استدلال کاطریقہ
مذہب کے خلاف دورِجدید کاجومقدمہ ہے، وہ اصلاً طریقِ استدلال کامقدمہ ہے، یعنی اس کامطلب یہ ہے کہ علم کی ترقی نے حقیقت کے مطالعہ کاجواعلیٰ اورارتقا یافتہ طریقہ معلوم کیا ہے، مذہب کے دعوے اورعقیدے اس پرپورے نہیں اترتے۔یہ جدید طریقۂ مشاہدہ اورتجربہ کے ذریعہ حقائق کومعلوم کرنے کاطریقہ ہے، اب چوں کہ مذہب کے عقائد ماورائے احساس دنیاسے متعلق ہونے کی وجہ سے تجربہ اورمشاہدہ میں نہیں آسکتے،اور ان کا استدلال تمام ترقیاس اوراستقراء پرمبنی ہے، اس لیے وہ غیرحقیقی ہیں ،ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں ۔
مثلاًخداکے اثبات کے لیے ہم یہ نہیں کرتے کہ خودخداکوکسی دوربین کے ذریعہ سے دکھا دیں، بلکہ یوں استدلال کرتے ہیں کہ کائنات کانظم اوراس کی معنویت اس بات کاثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی خدائی ذہن موجودہے، اس طرح ہماری دلیل براہِ راست خداکو ثابت نہیں کرتی بلکہ ایک ایسے قرینہ کوثابت کرتی ہے، جس کے منطقی نتیجہ کے طورپر خدا کو مانناپڑے۔
مگریہ مقدمہ بجائے خودصحیح نہیں ۔جدیدطریقۂ مطالعہ کایہ مطلب نہیں ہے کہ صرف وہی چیز اپنا حقیقی وجودرکھتی ہے، جوبراہ راست ہمارے تجربے میں آئی ہو،بلکہ براہِ راست تجربے میں آنے والی چیزوں کی بنیادپرجوعلمی قیاس (inference)کیاجاتاہے، وہ بھی اسی طرح حقیقت ہوسکتاہے، جیسے کوئی تجربہ۔نہ تجربہ محض تجربہ ہونے کی بناپرصحیح ہے، اورنہ قیاس محض قیاس ہونے کی بنا پر غلط، ہر ایک میں صحت اورغلطی دونوں کاامکان ہے۔
پہلے زمانے میں سمندری جہازلکڑی کے بنائے جاتے تھے۔کیوں کہ تصوریہ تھا، پانی پروہی چیزتیرسکتی ہے، جووزن میں پانی سے ہلکی ہو۔جب یہ دعویٰ کیاگیاکہ لوہے کے جہازبھی پانی پراسی طرح تیرسکتے ہیں ، جس طرح لکڑی کے جہازسطح بحرپرچلتے ہیں تواس بناپراس کو تسلیم کرنے سے انکارکردیاگیاکہ لوہاوزنی ہونے کی وجہ سے پانی کی سطح پرتیرہی نہیں سکتا۔ کسی لوہارنے اس دعویٰ کوغلط ثابت کرنے کے لیے پانی کے ٹب میں لوہے کانعل ڈال کر دکھادیاکہ وہ پانی کی سطح پر تیرنے کے بجائے ٹب کی تہ میں بیٹھ جاتاہے۔بظاہریہ ایک تجربہ تھا، مگریہ تجربہ صحیح نہیں تھا۔ کیوں کہ اس نے اگرپانی میں نعل کے بجائے لوہے کاتسلہ ڈالاہوتاتواسے معلوم ہوتاکہ دعویٰ کرنے والے کادعویٰ صحیح ہے۔
اسی طرح ابتداء میں جب کم طاقت کی دوربینوں سے آسمان کامشاہدہ کیاگیاتوبہت سے ایسے اجسام مشاہدے میں آئے جوپھیلے ہوئے نورکی ماننددکھائی دے رہے تھے۔ اس مشاہدہ کی بناپریہ نظریہ قائم کرلیا گیاکہ یہ گیسی بادل ہیں ، جوستارے بننے پہلے مرحلے سے گزررہے ہیں ۔ مگر جب مزید طاقت کی دوربینیں تیارہوئیں اوران کے ذریعہ ازسرِ نوان اجسام کو دیکھا گیا تو نظر آیا کہ جو چیز پہلے نورانی بادل کی شکل میں دکھائی دیتی تھی،وہ دراصل بے شمارستاروں کامجموعہ تھا، جو غیرمعمولی دوری کی وجہ سے بادل کی مانندنظرآرہاتھا۔
معلوم ہواکہ مشاہدہ اورتجربہ نہ صرف یہ کہ بذاتِ خودعلم کے قطعی ذرائع نہیں ہیں ، بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ علم صرف ان چیزوں کانام نہیں ہے جوبراہِ راست ہمارے مشاہدہ وتجربہ میں آتی ہوں۔ دورِجدیدنے بیشک بہت سے آلات اورذرائع دریافت کرلیے ہیں ، جن سے وسیع پیمانے پرتجربہ ومشاہدہ کیاجاسکتاہے۔ مگریہ آلات وذرائع جن چیزوں کا ہمیں تجربہ کراتے ہیں ، وہ صرف کچھ اوپری اورنسبتاًغیراہم چیزیں ہوتی ہیں ۔ اس کے بعدان مشاہدات وتجربات کی بنیادپرجونظریات قائم کیے جاتے ہیں ، وہ سب کے سب غیرمرئی ہوتے ہیں ۔ نظریات کے ا عتبار سے د یکھاجائے توساری سائنس کچھ مشاہدات کی توجیہ کانام ہے، یعنی خودنظریات وہ چیزیں نہیں ہیں ،جوہمارے مشاہدہ یا تجربے میں آئے ہوں۔ بلکہ کچھ تجربات ومشاہدات نے سائنس دانوں کویہ ماننے پر مجبور کیا ہے کہ یہاں فلاں حقیقت موجودہے۔ اگرچہ وہ خودمشاہدہ میں نہیں آئی،کوئی سائنس داں یامادہ پرست فورس، انرجی،نیچر،قانونِ فطرت،وغیرہ الفاظ استعمال کیے بغیرایک قدم آگے نہیں چل سکتا۔ مگرکوئی بھی سائنس داں نہیں جانتاکہ قوت یانیچرکیاہے۔سوا اس کے معلوم واقعات وظواہرکی نامعلوم اور ناقابلِ مشاہدہ علّت کے لیے چندتعبیری الفاظ وضع کرلیے گئے ہیں ، جن کی حقیقت معنوی کی تشریح سے ایک سائنس داں بھی اسی طرح عاجزہے،جس طرح اہلِ مذاہب خداکی تشریح وتوصیف سے۔دونوں اپنی جگہ ایک نامعلوم علت کائنات پرغیبی اعتقادرکھتے ہیں ، ڈاکٹر الکسس کیرل کے الفاظ میں :
“ریاضیاتی کائنات قیاسات اورمفروضات کاایک شاندارجال ہے،جس میں علامتوں کی مساوات(equation of symbols)پرمشتمل ناقابلِ بیان مجردات (abstractions) کے سوااورکچھ نہیں ۔‘‘
Man the Unknown, p. 15
سائنس ہرگزیہ دعویٰ نہیں کرتی اورنہیں کرسکتی کہ حقیقت صرف اسی قدرہے، جوحواس کے ذریعہ بلاواسطہ ہمارے تجربہ میں آئی ہو۔ یہ واقعہ کہ پانی ایک رقیق اورسیال چیزہے، اس کوہم براہ راست اپنی آنکھوں کے ذریعہ دیکھ لیتے ہیں ، مگریہ واقعہ کہ پانی کاہرما لے کیول ہائیڈروجن کے دوایٹم اور آکسیجن کے ایک ایٹم پرمشتمل ہے، یہ ہم کوآنکھ سے یا کسی خوردبین سے نظرنہیں آتا،بلکہ صرف منطقی استنباط کے ذریعہ معلوم ہوتاہے، اور سائنس ان دونوں واقعات کی موجودگی یکساں طورپرتسلیم کرتی ہے، اس کے نزدیک جس طرح وہ عام پانی ایک حقیقت ہے، جومشاہدہ میں نظرآرہاہے، اسی طرح وہ تجزیاتی پانی بھی ایک حقیقت ہے، جو قطعًا ناقابل مشاہدہ ہے،اورصرف قیاس کے ذریعہ معلوم کیاگیا ہے۔یہی حال دوسرے تمام حقائق کاہے۔اے۔ای مینڈر(Alfred Ernest Mander, 1894-1985) لکھتاہے:
“جوحقیقتیں (facts) ہم کوبراہ راست حواس کے ذریعہ معلوم ہوں، وہ محسوس حقائق (perceived facts) ہیں ، مگرجن حقیقتوں کوہم جان سکتے ہیں ، وہ صرف انھیں محسوس حقائق تک محدودنہیں ہیں ۔ ان کے علاوہ اوربہت سے حقیقتیں ہیں جن کاعلم اگرچہ براہِ راست ہم حاصل نہیں کرسکتے۔پھربھی ہم ان کے بارے میں جان سکتے ہیں ۔ اس علم کاذریعہ استنباط ہے۔ اس طرح جوحقیقتیں معلوم ہوں،ان کواستنباطی حقائق (inferred facts)کہا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات اہمیت کے ساتھ سمجھ لینے کی ہے کہ دونوں میں اصل فرق ان کے حقیقت ہونے کے اعتبار سے نہیں ہے،بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ ایک صورت میں ہم”اس کو‘‘ جانتے ہیں ، اور دوسری صورت میں “اس کے بارے میں ‘‘ معلوم کرتے ہیں ۔حقیقت بہرحال حقیقت ہے،خواہ ہم ا س کوبراہ راست مشاہدہ سے جانیں یابہ طریق استنباط معلوم کریں۔‘‘
Clearer Thinking, London, 1949, p. 46
وہ مزیدلکھتاہے:
“کائنات میں جوحقیقتیں ہیں ، ان میں سے نسبتاً تھوڑی تعداد کوہم حواس کے ذریعہ معلوم کرسکتے ہیں ، پھران کے علاوہ جواورچیزیں ہیں ، ان کوہم کیسے جانیں، اس کاذریعہ استنباط(inference)یا تعقل(reasoning)ہے۔ استنباط یا تعقل ایک طریق فکر ہے، جس کے ذریعہ سے ہم کچھ معلو م واقعات سے آغاز کر کے بالآخریہ عقیدہ بناتے ہیں کہ فلاں حقیقت یہاں موجودہے، اگرچہ وہ کبھی دیکھی نہیں گئی۔‘‘ (ایضاًصفحہ49)
یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ عقلی اورمنطقی طریقہ حقیقت کومعلوم کرنے کاذریعہ کیوں کر ہے، جس چیزکوہم نے آنکھ سے نہیں دیکھااورنہ کبھی اس کے وجودکاتجزیہ کیا،اس کے متعلق محض عقلی تقاضے کی بناپرکیسے کہاجاسکتاہے کہ وہ حقیقت ہے، مینڈرکے الفاظ میں اس کا جواب یہ ہے:
‘‘The reasoning process is valid because the universe of fact is rational.” (Clearer Thinking, p. 50)
یعنی منطقی استدلال کے ذریعہ حقیقت کومعلوم کرنے کاطریقہ صحیح ہے۔ کیوں کہ حقائق کی دنیا عقلی دنیا ہے۔ عالم واقعات ایک ہم آہنگ کل ہے، کائنات کے تمام حقائق ایک ودسرے سے مطابقت رکھتے ہیں ، اوران کے درمیان زبردست نظم اورباقاعدگی پائی جاتی ہے۔ اس لیے مطالعہ کا کوئی ایساطریقہ جوواقعات کی ہم آہنگی اوران کی موزونیت کوہم پرواضح نہ کرے،صحیح نہیں ہوسکتا۔ مینڈریہ بتاتے ہوئے لکھتاہے:
“نظر آنے والے واقعات محض عالم حقیقت کے کچھ اجزاء (patches of fact) ہیں ، وہ سب کچھ جن کوہم حواس کے ذریعہ جانتے ہیں ، وہ محض جزئی اور غیرمربوط واقعات ہوتے ہیں ، اگرالگ سے صرف انھیں کو دیکھا جائے تووہ بے معنی معلوم ہوں گے۔براہِ راست محسوس ہونے والے واقعات کے ساتھ اوربہت سے غیرمحسوس واقعات کوملاکرجب ہم دیکھتے ہیں ، اس وقت ہم ان کی معنویت کوسمجھتے ہیں ۔‘‘ ( صفحہ 51)
اس کے بعدوہ ایک سادہ سی مثال سے اس حقیقت کوسمجھاتاہے:
“ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چڑیامرتی ہے توزمین پرگرپڑتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ایک پتھرکوزمین سے اٹھانے کے لیے طاقت خرچ کرنی ہوتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ چاندآسمان میں گھوم رہاہے،ہم دیکھتے ہیں کہ پہاڑی سے اترنے کے مقابلے میں چڑھنازیادہ مشکل ہے،اس طرح کے ہزاروں مشاہدات ہمارے سامنے آتے ہیں جن کے درمیان بظاہرکوئی تعلق نہیں ، اس کے بعدایک استنباطی حقیقت (inferred facts) انکشاف ہوتا ہے— یعنی تجاذب (gravitation)کا قانون،اس کےفورًابعدہمارےیہ تمام مشاہدات اس استنباطی حقیقت کے ساتھ مل کرباہم مربوط ہوجاتے ہیں ، اور اس طرح بالکل پہلی بار ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ان مختلف واقعات کے درمیان نظم، باقاعدگی اورموافقت ہے۔ محسوس واقعات کواگر الگ سے دیکھاجائے تووہ بے ترتیب،غیرمربوط اورمتفرق معلوم ہوں گے، مگرمحسوس واقعات اور استنباطی حقائق دونوں کوملادیاجائے تووہ ایک منظم شکل اختیار کر لیتے ہیں ‘‘۔(صفحہ51)
اس مثال میں تجاذب کاقانون (law of gravitation)ایک تسلیم شدہ سائنسی حقیقت ہونے کے باوجودبذاتِ خود قطعًاناقابل مشاہدہ ہے، سائنس دانوں نے جس چیز کودیکھایاتجربہ کیاوہ خودقانونِ کشِش نہیں ، کچھ دوسری چیزیں ہیں ، اوران دوسری چیزوں کو منطقی توجیہ کے طورپروہ ماننے پرمجبورہوئے ہیں کہ یہاں کوئی ایسی چیزموجودہے، جس کوہم قانونِ تجاذب سے تعبیرکرسکتے ہیں ۔
یہ قانون تجاذب آج ایک مشہورترین سائنسی حقیقت کے طورپرساری دنیامیں جانا جاتا ہے، اس کو پہلی بارنیوٹن نے دریافت کیا،مگرخالص تجرباتي نقطۂ نظرسے اس کی حقیقت کیا ہے، اس کونیوٹن کی زبان سے سنیے،اس نے بنٹلی کوایک خط لکھاتھا،جواس کے مجموعے میں ان الفاظ میں نقل کیاگیاہے:
“یہ ناقابل فہم ہے کہ بے جان اوربے حس مادہ کسی درمیانی واسطہ کے بغیر دوسرے مادہ پراثرڈالتاہے،حالانکہ دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہوتا۔‘‘
Works of W. Bently III, P.221
ایک ایسی ناقابل مشاہدہ اورناقابل فہم چیز کوآج بلااختلاف سائنسی حقائق سمجھا جاتا ہے، کیوں،صرف اس لیے کہ اگرہم ان کومان لیں توہمارے کچھ مشاہدات کی اس سے توجیہ ہوجاتی،گویاکسی چیزکے حقیقت ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کی واقعیت براہِ راست ہمارے تجربے اور مشاہدے میں آرہی ہو،بلکہ وہ غیرمرئی عقیدہ بھی اسی درجہ کی ایک حقیقت ہے،جس سے ہم مختلف مشاہدات کو اپنے ذہن میں مربوط کرسکتے ہوں، جومعلوم واقعات کی معنویت ہم پر واضح کرسکے، مینڈرلکھتاہے:
“ یہ کہناکہ ہم نے ایک حقیقت کومعلوم کرلیاہے،دوسرے لفظوں میں گویایہ کہناہے کہ ہم نے اس کی معنویت (meaning) کومعلوم کرلیاہے،یا اس کویوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم کسی چیزکی موجودگی کے سبب اوراس کے حالات کومعلوم کرکے اس کی تشریح کرتے ہیں ، ہماری بیشتر یقینیات (beliefs) اسی نوعیت کی ہیں ،وہ دراصل مشاہدات کی توضیح (Statements of Observation)ہیں ۔‘‘
Clearer Thinking, p. 52
اس بحث کے بعدمینڈرمشہورحقائق (Observed Facts) کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتاہے:
“جب ہم کسی مشاہدے (Observation) کاذکرکرتے ہیں توہمیشہ ہم مجردحسّیاتی مشاہدے سے کچھ زیادہ مرادلیتے ہیں ،ا س سے مراد حسّیاتی مشاہدہ نیزمعرفت(Recognition)ہوتاہے،جس میں تعبیر کا جز بھی شامل ہو‘‘۔(صفحہ 56)
یہی وہ اصول ہے جس کی بنیادپرعضویاتی ارتقا (Organic Evolution) کے حقیقت ہونے پرسائنس دانوں کااجماع ہوگیاہے،مینڈرکے نزدیک یہ نظریہ”اب اتنے دلائل سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس کوتقریباًحقیقت (Approximate Certainty) کہا جا سکتا ہے‘‘۔
Clearer Thinking, p. 113
سمپسن(G.G. Simpson)کے الفاظ میں نظریۂ ارتقا آخری اورمکمل طورپرایک ثابت شدہ حقیقت ہے، نہ کہ محض ایک قیاس یامتبادل مفروضہ جوسائنس کی تحقیق کے لیے قائم کرلیاگیاہو‘‘
Meaning of Evolution, p. 127
انسائیکلوپیڈیابرٹانیکا(1958ء) کے مقالہ نگارنے حیوانات میں ارتقا کوبطورایک حقیقت (truth) تسلیم کیاہے،اورکہاہے کہ ڈارون کے بعداس نظریے کو سائنس دانوں اورتعلیم یافتہ طبقے کا قبول عام (general acceptance) حاصل ہوچکاہے۔ رچرڈ لول (Richard Swann Lull, 1867-1957) لکھتاہے:
“ڈارون کے بعدنظریہ ارتقا دن بدن زیادہ قبولیت حاصل کرتا رہا ہے، یہاں تک کہ اب سوچنے اورجاننے والے لوگوں میں اس بارے میں کوئی شبہ نہیں رہ گیاہے کہ یہ واحدمنطقی طریقہ ہے،جس کے تحت عمل تخلیق کی توجیہ ہوسکتی ہے،اوراس کوسمجھاجاسکتاہے۔‘‘
Organic Evolution, p.15
یہ نظریہ جس کی صداقت پرسائنس دانوں کااس قدراتفاق ہوگیاہے۔کیااسے کسی نے دیکھا ہے،یاا س کاتجربہ کیاہے— ظاہرہے کہ ایسانہیں ہے اورنہ ایساہوسکتا ہے۔ارتقا کامزعومہ عمل اتنا پیچیدہ ہے،اوراتنے بعیدترین ماضی سے متعلق ہے،جس کودیکھنے یاتجربہ کرنے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔لول (Lull) کے مذکورہ بالاالفاظ کے مطابق یہ ایک “منطقی طریقہ‘‘ ہے، جس سے تخلیقی مظاہر کی توجیہ کی جاتی ہے، نہ کہ تخلیق کے واقعہ کا مشاہدہ۔چنانچہ سرآرتھرکیتھ جوخودبھی ارتقا کاحامی ہے، اس نے ارتقا کومشاہداتی یاتجرباتی حقیقت کے بجائے ایک “عقیدہ‘‘قراردیاہے۔اس کے الفاظ ہیں :
Evolution is a basic dogma of rationalism
Revolt Against Reason, p.112
یعنی نظریۂ ارتقا مذہب عقلیت کاایک بنیادی عقیدہ ہے،چنانچہ ایک سائنسی انسائیکلو پیڈیا میں ڈارونزم کوایک ایسانظریہ کہاگیاہے، جس کی بنیادتوجیہ بلامشاہدہ (explanation without demonstration) پرقائم ہے۔
Revolt against Reason, p. 111
پھرایک ایسی غیرمشاہداورناقابل تجربہ چیزکوعلمی حقیقت کیوں سمجھاجاتاہے، اس کی وجہ اے،ای مینڈرکے الفاظ میں یہ ہے:
1۔یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ (consistent)ہے۔
2۔ اس نظریے میں ان بہت سے واقعات کی توجیہ مل جاتی ہے، جواس کے بغیرسمجھے نہیں جاسکتے۔
3۔دوسراکوئی نظریہ ابھی تک ایساسامنے نہیں آیاجوواقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتاہو۔
Clearer Thinking, p. 112
اگریہ استدلال نظریہ ارتقا کوحقیقت قراردینے کے لیے کافی ہے تویہی استدلال بدرجہازیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجودہے۔ ایسی حالت میں نظریۂ ارتقا کوسائنسی حقیقت قرار دینا،اورمذہب کوسائنسی ذہن کے لیے ناقابل قبول ٹھہراناصرف اس بات کامظاہرہ ہے کہ آپ کامقدمہ اصلاً”طریق استدلال‘‘کامقدمہ نہیں ہے، بلکہ وہ نتیجہ سے متعلق ہے۔ ایک ہی طریق استدلال سے اگرکوئی خالص طبیعیاتی نوعیت کا واقعہ ثابت ہوتوآپ فوراًاسے قبول کرلیں گے اور اگر کوئی الٰہیاتی نوعیت کی چیز ثابت ہوتوآپ اسے ردکردیں گے،کیوں کہ یہ نتیجہ آپ کوپسندنہیں ۔
اوپرکی بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ کہناصحیح نہیں کہ مذہب ایمان بالغیب کانام ہے،اور سائنس ایمان بالشہودکا۔حقیقت یہ ہے مذہب اورسائنس دونوں ہی ایمان بالغیب پرعمل کرتے ہیں ،مذہب کااصل دائرہ اشیا کی اصلی اورآخری حقیقت متعین کرنے کا دائرہ ہے، سائنس اسی وقت تک مشاہداتی علم ہے،جب تک وہ ا بتدائی اورخارجی مظاہر پر کلام کررہی ہو،جہاں وہ ا شیاء کی آخری اورحقیقی حیثیت متعین کرنے کے میدان میں آتی ہے، جو کہ مذہب کااصلی میدان ہے،تووہ بھی ٹھیک اسی طرح”ایمان بالغیب‘‘ کاطریقہ اختیار کرتی ہے،جس کاالزام مذہب کودیاجاتاہے۔ کیوں کہ اس میدان میں اس کے سواچارہ نہیں ۔ بقول آرتھراڈنگٹن (Sir Arthur Eddington) دورجدیدکاسائنس داں جس میزپرکام کررہاہے،وہ بیک وقت دومیزیں ہیں ،ایک میزتووہی ہے، جوعام انسان استعمال کرتا ہے،اورجس کوچھونااوردیکھناممکن ہے۔ دوسری میزاس کی علمی میز (scientific table) ہے،ا س کابیشترحصہ خلاہے،اوراس میں بے شمار ناقابل مشاہدہ اليکٹران دوڑرہے ہیں ۔ اسی طرح ہرچیزکے مثنّیٰ (duplicate) ہیں ،جن میں سے ایک توقابل مشاہدہ ہے، اور دوسراصرف تصوراتی ہے۔ا س کوکسی بھی خوردبین یادوربین سے دیکھانہیں جاسکتا۔
Eddington, The Nature of the Physical World.
(Cambridge, The University Press 1948), p. 261.
جہاں تک چیزوں کی شکل ِ اول کاتعلق ہے، اس کوبیشک سائنس دیکھتی ہے،اور بہت دور تک دیکھتی ہے۔مگراس نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیاکہ اس نے شکل ثانی کوبھی دیکھ لیاہے،اس میدان میں اس کاطریقہ یہ ہے کہ وہ کسی حقیقت کے مظاہرکودیکھ کراس کے بارے میں ایک رائے قائم کرتی ہے، گویاجہاں تک اس دوسرے میدان— اشیاکی حقیقت معلوم کرنے کامیدان— کاتعلق ہے،سائنس نام ہے،معلوم حقائق کی مددسے نامعلوم حقائق کو جاننا۔
جب سائنس داں کے پاس مشاہداتی حقائق (جن کودرحقیقت وجدان صورت پذیر کرتاہے) کی کچھ تعدادفراہم ہوجاتی ہے تووہ یہ محسوس کرتاہے کہ اب اسے ایک ایسے مفروضہ یانظریہ زیادہ صحیح الفاظ میں ایک وجدانی یااعتقادی تصورکی ضرورت ہے،جوان مشاہدات کی تشریح کرے،ان کومنظم کرے اورانھیں ایک وحدت میں پِرودے۔لہٰذاوہ اس قسم کاایک وجدانی مفروضہ ایجاد کرتا ہے۔ اگریہ مفروضہ فی الواقع ان تمام حقائق کی معقول تشریح کر رہا ہو،تو وہ بھی ایک ایسی ہی قابل یقین حقیقت شمارکیاجاتاہے،جیسی کہ کوئی اورعلمی حقیقت جس کوسائنس داں “مشاہدہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت سائنس دانوں کے اپنے نقطۂ نظرکے مطابق کبھی مشاہدہ میں نہ آئی ہو،مگریہ غیرمرئی حقیقت صرف اس لیے حقیقت سمجھی جاتی ہے کہ دوسرامفروضہ ایسا موجودنہیں ہے،جوان مشہودحقائق کی واقعی تشریح کرتاہو۔
گویاسائنس داں ایک غائب چیزکی موجودگی پراس کے نتائج واثرات کی وجہ سے یقین کرلیتا ہے، ہروہ حقیقت جس پریقین کرتے ہیں ،شروع میں ایک مفروضہ ہی ہوتی ہے، پھرجوں جوں نئے حقائق منکشف ہوکراس مفروضے کی تائیدکرتے جاتے ہیں ، اس مفروضہ کی صداقت نمایاں ہوتی جاتی ہے،یہاں تک کہ ا س پرہمارایقین، حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جاتاہے۔اگرظاہر ہونے والے حقائق اس مفروضہ کی تائیدنہ کریں توہم اس مفروضہ کوغلط سمجھ کرترک کردیتے ہیں ۔اس قسم کي ناقابل انکارحقیقت کی ایک مثال جس پرسائنس داں ایمان بالغیب رکھتاہے، وہ ایٹم ہے۔ایٹم کوآج تک معروف معنوں میں دیکھانہیں گیا،مگراس کے باوجودوہ جدیدسائنس کی سب سے بڑی تسلیم شدہ حقیقت ہے،اسی بناپرایک عالم نے سائنسی نظریات کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے — نظریات دراصل ذہنی نقشے ہیں ، جومعلوم قوانین کی توجیہ کرتے ہیں :
‘‘Theories and mental pictures that explain known laws.”
سائنس کے میدان میں جن “حقائق‘‘ کومشاہداتی حقائق (observed facts) کہا جاتا ہے، وہ دراصل مشاہداتی حقائق نہیں بلکہ کچھ مشاہدات کی تعبیریں ہیں ، اورچوں کہ انسانی مشاہدہ کوکامل نہیں کہاجاسکتا،اس لیے یہ تعبیریں بھی تمام کی تمام اضافی ہیں ، اورمشاہدہ کی ترقی سے تبدیل ہوسکتی ہیں ۔جے،ڈبلو،سولیون (John William Navin Sullivan, 1886-1037)سائنسی نظریات پرایک تبصرہ کرنے کے بعدلکھتاہے:
“سائنسی نظریات کے ا س جائزے سے یہ ثابت ہوجاتی ہے کہ ایک صحیح سائنسی نظریہ محض یہ معنی رکھتاہے کہ وہ ایک کامیاب عملی مفروضہ (Successful Working Hypothesis)ہے،یہ بہت ممکن ہے کہ تمام سائنسی نظریات اصلًاغلط ہوں،جن نظریات کوآج ہم تسلیم کرتے ہیں ، وہ محض ہمارے موجودہ حدودمشاہدہ کے اعتبارسے حقیقت ہیں ، حقیقت (Truth)اب بھی سائنس کی دنیامیں ایک علمی اورافادی مسئلہ (Pragmatic Affair)ہے۔‘‘
The Limitation of Science, p. 158
اس کے باوجودسائنس داں ایک مفروضہ کوجواس کے مشاہداتی حقائق کی معقول تشریح کرتاہو، مشاہداتی حقائق سے کم درجہ کی علمی حقیقت نہیں سمجھتا،وہ نہیں کہہ سکتاکہ یہ مشاہداتی حقائق توسائنس ہیں ،لیکن وہ نظریہ جوان کی تشریح کرتاہے وہ سائنس نہیں — اسی کانام ایمان بالغیب ہے۔ ایمان بالغیب مشہودحقائق سے الگ کوئی چیزنہیں ہے۔ وہ محض ایک اندھاعقیدہ نہیں ہے، بلکہ وہ مشہودکی صحیح ترین توجیہ ہے، جس طرح نیوٹن کے نظریۂ روشنی (Corpuscular Theory of Light)کو بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے اس لیے ردکردیاکہ وہ مظاہرنورکی تشریح میں ناکام نظر آیا۔ اسی طرح ہم بےخدامفکرین کے نظریۂ کائنات کواس بناپرردّکرتے ہیں کہ وہ حیات وکائنات کے مظاہر کی تشریح میں ناکام ہے۔مذہب کے بارے میں ہمارے یقین کاماخذعین وہی چیز ہے، جوایک سائنس داں کے لیے کسی سائنسی نظریے کے بارے میں ہوتاہے۔ہم مشاہداتی حقائق کے مطالعہ سے اس نتیجہ پرپہونچتے ہیں کہ مذہب کی تشریحات عین حق ہیں ، اوراس درجہ حق ہیں کہ ہزاروں برس گزرنے کے باوجودان کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ہروہ انسانی نظریہ جوآج سے چندسوبرس پہلے بنایاگیا،وہ نئے مشاہدات وتجربات کے ظہورمیں آنے کے بعدمشتبہ اور متروک ہو چکا ہے۔ اِس کے برعکس، مذہب ایک ایسی صداقت ہے، جوہرنئی تحقیق سے اورنکھرتی چلی جارہی ہے، ہر واقعی دریافت اس کے لیے تصدیق بنتی چلی جاتی ہے۔
اگلے صفحات میں ہم اسی پہلوسے مذہب کے بنیادی تصورات کامطالعہ کریں گے۔