ریڈیو پروگرام میں “خلل اندازی بذریعہ ٹیلی پیتھی‘‘کے الزام میں مقدمہ دائر کردیا۔ ریجناہوٹل واقع میونخ میں اپنے کرتب کامظاہرہ کرتے ہوئے سڑوبل نے ایک تماشہ بیں کو تاش کا ایک پتہ اٹھاکردیااوراس سے کہاکہ وہ اس کانام حسب منشاترتیب کے ساتھ اپنے دل میں سوچ لے۔ ہپناٹسٹ نے دعویٰ کیاکہ وہ اس پتے کانام مع ترتیب (جیسا کچھ پتہ اٹھانے والے نے اپنے دل میں سوچ رکھاتھا)خودجانے بغیر ریڈیو کے اناونسر کی جانب منتقل کر دے گا،جواس وقت ریڈیو پرخبریں سنارہاتھا۔

چندہی سکنڈبعدحیرت زدہ سامعین نے میونخ ریڈیوکے اناؤنسرکی لڑکھڑاتی زبان میں سنا “ریجنا ہوٹل،حکم کی ملکہ‘‘پتے کانام بھی درست تھا،اورترتیب بھی پتہ اٹھانے والے کی سوچ کے عین مطابق تھی۔

اناؤنسرکی وحشت اس کی آوازسے واضح طورپرظاہر ہورہی تھی۔تاہم وہ خبریں سنائے چلا گیا ادھر سیکڑوںریڈیو سننے والے اس عجیب واقعہ کاسبب معلوم کرنے کے لیے براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کو ٹیلی فون کررہے تھے،کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ خبروں کے پروگرام کے درمیان “ریجنا ہوٹل،حکم کی ملکہ‘‘کے الفاظ کاکیامطلب ہے۔ اکثر لوگوں نے سمجھا کہ اناؤنسر شاید اس وقت شراب کے نشے میں تھا۔ ڈاکٹرمعائنہ کے لیے آیاتواس نے پایا کہ اناونسر شدید اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اناؤنسرنے بتایاکہ خبریں پڑھتے پڑھتے اس کے سرمیں اچانک ایک دردسااٹھا،اس کے بعد اسے کچھ یادنہیں کہ کیا ہوا({ FR 39 })۔

میں کہوں گاکہ اگرانسان کویہ قدرت حاصل ہے کہ ایک انسان کے خیالات دوسرے انسان کو منتقل کردے،جب کہ دونوں کے درمیان غیرمعمولی فاصلہ ہواوراس کے لیے کوئی ظاہری واسطہ استعمال نہ کیاگیاہوتوالقائے کلام کایہی واقعہ خالقِ کائنات کی طرف سے کیوں وجودمیں نہیں آسکتا۔ انسانی صلاحیت کایہ اظہار،جس کی مثالیں کثرت سے موجودہیں۔ یہ ایک تجرباتی قرینہ ہے، جس سے ہم اس امکان کوبآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ خدااوربندے کے درمیان کسی واسطہ کے بغیرکس طرح الفاظ اورمعانی کا تعلق قائم ہوتا ہے،اورایک کے خیالات دوسرے کوبعینہ منتقل ہوجاتے ہیں۔ اشراقی پیغام رسانی جو بندوںکے درمیان ایک معلوم اورثابت شدہ واقعہ ہے، ایک ایسی مثال ہے، جس سے ہم اس اشراق کوسمجھ سکتے ہیں ، جو بندے اورخداکے درمیان ہوتاہے، اور جس کی کامل اور متعین صورت کومذہب کی اصطلاح میں “وحی‘‘ کہاجاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ وحی اپنی نوعیت کے اعتبار سے، بلاتشبیہ، اسی قسم کا ایک مخصوص کائناتی اشراق ہے،جس کاتجربہ محدودپیمانے پرہم انسانی زندگی میں باربارکرچکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔

وحی والہام کوممکن ماننے کے بعداب ہمیں یہ دیکھناہے کہ اس کی ضرورت بھی ہے یانہیں کہ خداکسی انسان سے مخاطب ہواوراس کے ذریعہ سے اپناکلام بھیجے،اس کی ضرورت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول آدمی کوجس چیزسے باخبرکرتاہے،وہ آدمی کی شدید ترین ضرورت ہے،مگروہ خود اپنی کوشش سے ا سے حاصل نہیں کرسکتاہزاروں برس سے انسان حقیقت کی تلاش میں ہے،وہ سمجھنا چاہتاہے کہ یہ کائنات کیاہے،انسان کاآغازوانجام کیاہے،خیرکیاہے اورشر کیاہے،انسان کو کیسے قابو میں لایاجائے،زندگی کوکیسے منظم کیاجائے کہ انسانیت کے سارے تقاضے اپنے صحیح مقام کو پاتے ہوئے متواترترقی کرسکیں، مگرابھی تک اس تلاش میں کامیابی نہیں ہوئی۔تھوڑی مدت کی تلاش وجستجوکے بعدہم نے لوہے، اور پٹرول کی سائنس بالکل ٹھیک ٹھیک جان لی اور طبیعی دنیا کی سیکڑوں سائنسوں کے بارے میں صحیح ترین واقفیت حاصل کرلی،مگرانسان کی سائنس ابھی تک دریافت نہیں ہوئی۔ طویل ترین مدت کے درمیان بہترین دماغوں کی لاتعدادکوششوں کے باوجود یہ سائنس ابھی تک اپنے موضوع کی ابتدائیات کوبھی متعین نہ کرسکی۔اس سے بڑاثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس معاملے میں ہمیں خداکی مددکی ضرورت ہے،اس کے بغیرہم اپنا”دین‘‘معلوم نہیں کرسکتے۔

یہ بات انسان جدید کوتسلیم ہے کہ زندگی کارازابھی تک اس کومعلوم نہ ہوسکا،مگراسی کے ساتھ وہ یقین رکھتاہے کہ وہ کبھی نہ کبھی اس رازکومعلوم کرلے گا،سائنس اورصنعت کے پیداکیے ہوئے ماحول کاانسان کے لیے سازگارنہ ہونا،اسی وجہ سے ہے کہ “اگرایک طرف جامدمادے کے علوم کی وسیع پیمانے پرترقی ہوئی ہے تودوسری طرف جاندارہستیوں کے علوم بالکل ابتدائی حالت پرباقی ہیں ‘‘۔ اس دوسرے شعبہ پرجن لوگوں نے کام کیا، وہ حقیقت کونہ پاسکے، اوراپنے تخیلات کی دنیامیں بھٹک رہے ہیں۔نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر الکسس کیرل (Alexis Carrel) کے الفاظ میں — “فرانسیسی انقلاب کے اصول اورمارکس اورلینن کے نظریے محض ذہنی اورقیاسی انسانوں پرمنطبق ہوسکتے ہیں ، اس بات کوصاف طور پرمحسوس کرنا چاہیے کہ انسانی تعلقات کے قوانین (laws of human relations) اب تک معلوم نہیں ہوسکے ہیں ، سماجیات اور اقتصادیات کے علوم محض قیاسی ہیں ، اورناقابل ثبوت ہیں ‘‘۔

The Principles of the French Revolution, the Visions of Marx and Lenin, apply only to abstract men. It must be clearly realised that the laws of human relations are still unknown. Sociology and economics are conjectural sciences - that is pseudo-sciences.

Man, the Unknown, p. 37

 بلاشبہ موجودہ زمانے میں علوم نے بہت ترقی کی ہے،مگران ترقیات نے مسئلہ کو اور الجھا دیا ہے، اس نے کسی بھی درجہ میں اس کوحل کرنے میں کوئی مددنہیں کی ہے۔جے، ڈبلیو،این سولیون(J. W. N. Sullivan)لکھتاہے:

“سائنس نے موجودہ زمانے میں جس کائنات کودریافت کیاہے،وہ تمام فکری تاریخ کے مقابلے میں بہت زیادہ پراسرارہے،اگرچہ فطرت کے بارے میں ہماری معلومات تمام پچھلے ادوارکے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں ،مگراس کے باوجودیہ کثیر معلومات ایک اعتبارسے بہت کم تشفی بخش ہیں۔کیوں کہ ہرسمت میں ہم ابہام (ambiguities)اور تضاد (contradictions)سے دوچارہورہے ہیں۔‘‘

At the present day the scientific universe is more mysterious than it has ever been before in the history of thought. Although our knowledge of natural processes is greater than it has ever been, this knowledge is, in a way, less satisfactory, for in every direction we are faced by ambiguities and contradictions.

Limitations of Science, 1938, p. 89-90

زندگی کے رازکومادی علوم میں تلاش کرنے کایہ عبرت ناک انجام بتاتاہے کہ زندگی کا راز انسان کے لیے ناقابل دریافت ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوڈاکٹرالکسس کیرل کی کتاب صفحات 16-19)۔ ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ زندگی کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے، اس کے بغیرہم کوئی عمل نہیں کرسکتے،ہمارے بہترین جذبات اسے جاننا چاہتے ہیں ،ہماری ہستی کااعلیٰ ترین جزءجس کوہم فکریاذہن کہتے ہیں ،وہ اس کے بغیرمطمئن ہونے کے لیے کسی طرح راضی نہیں ،ہماری زندگی کاسارانظام اس کے بغیر ابتر ہے اور لاینحل معمہ بناہواہے،دوسرے لفظوں میں یہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے، مگر یہی سب سے بڑی ضرورت ہم خودسے پوری نہیں کرسکتے۔

کیایہ صورت حال اس بات کی کافی دلیل نہیں ہے کہ انسان”وحی‘‘ کامحتاج ہے۔زندگی کی حقیقت کاانتہائی ضروری ہونے کے باوجودانسان کے لیے ناقابل دریافت ہونا ظاہر کرتاہے کہ اس کا تعلق اس فہرستِ کائنات سے ہے، جس میں قدرت نے روشنی اور حرارت جیسی چیزوں کو درج کررکھا ہے۔روشنی اورحرارت انسان کے لیے ضروری ہے۔ اس کے باوجودیہ انسان کے بس سے باہر ہے۔ مگرقدرت نے حیرت انگیز طور پر سورج کے ذریعہ ا س کاانتظام کردیاہے۔ اسی طرح زندگی کے سوال کا جواب دینے کے لیے خارج سے انتظام کیا گیا ہے۔

وحی والہام کوممکن اورضروری تسلیم کرلینے کے بعداب ہمیں یہ دیکھناہے کہ جوشخص اس کادعویٰ کر رہا ہے،وہ فی الواقع صاحب وحی ہے یانہیں ،ہمارے عقیدے اورایمان کے مطابق اس قسم کے صاحبان وحی بہت کثیرتعدادمیں اس زمین پرپیداہوچکے ہیں ، مگراس باب میں ہم خاص طورپرآخری رسول حضرت محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت پر گفتگوکریں گے،ا س لیے کہ آپ کے دعوائے نبوت کاثابت ہونادراصل سارے انبیاء کے دعوائے نبوت کاثابت ہوناہے،کیوں کہ آپ دیگرانبیاء کے منکرنہیں ہیں ،بلکہ ان کی تصدیق کرنے والے ہیں ،اوراس لیے بھی کہ اب موجودہ اورآئندہ نسلوں کے لیے آپ ہی خداکے رسول ہیں ، آپ کے بعداب کوئی دوسرارسو ل آنے والانہیں ہے،اس لیے عملًا اب نسل انسانی کی نجات وخسران کامعاملہ آپ ہی کے دعوائے نبوت کوماننے یانہ ماننے سے متعلق ہے۔

سن عیسوی کے لحاظ سے 29اگست 570ء کی صبح کومکہ میں ایک بچہ پیداہوا،چالیس سال کی عمرکوپہنچنے کے بعداس نے یہ اعلان کیاکہ خدانے مجھ کواپناآخری رسول بنایا ہے، اورمیرے پاس اپناپیغام بھیج کرمجھے اس خدمت کے لیے مامورکیاہے کہ میں ا س کے پیغام کوتمام انسانوں تک پہنچادوں،جومیری اطاعت کرے گاوہ خداکے یہاں سرفراز ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گاوہ ہلاک کردیاجائے گا۔

یہ آوازآج بھی پوری شدت کے ساتھ ہمارے سروں پرگونج رہی ہے،یہ ایسی آواز نہیں ہے کہ کوئی شخص اس کوسنے اورنظراندازکردے،بلکہ یہ ایک زبردست مطالبہ ہے، اس آوازکاتقاضاہے کہ ہم اس کے اوپرغورکریں، اس کے بعداگراس کوغلط پائیں توکھلے دل سے اسے ردکردیںاورصحیح پائیں توکھلے دل سے اس کوقبول کرلیں۔

جدید معیار کے مطابق، کسی تصور کے علمی حقیقت بننے کے لیے اسے تین مرحلوں سے گزرنا ہوتا ہے:

1۔ مفروضہ (hypothesis)

2۔ مشاہدہ (observation)

3۔ تصدیق(verification)

 پہلے ایک مفروضہ یاتصورذہن میں آتاہے،پھرمشاہدہ کیاجاتاہے،اس کے بعد اگر مشاہدہ سے اس کی تصدیق ہوجائے تواس مفروضہ کوواقعہ تسلیم کرلیاجاتاہے،ا س ترتیب میں کبھی فرق بھی ہوجاتاہے،یعنی پہلے کچھ مشاہدات سامنے آتے ہیں ،اوران مشاہدات سے ایک تصوریامفروضہ ذہن میں قائم ہوتاہے،پھرجب یہ ثابت ہوجاتاہے کہ مشاہدات فی الواقع اس مفروضہ کی تصدیق کررہے ہیں تووہ حقیقت قرارپاجاتاہے۔

اس اصول کے مطابق نبی کادعوائے نبوت گویاایک “مفروضہ‘‘ کے طورپرہمارے سامنے ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھناہے کہ مشاہدات اس کی تصدیق کررہے ہیں یانہیں ، اگر مشاہدات اس کے حق میں گواہی دے دیں توا س کی حیثیت ایک مصدقہ حقیقت (verified fact) کی ہوجائے گی، اور ہمارے لیے ضروری ہوجائے گاکہ ہم اس کوتسلیم کریں۔

اب دیکھیے کہ وہ کیامشاہدات ہیں جواس “مفروضہ‘‘کی تصدیق کے لیے درکارہیں جن کی بنیاد پر ہم نبی کے دعوے کوجانچیں اوراس کے مطابق دعوے کاصحیح یاغلط ہونامعلوم کریں۔ دوسرے لفظوں میں وہ کون سے خارجی مظاہرہیں ،جن کی روشنی میں یہ متعین ہوتا ہے کہ آپ فی الواقع خداکے رسول تھے، ذات رسول میں جمع ہونے والی وہ کون سی خصوصیات ہیں ،جن کی توجیہ اس کے سوااورکچھ نہیں ہوسکتی کہ ہم ان کوخداکارسول مانیں، میرے نزدیک یہ حسب ذیل ہیں ، جوشخص اپنے بارے میں رسول ہونے کادعویٰ کرے، اس کے اندردوخصوصیات لازمی طورپرہونی چاہئیں۔

1۔ایک یہ کہ وہ غیرمعمولی طورپرایک معیاری انسان ہو،کیوں کہ وہ شخص جس کوساری نسل انسانی میں ا س لیے چناجائے کہ وہ خداسے ہم کلام ہواورزندگی کی درستگی کاپروگرام اس کے ذریعہ سے منکشف کیاجائے،یقینی طورپراس کونسل انسانی کابہترین فردہوناچایئے اوراس کی زندگی میں اس کے آدرشوں(ideals) کوبہ تمام وکمال ظہورکرناچاہیے،اگراس کی زندگی ان اوصاف سے مزین ہے تویہ اس کے دعوے کی صداقت کاکھلاہواثبوت ہے، کیوں کہ اس کادعویٰ اگرغیرحقیقی ہوتووہ زندگی میں اتنی بڑی حقیقت بن کرنمایاں نہیں ہوسکتاکہ اس کواخلاق وکردارمیں ساری انسانیت میں بلندکردے۔ 

2۔دوسرے یہ کہ اس شخص کاکلام اوراس کاپیغام ایسے پہلووں سے بھراہوا ہونا چاہیے جوعام انسان کے بس سے باہرہوں،جس کی امیدکسی ایسے ہی انسان سے کی جاسکتی ہو، جس پرمالک کائنات کاسایہ پڑاہو۔عام انسان ایساکلام پیش کرنے پرقادرنہ ہوسکیں۔

یہ دومعیارہیں جن پرہمیں رسول کے دعوائے نبوت کوجانچناہے۔

پہلی بات کے سلسلے میں تاریخ کی قطعی شہادت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام محمدبن عبد اللہ ایک غیرمعمولی سیرت کے آدمی تھے۔ہٹ دھرمی کے ذریعہ توکسی بھی حقیقت کاانکارممکن ہے، اور دھاندلی کی زبان میں ہرالٹی بات کادعویٰ کیاجاسکتاہے۔ مگرجوشخص تعصب کا مریض نہ ہو اور کھلے دل سے حقیقت کامطالعہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہو،وہ لازمًاتسلیم کرے گاکہ آپ کی زندگی اخلاقی حیثیت سے نہایت اعلیٰ وارفع تھی۔

پیغمبر اسلام کوچالیس سال کی عمرمیں نبوت ملی۔ اس سے پہلے آپ کی پوری زندگی اخلاقی لحاظ سے اس قدراعلی تھی کہ آپ کولوگ سچااوردیانت دارکہہ کرپکارنے لگے تھے۔ “اَلصّادِقُ الامینْ ‘‘ آپ کا مشہور لقب بن گیاتھا۔قدیم مکہ میں آپ کے متعلق بلا استثنا یہ بات مانی جاتی تھی کہ آپ ایک نہایت ایمان دارشخص ہیں ، اورکبھی جھوٹ نہیں بولتے۔

دعوائے نبوت سے پانچ سال پہلے کاواقعہ ہے کہ قریش نے کعبہ کی تعمیرنوکاارادہ کیا۔جب تعمیر ہونے لگی تواس بات پرشدیداختلاف پیداہوگیاکہ حجراسودکونئی تعمیرمیں کون شخص اس کی جگہ پر نصب کرے،چارپانچ دن تک یہ اختلاف جاری رہااورقریب تھاکہ کہ تلواریں چل جائیں، بالآخر طے پایا کہ اس جھگڑے کافیصلہ وہ شخص کرے گاجوکل صبح کوسب سے پہلے بیت اﷲ میں داخل ہو، دوسرے دن لوگوں نے جب سب سے پہلے داخل ہونے والے انسان کو دیکھا تو پکار اٹھے “هَذَا الأَمِينُ قَدْ رَضِينَا بِمَا قَضَى بَيْنَنَا‘‘ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد1، صفحہ116)۔امین آگیا، ہم سب راضی ہیں ، جو فیصلہ وہ ہمارے درمیان کریں۔

ہمیں تاریخ میں کسی ایسے شخص کاعلم نہیں جس کی زندگی بحث ونزاع کاموضوع بننے سے پہلے چالیس سال تک لوگوں کے سامنے رہی ہواوراس کے جاننے والے اس کی سیرت و کردارکے بارے میں اتنی غیرمعمولی رائے رکھتے ہوں۔

پہلی بارآپ پرغارحرامیں وحی اتری تویہ آپ کے لیے ایک ایساغیرمعمولی واقعہ تھا،جس کاآپ کوپہلے کبھی تجربہ نہیں ہواتھا،آپ شدت احساس کے ساتھ گھرلوٹے اوراپنی اہلیہ سے، جوآپ سے عمرمیں بڑی تھیں، اس واقعہ کاذکرکیا۔اہلیہ کاجواب تھا:”خداکی قسم، اللہ یقیناً آپ کی حفاظت کرے گا،کیوں کہ آپ سچ بولتے ہیں ، آپ دیانت دارہیں ، آپ برائی کابدلہ بھلائی سے د یتے ہیں ، اورلوگوں کے حقوق اداکرتے ہیں۔‘‘ (دیکھیے، صحیح البخاری، حدیث نمبر 3)۔

ابوطالب آپ کے چچاتھے،ان کے سامنے آپ نے اسلام کی دعو ت پیش کی توانھوں نے یہ کہہ کراسے ماننے سے انکارکردیاکہ میں اپنے باپ داداکے دین کوچھوڑنہیں سکتا، مگر اس کے بعدجب انھیں اپنے لڑکے علی (رضی اﷲ تعالیٰ عنہ) سے معلوم ہواکہ وہ آپ پر ایمان لاچکے ہیں توابوطالب نے کہا”بیٹے!تم اس کے لیے آزادہوکیوں کہ مجھے یقین ہے کہ محمدتم کوخیرکے سواکسی چیزکی طرف نہیں بلائیں گے۔‘‘(آئیڈیل پرافٹ صفحہ68)

نبوت ملنے کے بعدجب آپ نے پہلی بار صفاپہاڑی کے دامن میں لوگوں کوجمع کر کے اپنی دعوت پیش کی اس وقت آپ نے اپنی دعوتی تقریرشروع کرنے سے پہلے حاضرین سے یہ سوال کیا”تمہارامیرے متعلق کیاخیال ہے‘‘جواب میں بالاتفاق یہ آواز آئی:

مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلَّا صِدْقًا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4770)۔ یعنی، تمہارے اندرہم نے سچائی کے سواکوئی اوربات کبھی نہیں دیکھی ہے۔

پیغمبراسلام (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی ابتدائی زندگی کے بارے میں یہ ایک ایساممتاز تاریخی ریکارڈہے جس کی مثال کسی بھی شاعر،فلسفی،مفکریامصنف کے یہاں نہیں مل سکتی۔

جب آپ نے پیغمبری کااعلان کیاتومکہ کے لوگ جوآپ کواچھی طرح جانتے تھے، ان کے لیے یہ سوال خارج از بحث تھاکہ آپ کونعوذباﷲ جھوٹایاجعل سازسمجھیں۔کیوں کہ یہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کی اب تک کی پوری زندگی کے خلاف تھا۔ا س لیے انھوں نے کبھی آپ پراس قسم کاالزام نہیں لگایا۔بلکہ کہاتویہ کہاکہ ا س شخص کی عقل کھوگئی ہے، وہ شاعرانہ مبالغہ کررہے ہیں ، اوران پرکسی کاجادوچل گیاہے، ان پرجنات سوارہے، وغیرہ۔مخالفین نے یہ سب کچھ کہا مگر کسی کی جرأت یہ نہ ہوئی کہ وہ آپ کی صداقت اوردیانت داری پرشبہ ظاہرکرے۔ یہ حیرت انگیزبات ہے کہ ایک شخص جس کی قوم اس کی دشمن ہوچکی ہے، اوروطن میں اس کارہنابھی اسے گوارانہیں ہے،ا س شخص کے بارے میں اس کی دشمن قوم کاحال تاریخ یہ بیان کرتی ہے:

لَيْسَ بِمَكَّةَ أَحَدٌ عِنْدَهُ شَيْءٌ يُخْشَى عَلَيْهِ إلَّا وَضَعَهُ عِنْدَهُ، لِمَا يُعْلَمُ مِنْ صِدْقِهِ وَأَمَانَتِهِ(سیرت ابن ہشام جلد1،صفحہ485)۔یعنی مکہ میں جس کسی کے پاس بھی کوئی ایسی چیزہوتی جس کے بارے میں اسے کسی قسم کااندیشہ ہوتاتواسے آپ کے پاس رکھ دیتا،کیوں کہ ہرایک کوآپ کی سچائی اوردیانتداری کایقین تھا۔

نبوت کے تیرہویں سال عین ا س وقت جب کہ آپ کے مخالفین آپ کامکان گھیرے ہوئے کھڑے تھے،اوراس بات کاقطعی فیصلہ کرچکے تھے کہ باہرنکلتے ہی آپ کو قتل کردیں گے، آپ گھرکے اندراپنے نوجوان عزیزعلی بن ابی طالب کویہ وصیت کررہے تھے کہ میرے پاس مکہ کے فلاں فلاں لوگوں کامال امانت رکھاہواہے،میرے جانے کے بعدتم ان سب کامال انھیں واپس کردینا۔

نضربن حارث جوآپ کامخالف ہونے کے ساتھ دنیوی معاملات میں قریش کے اندرسب سے زیادہ تجربہ کارتھا،اس نے ایک روزاپنی قوم سے کہا— “قریش کے لوگو!محمدکی دعوت نے تم کو ایسی مشکل میں ڈال دیاہے،جس کاکوئی حل تمہارے پاس نہیں ہے، وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے بچپن سے جوان ہوئے ہیں ،تم اچھی طرح جانتے ہوکہ وہ تمہارے درمیان سب سے زیادہ سچے،سب سے زیادہ امانت دار اورسب سے زیادہ پسندیدہ شخص تھے، لیکن جب ان کے بال سفیدہونے کوآئے اورانھوں نے وہ کلام پیش کیا، جس کوتم سن رہے ہوتواب تمہاراحال یہ ہے کہ تم کہتے ہو”یہ شخص جادوگرہے،یہ شاعرہے،یہ مجنون ہے‘‘ خداکی قسم میں نے محمدکی باتیں سنی ہیں ،محمدنہ جادوگرہے،نہ وہ شاعرہے،نہ وہ مجنون ہے،مجھے یقین ہے کہ کوئی اورمصیبت تمہارے اوپرآنے والی ہے‘‘(سیرت ابن ہشام، جلد1صفحہ319)۔

ابوجہل جوآپ کاسخت ترین دشمن تھا،وہ کہتاتھا—”محمد!میں یہ نہیں کہتاکہ تم جھوٹے ہو،مگرجس چیزکی تم تبلیغ کررہے ہواس کومیں صحیح نہیں سمجھتا‘‘:إِنَّا لَا نُكَذِّبُكَ، وَلَكِنْ نُكَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِهِ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 3064)۔

آپ کی نبوت چوں کہ صرف عرب کے لیے نہیں تھی، بلکہ ساری دنیاکے لیے تھی، اس لیے اپنی زندگی ہی میں آپ نے ہمسایہ ممالک کے بادشاہوں کودعوتی خطوط روانہ کیے،روم کے بادشاہ ہرقل (قیصرروم) کوبھی آپ نے دعوت نامہ بھیجا۔ (اس کو آپ کادعوت نامہ بیت المقدس میں ملا، جہاں وہ اُن دنوں ایرانیوں پرفتح یابی کاشکرانہ اداکرنے کے لیے آیا ہوا تھا)۔چنانچہ اس نے حکم دیاکہ عرب کے کچھ لوگ یہاں ہوں تو حاضر کیے جائیں۔ اس زمانے میں قریش کے چندلوگ تجارت کی غرض سے شام گئے ہوئے تھے— وہ دربارمیں پہنچے توہرقل نے پوچھاتمہارے شہرمیں جس شخص نے خدا کا رسول ہونے کادعویٰ کیاہے، تم میں سے کوئی اس کاقریبی رشتہ داربھی ہے— ابوسفیان نے جواب دیا:وہ میرے خاندان کاہے۔اس کے بعدہرقل اورابوسفیان کے درمیان جو گفتگو ہوئی، ا س کے چندفقرے یہ ہیں :

ہرقل:اس دعوے سے پہلے کبھی تم نے اس کوجھوٹ بولتے ہوئے بھی سناہے۔

ابوسفیان:کبھی نہیں۔

ہرقل:کیاوہ عہدوپیمان کی خلاف ورزی کرتاہے۔

ابوسفیان:ابھی تک اس نے کسی عہدکی خلاف ورزی نہیں کی۔

ہرقل نے یہ سن کرکہا:”جب یہ تجربہ ہوچکاہے کہ وہ آدمیوں کے معاملے میں کبھی جھوٹ نہیں بولا،تویہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ اس نے خداکے معاملے میں اتنابڑاجھوٹ گڑھ لیاہو‘‘۔

یہ اس وقت کی گفتگوہے جب کہ ابوسفیان ابھی ایمان نہیں لائے تھے،اوررسول اللہ کے کٹردشمن تھے،بلکہ آپ کے خلاف جنگ کی قیادت کررہے تھے۔وہ خودکہتے ہیں کہ”اگرمجھے یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ ہرقل کے دربارمیں جودوسرے قریشی بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ مجھے جھوٹا مشہور کر دیں گے تومیں اس موقع پرغلط بیانی سے کام لیتا‘‘(صحیح البخاری، حدیث نمبر 7)۔

