تعدد ازواج

اسی طرح اسلام میں ایک سے زیادہ شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کو بھی تہذیب جدیدنے بڑے زورشورکے ساتھ جہالت (ignorance)کاقانون قرار دیا ہے، مگر تجربے نے ظاہر کردیا ہے کہ اسلام کایہ اصول سماجی ضرورت کے مطابق ہے۔یہ سماج میں پیدا ہونے والےمسئلہ کا حل ہے، نہ کہ حکم، جس پر عمل کرنا ہر وقت ضروری ہو۔ وہ مسئلہ کیا ہے۔

 سروے بتاتے ہیں کہ باعتبار پیدائش عورت اور مرد کی تعداد تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ یعنی جتنے بچے، تقریباً اتنی ہی بچیاں۔ مگر شرح اموات (Mortality) کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ عورتوں کے مقابلہ میں مردوں کے درمیان موت کی شرح زیادہ ہے۔ یہ فرق بچپن سے لے کر آخر عمر تک جاری رہتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) کے مطابق، عمومی طور پر، موت کا خطرہ عمر کے ہر مرحلہ میں ، عورتوں کے لیے کم پایا گیا ہے اور مردوں کے لیے زیادہ:

In general, the risk of death at any given age is less for females than for males. (EB. VII/37)

اکثر حالات میں سماج کے اندر عورتوں کی تعدادکا زیادہ ہونا اور مردوں کی تعداد کا کم ہونامختلف اسباب سے ہوتا ہے۔مثلاً جنگ۔پہلی عالمی جنگ (1914-18) میں آٹھ ملین سے زیادہ فوجی مارے گئے۔ شہری لوگ جو اس جنگ میں ہلاک ہوئے وہ اس کے علاوہ ہیں۔ یہ زیادہ تر مرد تھے۔ دوسری عالمی جنگ (1939-45) میں ساڑھے چھ کروڑ آدمی ہلاک ہوئے یا جسمانی طور پر ناکارہ ہو گئے۔ یہ سارے لوگ زیادہ تر مرد تھے۔ عراق، ایران جنگ میں (1979-88) میں ایران کی82 ہزار عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ عراق میں ایسی عورتوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے جن کے شوہر اس دس سالہ جنگ میں ہلاک ہوئے۔

اسی طرح مثال کے طور پر جیل اور قید کی وجہ سے بھی سماج میں مردوں کی تعداد کم اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔ امریکا کو موجودہ زمانہ میں دنیا کی مہذب ترین سوسائٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکا میں ہر روز تقریباً 13لاکھ آدمی کسی نہ کسی جرم میں پکڑے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک تعداد وہ ہے جو لمبی مدت تک کے لیے جیل میں ڈال دی جاتی ہے۔ ان سزا یافتہ قیدیوں میں 97فیصد مرد ہی ہوتے ہیں۔ (EB-14/1102)

اسی طرح جدید صنعتی نظام نے حادثات کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں حادثاتی موتیں روزمرہ کا معمول بن گئی ہیں۔ سڑک کے حادثے، ہوائی حادثے، کارخانوں کے حادثے اور دوسرے مشینی حادثے ہر ملک میں اور ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ جدید صنعتی دور میں یہ حادثات اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب سیفٹی انجینئرنگ (safety engineering) کے نام سے ایک مستقل فن وجود میں آ گیا ہے۔ 1967ء کے اعداد و شمار کے مطابق، اس ایک سال میں پچاس ملکوں کے اندر مجموعی طور پر 175000 حادثاتی موتیں واقع ہوئیں، یہ سب زیادہ تر مرد تھے (EB-16/137)۔

صنعتی حادثات کی موتوں میں ، سیفٹی انجینئرنگ کے باوجود، پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر، ہوائی حادثات جتنے1988ء میں ہوئے، اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح تمام صنعتی ملکوں میں مستقل طور پر اسلحہ سازی کے تجربات ہو رہے ہیں۔ ان میں برابر لوگ ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ ان ہلاک شدگان کی تعداد کبھی نہیں بتائی جاتی، تاہم یہ یقینی ہے کہ ان میں بھی تمام تر صرف مرد ہی ہیں جو ناگہانی موت کا شکار ہوتے ہیں۔

اس طرح کے مختلف اسباب کی بنا پر عملی صورت حال اکثر یہی ہوتی ہے کہ سماج میں عورتوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہو، اور مردوں کی تعداد نسبتاً کم ہو جائے۔ دنیا کی آبادی میں مرد اور عورت کی تعداد کے فرق کو بتانے کے لیے یہاں کچھ مغربی ملکوں کے اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں۔ یہ اعداد و شمار انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا (1984)سے لیے گئے ہیں :

COUNTRY                  MALE          FEMALE

1. Austria                    47.07%        52.93%

2. Burma                     48.81           51.19

3. Germany                48.02           51.89

4. France                     48.99           51.01

5. Italy                          48.89           51.11

6. Poland                    48.61           51.39

7. Spain                       48.94           51.06

8. Switzerland            48.67           51.33

9. Soviet Union          46.59           53.03

10. United States      48.58           51.24

انڈیا کے حوالے سے اس کی تفصیل جاننا ہو تو انڈیا ٹو ڈے (15 نومبر 1978) کی 8 صفحات کی باتصویر رپورٹ ملاحظہ فرمائیں، جو اس بامعنی عنوان کے تحت شائع ہوئی ہے کہ بیوائیں، انسانیت کا برباد شدہ ملبہ:

Widows:Wrecks of Humanity

اس مسئلہ کے حل کے لیے ایک صورت یہ ہے کہ یہ “فاضل‘‘ عورتیں جنسی آوارگی یا معاشرتی بربادی کے لیے چھوڑ دی جائیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے ایسے مردوں کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں وابستہ ہو جائیں جو ایک سے زیادہ بیویوں کے ساتھ عدل کر سکتے ہوں۔ مذکورہ بالا دو ممکن صورتوں میں سے اسلام نے دوسری صورت کا انتخاب کیا ہے۔ یعنی مخصوص شرائط کے ساتھ کچھ مردوں کے لیے ایک سے زیادہ نکاح کی اجازت۔

تعدد ازواج کا یہ اصول جو اسلامی شریعت میں مقرر کیا گیا ہے، وہ دراصل عورتوں کو مذکورہ بالا قسم کے بھیانک انجام سے بچانے کے لیے ہے۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ عملی طور پر کوئی عورت کسی مرد کی دوسری یا تیسری بیوی بننے پر ہنگامی حالات ہی میں راضی ہو سکتی ہے، نہ کہ معمول کے حالات میں۔ بظاہر یہ ایک عام حکم ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ حکم دراصل ایک سماجی مسئلہ کے عملی حل (practical wisdom)کے طور پر وضع کیا گیا ہے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب، تعدد ازواج، مطبوعہ گڈ ورڈ بکس، نئی دہلی)۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom