غذائیات

کتاب الٰہی میں انسان کے لیے جومینیو (menu)بتایاگیاہے، اس کے مطابق خون ہمارے لیے حرام ہے(مثلاً دیکھیے، البقرۃ، 2:173)۔نزولِ کتاب کے وقت تک انسان اس قانون کی غذائی اہمیت سے بے خبرتھا،لیکن بعدکوجب سائنسی طورپرخون کے اجزاءکی تحلیل کی گئی تومعلوم ہواکہ یہ قانون نہایت اہم مصلحت پرمبنی تھا،سائنسی تجزیہ نے اس کوردنہیں کیابلکہ اس کی معنویت ہم پرواضح کی۔

یہ تجزیہ بتاتاہے کہ خون میں کثرت سے یورک ایسڈ (Uric Acid)موجودہے، جوایک تیزابی مادہ ہونے کی وجہ سے خطرناک زہریلی تاثیراپنے اندررکھتاہے،اورغذاکے طورپراس کا استعمال سخت مضرہے،ذبیحہ کامخصوص طریقہ جواسلام میں بتایاگیاہے،اس کی مصلحت بھی یہی ہے، اسلامی اصطلاح میں ذبیحہ سے مرادجانورکوخداکے نام پرایسے طریقہ سے ذبح کرناہے،جس سے اس کے جسم کا ساراخون نکل جائے،اوریہ اسی طرح ممکن ہے کہ جانورکی صرف شہ رگ کوکاٹاجائے لیکن گردن کی رگوں کو قائم رکھاجائے تاکہ مذبوحہ کے دل اوردماغ کے درمیان موت تک تعلق قائم رہے، اور جانور کی موت کاباعث صرف اخراج خون ہو، نہ کہ کسي اعضائے رئیسہ (vital organ)پر صدمہ (injury) کا پہنچنا۔ کیوں کہ کسی اعضائے رئیسہ مثلاًدماغ، دل یاجگرکے صدمہ رسیدہ ہونے سے فوراًموت آجاتی ہے۔لیکن ایسی صورت میں خون جسم کے اندر ہی جم جاتا ہے۔ اس طرح جمے ہوئے خون کے ساتھ سارا گوشت یورک ایسڈ کی وجہ سے آلودہ (polluted ) ہوجاتا ہے۔

اسی طرح قرآن میں سورکوبھی حرام کیاگیاہے(مثلاً دیکھیے، البقرۃ، 2:173)۔زمانۂ قدیم میں انسان کواس کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہ تھا، مگرجدیدطبّي تحقیقات نے بتایا ہے کہ اس کے اندر بہت سے نقصانات ہیں ، مثلاًمذکورہ بالا یورک ایسڈجوایک زہریلا مادہ ہے اورہرجاندارکے خون میں موجود رہتا ہے،وہ اورجانداروں کے جسم سے تو خارج ہو جاتاہے،مگرسورکے اندرسے خارج نہیں ہوتا، گردے جوہرانسانی جسم میں ہوتے ہیں ، وہ اس زہریلے مادے کوپیشاب کے ذریعہ خارج کرتے رہتے ہیں ،انسانی جسم اس مادے کو نوے فیصد خارج کردیتے ہیں ،مگرسورکے جسم کے عضلات کی ساخت (biochemistry) کچھ اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ اس کے خون کایورک ایسڈصرف دوفیصد ہی خارج ہو پاتا ہے،اوربقیہ حصہ اس کے جسم کا جزء بنتارہتاہے،چنانچہ سورخودبھی جوڑوںکے دردمیں مبتلا رہتا ہے، اوراس کاگوشت کھانے والے بھی وجع المفاصل (rheumatism)جیسی بیماریوں میں مبتلاہوجاتے ہیں۔

اس طرح کی مثالیں کثرت سے قرآن وحدیث میں موجودہیں اوریہ مثالیں اس بات کاقطعی ثبوت ہیں کہ يه غیرانسانی ذہن سے نکلاہواکلام ہے۔بعدکی معلومات نے حیرت انگیز طور پرقرآن کی اس پیشین گوئی کی تصدیق کی ہے،جس کوہم اوپرنقل کرچکے ہیں۔ یعنی:

“عنقریب ہم آفاق وانفس میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاںتک کہ ظاہر ہوجائے گاکہ یہ حق ہے۔‘‘(فصلت، 41:53)