ساری تاریخ میں کسی بھی ایسے شخص کانام نہیں لیاجاسکتاجس کے مخاطبین شدیدمخالف ہونے کے باوجوداس کی زندگی اورسیرت کے بارے میں اتنی غیرمعمولی رائے رکھتے ہوں، اوریہ واقعہ بجائے خودآپ کے رسول اﷲ ہونے کاکافی ثبوت ہے،یہاں میں ڈاکٹرلیٹز کا ایک اقتباس نقل کروں گا:

“میں بہت ادب کے ساتھ یہ کہنے کی جرأت کرتاہوں کہ اگرفی الواقع خدائے پاک کے یہاں سے، جوتمام نیکیوں کاسرچشمہ ہے،الہام ہوتاہے تومحمدکا مذہب الہامی مذہب ہے، اوراگرایثارنفس دیانتداری،راسخ الاعتقادی،نیکی اور بدی کی کامل جانچ اوربرائی دور کرنے کے عمدہ ذرائع ہی الہام کی ظاہری بیّن علامتیں ہیں تومحمدکامشن الہامی تھا۔‘‘

Life of Mohammad by M. Abdul Fazal

جب آپ نے دعوت دینی شروع کی توآپ کی قوم نے سخت ترین مصیبتیں ڈالیں، آپ کی راہ میں کانٹے بچھادیتے،نمازپڑھنے میں آپ کے جسم پرنجاست لاکرانڈیل دیتے،ایک دفعہ آپ حرم میں نمازپڑھ رہے تھے،عقبہ ابن ابی معیط نے آپ کے گلے میں چادرلپیٹ کراس زورسے کھینچاکہ آپ گھٹنوں کے بل گرپڑے، اس قسم کی حرکتوں سے جب آپ پر کوئی اثرنہیں ہواتوانھوں نے آپ کااورآپ کے سارے خاندان کابائیکاٹ کردیا اور آپ کومجبورکیاکہ بستی سے باہرایک پہاڑی درہ میں جاکربے یارومددگارپڑے رہیں ،اس دوران میں کوئی ضرورت کی چیزحتیٰ کہ کھانا پینا بھی نہ کوئی شخص آپ تک پہنچاسکتاتھا،اورنہ آپ کے ہاتھ فروخت کرسکتاتھا— آپ اپنے خاندان کے ساتھ تین سال تک اس حصار میں اس طرح رہے کہ پہاڑی درخت(طلح) کے پتے کھاتے تھے، آپ کے ایک ساتھی کابیان ہے کہ اس زمانے میں ایک دفعہ رات کوسوکھاہواچمڑاہاتھ آگیامیں نے پانی سے اسے دھویا، پھرآگ پربھونااورپانی میں ملاکرکھایا۔تین سال کے بعدیہ بائیکاٹ ختم ہوا۔ (دیکھیے،سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 374-77)

مکہ کے لوگوں کی یہ سنگ دلی دیکھ کرآپ طائف گئے جومکہ سے تقریباًچالیس میل کے فاصلہ پر امراء وروساء کاشہرتھا،وہاں کے لوگوں نے آپ سے نہایت بُری طرح کلام کیا،ایک نے کہا:”کیاخداکوتیرے سواکوئی اورپیغمبری کے لیے نہیں ملتاتھا‘‘۔پھران لوگوں نے بدکلامی ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ طائف کے شریروں کوابھارکرآپ کے پیچھے لگا دیا۔یہ لوگ ہرطرف سے آپ کے اوپر ٹوٹ پڑے اورآپ پرپتھرپھینکناشروع کیا، انھوں نے ا س بری طرح آپ کوزخمی کیاکہ آپکے جوتے خون سے بھرگئے،آپ زخموں سے چور ہو کربیٹھ جاتے توبازوتھام کرکھڑاکردیتے جب چلنے لگتے توپھرپتھر برساتے،ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اورتالی بجاتے،اسی طرح شام ہونے تک آپ کے پیچھے لگے رہے،شام کو جب وہ زخم اورخون کی حالت میں آپ کو چھوڑکرچلے گئے توآپ نے ایک باغ میں انگور کی ٹٹیوں کی آڑ میں پناہ لی،یہی وہ واقعہ ہے،جس کے متعلق آپ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہ سے فرمایا:لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ، وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ العَقَبَةِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3231)۔ یعنی تمھاری قوم سے مجھ کو بہت سی تکلیفیں پہنچی ہیں ، مگر میرے اوپر سب سے زیادہ تکلیف والا دن وہ تھا، جب میں طائف گیا۔

ان تمام ایذارسانیوں کے باوجودآپ اپناکام کرتے رہے، بالآخرقریش نے طے کیااب ا س کے سواکوئی صورت نہیں ہے کہ آپ کوقتل کردیاجائے،چنانچہ ایک رات کوقریش کے تمام سرداروں نے ننگی تلواروں کے ساتھ آپ کامکان پر گھیرا ڈال دیا، تاکہ صبح کوجب آپ باہرنکلیں توآپ کوقتل کر دیا جائے، مگراﷲکی مددسے آپ بحفاظت گھرسے نکل گئے اورمدینہ جاکرقیام فرمایا۔

اس کے بعدقریش نے آپ کے ساتھ باضابطہ جنگ چھیڑدی،اوردس سال تک مسلسل آپ کو اورآپ کے ساتھیوں کوجدال و قتال میں الجھائے رکھا،جس میں آپ کے دانت شہید ہوئے، بہترین ساتھی مارے گئے،وہ تمام مصائب جھیلنے پڑے جوجنگی حالت پیداہوجانے کے بعدجھیلنے ہوتے ہیں۔

اس طرح 23سالہ تاریخ کے بعدآپ کی عمرکے آخری دنوں میں مکہ فتح ہوا،اس وقت آپ کے دشمن بے یارومددگارآپ کے سامنے کھڑے تھے، ایسے وقت میں فاتح جوکچھ کرتاہے،وہ سب کومعلوم ہے،مگرآپ نے ان سے کوئی انتقام نہیں لیا،آپ نے پوچھا:”يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ،مَا تُرَوْنَ أَنِّي فَاعِلٌ فِيكُمْ؟‘‘(قریش کے لوگو!بتاؤ اب میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا،انھوں نے کہاآپ شریف بھائی ہیں ،اورشریف بھائی کی اولاد ہیں ، آپ نے فرمایا:

اذْهَبُوا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاء(سیرت ابن ہشام، جلد2صفحہ412)۔ جاؤ، تم سب کے سب آزادہو۔

 اعلیٰ ترین سلوک کی یہ حیرت انگیزمثال تاریخ کاایک ایسامعجزہ ہے کہ اگروہ تاریخ سے قبل کاہوتااورتاریخی طورپرثابت نہ ہوتاتویقیناًکہنے والے کہتے کہ یہ واقعہ نہیں بلکہ افسانہ ہے، کیوں کہ کوئی انسان اب تک ایساپیدانہیں ہوا، جو اپنے سخت ترین دشمنوں پر فتح پانے کے بعد ان سےا تنا اعلیٰ ترین سلوک کرے۔چنانچہ پروفیسراسمتھ( Bosworth Smith) کے الفاظ کس قدرصحیح ہیں :

“جب میں آپ کے جملہ صفات اورتمام کارناموں پربحیثیت مجموعی نظر ڈالتا ہوں کہ آپ کیاتھے،اورکیاہوگئے اورآپ کے تابع دارپیروؤں نے جن میں آپ نے زندگی کی روح پھونک دی تھی،کیاکیاکارنامے دکھائے توآپ مجھے سب سے بزرگ سب سے برتر اور اپنی نظیرآپ ہی دکھائی دیتے ہیں۔‘‘

Mohammad and Mohammadenism, p. 344

پھرآپ نے اپنی ساری زندگی میں جس بے غرضی کامظاہرہ کیاہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے،منصبِ رسالت سے پہلے آپ مکہ کے ایک کامیاب تاجرتھے،اورآپ کے نکاح میں حضرت خدیجہ جیسی عرب کی دولت مندخاتون تھیں لیکن رسالت کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعدآپ کی تجارت اورحضرت خدیجہ کی دولت دونوں ختم ہوگئیں،اورآپ کو اس سلسلے میں اتنی مصیبتیں اٹھانی پڑیں کہ آپ خودفرماتے ہیں —”مجھے خداکی راہ میں اس قدرڈرایا اور ستایاگیاکہ کسی کو اتنا ڈرایا اورستایانہیں گیا،مجھ پرتیس شب وروزایسے گزرے ہیں کہ میرے اوربلال کے لیے کھانا،جسے کوئی جاندارکھاسکے، بس اتنی مقدارمیں ہوتاتھاکہ بلال اسے بغل میں چھپالیتے‘‘ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2472)۔

آپ نے صرف اپنے مشن کی خاطر یہ تکلیفیں اٹھائیں،ورنہ آپ کے لیے دوسری زندگی بھی ممکن تھی، جب آپ مکہ میں تھے،قریش کی کچھ سردار یہ پیش کش لے کر آپ کے پاس آئے— اگراس دعوت سے تم مال ودولت چاہتے ہوتوآؤ ہم اتنامال جمع کردیں کہ تم سب سے بڑے مال داربن جاؤ، اگراس سے سرداری مطلوب ہے توبتاؤ ہم اس کے لیے بھی تیارہیں کہ تمھیں اپناسردارمان لیں،اوراگرسلطنت کی خواہش ہے توہم تمھیں اپنا بادشاہ بھی تسلیم کرلیں گے، اگریہ واقعہ نہیں ہے اورتم اپنے اندرجنون کی کیفیت پاتے ہواور تمھیں ایسی چیزیں نظرآتی ہیں جنھیں تم دور نہیں کرسکتے توہم تمہاراعلاج کرنے کے لیے بھی تیارہیں ‘‘:

فَإِنْ كُنْتَ إنَّمَا جِئْتَ بِهَذَا الْحَدِيثِ تَطْلُبُ بِهِ مَالًا جَمَعْنَا لَكَ مِنْ أَمْوَالِنَا حَتَّى تَكُونَ أَكْثَرَنَا مَالًا، وَإِنْ كُنْتَ إنَّمَا تَطْلُبُ بِهِ الشَّرَفَ فِينَا، فَنَحْنُ نُسَوِّدُكَ عَلَيْنَا، وإن كنت تريد مُلْكًا مَلَّكْنَاكَ عَلَيْنَا، وَإِنْ كَان هَذَا الَّذِي يَأْتِيكَ رَئِيّا تَرَاهُ قَدْ غَلَبَ عَلَيْكَ -وَكَانُوا يُسَمُّونَ التَّابِعَ مِنْ الْجِنِّ رَئِيا- فَرُبَّمَا كَانَ ذَلِكَ، بَذَلْنَا لَكَ أموالَنا فِي طَلَبِ الطِّبِّ لَكَ حَتَّى نُبْرِئَكَ مِنْهُ۔

ان کی باتوں کو آپ خاموشی سے سنتے رہے۔اس کے بعدجواب دیا:نہ میں دیوانہ ہوں، نہ مجھے کوئی بیماری ہے، نہ مجھے مال اور حکومت کی لالچ ہے، بلکہ میں تم لوگوں کا خیرخواہ ہوں، میرے پاس تم لوگوں کے لیے سچائی کا پیغام ہے، وہ قبول کرو(سیرت ابن ہشام جلد1،صفحہ262-63)۔

مدینہ میں آپ ایک ریاست کے مالک تھے، آپ کوایسے جاں نثارخادم حاصل تھے کہ ان جیسے وفاداراورجاں نثارساتھی،آج تک کسی کونہیں ملے،مگرواقعات بتاتے ہیں کہ آخرعمرتک آپ نے بالکل معمولی حالت میں گزاردی۔

حضرت عمراپناواقعہ بیان کرتے ہیں کہ “میں آپ کے حجرہ میں داخل ہواتودیکھاکہ آپ بغیر قمیص کے کجھورکی معمولی چٹائی پرلیٹے ہوئے ہیں ،اورآپ کے جسم پرچٹائی کے نشانات صاف نظر آرہے ہیں ،حجرہ میں چاروں طرف نظردوڑائی تواس کاکل اثاثہ یہ تھا:ایک طرف تین چمڑے،ایک کونے میں کچھ چھال اوردوسرے کونے میں تقریباًایک صاع جو،یہ منظر دیکھ کر میں بے اختیار روپڑا، آپ نے پوچھاروتے کیوں ہو،میں نے عرض کیا، قیصر و کسریٰ کو تو دنیاکی دولت حاصل ہے، اورآپ خداکے رسول اس حال میں ہیں ،یہ سن کرآپ بیٹھ گئے اور فرمایا:عمر!آخرتم کس خیال میں ہو،کیاتم نہیں چاہتے کہ ان کو دنیا ملےاورآخرت ہمارے حصے میں آئے:”أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمَا الدُّنْيَا، وَلَكَ الْآخِرَةُ‘‘ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1479)۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مہینہ گزرجاتا تھا، لیکن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیویوں کے مکانات میں چولھانہیں جلتاتھا،عروہ نے پوچھاتوآپ لوگ زندہ کیسے رہتی تھیں، انھوں نے جواب دیاکہ کھجوراورپانی ہماری غذاتھی،ساتھ ہی بعض انصاردودھ بھیج دیاکرتے تھے،ان ہی کی دوسری روایت ہے کہ محمدصلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کے بعدایساکبھی نہیں ہواکہ آپ کے گھروالوں نے مسلسل تین دن گیہوں کااستعمال کیا ہو،اوراسی حالت میں آپ دنیاسے چلے گئے(مسند احمد، حدیث نمبر 24768)۔

آپ نے قدرت رکھنے کے باوجوداس طرح زندگی گزاری اورجب دنیاسے رخصت ہوئے تو اپنی بیویوں اوراولادکے لیے کچھ نہیں چھوڑا،نہ دینارنہ درہم،نہ بکری نہ اونٹ اورنہ کسی چیزکی وصیت کی، اس کے بجائے دنیاکی عظیم ترین سلطنت کے بانی جس کواپنی زندگی میں یہ معلوم تھاکہ اس کی حکومت ایشیااورافریقہ سے گزرتی ہوئی یورپ کی سرحدوں تک پہنچ جائے گی، اس نے فرمایا:

لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 1757)۔ ہم (پیغمبروں) کاکوئی وارث نہیں ہوتا،جوکچھ ہم چھوڑجائیں وہ صدقہ ہے۔

آپ کے اخلاق وکرداراورآپ کے اخلاص وایثارکے واقعات جو اوپر پی کیے گئے ہیں ،یہ کچھ مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں ، بلکہ یہی آپ کی پوری زندگی ہے،آپ کی ساری زندگی اسی قسم کے واقعات کادوسرانام ہے،حقیقت یہ ہے کہ آپ کا معیارِ انسانیت اتنا بلند تھا کہ اگرآپ پیدانہ ہوتے توتاریخ کولکھناپڑتاکہ اس سطح کاانسان نہ کوئی پیداہو اور نہ کبھی پیداہوسکتا۔

ایسے غیرمعمولی انسان کے بارے میں یہ عجیب نہیں ہوگاکہ ہم ا س کوخداکارسول مان لیں، بلکہ یہ عجیب ہوگاکہ ہم ا س کے رسول ہونے کاانکارکردیں،کیوں کہ آپ کورسول مان کرہم صرف آپ کی معجزاتی شخصیت کی توجیہ کرتے ہیں ،اگرہم آپ کورسول نہ مانیں تو ہمارے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں رہتاکہ ان حیرت انگیزاوصاف کاسرچشمہ کیا تھا، جب کہ ساری معلوم تاریخ میں کوئی ایک بھی انسان پیدانہیں ہوا۔پروفیسرباسورتھ اسمتھ کے یہ الفاظ ایک لحاظ سے حقیقت واقعہ کا اعتراف ہیں ، اوردوسرے لحاظ سے وہ سارے انسانوں کو آپ کی رسالت پرایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں :

“محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اپنی زندگی کے آخرمیں بھی اپنے لیے اسی منصب کادعویٰ کیا،جس سے انھوں نے اپنے کام کاآغازکیاتھا،اورمیں یہ یقین کرنے کی جرأت کرتاہوں کہ اعلیٰ ترین فلسفہ اورسچی مسیحیت ایک روزیہ تسلیم کرنے پرمتفق ہوں گے کہ آپ ایک پیغمبرتھے،خداکے سچے پیغمبر۔‘‘

Mohammad and Mohammadenism, p. 344

دوسرے پہلوسے رسو ل کی رسالت کاسب سے بڑاثبوت وہ کتاب ہے،جس کواس نے یہ کہہ کرپیش کیاکہ وہ اس کے اوپرخداکی طرف سے ا تری ہے،یہ کتاب بے شمارایسی خصوصیات سے بھری ہوئی ہے،جواس کے بارے میں اس امرکاقطعی قرینہ پیداکرتی ہیں کہ یہ ایک غیرانسانی کلام ہے،جو خداکی طرف سے بھیجاگیاہے۔

یہ بحث چوں کہ مستقل اہمیت کی حامل ہے،ا س لیے اس کومیں الگ باب میں بیان کروں گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom