دلیلِ آخرت
مذہب جن حقیقتوں کوماننے کی ہمیں دعوت دیتاہے،ان میں سے ایک اہم ترین حقیقت— آخرت کاتصورہے۔ ا س کامطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیاکے بعدایک اور دنیا ہے، جہاں ہم کوہمیشہ رہناہے،موجودہ دنیاانسان کی ا متحان گاہ ہے،یہاں ایک خاص عرصہ کےلیے انسان کورکھاگیاہے،اس کےبعدایک وقت ایساآنے والاہے، جب اس کا مالک اسے توڑکردوسری دنیادوسرے ڈھنگ پربنائے گا،وہاں تمام انسان دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، ہرایک نے موجودہ دنیامیں جو اچھے یابرے عمل کیے ہیں ، وہ سب وہاں خداکی عدالت میں پیش ہوں گے، اورہرایک کواس کے عمل کے مطابق انعام یاسزادی جائے گے۔
یہ نظریہ صحیح ہے یاغلط، اس کوجانچنے کے لیے ہم اس پرچندپہلوؤں سے غورکریں گے:
امکان
پہلی بات یہ ہے کہ کائنات کے موجودہ نظام میں کیااس طرح کی کسی آخرت کاواقع ہوناممکن نظرآتاہے کیایہاں کچھ ایسے واقعات اوراشارات پائے ہیں ، جواس دعوے کی تصدیق کررہے ہوں۔
یہ نظریہ سب سے پہلے یہ چاہتاہے کہ انسان اورکائنات اپنی موجودہ شکل میں ابدی نہ ہوں، اوریہ دونوں چیزیں ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق بالکل یقینی ہیں ،ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں انسان کے لیے بھی موت ہے اورکائنات کے لیے بھی موت، دونوں میں سے کوئی بھی موت کے خطرے سے خالی نہیں۔
جولوگ دوسری دنیاکونہیں مانتے وہ قدرتی طورپریہ چاہتے ہیں کہ اسی دنیاکواپنی ابدی خوشیوں کی دنیابنائیں، انھوں نے ا س بات کی بہت تحقیق کی کہ موت کیوں آتی ہے تاکہ اس کے اسباب کوروک کرزندگی کوجاوداں بنایاجاسکے۔مگرانھیں اس سلسلے میں قطعی ناکامی ہوئی— ہرمطالعہ نے بالٓاخر یہی بتایاکہ موت یقینی ہے،اس سے چھٹکارانہیں۔
“موت کیوں آتی ہے‘‘— اس کے تقریباًدوسوجوابات دیے گئے ہیں ، جسم ناکارہ ہوجاتاہے، اجزائے ترکیبی صرف ہوچکتے ہیں ،رگیںپتھراجاتی ہیں ، متحرک البومن کی جگہ کم متحرک البومن آجاتے ہیں ، مربوط کرنے والے نسیج بیکارہوجاتے ہیں ، جسم میں آنتوں کے بیکٹیریاکازہردوڑجاتاہے— وغیرہ وغیرہ۔
جسم کے ناکارہ ہونے کی بات بظاہردرست معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ مشینیں، جوتے کپڑے، سبھی ایک خاص مدت کے بعدناکارہ ہوجاتے ہیں ،اس لیے ہوسکتاہے کہ پوستین کی طرح ہماراجسم بھی،جلدیابدیرپراناہوکرختم ہوجاتاہو۔مگرسائنس اس کی تائیدنہیں کرتی، سائنسی تشریح کے مطابق انسانی جسم نہ پوستین کی طرح ہوتاہے،نہ مشین سے ملتاجلتاہے، اور نہ چٹان سے مشابہ ہے۔اگراسے تشبیہ د ی جاسکتی ہے،تودریاسے جوہزارسال پہلے بھی بہا کرتا تھا،اورآج بھی اسی طرح بہہ رہاہے، اورکون کہہ سکتاہے کہ دریاپراناہوتاہے۔اسی بنیاد پر کیمسٹری کے نوبل انعام یافتہ داکٹرلنس پالنگ نے کہاہے کہ نظریاتی طورپرانسان بڑی حد تک لافانی ہے،ا س کے جسم کے خلیے ایسی مشین ہیں ، جو خود بخود اپنی خرابی دورکرلیتے ہیں ، لیکن ا س کے باوجودانسان بوڑھاہوتاہے اور مرجاتا ہے— اس کے اسباب ابھی تک راز بنے ہوئے ہیں۔
ہماری زندگی کی مسلسل تجدیدہوتی رہتی ہے،ہمارے خلیوں میں البومن کے سالمے بنتے اور تلف ہوتے اورپھربنتے رہتے ہیں ، خلیے (سوائے اعصابی خلیوں کے) برابرتلف ہوتے اوران کی جگہ نئے بنتے رہتے ہیں ،اندازہ لگایاگیاہےکہ کوئی چارمہینے کے عرصے میں انسان کاخون بالکل ہی نیا ہوجاتاہے،اور چندسال کے عرصے میں انسانی جسم کے تمام ایٹم پوری طرح بدل جاتے ہیں ، اس کامطلب یہ ہے کہ ا نسان کی نوعیت ایک ڈھانچے کی نہیں بلکہ دریاکی سی ہے،یعنی وہ ایک عمل ہے، ایسی حالت میں جسم کے پرانے اورناکارہ ہونے کے تما م نظریے بے بنیادہوجاتے ہیں ، وہ تمام چیزیں جوزندگی کے ابتدائی برسوں میں خراب ہوگئی تھیں،زہرآلوداوربیکارہوچکی تھیں،وہ جسم سے کب کی خارج ہوچکیں،پھران کو موت کاسبب قراردیناکیامعنی— اس کامطلب یہ ہواکہ موت کاسبب آنتوں اوررگوں اوردل میں نہیں ، بلکہ اس کاسبب کہیں اورہے۔
ایک توجیہ یہ ہے کہ اعصابی خلیے موت کاسبب ہیں ،کیوں کہ اعصابی خلیے زندگی بھر وہی رہتے ہیں ، یہ کبھی نہیں بدلتے،چنانچہ انسان کے اندراعصابی خلیے سال بہ سال کم ہوتے جاتے ہیں ، اورمجموعی طورپراعصابی نظام کمزورہوتاجاتاہے، اگریہ توجیہ صحیح ہے،اوراعصابی نظام ہی نظامِ جسمانی کا کمزور حصہ ہے توہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ نظام ِ جسمانی سب سے زیادہ دنوں تک زندہ رہناچاہیے جن میں اعصابی نظام ہوتاہی نہیں۔
مگرمشاہدہ اس کی تائیدنہیں کرنا،درخت میں اعصابی نظام نہیں ہوتااوروہ سب سے زیادہ دنوں تک زندہ رہتاہے، مگرگیہوں میں بھی اعصاب نہیں تھے مگروہ صرف سال بھرزندہ رہتاہے، اوراسی طرح امیباکیڑے میں بھی اعصاب نہیں ہوتے لیکن وہ صرف آدھ گھنٹہ زندہ رہتاہے،اسی طرح اس توجیہ کامطلب یہ ہے کہ اعلیٰ نسل کے حیوانات کی عمر،جن کااعصابی نظام مکمل ترین ہوتاہے، سب سے زیادہ ہونی چاہیے،مگرایسانہیں ہے، مگرمچھ،کچھوا اور پاٹک مچھلی سب سے لمبی عمرپاتے ہیں۔
موت کوغیریقینی بنانے کے لیے اس کے اسباب کی جتنی چھان بین کی گئی ہے، وہ سب ناکامی پر ختم ہوئی ہے،اوریہ امکان اب بھی بدستورباقی کہ سارے انسانوں کوایک مقررمدت پرمرناہے۔ ایساکوئی امکان اب تک ثابت نہ ہوسکاکہ موت نہیں آئے گی۔ ڈاکٹرالکسس کیرل نے اسی مسئلہ پر زمان داخلی (inward time)کے عنوان سے لمبی بحث کی ہے،اوراس سلسلے کی کوششوں کی ناکامی کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
انسان بقاکی تلاش اورجستجوسے کبھی نہیں اکتائے گا، مگراس کوکبھی یہ چیز حاصل نہیں ہوسکتی،کیوں کہ وہ جسمانی ساخت کے چندقوانین کا پابند ہے،وہ عضویاتی زمان (physiological time)کوروکنے اور غالباً ایک حد تک اس کوپیچھے ہٹانے میں کامیاب ہوسکتاہے (جوانی کی مدت کو بڑھانے اور بڑھاپے کوموخرکرنے میں )، لیکن وہ موت پرفتح نہیں پاسکتا۔
Man the Unknown, p. 175
نظام کائنات کی موجودہ شکل کادرہم برہم ہونابھی ایک ایسی چیزہے، جوبالکل واقعاتی طورپرسمجھ میں آتی ہے،ا س کامطلب صرف یہ ہے کہ کائنات میں ہم جن چھوٹی چھوٹی قیامتوں سے واقف ہیں ، وہی آئندہ کسی وقت زیادہ بڑے پیمانے پر ظاہر ہونے والی ہیں ، یہ صرف موجودہ مقامی قیامتوں کے عالمی پیمانے پرواقع ہونے کی پیشین گوئی ہے۔
سب سے پہلاتجربہ جوہم کوقیامت کے امکان سے باخبر کرتاہے،وہ زلزلہ ہے، زمین کااندرونی حصّہ نہایت گرم سیال کی شکل میں ہے، جس کامشاہدہ آتش فشاں پہاڑوں سے نکلنے والے لاواکی شکل میں ہوتاہے۔ یہ مادہ مختلف شکلوں میں زمین کی سطح کومتاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے بعض اوقات زمین کے اوپرزبردست گڑگڑاہٹ کی آواز محسو س ہوتی ہے، اورکشمکش کی وجہ سے جھٹکے پیداہوتے ہیں — اسی کانام زلزلہ ہے۔ یہ زلزلہ آج بھی انسان کے لیے سب سے زیادہ خوفناک لفظ ہے۔یہ انسان کے اوپرقدرت کاایساحملہ ہے جس میں فیصلے کااختیارتمام تردوسرے فریق کوہوتاہے۔زلزلہ کے مقابلے میں انسان بالکل بے بس ہے۔ یہ زلزلے ہمیں یاددلاتے ہیں کہ ہم ایک سر خ پگھلے ہوئے نہایت گر م مادے کے اوپر آبادہیں ، جس سے صرف 50کیلومیٹرکی ایک پتلی سی چٹانی تہہ ہم کوالگ کرتی ہے، جوزمین کے مقابلے میں ویسی ہی ہے جیسے سیب کے اوپرباریک چھلکا۔ایک جغرافیہ داں کے الفاظ میں ہمارے آبادشہروںاورنیلے سمندروں کے نیچے ایک قدرتی جہنّم (physical hell) دہک رہاہے،یایوں کہناچاہیے کہ ہم ایک عظیم ڈائنامیٹ کے اوپر کھڑے ہیں جوکسی بھی وقت پھٹ کرسارے نظامِ ارضی کودرہم برہم کرسکتاہے۔
یہ زلزلے دنیاکے تقریباًہرحصے میں اورہرروزآتے ہیں ، لیکن جغرافیائی اعتبارسے وہ زیادہ تعداد میں وہاں محسوس ہوتے ہیں ،جہاں آتش فشاں پہاڑہیں۔ سب سے قدیم تباہ کن زلزلہ جس سے تاریخ واقف ہے،وہ چین کے صوبہ شنسی (Shensi)کازلزلہ ہے، جو 1556ء میں آیا تھا،اس زلزلے میں آٹھ لاکھ سے زیادہ اشخاص ہلاک ہوگئے۔اسی طرح 1نومبر1755ء کوپرتگال میں زلزلہ آیاجس نے لزبن (Lisbon)کاپوراشہرتباہ کردیا۔ اس زلزلے میں چھ منٹ کے اندرتیس ہزارآدمی ہلاک ہوگئے،تمام عمارتیں مسمار ہوگئیں، اندازہ کیاگیا ہے کہ اس زلزلے میں یورپ کے رقبہ کاچوگناحصّہ ہل گیاتھا،اسی نوعیت کاایک شدیدزلزلہ 1897ء میں آسام میں آیاتھا،جودنیاکے پانچ انتہائی بڑے زلزلوں میں شمارہوتاہے۔ اس سے شمالی آسام میں ہولناک تباہی آئی تھی، اس زلزلے نے دریائے برہم پترکارخ بدل دیا اورایورسٹ کی چوٹی ابھرکرسوفٹ اوپرچلی گئی۔
زلزلہ دراصل چھوٹے پیمانے کی قیامت ہے،جب دہشت انگیزگڑگراہٹ کے ساتھ زمین پھٹ جاتی ہے، جب پختہ مکانات تاش کے پتوں کی طرح بکھرنے لگتے ہیں ، جب زمین کااوپری حصّہ دھنس جاتاہے،اوراندرونی حصّہ اوپرآجاتاہے، جب آباد ترین شہرچند لمحوں میں وحشت ناک کھنڈرکی صورت اختیارکرلیتے ہیں ، جب انسان کی لاشیں اس طرح ڈھیرہوجاتی ہیں ، جیسے مری ہوئی مچھلیاں زمین کے اوپرپڑی ہوں— یہ زلزلے کاوقت ہوتاہے،ا س وقت انسان محسوس کرتاہے کہ وہ قدرت کے مقابلے میں کس قدربے بس ہے،یہ زلزلے بالکل اچانک آتے ہیں ، درحقیقت زلزلے کاالمیہ اس امرمیں پوشیدہ ہے کہ کوئی بھی شخص یہ پیشین گوئی نہیں کرسکتاکہ زلزلہ کب اورکہاں آئے گا۔یہ زلزلے گویا اچانک آنے والی قیامت کی پیشگی اطلاع دیتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ زمین کا نظام اس ڈھنگ پر بنایا گیا ہے کہ کسی بھی وقت اس کو توڑ دیا جائے۔
یہی حال بیرونی کائنات کاہے،کائنات نام ہے،ایک ایسے لامحدودخلاکاجس میں بے انتہا بڑے بڑے آگ کے الاؤ (ستارے) بے شمارتعدادمیں اندھادھند گردش کررہے ہیں ، جیسے بے شمارلٹّوکسی فرش پرہماری تمام سواریوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ مسلسل ناچ رہے ہوں۔
یہ گردش کسی بھی وقت زبردست ٹکراؤ کی صورت اختیارکرسکتی ہے،اس وقت کائنات کی حالت بہت بڑے پیمانے پرایسی ہی ہوگی جیسے کروڑوں بمبارہوائی جہازبموں سے لدے ہوئے فضامیں اڑ رہے ہوں اور یکایک سب کے سب باہم ٹکراجائیں،اجرام سماوی کااس قسم کاٹکراؤکسی بھی درجہ میں حیرت انگیزنہیں ہے بلکہ یہ بات حیرت انگیزہے کہ وہ آخرٹکراکیوں نہیں جاتے،علم افلاک کامطالعہ بھی اس امکان کی تصدیق کرتا ہے۔ چنانچہ شمسی نظام کے وجودمیں آنے کی ایک توجیہ اسی قسم کے ٹکراؤ پرکی گئی ہے، اس ٹکراؤ کواگرہم بڑے پیمانے پرقیاس کرسکیں توہم نہایت آسانی سے زیرِبحث امکان کوسمجھ سکتے ہیں ،کیوں کہ دراصل اسی واقعہ کادوسرانام “قیامت‘‘ ہے،نظریہ ٔ آخرت کا یہ دعویٰ کہ کائنات کاموجودہ نظام ایک روزدرہم برہم ہوجائے گا، اس کے سوااورکچھ نہیں ہے کہ جو واقعہ کائنات کے اندرابتدائی شکل میں موجودہے، وہی ایک روزانتہائی شکل میں پیش آنے والا ہے— قیامت کاآناہمارے لیے ایک معلوم حقیقت ہے— فرق صرف یہ ہے کہ آج ہم اسے امکان کی حدتک جانتے ہیں — اورکل اسے واقعہ کی صورت میں دیکھیں گے۔
آخرت کے امکان کے سلسلے میں دوسرامسئلہ زندگی بعدموت کامسئلہ ہے، “کیامرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے‘‘موجودہ ذہن اپنے آپ سے سوال کرتاہے، اور پھرخودہی اس کاجواب دیتا ہے—”نہیں مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں ،کیوں کہ ہم جس زندگی سے واقف ہیں وہ مادی عناصر کی ایک خاص ترتیب کے اندر پائی جاتی ہے، موت کے بعدیہ ترتیب باقی نہیں رہتی،اس لیے موت کے بعد کوئی زندگی بھی نہیں ہوسکتی،‘‘
ٹی،آر،مائلز(T. R. Miles)موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونےکومحض ایک تمثیلی حقیقت قرار دیتا ہے، اور اس کو ایک لفظی حقیقت (literal truth)کے طورپرماننے سے ا نکار کرتا ہے۔ “میرے نزدیک‘‘ وہ کہتاہے “یہ ایک مضبوط مقدمہ ہے کہ مرنے کے بعدآدمی زندہ رہتاہے،یہ بالکل لفظی طورپرایک حقیقت ہوسکتی ہے،اوراس قابل ہے تجربے سے اس کاغلط یاصحیح ہونامعلوم کیاجاسکے،مشکل صرف یہ ہے جب تک ہم کوموت نہ آئے،اس کاقطعی جواب معلوم کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں ہے،مگریہ قیاس کرناممکن ہے۔‘‘ اب چوں کہ قیاس اس کے خلاف ہے، اس لیے اس کے نزدیک یہ لفظی حقیقت نہیں ،وہ قیاس یہ ہے:
“علم الاعصاب (Neurology)کے مطابق خارجی دنیااوراس سے تعلقات کاعلم صرف اس وقت ممکن ہے، جب کہ انسانی دماغ معمول کے مطابق کام کررہا ہو اور موت کے بعدجب کہ دماغ کی تنظیم منتشرہوجاتی ہے، اس قسم کا ادراک (awareness) ناممکن ہے۔‘‘
Religion and the Scientific Outlook , p. 206
مگراس سے زیادہ قوی قیاسات دوسرے موجودہیں ،جویہ ظاہرکرتے ہیں کہ جسم کے ذرات مادی کاانتشارزندگی کوختم نہیں کرتا،زندگی ایک الگ اورمستقل بالذات چیزہے، جوذرات کی تبدیلی کے باوجودباقی رہتی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ انسان کاجسم بعض خاص قسم کے اجزاسے مل کربناہے،جس کی مجموعی اکائی کو خلیہ (Cell) کہتے ہیں ، یہ خلیے نہایت پیچیدہ ساخت کے چھوٹے چھوٹے ریزے ہیں ،جن کی تعداد ایک متوسط قد کے انسان میں تقریباً26پدم(26 quadrillion) ہوتی ہے،یہ گویابے شمارچھوٹی چھوٹی اینٹیں({ FR 36 }) ہیں ، جن کے ذریعہ ہمارے جسم کی عمارت تعمیر ہوئی ہے،فرق یہ ہے کہ عمارت کی اینٹیں پوری زندگی بھر وہی کی وہی رہتی ہیں ، جوشروع میں ا س کے اندرلگائی گئی تھیں، مگرجسم کی اینٹیں ہروقت بدلتی رہتی ہیں ،جس طرح ہرچلنے والی مشین کے اندر گھِساؤ (Depreciation) کاعمل ہوتاہے،اسی طرح ہماری جسمانی مشین بھی گھستی ہے،اوراس کی “اینٹیں‘‘ مسلسل ٹوٹ ٹوٹ کرکم ہوتی رہتی ہیں ، یہ کمی غذا سے پوری ہوتی ہے،غذاہضم ہوکرہمارے جسم کے لیے وہ تمام اینٹیں مہیّاکرتی ہے، جو ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے ہرروزہمارے جسم کودرکارہوتی ہیں گویاجسم نام ہے خلیوں کے ایک ایسے مرکب کا جوہر آن اپنے آپ کوبدلتارہتاہو،اس کی مثال بہتے ہوئے دریاکے ایک گھاٹ کی ہے جوہروقت پانی سے بھرا رہتاہے مگرہروقت وہی پانی نہیں ہوتاجوپہلے تھا بلکہ ہرآن وہ اپنے پانی کوبدل دیتا ہے، گھاٹ وہی ہوتاہے،مگرپانی وہی نہیں رہتا۔
اس طرح ہرآن ہمارے جسم میں ایک تبدیلی ہوتی رہتی ہے،یہاں تک کہ ایک وقت آتاہے،جب جسم کی پچھلی تمام اینٹیں ٹوٹ کرنکل جاتی ہیں ، اوران کی جگہ مکمل طورپرنئی اینٹیں لے لیتی ہیں ، بچے کے جسم میں یہ عمل جلدجلدشروع ہوتاہے،اورعمرکے بڑھنے سے ا س کی رفتارسست ہوتی رہتی ہے، اگر پوری عمر کا اوسط لگایاجائے تویہ کہاجاسکتاہے کہ ہردس سال میں جسم کے اندریہ تبدیلی واقع ہوتی ہے، ظاہری جسم کے خاتمے کایہ عمل برابر ہوتا رہتا ہے، مگراندرکاانسان اسی طرح اپنی اصل حالت میں موجود رہتا ہے، اس کاعلم،اس کاحافظہ،اس کی تمنائیں،اس کی عادتیں اس کے تمام خیالات بدستور باقی رہتے ہیں ، وہ اپنی عمرکے ہرمرحلے میں اپنے آپ کووہی سابق “انسان‘‘ محسوس کرتاہے،جوپہلے تھا،حالانکہ اس کی آنکھ،کان،ناک، ہاتھ،پاؤں غرض ناخن سے بال تک ہرہرچیزبدل چکی ہوتی ہے۔
اب اگرجسم کے خاتمہ کے ساتھ اس جسم کاانسان بھی مرجاتاہوتو خلیوں کی تبدیلی سے اسے بھی متاثر ہوناچاہیے،مگرہم جانتے ہیں کہ ایسانہیں ہوتا،یہ واقعہ ثابت کرتاہے کہ انسان یاانسانی زندگی جسم سے الگ کوئی چیزہے جوجسم کی تبدیلی اورموت کے باوجوداپناوجودباقی رکھتی ہے،وہ ایک گھاٹ ہے جس کی گہرائی میں اجسام یادوسرے الفاظ میں خلیوں کی ایک مسلسل آمدورفت جاری ہے،چنانچہ ایک سائنس داں نے حیات یاانسانی ہستی کوایک ایسی مستقل بالذات چیزقراردیاہے،جومسلسل تغیرات کے اندرمتغیرحالت میں اپنا وجود باقی رکھتی ہے— اس کے الفاظ میں :
“Personality is changelessness in change.”
اگرموت محض جسم کے خاتمے کانام ہوتوہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسے ہرعمل کی تکمیل کے بعد گویا انسان ایک بار مرگیا،اب اگرہم اس کودیکھتے ہیں تویہ دراصل اس کی دوسری زندگی ہے،جواس نے مر کرحاصل کی ہے۔اس کامطلب یہ ہے کہ پچاس سال کی عمرکاایک زندہ شخص جو ہمیں چلتاپھرتانظر آتا ہے، وہ اپنی ا س مختصرسی زندگی میں کم ازکم پانچ بار مکمل طورپر مرچکاہے۔پانچ بارکی جسمانی موت سے اگرایک انسان نہیں مراتوچھٹی بارکی موت کے بارے میں آخرکیوں یقین کر لیا گیا ہے کہ اس کے بعدوہ لازماًمرجائے گا۔
بعض لوگ ا س دلیل کوتسلیم نہیں کریں گے،وہ کہیں گے کہ وہ ذہن یااندرونی وجودجس کوتم انسان کہتے ہو،وہ دراصل کوئی علیٰحدہ چیزنہیں ہے بلکہ خارجی دنیاکے ساتھ جسم کے تعلق سے پیدا ہوا ہے،تمام جذبات وخیالات مادی عمل کے دوران میں اسی طرح پیداہوتے ہیں ، جس طرح دھات کے دوٹکڑوں کی رگڑسےحرارت پیداہوتی ہے،جدیدفلسفہ روح کے مستقل وجودکاانتہائی مخالف ہے۔ جیمزکہتاہےکہ شعورایک ہستی (entity) کے طورپرموجودنہیں ہے بلکہ ایک عمل (function)کے طورپرموجودہے،وہ ایک کارروائی (process) ہے، ہمارے زمانے کے فلسفیوں کی بہت بڑی تعدادنے اصرارکیاہے کہ شعوراس کے سوا اورکچھ نہیں کہ وہ خارج سے پیدا ہونے والے ایک ہیجان کاعصبی جواب (nervous response) ہے، اس تصورکے مطابق موت یعنی جسمانی نظام کے منتشرہونے کے بعدانسان کی موجودگی کاکوئی سوال نہیں ،کیوں کہ وہ مرکز اعصاب ہی اس کے بعدباقی نہیں رہا،جوخارجی دنیاکے تعامل سے زندگی کاجواب ظاہرکرے نتیجہ یہ نکلاکہ زندگی بعدموت کاتصوربالکل غیرعقلی تصورہے— اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
میں کہوں گاکہ انسان کی حقیقت اگریہی ہے تویقیناًہمارے لیے ممکن ہوناچاہیے کہ ہم ایک زندہ اور باشعورانساان کوپیداکرسکیں،آج ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان کاجسم کن عناصرسے مل کربنتاہے،تمام عناصربہت کثیرمقدارمیں زمین کے اندراوراس کی فضامیں قابل حصول حالت میں موجودہیں ،ہم نے جسم کے اندرونی نظام کوانتہائی باریک بینی کے ساتھ معلوم کرلیاہے،آج ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسانی جسم کاڈھانچہ اوراس کے رگ وریشے کس طرح بنائے گئے ہیں ، پھر ہمارے پاس ایسے بے شمارماہرآرٹسٹ موجودہیں ، جوکمال درجہ مطابقت کے ساتھ انسان کی مانند ایک جسم بناکرکھڑاکردیں،مخالفین روح کو اگر اپنے نظریے پریقین ہے تووہ ایساکیوں نہیں کرتے کہ بہت سے انسانی جسم تیارکرکے زمین کے مختلف حصوں میں کھڑاکردیں،اوراس وقت کاانتظارکریں جب خارجی دنیاکے اثرات پڑنے سے یہ ڈھانچے چلنے اوربولنے لگیں گے۔
یہ زندگی کے باقی رہنے کے امکان کی بحث تھی،اب اس مقصدکے اعتبارسے غورکیجیے جس کے لیے مذہب دوسری زندگی کے اوپرعقیدہ رکھتاہے۔ مذہبی تصورکے مطابق، زندگی کاوجود جرمن فلسفی نشٹے(Friedrich Nietzsche) کے فلسفیانہ “آمدورفت‘‘ کا نام نہیں ہے، جوریت گھڑی (sand glass clock)کی طرح بس خالی اورپُرہوتی رہے۔ اس سے آگے اس کااورکوئی مقصدنہ ہو— بلکہ دوسری زندگی کاایک عظیم مقصد ہے، اوروہ یہ کہ موجودہ دنیاکی ا چھائیوں اوربرائیوں کابدلہ دیا جائے۔
عقیدۂ آخرت کایہ جزءبھی اس وقت بالکل ممکن نظرآنے لگتاہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات میں حیرت انگیز طور پر ہر شخص کا نامہ اعمال رات دن ایک لمحہ کے وقفہ کے بغیرضبط (record) کیا جارہا ہے آدمی تین شکلوں میں اپنی ہستی کوظاہرکرتاہے— نیت،قول اور عمل،یہ تینوں چیزیں مکمل طور پر محفوظ کی جارہی ہیں ،ہماراہرخیال،ہماری زبان سے نکلاہوا ہر لفظ اورہماری تمام کارروائیاں کائنات کے پردہ پر اس طرح نقش ہورہی ہیں کہ کسی بھی وقت ان کونہایت صحت کے ساتھ دہرایاجاسکے،اوریہ معلوم ہوسکے کہ دنیاکی زندگی میں کس نے کیا کہا،کس کی زندگی شرکی زندگی تھی،اورکس کی زندگی خیرکی زندگی۔
جوخیالات ہمارے دل میں گزرتے ہیں ، ہم بہت جلدانھیں بھول جاتے ہیں ، اس سے بظاہر معلوم ہوتاہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے،مگرجب ہم مدتوں کی ایک بھولی ہوئی بات کوخواب میں دیکھتے ہیں یاذہنی اختلال کے بعدآدمی ایسی باتیں بولنے لگتاہے جوہوش و حواس کی حالت میں اس کی زبان سے نہیں سنی گئی تھیں،تویہ واقعہ ظاہرکرتاہے کہ آدمی کاحافظہ اتناہی نہیں ہے،جتناشعوری طورپروہ محسوس کرتا ہے۔حافظہ کے کچھ خانے ایسے بھی ہیں ،جوبظاہرشعورکی گرفت میں نہیں ہوتے،مگروہ موجود رہتے ہیں۔
مختلف تجربوں سے ثابت ہواہے کہ ہمارے خیالات مستقل طورپراپنی پوری شکل میں محفوظ رہتے ہیں ، حتیٰ کہ ہم چاہیں بھی توانھیں ختم نہیں کرسکتے۔یہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ انسانی شخصیت صرف وہی نہیں ہے،جسے ہم شعورکہتے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس، انسانی شخصیت کاایک حصّہ ایسا بھی ہے، جو ہمارے شعورکی سطح کے نیچے موجودرہتاہے۔یہ حصّہ جسے سگمنڈ فرائڈتحت الشعور(Sub-Conscious)یالاشعور(Unconscious)کانام دیتا ہے۔ یہ ہماری شخصیت کابہت بڑاحصّہ ہے،نفس انسانی کی مثال سمندرمیں تیرتے ہوئے تودۂ برف (iceberg)کی سی ہے،جس کاصرف نواں حصّہ پانی کے اوپردکھائی دیتاہے،اوربقیہ آٹھ حصّے سطح سمندرکے نيچے رہتے ہیں ، یہی تحت شعورہے جوہمارے تمام خیالات اورہماری نیتوں کومحفوظ رکھتاہے،فرائڈاپنے اکتیسویں لیکچرمیں لکھتا ہے:
“منطق کے قوانین (the laws of logic)بلکہاضداد کے اصو ل (the law of contradiction)بھی لاشعور (ID) کے عمل پرحاوی نہیں ہوتے، مخالف خواہشات ایک دوسرے کوزائل کیے بغیراس میں پہلوبہ پہلوہمیشہ موجود رہتی ہیں — لاشعورمیں کوئی ایسی چیزنہیں جونفی سے مشابہت رکھتی ہو، اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ لاشعورکی دنیامیں فلسفيوں کایہ دعویٰ ہوجاتاہے کہ ہمارے دماغی افعال وقت اور فاصلہ کے درمیان واقع ہوتے ہیں ، لاشعورکے اندرکوئی ایسی چیزنہیں جووقت کے تصور سے مطابقت رکھتی ہو،لاشعورمیں وقت کے گزرنے کاکوئی نشان نہیں اوریہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے،جس کے معنی سمجھنے کی طرف ابھی تک فلسفیوں نے پوری توجہ نہیں کی کہ وقت گزرنے سے ذہنی عمل میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی،پوشیدہ خیالات(conative impulses)جوکبھی لاشعورسے باہرنہیں آئے بلکہ وہ ذہنی تاثرات بھی جنھیں روک کر لاشعورمیں دبادیاگیاہو،فی الواقع غیرفانی ہوتے ہیں اوردسیوں سال تک اس طرح محفوظ رہتے ہیں ،گویاابھی کل وجودمیں آئے۔
New Introductory Lectures on Psycho-Analysis, London, 1969, p. 99
تحت الشعورکایہ نظریہ اب نفسیات میں عام طورپرتسلیم کیاجاچکاہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہربات جوآدمی سوچتاہے، اورہراچھایابراخیال جواس کے دل میں گزرتاہے، وہ سب کاسب نفس انسانی میں اس طرح نقش ہوجاتاہے کہ پھرکبھی نہیں مٹتا،وقت کاگزرنا یا حالات کابدلنااس کے اندرذرہ برابرکوئی تبدیلی پیدانہیں کرتا— یہ واقعہ انسانی ارادہ کے بغیر ہوتا ہے،خواہ انسان اسے چاہے یانہ چاہے۔
فرائڈیہ سمجھنے سے قاصرہے کہ نیات اوراعمال کااس احتیاط اورحفاظت کے ساتھ تحت شعورمیں ضبط رہناکارخانۂ قدرت کے اندرکون سے مقصدکوپوراکرتاہے۔ اس لیے وہ فلسفیوں کو ا س مسئلے پر سوچنے کی دعوت دیتاہے،مگراس واقعہ کوآخرت کے نظریے کے ساتھ ملاکردیکھاجائے توفورًااس کی معنویت سمجھ میں آجاتی ہے،یہ واقعہ صریح طورپراس امکان کوظاہرکرتاہے کہ جب دوسری زندگی شروع ہوگی توہرشخص اپنے پورے نامۂ اعمال کے ساتھ وہاں موجودہوگا،آدمی کاخوداپناوجودگواہی دے رہاہوگاکہ کن نیتوں اورکن خیالات کے ساتھ اس نے دنیامیں زندگی بسرکی تھی۔ قرآن میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ (50:16)۔ یعنی اورہم نے بنایاانسان کواورہم جانتے ہیں جوباتیں آتی رہتی ہیں اس کے جی میں ،اورہم اس کے رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
اب قول کے مسئلے کولیجیے۔نظریۂ آخرت یہ کہتاہے کہ آدمی اپنے اقوال کے لیے جواب دہ ہے، آپ خواہ بھلی بات کہیں یاکسی کوگالی دیں،آدمی اپنی زبان کوسچائی کاپیغام پہنچانے کے لیے استعمال کرے یاوہ شیطان کامبلغ بن جائے،ہرحال میں ایک کائناتی انتظام کے تحت اس کے منھ سے نکلے ہوئے الفاظ کامکمل ریکارڈ تیارکیاجارہاہے۔ قرآن کے الفاظ ہیں :مَایَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّالَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ(50:18)۔ یعنی کوئی لفظ انسان نہیں بولتا مگر اس کے پاس ایک نگراں ہر وقت (لکھنے کے لیے)موجود ہے۔ اوریہ ریکارڈ آخرت کی عدالت میں حساب کے لیے پیش ہوگا۔
یہ بھی ایسی چیزہے جس کاممکن الوقوع ہوناہمارے معلوم دنیاکے عین مطابق ہے،ہم جانتے ہیں کہ جب کوئی شخص بولنے کے لیے اپنی زبان کوحرکت دیتاہے تواس حرکت سے ہوامیں لہریں پیدا ہوتی ہیں ،جس طرح ساکن پانی میں پتھرپھینکنے سے لہریں پیداہوتی ہیں۔ اگرآپ ایک برقی گھنٹی کو شیشہ کے اندرمکمل طورپربندکردیںاوربجلی کے ذریعہ سے اسے بجائیں توآنکھوں کووہ گھنٹی بجتی ہوئی نظرآئے گی، مگرآوازسنائی نہیں دے گی۔کیوں کہ شیشہ بندہونے کی وجہ سے اس کی لہریں ہمارے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہیں ،یہی لہریں ہیں ، جو “آواز‘‘کی صور ت میں ہمارے کان کے پردے سے ٹکراتی ہیں اورکان کے آلات انھیں اخذکرکے دماغ تک پہنچادیتےہیں اوراس طرح ہم بولے ہوئے الفاظ کوسمجھنے لگتے ہیں ، جس کو”سننا‘‘کہاجاتاہے۔
ان لہروں کے بارے میں یہ ثابت ہوچکاہے کہ وہ ایک مرتبہ پیداہونے کے بعد مستقل طور پر فضا میں باقی رہتی ہیں ،اوریہ ممکن ہے کہ کسی بھی وقت انھیں دہرایاجاسکے، اگرچہ سائنس ابھی اس قابل نہیں ہوئی کہ ان آوازوں یاصحیح ترالفاظ میں ان لہروں کی گرفت کرسکے جوقدیم ترین زمانے سے فضامیں حرکت کررہی ہیں ، اورنہ ابھی تک ا س سلسلے میں کوئی خاص کوشش ہوئی ہے،تاہم نظری طورپریہ تسلیم کیا گیا ہے کہ ایساآلہ بنایا جا سکتا ہے،جس سے زمانۂ قدیم کی آوازیں فضاسے لے کراسی طرح سنی جاسکیں جس طرح ہم ریڈیوسيٹ کے ذریعہ ان لہروں کو فضاسے وصول کرکے سنتے ہیں ، جوکسی براڈکاسٹنگ اسٹیشن سے بھیجی گئی ہوں۔
فی الحال اس سلسلے میں جومشکل ہے،وہ ان کوگرفت کرنے کی نہیں ہے،بلکہ الگ کرنے کی ہے،ایساآلہ بناناآج بھی ممکن ہے،جوقدیم آوازوں کوگرفت کرسکے،مگرابھی ہم کوایسی کوئی تدبیر نہیں معلوم جس کے ذریعہ سے بے شمارملی ہوئی آوازوں کوالگ کرکے سناجاسکے، یہی دقت ریڈیو نشریات میں بھی ہے، مگراس کوایک مصنوعی طریقہ اختیارکرکے حل کرلیا گیا ہے،دنیابھرمیں سیکڑوں ریڈیو اسٹیشن ہیں ، جوہروقت مختلف قسم کے پروگرام نشرکرتے رہتے ہیں ، یہ تمام پروگرام ایک لاکھ چھیاسی ہزارمیل فی سكينڈکی رفتارسے ہر وقت ہمارے گردوپیش گزرتے رہتے ہیں ، بظاہر یہ ہونا چاہیے کہ جب ہم ریڈیوکھولیں تو بیک وقت بہت سی ناقابل فہم آوازیں ہمارے کمرے میں گونجنے لگیں، مگرایسانہیں ہوتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام نشرگاہیں ،اپنی اپنی “آواز‘‘ کو مختلف طولِ موج پر نشر کرتی ہیں ،کوئی چھوٹی کوئی بڑی،اس طرح مختلف نشرگاہوں سے نکلی ہوئی آوازیں مختلف طو ل کی موجوں میں فضاکے اندرپھیلتی ہیں ،اب جہاںکی آوازجس میٹربینڈپرنشرکی جاتی ہے،اس پراپنے ریڈیوسٹ کی سوئی گھماکرہم وہاں کی آوازسن لیتے ہیں۔
اسی طرح غیرمصنوعی آوازوں کوالگ کرنے کاکوئی طریقہ ابھی دریافت نہیں ہوا ہے، ورنہ آج بھی ہم ہرزمانے کی تاریخ کواس کی اپنی آوازمیں سن سکتے تھے،تاہم اس سے یہ امکان قطعی طورپرثابت ہو جاتاہے کہ آئند ہ کبھی ایساہوسکتاہے،اس تجربہ کی روشنی میں نظریۂ آخرت کایہ جزء ہمارے لیے بعید از قیاس نہیں رہتاکہ انسان جوکچھ بولتاہے،وہ سب ریکارڈ ہورہا ہے، اوراس کے مطابق ایک روز ہر شخص کوجواب دہی کرنی ہوگی۔ایران کے سابق وزیراعظم ڈاکٹرمصدق 1953ء میں جب مقدمے کے دوران نظربندتھے توان کے کمرے میں خفیہ طورپرایسی ریکارڈنگ مشینیں لگادی گئی تھیں، جو ہر وقت متحرک رہتی تھیں، اوران کی زبان سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کا ریکارڈ کرلیتی تھیں تاکہ عدالت میں ان کو ثبوت کے طورپرپیش کیاجاسکے۔ ہمارامطالعہ بتاتاہے کہ اسی طرح ہرشخص کے ساتھ خدا کے فرشتے یادوسرے لفظوں میں بہت سے غیرمرئی محافظین(recorders)لگے ہوئے ہیں ، جو ہمارے منھ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ کونہایت درجہ صحت کے ساتھ کائنات کی پلیٹ پر نقش کر رہے ہیں۔تاکہ بوقت ضرورت انھیں آفاقی عدالت میں پیش کیا جائے۔
اب عمل کے مسئلہ کولیجیے۔اس سلسلے میں بھی ہماری معلومات حیرت انگیزطورپراس کا ممکن الوقوع ہوناثابت کرتی ہیں ،سائنس بتاتی ہے کہ ہمارے اعمال،خواہ وہ اندھیرے میں کیے گئے ہوں یا اجالے میں ،تنہائی میں ان کاارتکاب ہواہویامجمع کے اندر،سب کے سب فضامیں تصویری حالت میں موجودہیں ،اورکسی بھی وقت ان کویکجاکرکے ہرشخص کا پورا کارنامۂ حیات معلوم کیا جاسکتا ہے۔
جدیدتحقیقات سے ثابت ہواہے کہ ہرچیزخواہ وہ ا ندھیرے میں ہویااجالے میں ، ٹھہری ہوئی ہو یاحرکت کررہی ہو،جہاں یاجس حالت میں ہو، اپنے اندرسے مسلسل حرارت خارج کرتی رہتی ہے، یہ حرارت چیزوں کے ابعادواشکال کے اعتبارسے اس طرح نکلتی ہے کہ وہ بعینہ ا س چیزکاعکس ہوتی ہے،جس سے وہ نکلی ہے،جس طرح آوازکی لہریں اس مخصوص تھرتھراہٹ کاعکس ہوتی ہیں ، جوکسی زبان پرجاری ہوئی تھی، چنانچہ ایسے کیمرے ایجادکیے گئے ہیں ،جوکسی چیزسے نکلی ہوئی حرارتی لہروں (heat waves)کواخذ کرکے اس کی اس مخصوص حالت کافوٹوتیارکردیتے ہیں جب کہ وہ لہریں اس سے خارج ہوئی تھیں، مثلاً میں اس وقت ایک مسجدمیں بیٹھاہوالکھ رہاہوں، ا س کے بعدمیں یہاں سے چلاجاؤں گا،مگریہاں اپنی موجودگی کے دوران میں نے جوحرارتی لہریں خارج کی ہیں ،وہ بدستور موجودرہیں گی اورحرارت دیکھنے والی مشین کی مددسے خالی شدہ مقام سے میرامکمل فوٹو حاصل کیا جاسکتا ہے۔البتہ اس وقت جوکیمرے بنے ہیں وہ چندگھنٹے بعدہی تک کسی لہر کا فوٹولے سکتے ہیں ، اس کے بعدکی لہروں کاعکس اتارنے کی طاقت ان میں نہیں ہے۔
ان کیمروںمیں انفرارڈ(infrared)شعاعوںسے کام لیاجاتاہے،ا س لیے وہ اندھیرے اور اجالے میں یکساں فوٹولے سکتی ہیں ، امریکا اورانگلینڈمیں اس دریافت سے کام لینا شروع ہوگیا ہے، چند سال پہلے کی بات ہے،ایک رات نیویارک کے اوپرایک پُراسرارہوائی جہاز چکرلگارہا تھا، پھر وہ چلا گیا۔ اس کے فوراً بعد مذکورہ بالاکیمرے کے ذریعہ فضاسے ا س کی حرارتی تصویرلی گئی،اس کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوگیاکہ اڑنے والا جہازکس ساخت کاتھا(ریڈر ڈائجسٹ، نومبر1960ء)۔ اس کیمرے کو مصورِ حرارت (evaporagraph)کہتے ہیں۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے ہند ستان ٹائمز،نئی دہلی نے لکھا تھا کہ اس کامطلب یہ ہے کہ آئندہ ہم ماضی کی تاریخ کو پردۂ فلم کے اوپر دیکھ سکیں گے اور ہوسکتاہے کہ پچھلے ادوار کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات ہوں جو ہماری موجودہ تاریخی نظریات کوبالکل بدل ڈالیں۔
یہ ایک حیرت انگیزدریافت ہے۔ا س کامطلب یہ ہے کہ جس طرح فلم اسٹوڈیومیں نہایت تیز رفتار کیمرے ایکٹروں اورایکٹرسوں کی تمام حرکات وسکنات کی تصویرلیتے رہتے ہیں ، اسی طرح عالمی پیمانےپرہرشخص کی زندگی فلمائی جارہی ہے، آپ خواہ کسی کوتھپڑماریں یاکسی غریب کابوجھ اٹھا دیں، اچھے کام میں مصروف ہوں یابرے کام کے لیے دوڑدھوپ کررہے ہوں،اندھیرے میں ہوں یا اجالے میں ،جہاں اور جس حال میں ہوں،ہروقت آپ کاتمام عمل کائنات کے پردہ پرنقش ہو رہا ہے،آپ اسے روک نہیں سکتے،اورجس طرح فلم اسٹوڈیومیں دہرائی ہوئی کہانی کواس کے بہت بعداوراس سے بہت دورره کر ایک شخص اسکرین پراس طرح دیکھتاہے گویاوہ عین موقع واردات پرموجودہو،ٹھیک اسی طرح ہرشخص نے جوکچھ کیاہے اورجن واقعات کے درمیان اس نے زندگی گزاری ہے، اس کی پوری تصویرایک روزاس کے سامنے اس طرح آسکتی ہے کہ اس کودیکھ کروہ پکار اٹھے:
مَالِھٰذَاالْکِتَابِ لَایُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَاکَبِیْرَۃً اِلَّآ اَحْصَاھَا (18:49)۔ یعنی یہ کیسا دفتر ہے جس نے میراچھوٹابڑاکوئی کام بھی درج کیے بغیرنہیں چھوڑاہے۔
اوپرکی تفصیلات سے معلوم ہواکہ دنیامیں ہرانسان کامکمل اعمال نامہ تیار کیا جار ہا ہے جو خیال بھی آدمی کے د ل میں گزرتاہے،وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتاہے،اس کی زبان سے نکلاہواایک ایک لفظ نہایت صحت کے ساتھ ریکارڈہورہاہے،ہرآدمی کے ارد گردایسے کیمرے لگے ہوئے ہیں جو اندھیرے اوراجالے کی تمیزکیے بغیرشب وروزاس کي فلم تیار کر رہے ہیں ، گویاانسان کاقلبی عمل ہو یالسانی عمل یاعضوی عمل،ہرایک نہایت باقاعدگی کے ساتھ درج کیاجارہاہے،اس حیرت انگیز صورت حال کی توجیہ اس کے سوااورکچھ نہیں ہوسکتی کہ خداکي عدالت میں ہرانسان کاجومقدمہ پیش ہونے والاہے،یہ سب اس کی شہادت فراہم کرنے کے انتظامات ہیں ، جوخودعدالت کی طرف سے کیے گئے ہیں ،کوئی بھی شخص ان واقعات کی اس سے زیادہ معقول توجیہ پیش نہیں کرسکتا،اب یہ صریح واقعہ بھی آدمی کو آخرت میں ہونے والی بازپرس کایقین نہیں دلاتا،تومجھے نہیں معلوم کہ وہ کون ساواقعہ ہوگا جواس کی آنکھ کھولے گا۔