اس باب کو میں ایک واقعہ پر ختم کروں گا،جس کے راوی علامہ عنایت اﷲمشرقی ہیں ، اوراس واقعہ کاتعلق انگلستان سے ہے:

1909ء کاذکرہے، اتوارکادن تھا،اورزورکی بارش ہورہی تھی، میں کسی کام سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہورماہرفلکیات سرجیمزجینس (James Jeans) پرنظرپڑی جو بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے، میں نے قریب ہوکر سلام کیا،انھوں نے کوئی جواب نہ دیا،دوبارہ سلام کیاتووہ متوجہ ہوئے اور کہنے لگے، “تم کیاچاہتے ہو‘‘میں نے کہا،دوباتیں اول یہ کہ زورسے بارش ہورہی ہے اور آپ نے چھاتابغل میں داب رکھا ہے، سرجیمزاپنی بدحواسی پرمسکرائے اور چھاتا کھول لیا،دوم یہ کہ آپ جیساشہرۂ آفاق آدمی گرجاگھرمیں عبادت کے لیے جا رہاہے،یہ کیا؟ میرے اس سوال پرپروفیسرجیمزلمحہ بھرکے لیے رک گئے اور پھر میری طرف متوجہ ہوکرفرمایا”آج شام کوچائے میرے ساتھ پیو‘‘۔چنانچہ شام کو میں ان کی رہائش گاہ پہنچاٹھیک 4بجے لیڈی جیمزباہرآکرکہنے لگیں “سر جیمز تمہارے منتظر ہیں ‘‘اندر گیا توایک چھو ٹی سی میزپرچائے لگی ہوئی تھی، پروفیسر صاحب تصورات میں کھوئے ہوئے تھے،کہنے لگے”تمہاراسوال کیا تھا‘‘ اور میرے جواب کا انتظار کیے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق،ان کے حیرت انگیز نظام، بے انتہا پہنائیوں اورفاصلوں، ان کی پیچیدہ راہوں اورمداروں نیز باہمی کشش اورطوفان ہائے نورپروہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرادل اﷲ کی اس داستانِ کبریاوجبروت پردہلنے لگا، اوران کی اپنی کیفیت یہ تھی سرکے بال سیدھے اٹھے ہوئے تھے، آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں، اﷲ کی حکمت ودانش کی ہیبت سے ان کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے، اور آواز لرز رہی تھی، فرمانے لگے “عنایت اﷲ خاں!جب میں خداکے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلال سے لرزنے لگتی ہے، اور جب میں کلیسا میں خدا کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں “تو بہت بڑا ہے‘‘تو میری ہستی کا ہرذرہ میراہم نوا بن جاتاہے،مجھے بیحدسکون اورخوشی نصیب ہوتی ہے،مجھے دوسروں کی نسبت عبادت میں ہزارگنازیادہ کیف ملتاہے، کہو عنایت اﷲ خاں!تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں گرجے کیوں جاتا ہوں۔‘‘

علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسرجیمزکی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کردیا۔میں نے کہا”جناب والا!میں آپ کی روح افروزتفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں،اس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یادآگئی اگراجازت ہوتوپیش کروں، فرمایا “ضرور‘‘ چنانچہ میں نے یہ آیت پڑھی:

وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِیضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُودٌ۔ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاءُ (35:27-28)۔ یعنی، پہاڑوں میں خطے ہیں ، سفیداورسرخ اورطرح طرح کے رنگ کے اورکالے اور آدمیوں میں اورکیڑوں میں اورچوپاؤں میں اسی طر ح مختلف رنگ ہیں ، اﷲ سے ڈرتے وہی ہیں اس کے بندوں میں سے جوعلم رکھتے ہیں۔

یہ آیت سنتے ہی پروفیسرجیمزبولے:

“کیاکہا— اﷲ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں ،حیرت انگیز،بہت عجیب،یہ بات جومجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ ومشاہدہ کے بعدمعلوم ہوئی، محمدکوکس نے بتائی، کیا قرآن میں واقعی یہ آیت موجودہے، اگرہے تومیری شہادت لکھ لوکہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے، محمدان پڑھ تھا،اسے یہ عظیم حقیقت خودبخودمعلوم نہیں ہو سکتی، اسے یقیناًاﷲ نے بتائی تھی، بہت خوب، بہت عجیب(نقوش شخصیات نمبر، صفحات1208-9)۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom