قرآن— خداکی آواز
پیغمبراسلام کی ایک حدیث ہے:
پیغمبروں میں سے ہرپیغمبرکواﷲ تعالیٰ نے ایسے معجزات دیے جن کودیکھ کرلوگ ایمان لائے اورمجھ کوجومعجزہ عطاہواہے،وہ قرآن ہے:مَا مِنَ الأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مَا مِثْلهُ آمَنَ عَلَيْهِ البَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللّهُ إِلَيَّ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4981)۔
یہ ارشادہماری تلاش کے صحیح رخ کومتعین کرتاہے،وہ بتاتاہے کہ رسول کی رسالت کو پہچاننے کے لیے آج ہمارے پاس جوسب سے بڑاذریعہ وہ کتاب ہے جس کورسول نے یہ کہہ کر پیش کیا تھا کہ وہ ا س کے پاس خداکی طرف سے اتری ہے۔قرآن،رسول کا نمائندہ بھی ہے، اوررسول کے رسول برحق ہونے کی دلیل بھی۔
قرآن کی وہ کیاخصوصیات ہیں ،جویہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ خداکی طرف سے اترا ہے، اس کے بہت سے پہلوہیں ،یہاںمیں چندپہلوؤں کامختصراًذکرکروں گا:
1۔اس سلسلے میں سب سے پہلی چیزجوقرآن کے طالب علم کومتاثرکرتی ہے،وہ قرآن کاچیلنج ہے، جوچودہ سوبرس سے د نیاکے سامنے ہے، مگرآج تک اس کاجواب نہ دیا جاسکا، قرآن میں باربار یہ اعلان کیاگیاہےکہ جولوگ قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کے بارے میں مشتبہ ہیں ، اوراس کو محض اپنے جیسے ایک انسان کی تصنیف سمجھتے ہیں ، وہ ایسی ایک کتاب بناکرپیش کریں، بلکہ اس کي جیسی ایک سورہ ہی بناکردکھادیں۔ قرآن کے الفاظ ہیں :
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (2:23)۔ یعنی اپنے بندے پر اپنا جو کلام ہم نے اتاراہے،اگراس کے (کلام الٰہی ہونے کے) بارے میں تمھیں شبہ ہے تواس کے جیسی ایک سورہ لکھ کر لے آؤ اورخداکے سوااپنے تمام مددگاروں کوبھی بلا لو،اگرتم اپنے خیال میں سچے ہو۔
یہ ایک حیرت انگیزدعویٰ ہے،جوساری انسانی تاریخ میں کسی بھی مصنف نہیں کیااورنہ بقیدہوش و حواس کوئی مصنف ایسادعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتا،کیوں کہ کسی بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھ دے جس کے ہم پایہ کتاب دوسرے انسان نہ لکھ سکتے ہوں،ہرانسانی تصنیف کے جواب میں اسی د رجہ کی دوسری انسانی تصنیف تیارکی جاسکتی ہے،قرآن کایہ کہناکہ وہ ایک ایساکلام ہے،جیساکلام انسانی ذہن تخلیق نہیں کرسکتا، اورڈیڑھ ہزاربرس تک کسی انسان کااس پرقادرنہ ہونا،قطعی طورپرثابت کردیتاہے کہ یہ ایک غیرانسانی کلام ہے،یہ خدائی منبع (divine origin) سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں ، اور جوچیزخدائی منبع سے نکلی ہواس کاجواب کون دے سکتا ہے۔
تاریخ میں چندمثالیں ملتی ہیں جب کہ اس چیلنج کوقبول کیاگیا۔ایک واقعہ لبیدبن ربیعہ عامری(وفات 41ھ)کاہے۔ لبید ابن ابی ربیعہ دورِ جاہلیت میں عربوں کا مشہور شاعر تھا۔ وہ عربوں میں اپنے قوت کلام اورتیزیٔ طبع کے لیے مشہورتھا۔اس نے بطور چیلنج ایک نظم لکھی جوکعبہ کے پھاٹک پرآویزاں کی گئی،اوریہ ایک ایسااعزازتھاجوصرف کسی اعلیٰ ترین شخص ہی کو ملتا تھا۔ اس واقعہ کے جلدہی بعدکسی مسلمان نے قرآن کی ایک سورہ لکھ کر اس کے قریب آویزاں کردی، لبید (جواس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے)جب اگلے روزکعبہ کے دروازہ پرآئے اور سورہ كو پڑھاتوابتدائی فقروں کے بعدہی وہ غیرمعمولی طورپرمتاثرہوئے اوراعلان کیابلاشبہ یہ کسی انسان کاکلام نہیں ہے،اورمیں اس پرایمان لاتاہوں۔
Mohammad, the Holy Prophet by H. G. Sarwar, p.448
عرب کایہ مشہورشاعرقرآن کے ادب سے اس قدرمتاثرہواکہ اس کی شاعری چھوٹ گئی۔ بعد کو ایک مرتبہ حضرت عمرنے ان سے اشعار کی فرمائش کی توانھوں نے جواب دیا کہ جب خدانے مجھے بقرہ اورآل عمران جیساکلام دیاہے تواب شعرکہنامیرے لیے مناسب نہیں (مَا کنت لأقول شعرا بعد أن علمنی اللہ البقرة وآل عِمْرَان) الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب لابن عبد البر،جلد3، صفحہ 1337۔
دوسرااس سے زیادہ عجیب واقعہ ابن المقفع کاہے جس کونقل کرتے ہوئے ایک مستشرق (Wollaston, Arthur N. 1842-1922)لکھتاہے:
“That Muhammad`s boast as to the literary excellence of the Quran was not unfounded, is further evidenced by a circumstance, which occurred about a century ofter the establishment of Islam. “
(Mohammad, His Life and Doctrines, p.143)
یعنی یہ بات کہ قرآن کے اعجازکلام کے بارے میں محمدکا دعویٰ غلط نہیں تھا، یہ اس واقعہ سے ثابت ہوجاتاہے، جواسلام کے قیام کے سوسال بعدپیش آیا۔
واقعہ یہ ہے کہ منکرینِ مذہب کی ایک جماعت نے یہ دیکھ کرکہ قرآن لوگوں کوبڑی شدت سے متاثرکررہاہے،یہ طے کیاکہ اس کے جواب میں ایک کتاب تیارکی جائے، انھوں نے ا س مقصد کے لیے ابن المقفع (م727ء) سے رجوع کیاجواس زمانے کاایک زبردست عالم،بے مثال ادیب اورغیرمعمولی ذہین وطباع آدمی تھا، ابن المقفع کواپنے اوپر اتنا اعتماد تھاکہ وہ راضی ہوگیا۔ اس نے کہاکہ میں ایک سال میں یہ کام کروں گا البتہ اس نے یہ شرط لگائی کہ اس مدّت میں اس کی تمام ضروریات کامکمل انتظام ہوناچاہیے تاکہ وہ کامل یکسوئی کے ساتھ اپنے ذہن کواپنے کام میں مرکوزرکھے۔
نصف مدت گزرگئی تواس کے ساتھیوں نے یہ جانناچاہاکہ اب تک کیاکام ہواہے۔ وہ جب اس کے پاس گئے توانھوں نے اس کواس حال میں پایاکہ وہ بیٹھا ہوا ہے۔قلم اس کے ہاتھ میں ہے، گہرے مطالعہ میں مستغرق ہے، اس مشہورنو مسلم ایرانی ادیب کے سامنے ایک سادہ کاغذ پڑا ہوا ہے، اس کی نشست کے پاس لکھ لکھ کرپھاڑے ہوئے کاغذات کاایک انبارہے اوراسی طرح سارے کمرہ میں کاغذات کاڈھیرلگاہواہے، اس انتہائی قابل اورفصیح اللسان شخص نے اپنی بہترین قوت صرف کرکے قرآن کاجواب لکھنے کی کوشش کی۔ مگروہ بری طرح ناکام رہا،اس نے پریشانی کے عالم میں اعتراف کیاکہ صرف ایک فقرہ لکھنے کی جدوجہدمیں اس کے چھ مہینے گزرگئے مگروہ لکھ نہ سکا، چنانچہ ناامیداورشرمندہ ہوکروہ اس خدمت سے دست بردارہوگیا۔
اس طرح قرآن کاچیلنج بدستورآج تک قائم ہے اورصدیوں پرصدیاںگزرگئیں مگرکوئی اس کاجواب نہ دے سکا،قرآن كي یہ ایک حیرت انگیزخصوصیت ہے جوبلااشتباہ یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ مافوق ہستی کاکلام ہے،اگرآدمی کے اندرفی الواقع سوچنے کی صلاحیت ہوتویہی واقعہ ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔
عرب کے لوگ فصاحت وبلاغت میں اپناجواب نہیں رکھتے تھے، اوران کواپنے کلام کی برتری کااتنااحساس تھاکہ عرب کے سوابقیہ دنیاکوعجم (گونگا)کہتے تھے،اس کے باوجود وہ قرآن کے کلام کے آگے جھکنے پرمجبورہوگئے،یہ قرآن کے معجزانہ کلام کانتیجہ تھا۔ تمام لوگوں کواس کے برترادب کااعتراف کرناپڑا۔مکہ کا واقعہ ہے۔ طفیل بن عمر الدوسی یمن کے شاعر تھے۔ جب وہ مکہ آئے تو لوگوں نے کہا کہ محمد کی بات نہیں سننا۔ یہ سن کر انھوں نے سوچا کہ میں ایک عقل مند انسان ہوں، شاعر بھی ہوں،اچھی اور خراب باتوں کومیں خود سمجھ سکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے پیغمبر اسلام سے ملاقات کی، اور قرآن سنانے کے لیے کہا۔ پیغمبر اسلام نے قرآن کا کچھ حصہ سنایا۔ یہ سن کر اس نے کہا:
وَاَللهِ مَا سَمِعْتُ قَوْلًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ، وَلَا أَمْرًا أَعْدَلَ مِنْهُ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ383)۔ اللہ کی قسم میں نےاس سے اچھی بات نہیں سنی، اور نہ اس سے زیادہ انصاف والی بات سنی ہے۔
اسی طرح ایک قریشی سردار ولید بن مغیرہ نے قرآن سنا تواس کی زبان سے بےاختیار یہ فقرہ نکلا:
وَاللهِ إِنَّ لِقَوْلِهِ الَّذِي يَقُولُ:حَلَاوَةً وَإِنَّ عَلَيْهِ لَطَلَاوَةً، وَإِنَّهُ لَمُثْمِرٌ أَعْلَاهُ مُغْدِقٌ أَسْفَلَهُ، وَإِنَّهُ لَيَعْلُو وَمَايُعْلَى، وَإِنَّهُ لَيُحَطِّمُ مَا تَحْتَهُ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 133)۔ یعنی اللہ کی قسم، بےشک جو وہ کہتے ہیں ،اس میں شیرینی ہے، اور اس میں کشش (attraction) ہے، اس کا اوپری حصہ پھلدار ہے، اور اس کانچلا حصہ زرخیز ہے، بے شک وہ ضرورغالب ہوگا ہے، کوئی اس پر غلبہ نہیں پاسکتا، اورجو اس کو سنے وہ اس سے متاثر ہوجاتا ہے۔
اس طرح کے بے شماراعترافات ہیں ،جوقدیم تاریخ میں بھی موجودہیں ،اورحال کے واقعات میں بھی۔
2۔ دوسری چیزجس کامیں ذکرکرناچاہتاہوں،وہ قرآن کی پیشین گوئیاں ہیں ، یہ پیشین گوئیاں حیرت انگیزطورپربالکل صحیح ثابت ہوئیں۔
تاریخ میں ہمیں بہت سے ایسے ذہین اورحوصلہ مندلوگ ملتے ہیں جنھوں نے اپنے یادوسرے کے بارے میں پیشین گوئی کی جرأت کی ہے،مگرہمیں معلوم ہے کہ زمانے نے کبھی ایسے لوگوں کی تصدیق نہیں کی،موافق حالات غیرمعمولی صلاحیت،اعوان وانصارکی کثرت اورابتدائی کامیابیوں نے اکثرلوگوں کواس دھوکے میں ڈال دیاہے کہ وہ ایک ایسے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں ،جوعین اس کی مرضی کے مطابق ہے، انھوں نے فورًا ایک یقینی انجام کادعوی ٰکردیا،مگرتاریخ نے ہمیشہ اس قسم کے دعوؤں کی تردیدکی ہے،اس کے برعکس بالکل مخالف اورناقابل قیاس حالات میں بھی قرآن کے الفاظ اس طرح صحیح ثابت ہوئے کہ ان کی توجیہ کے لیے تمام انسانی علوم بالکل ناکافی ہیں ، ہم انسانی تجربات کی روشنی میں کسی طرح ان کوسمجھ نہیں سکتے۔ان کی توجیہ کی واحدصورت صرف یہ ہے کہ ان کوغیرانسانی ہستی کی طرف منسوب کیاجائے۔
نپولین بوناپارٹ (Napoléon Bonaparte, 1769-1821) اپنے وقت کاعظیم جنرل تھا۔اس کی ابتدائی کامیابیاں بتاتی تھیں کہ وہ سیزراوراسکندرکے لیے بھی ایک قابل رشک فاتح ثابت ہوگا، اس کانتیجہ یہ ہواکہ نپولین کے ذہن میں یہ خیال پرورش پانے لگاکہ وہ تقدیرکامالک ہے، ا س کواپنے اوپراتنااعتمادہوگیاکہ اپنے قریبی مشیروں تک کے مشورے کوقبول کرنااس نے چھوڑ دیا،اس کاکہناتھاکہ کامل غلبہ کے سوامیراکوئی دوسراانجام نہیں ہوسکتا۔مگراس کاانجام کیا ہوا، وہ سب کومعلوم ہے۔ 12 جون 1815ء کو نپولین اپنی سب سے بڑی فوج لے کرپیرس سے روانہ ہواکہ دشمن کو اس کے راستے ہی میں ختم کردے، اس کے چھ دن بعدواٹرلو(بلجیم)میں آرتھر ویلزلی (Arthur Wellesley, 1769-1852 )نے خوداس کوفیصلہ کن شکست دینے میں کامیابی حاصل کی،جواس وقت برطانیہ،ہالینڈاورجرمنی کی فوجوں کی قیادت کررہا تھا۔اب نپولین کی ساری امیدیں ختم ہوگئیں۔وہ اپناتخت چھوڑکرامریکا کے ارادے سے بھاگ کھڑا ہوا، مگر ابھی ساحل پر پہنچا تھاکہ دشمن کے نگراں دستوں نے اسے پکڑلیا، اور مجبور کیا کہ وہ ایک برطانوی جہاز پرسوار ہو۔ اس کے بعداس کوجلاوطنی کی زندگی گزارنے کے لیے جنوبی اٹلانٹک کے جزیرہ سینٹ ہیلنیا پہنچا دیا گیا، جہاں وہ تنہائی اور مشکل حالات میں زندگی گزارتے ہوئے5مئی 1821ء کومرگیا۔
مشہورکمیونسٹ مینی فسٹوجو1848میں شائع ہوا،ا س میں سب سے پہلے جس ملک میں اشتراکی انقلاب کی امیدظاہرکی گئی تھی، وہ جرمنی ہے،مگرایک سوبیس سال گزرنے کے بعدبھی جرمنی اب تک اس”انقلاب‘‘ سے ناآشناہے۔مئی 1859ء میں کارل مارکس نے لکھا تھا “سرخ جمہوریت پیرس کے اوپرسے جھانک رہی ہے‘‘۔اس پیشین گوئی کوایک صدی سے زیادہ مدّت گزرگئی،مگرابھی تک پیرس کے اوپرسرخ جمہوریت کاآفتاب نہیں نکلا، اڈولف ہٹلر نے 14اپریل 1936ء کومیونخ کی مشہورتقریرمیں کہاتھا:
“میں اپنے راستہ پراس اعتمادکے ساتھ چل رہاہوں کہ غلبہ میرے حق میں مقدر ہوچکا ہے۔‘‘
A Study of History (Abridgment) p.447
مگرساری دنیاجانتی ہے کہ جرمنی کے اس عظیم ڈکٹیٹرکے حق میں جوچیزمقدرتھی وہ یہ کہ وہ شکست کھائے اورخودکشی کرکے اپنی جان دے۔اس طرح کی بے شمارمثالوں کے ہجوم میں صرف کتاب الٰہی کویہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے جس جس چیزکی پیشین گوئی کی وہ حرف بحرف پوری ہوئی— یہ واقعہ اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یہ کلام ایسے مافوق ذہن سے نکلاہے،جس کے قبضہ میں حالات کی باگ ڈورہے اورجوازل سے ابدتک کی خبررکھتاہے۔
یہاں میں صرف دوپیشین گوئیوں کاذکرکروں گا۔ایک، خودپیغمبراسلام کاغلبہ، اور دوسرا، رومیوں کی ایرانیوں کے اوپر مغلوبیت کے بعد فتح کی پیشین گوئی۔
1۔ پیغمبر اسلام (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے اسلام کی دعوت شروع کی تو تقریباً تمام عرب آپ کا مخالف ہوگیا ایک طرف مشرک قبائل تھے،جو آپ کے جانی دشمن ہوگئے،دوسری طرف یہودی سرمایہ دارتھے،جوہرقیمت پرآپ کوناکام بنادینے کافیصلہ کرچکے تھے،تیسری طرف منافقین تھے، جو بظاہرمسلمان بنے ہوئے تھے، مگران کا مقصد یہ تھاکہ آپ کی جماعت میں گھس کرآپ کی تحریک کو اندرسے ڈائنامیٹ کریں، اس طرح طاقت،سرمایہ اوراندرونی سازش— سہ طرفہ مخالفتوں کے طوفان میں آپ اس طرح اپنی تحریک چلارہے تھے کہ تھوڑے سے غلاموں اور کمزور لوگوں کے سوا کوئی آپ کاساتھی نہ تھا،مکہ کے سربرآوردہ لوگوں میں سے گنتی کے چندآدمی جوآپ کا ساتھ دینے کے لیے نکلے ان کابھی حال یہ ہواکہ آپ کی طرف آتے ہی وہ اپنی برادری سے کٹ گئے اور ان کی قوم ان کی بھی اسی طرح دشمن ہوگئی جس طرح وہ خداکے رسول کی دشمن تھی۔
یہ تحریک یوں ہی چلتی رہی،یہاں تک کہ حالات اس قدرشدیدہوگئے کہ آپ اورآپ کے اصحاب کواپناوطن چھوڑکردوسرے علاقوں کی طرف ہجرت کرجاناپڑا۔اس طرح آپ اورآپ کے ساتھی جوپہلے ہی نہتے اورکمزورتھے،مدینے میں اس حالت میں جمع ہوئے کہ اپنے وطن میں جوکچھ ان کے پاس تھاوہ بھی چھن چکاتھا۔مدینے میں ان لوگوں کی بے کسی کا کیاعالم تھا،اس کااندازہ اس سے لگائیے کہ اپنے وطن کوچھوڑکرمدینے میں آپ کے جو ساتھی جمع ہوئے تھے، ان میں ایسے لوگ بھی تھے، جن کے رہنے کے لیے کوئی باقاعدہ مکان نہیں تھا، وہ چھپّرپڑے ہوئے ایک چبوترے پر زندگی گزارتے تھے،اسی مناسبت سے ان کانام “اصحاب صفہ‘‘ پڑگیاتھا۔اس چبوترے پرمختلف اوقات میں جو لوگ رہے، ان کی تعداد تقریباً چارسو بتائی جاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کابیان ہے کہ میں نے اصحاب صفہ میں سے ستر آدمیوں کو دیکھاہے، جن میں سے ہرشخص کاحال یہ تھاکہ اس کے پاس یاتوصرف ایک تہبند تھی، یاصرف ایک چادر،وہ اس کواپنی گردن میں باندھ لیتاتھا،اوروہ اس کی پنڈلی تک لٹکتارہتاتھا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 442)۔ حضرت ابوہریرہ اس زمانے کا خود اپنا حال بیان کرتے ہیں کہ مسجدنبوی میں خاموش لیٹارہتاتھا،اورلوگ سمجھتے تھے کہ میں بیہوش ہوں،حالانکہ حقیقت صرف یہ تھی کہ مسلسل فاقے کی وجہ سے میں نڈھال ہوجاتاتھا، اور مسجد میں جاکرلیٹ رہتاتھا(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2367)۔
چندانسانوں کایہ بے سروسامان قافلہ مدینے کی زمین پراس طرح پڑاہواتھاکہ ہرآن یہ خطرہ تھاکہ چاروں طرف اس کے پھیلے ہوئے دشمن اس کواچک لے جائیں گے، مگر خدا کی طرف سے باربارآپ کویہ بشارت آتی تھی کہ تم ہمارے نمائندے ہواورتمھیں کوئی زیر نہیں کرسکتا۔ قرآن میں ایک مقام پر یہ اعلان ہے:كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (58:21)۔یعنی اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ بیشک اللہ قوت والا، زبردست ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ہے کہ ساری مخالفتوں کے باوجود اﷲتم کوغالب کرکے رہے گا:
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (61:8-9)۔ یعنی یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اﷲ کی روشنی کواپنی پھونکوں سے بجھادیں اوراﷲکافیصلہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کومکمل کرکے رہے گا،خواہ منکروں کویہ کتناہی ناگوارہو،وہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت اوردین حق کے ساتھ بھیجا،تاکہ اس کوتمام دینوں پرغالب کردے،خواہ شرک کرنے والوں کویہ کتناہی ناگوار ہو۔
اس دعوے کوتھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ساراعرب آپ کےماتحت ہوگیا۔ تھوڑے سے نہتے اوربے سروسامان لوگ ان پرغالب آگئے جوتعدادمیں بہت زیادہ تھے، وقت جن کاساتھ دے رہاتھااورجن کے پاس ہتھیاراورسازوسامان کازبردست ذخیرہ موجود تھا۔
مادی اصطلاحات میں اس بات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ آپ کوعین اپنی پیشین گوئی کے مطابق عرب کے لوگوں اورہمسایہ ملکوں پرکیسے اتنی زبردست فتح حاصل ہوگئی۔ اس کی صرف ایک ہی توجیہ ممکن ہے،وہ یہ کہ آپ خداکے نمائندے تھے۔خدانے اپنی مددسے آپ کوآپ کے دشمنوں کے مقابلے میں غالب کیااورآپ کے مشن کواس حدتک کامیاب کیاکہ آپ کے دشمن آپ کے ساتھی بن گئے، غیرمعمولی مخالفت اور زبردست دشمنوں کے مقابلے میں نبی امّی کاعین اپنے دعوے کے مطابق کامیاب ہونااس بات کا کھلا ہواثبوت ہے کہ آپ کائناتی طاقت کے نمائندے تھے۔اگرآپ کا مشن محض ایک انسانی مشن ہوتا توکبھی یہ ممکن نہیں تھاکہ آپ کے الفاظ تاریخ بن جائیں۔ایسی تاریخ جس کی مثال سارے انسانی واقعات میں کوئی ایک بھی نہیں۔جے، ڈبلیو،ایچ اسٹوبرٹ (J. W. H. Stobart) کے الفاظ میں “آپ کے پاس جتنے کم ذرائع تھے،اورجووسیع اورمستقل کارنامہ آپ نے انجام دیا،اس کے ا عتبار سے دیکھاجائے توساری انسانی تاریخ میں اتنانمایاں طورپر درخشاں نام اور کوئی نظرنہیں آتاجتنانبی عربی کاہے۔‘‘
Islam and its Founder, p. 228
یہ آ پ(صلی اللہ علیہ وسلم)کے نمائندہ ٔ الٰہی ہونے کی ایسی حیرت انگیزدلیل ہے کہ سرولیم میور (William Muir)جیسے شخص کوبھی بالواسطہ طورپراس کااعتراف کرناپڑا:
“محمدنے مخالفین کے منصوبوں کوخاک میں ملادیا،انھیں مٹھی بھرآدميوں کے ساتھ دن رات اپنی کامیابی کاانتظاررہتاتھا،بظاہربالکل غیرمحفوظ،بلکہ یوں کہیے کہ شیرکے منہ میں رہ کروہ ہمت دکھائی کہ اس کی نظیراگرکہیں مل سکتی ہے توصرف بائبل میں جہاں ایک نبی کے متعلق لکھاہے کہ انھوں نے ایک موقع پرخداسے کہاتھا— صرف میں ہی باقی رہ گیاہوں۔‘‘
Life of Mohammed, p. 221
2۔ قرآن کی دوسری پیشین گوئی جس کامیں یہاں ذکرکرناچاہتاہوں، وہ رومیوں کا ایرانیوں پرغلبہ ہے جوقرآن کی تیسویں سورہ (روم)میں واردہوئی ہے:
غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ (30:2-3)۔ یعنی رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے ہیں مگرمغلوب ہونے کے بعد چند سال میں پھروہ غالب آجائیں گے۔
جزیرہ نمائے عرب کے مشرق میں خلیج فارس کے دوسرے ساحل پرایرانی حکومت قائم تھی، اورمغرب میں بحراحمرکے کناروں سے لے کر اوپر بحراسودتک وہ سلطنت تھی، جو تاریخ میں سلطنت روم کے نام سے مشہور ہے،اول الذکر کادوسرانام ساسانی سلطنت اور موخر الذکر کابازنطینی سلطنت ہے، ان دونوں حکومتوں کی سرحدیں عرب کے شمال میں عراق کے مشہور دریاؤں دجلہ وفرات پر آکر ملتی تھیں،یہ دونوں اپنے زمانے کی طاقت ورترین سلطنتیں تھیں،رومی سلطنت کی تاریخ مورخ گبن کے بیان کے مطابق دوسری صدی عیسوی سے شروع ہوتی ہے اوراس کواپنے وقت کی مہذب ترین سلطنت کی حیثیت حاصل رہی ہے۔
ایک مصنف کے الفاظ میں ،روم کے زوال پرجتنالکھاگیاہے،اتناکسی تہذیب کے خاتمے پرنہیں لکھاگیا۔
Western Civilisation, p, 210
ا س عنوان پرسب سے زیادہ تفصیلی اور مستند ڈیٹا(data) برٹش مؤرخ و مستشرق گبن (Edward Gibbon, 1737-1794)کی کتاب میں ہے، جس کانام ہے:
The History of the Decline and Fall of the Roman Empire (1767)
اس کتاب کی پانچویں جلدکے دوسرے باب میں قابل مصنف نے اس دورکے واقعات قلم بندکیے ہیں ، جو اس وقت ہماراموضوع بحث ہے۔روم کے ایک سابق بادشاہ قسطنطین نے 325ء میں مسیحيت قبول کرکے اس کوسرکاری مذہب کے حیثیت دید ی تھی، چنانچہ روم کی بیشترآبادی اب حضرت عیسیٰ کی پیروتھی،اس کے مقابلے میں ایرانی سورج دیوتاکے پرستار تھے،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے روم پرجس بادشاہ کی حکومت تھی، اس کانام ماریس (Maurice)تھا،ماریس کی نااہلی اوربدانتظامی کی وجہ سے آپ کونبوت ملنے سے آٹھ سال قبل 602ء میں اس کی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کردی، اس بغاوت کی قیادت ایک فوجی کپتان فوکاس(Phocas)نے کی تھی، بغاوت کامیاب ہوگئی، اور فوکاس روم کے شہنشاہ کی جگہ تخت پرقابض ہوگیا— اس نے اقتدارحاصل کرنے کے بعدشہنشاہ روم ماریس اوراس کے خاندان کونہایت بے دردی کے ساتھ قتل کردیا۔
فوکاس(Phocas) نے اپنی ہمسایہ سلطنت ایران کوایک سفیربھیج کرنئی تخت نشینی کی اطلاع دی۔اس وقت ایران کے تخت پرنوشیرواں عادل کالڑکا خسروپرویز (Chosroes 2) تھا۔ خسرو پرویز کو 590-91ء میں اندرونی سازش اوربغاوت کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔اس زمانے میں مقتول رومی شہنشاہ ماریس نے اس کواپنے علاقہ میں پناہ دی تھی، اور دوبارہ قبضہ حاصل کرنے کے سلسلے میں اس کی مدد کی تھی، یہ بھی کہاجاتاہے کہ انھیں دنوں قسطنطنیہ کے زمانۂ قیام میں خسرونے ماریس کی لڑکی سے شادی کرلی تھی اوراس رشتہ کی بنا پرماریس کووہ اپناباپ کہتاتھا۔چنانچہ جب خسروکورومی انقلاب کی خبرملی تووہ سخت برہم ہوا،اس نے رومی سفیرکو قیدکرا دیا، اور نئی حکومت کوتسلیم کرنے سے انکارکردیا۔
اس کے بعدفوراًاس نے اپنی فوجوں کے ذریعے روم پرچڑھائی کردی،603ء میں اس کی فوجیں دریائے فرات کوپارکرکے شام کے شہروںمیں داخل ہوگئیں— فوکاس اپنی نااہلی کی وجہ سے ا س غیرمتوقع حملہ کوروکنے میں کامیاب نہ ہوا،ایرانی فوجیں بڑھتی رہیں ، یہاں تک کہ انطاکیہ کوفتح کرتے ہوئے یروشلم پرقابض ہوگئیں،ایرانی سلطنت کے حدود فرات سے پارکرکے یکایک وادیٔ نیل تک وسیع ہوگئے،سابقہ رومی سلطنت کے مذہبی داروگیری کی وجہ سے چرچ کے مخالف فرقے نسطوری اوریعقوبی نیزیہودی پہلے سے رومی حکومت سے ناراض تھے،اب انھوں نے روم دشمنی میں نئے فاتحین کاساتھ دیا،ا س چیزنے خسروکی کامیابی کوبہت آسان بنادیا۔
فوکاس کی ناکامی دیکھ کرسلطنت کے کچھ امراءنے افریقہ کے رومی گورنرکے یہاں خاموش پیغام بھیجاکہ وہ ملک کوبچانے کی کوشش کرے۔اس نے اپنے لڑکے ہرقل (Heraclius) کواس مہم پرروانہ کیا،ہرقل سمندرکے راستہ سے فوج لے کرافریقہ سے روانہ ہوا، اوریہ ساری کارروائی اس قدررازداری کے ساتھ انجام پائی کہ فوکاس کواس وقت تک اس کی خبرنہیں ہوئی جب تک اس نے اپنے محل سے سمندرمیں آتے ہوئے جہازوں کے نشانات نہیں دیکھ لیے،ہرقل معمولی لڑائی کے بعددارالسلطنت پرقابض ہوگیا، اور فوکاس قتل کردیا گیا۔
ہرقل نے فوکاس کوتوختم کردیا،مگروہ ایرانی سیلاب کوروکنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ 616ء تک رومی دارالسلطنت سے باہراپنی شہنشاہی کاتمام مشرقی اورجنوبی حصّہ کھوچکے تھے، عراق، شام فلسطین، مصر، ایشیائے کوچک، ہرجگہ صلیبی علم کے بجائے در فش کاویانی (Derafsh Kaviani) لہرا رہا تھا، رومی سلطنت قسطنطنیہ کی چہاردیواری میں محدود ہو کر رہ گئی تھی،محاصرہ کی وجہ سے تمام راستے بندتھے،چنانچہ شہرمیں قحط اور وبائی امراض نے پھیل کرمزیدمصیبت پیدا کردی، رومی سلطنت کے عظیم الشان درخت کا صرف تناباقی رہ گیا تھا، اوروہ بھی خشک ہورہاتھا، خود قسطنطنیہ کے اندردشمن کے گھس آنے کا خوف تمام آبادی پراس قدرچھایاہواتھاکہ تمام کاروبار بندتھے،وہ پبلک مقامات جہاں رات دن چہل پہل رہتی تھی، اب سنسان پڑے ہوئے تھے۔
آتش پرست حکومت نے رومی علاقہ پرقبضہ کرنے کے بعدمسیحیت کومٹانے کے لیے شدید ترین مظالم شروع کیے،مذہبی شعائرکی توہین شروع کی گئی، گرجاگھرمسمارکردیے گئے، تقریباً ایک لاکھ عیسائیوں کوبے گناہ قتل کردیاگیاہرجگہ آتش کدے تعمیرکیے گئے اور مسیح کے بجائے آگ وسورج کی جبری پرستش کورواج دیاگیا،مقدس صلیب کی اصل لکڑی جس کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ تھاکہ اس پرمسیح نے جان دی تھی وہ چھین کرمدائن پہنچادی گئی۔مورخ گبن کے الفاظ میں :
“اگرخسروکے مقاصدواقعی نیک اوردرست ہوتے تووہ باغی فوکاس کے خاتمہ کے بعدرومیوں سے اپنے جھگڑے کوختم کردیتااورافریقی فاتح کا اپنے بہترین ساتھی کی حیثیت سے استقبال کرتاجس نے نہایت خوبی کے ساتھ اس کے محسن ماریس کاانتقام لے لیاتھا،مگرجنگ کوجاری رکھ کراس نے اپنے اصل کردار کو نمایاں کردیا‘‘ (گبن، ص74)۔
اس وقت ایرانی شہنشاہیت اوررومی سلطنت میں کیافرق پیداہوچکاتھااورایرانی فاتح اپنے کوکتنابڑاسمجھنے لگاتھا،اس کااندازہ خسروپرویزکے ا س خط سے ہوتاہے،جواس نے بیت المقدس سے ہرقل کولکھاتھا:
“سب خداؤں سے بڑاخدا،تمام روئے زمین کے مالک خسروکی طرف سے اس کے کمینہ اوربے شعوربندے ہرقل کے نام،توکہتاہے کہ تجھے اپنے خدا پر بھروسہ ہے،کیوں نہ تیرے خدانے يروشلم کومیرے ہاتھ سے بچالیا۔‘‘
ان حالات نے قیصرروم کوبالکل مایوس کردیا، اوراس نے طے کرلیاکہ اب وہ قسطنطنیہ چھوڑ کر بحری راستہ سے اپنی جنوبی افریقہ کی ساحلی قیام گاہ میں چلاجائے جو قرطاجنہ (Carthage) یعنی موجودہ تیونس میں واقع تھی، اب اس کے سامنے ملک کوبچانے کے بجائے اپنی ذات کوبچانے کامسئلہ تھا— شاہی کشتیاں محل کی خزانوں سے لادی جاچکی تھیں،مگرعین وقت پررومی کلیساکے بڑے پادری نے اس کومذہب کاواسطہ دے کرروکنے میں کامیابی حاصل کرلی، اوراس کوسینٹ صوفیا کی قربان گاہ پرلے گئے،اور اس کوآمادہ کیاکہ وہاں وہ اس بات کاعہدکرے کہ وہ اپنی اس رعایاکے ساتھ جیے گا یا مرے گاجس کے ساتھ خدانے اس کووابستہ کیاہے(گبن، صفحہ75)۔اسی دوران میں ایرانی جنرل سین (Saine) نے تجویزکیاکہ ہرقل ایک صلح کاقاصدشہنشاہ ایران کی خدمت میں روانہ کرے، اس کوہرقل اوراس کے مشیروں نے بڑی خوشی سے قبول کیا، مگرجب شہنشاہ ایران خسروپرویزکواس کی خبرپہنچی تواس نے کہا:
“مجھ کویہ نہیں بلکہ خودہرقل زنجیروں میں بندھاہوامیرے تخت کے نیچے چاہیے، میں رومی حکمران سے اس وقت تک صلح نہیں کروں گا، جب تک وہ اپنے صلیبی خدا کو چھوڑ کرہمارے سورج دیوتاکی پرستش نہ کرے‘‘ (گبن، صفحہ76)۔
تاہم چھ سالہ لڑائی نے بالآخرایرانی حکمران کومائل کیاکہ وہ فی الحال کچھ شرائط پرصلح کرلے، اس نے شرط پیش کی:
“ایک ہزارٹالنٹ (یونانیوں اوررومیوں کاایک قدیم وزن) سونا،ایک ہزار ٹالنٹ(Talent) چاندی، ایک ہزارریشمی تھان، ایک ہزارگھوڑے،ایک ہزار کنواری لڑکیاں۔‘‘
گبن ان شرائط کوبجا طورپرشرم ناک شرائط (ignominious terms) کہتاہے۔ ہرقل یقیناً ان شرائط کوقبول کرلیتا،مگرجتنی کم مدت میں اورجس چھوٹے سے لٹے ہوئے علاقہ سے اس کوان قیمتی شرائط کی تکمیل کرنی تھی، اس کے مقابلے میں اس کے لیے زیادہ قابل ترجیح بات یہ تھی کہ وہ انھیں ذرائع کودشمن کے خلاف آخری حملہ کی تیاری کے لیے استعمال کرے۔
ایک طرف یہ واقعات ہورہے تھے،دوسری طرف ایران وروم کے درمیان عرب کے مرکزی مقام “مکہ‘‘میں ان واقعات نے ایک اورکشمکش پیداکردی تھی، ایرانی سورج دیوتاکومانتے تھے، اورآگ کی پرستش کرتے تھے،اوررومی وحی ورسالت کے ماننے والے تھے، اس لیے نفسیاتی طور پر اس جنگ میں مسلمانوں کی ہمدردیاں رومی عیسائیوں کے ساتھ تھیں اورمشرکین مظاہرپرست ہونے کی وجہ سے مجوسیوں سے اپنامذہبی رشتہ جوڑتے تھے، اس طرح روم وایران کی کشمکش اس کشمکش کا ایک خارجی نشان بن گئی جومکہ میں اہل اسلام اورکفارومشرکین کے درمیان جاری تھی، دونوں گروہ سرحد پارکی اس جنگ کے انجام کوخوداپنی باہمی کشمکش کے انجام کی ایک علامت سمجھنے لگے،چنانچہ 616ء میں جب ایرانیوں کاغلبہ نمایاں ہوگیااوررومیوں کے تمام مشرقی علاقے ایرانیوںکے قبضہ میں چلے گئے،اوراس کی خبریں مکہ پہنچیں تواسلام کے مخالفین نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہناشروع کیاکہ دیکھوہمارے بھائی تمہارے جیسامذہب رکھنے والوں پرغالب آگئے ہیں ،اسی طرح اپنے ملک میں بھی ہم تم کو اورتمہارے دین کومٹاکررکھ دیں گے۔ مکہ کے مسلمان جس بے بسی اورکمزوری کی حالت میں تھے، اس میں یہ الفاظ ان کے لیے زخم پر نمک کاکام کرتے تھے، عین اس حالت میں پیغمبرخداکی زبان سے یہ الفاظ جاری کیے گئے:
غُلِبَتِ الرُّومُ۔ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ۔ فِي بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ۔ بِنَصْرِ اللَّهِ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ۔ وَعْدَ اللَّهِ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (30:2-6)۔یعنی رومی قریب کی زمین میں مغلوب ہوگئے ہیں مگر مغلوب ہونے کے بعد چند سال میں پھروہ غالب آجائیں گے،پہلے اورپیچھے سب اختیار خداکے ہاتھ میں ہے،اوراس دن مسلمان خداکی مددسے خوش ہوں گے وہ جس کی چاہتا ہے مددکرتاہے۔ وہ غالب اورمہربان ہے۔ خداکاوعدہ ہے، خدااپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔
“اس وقت جب کہ یہ پیشین گوئی کی گئی‘‘گبن لکھتاہے”کوئی بھی پیشگی خبراتنی بعیداز وقوع نہیں ہوسکتی تھی،کیوں کہ ہرقل کے ابتدائی بارہ سال رومی سلطنت کے خاتمہ کااعلان کر رہے تھے‘‘(صفحہ74)۔ مگرظاہرہے کہ یہ پیشین گوئی ایک ایسی ذات کی طرف سے کی گئی تھی،جوتمام ذرائع ووسائل پرتنہاقدرت رکھتاہے، اورانسانوں کے دل جس کی مٹھی میں ہیں ، چنانچہ ادھرخداکے فرشتے نے ایک امی کی زبان سے یہ خبردی اورادھرہرقل قیصرروم میں ایک انقلاب آناشروع ہوگیا،گبن لکھتاہے:
“تاریخ کے نمایاں کرداروں میں سے ایک غیرمعمولی کرداروہ ہے،جوہرقل کے اندر ہم دیکھتے ہیں ، اپنے لمبے دورحکومت کے ابتدائی اورآخری سالوں میں یہ شہنشاہ سستی،عیاشی اور اوہام کابندہ دکھائی دیتاہے،ایسامعلوم ہوتاہے کہ وہ اپنی رعایاکی مصیبتوں کاایک بےحس اورنامرادتماشائی ہے،مگرصبح وشام کابے رونق کہر، دوپہر کے سورج سے کچھ دیرکے لیے چھٹ جاتاہے،یہی حال ہرقل کاہوا،محل کا آرکیڈیس({ FR 40 }) Arcadius یکایک میدان جنگ کاسیزرCaesarبن({ FR 41 }) گیا، اور روم کی عزت چھ جرأت مندانہ مہموں کے ذریعہ حاصل کرلی گئی۔یہ رومی مورخین کافرض تھاکہ وہ حقیقت سے پردہ اٹھاتے اوراس کی اس خواب اوربیداری کے وجوہ بیان کرتے، اتنے دنوں بعداب ہم یہی قیاس کرسکتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی سیاسی اسباب نہیں تھے، بلکہ یہ زیادہ تراس کے شخصی جذبے کانتیجہ تھا،اسی کے تحت اس نے اپنی تمام دلچسپیاںختم کردیں،حتیٰ کہ اپنی بھانجی (Martina) کوبھی چھوڑ دیا جس سے اس کواس قدرتعلق تھاکہ محرم ہونے کے باوجوداس کے ساتھ اس نے شادی کرلی تھی۔‘‘
Gibbon, vol. 5, p. 76-77
وہی ہرقل جس کی ہمت پست ہوچکی تھی، اورجس کادماغ اس سے پہلے کچھ کام نہیں کرتا تھا، اب اس نے ایک نہایت کامیاب منصوبہ بنایا،قسطنطنیہ میں بڑے عزم وانہماک کے ساتھ جنگی تیاریاں شروع ہوگئیں، تاہم اس وقت صورت حال ایسی تھی کہ622ء میں جب ہرقل اپنی فوجیں لے کرقسطنطنیہ سے روانہ ہواتولوگوں نے سمجھاکہ دنیارومن امپائر کا آخری تماشا دیکھ رہی ہے۔
ہرقل جانتاتھاکہ ایرانی حکومت سمندری طاقت میں کمزورہے،اس نے اپنے سمندری بیڑے کوپشت سے حملہ کے لیے استعمال کیا، اس نے اپنی فوجیں بحراسودکے راستے سے گزارکرآرمینیامیں اتاردیں اوروہاں عین ا س مقام پرایرانیوں کے اوپرایک بھرپورحملہ کیا، جہاں سکندراعظم نے ا س وقت کی ایرانی سلطنت کوشکست دی تھی جب اس نے شام سے مصرتک اپنامشہورمارچ کیاتھا، ایرانی اس غیرمتوقع حملہ سے گھبراگئے اوران کے قدم اکھڑگئے،مگرابھی وہ ایشیائے کوچک میں زبردست فوج رکھتے تھے،وہ دوبارہ اس فوج سے حملہ کرتے اگرہرقل نے ا س کے بعدشمال کی جانب سمندرسے اسی قسم کی دوسری غیرمتوقع چڑھائی نہ کی ہوتی،پھروہ سمندرکے راستہ سے قسطنطنیہ واپس آیا،آواریوں (Avars)سے ایک معاہدہ کیااوران کی مددسے ایرانیوں کوان کے دار السلطنت کے گردروک دیا،ان دوحملوں کے بعداس نے مزیدتین مہمیں جاری کیں۔
623ء میں ،624ء میں اور 625 ء میں یہ مہمیں بحراسودکے جنوبی ساحل سے حملہ آور ہو کرایرانی قلمرومیں گھسیں اور میسوپوٹامیاتک پہنچ گئیں،اس کے بعدایرانی جارحیت کا زور ٹوٹ گیا، اورتمام رومی علاقے ایرانی فوجوں سے خالی ہوگئے،اب ہرقل خودایرانی شہنشاہیت کے قلب پرحملہ کرنے کی پوزیشن میں تھا،تاہم آخری فیصلہ کن جنگ دجلہ کے کنارے نینواکے مقام پردسمبر627ء میں ہوئی۔
اب خسروکی ہمت چھو ٹ گئی تھی،وہ اپنے محبوب محل”دستگرد‘‘سے بھاگنے کی تیاری کرنے لگا۔مگراسی دوران میں خوداس کے محل کے اندراس کے خلاف بغاوت ہوگئی۔ اس کے لڑکے شیرویہ نے اس کوگرفتارکرکے ایک تہہ خانے میں بندکردیا، جہاں وہ پانچویںدن بیکسی کی حالت میں مرگیا۔ اس کے اٹھارہ لڑکوں کواس کی آنکھ کے سامنے قتل کر دیا گیا، مگر اس کایہ لڑکابھی صرف آٹھ مہینے تخت پررہ سکا۔ اس کے بعددوسرے شہزادے نے اس کو قتل کرکے تاج پرقبضہ کرلیا،اس طرح شاہی خاندان کے اندرآپس میں تلواریں چلناشروع ہوگئیں۔یہاں تک کہ چارسال میں نوبادشاہ بدلے گئے۔ان حالات میں ظاہر ہے کہ ازسرنو رومیوں کامقابلہ کرنے کاکوئی سوال نہیں تھا، خسروپرویز کے بیٹے قبادثانی نے رومی مقبوضات سے دست بردارہوکرصلح کرلی۔مقدس صلیب کی اصل لکڑی واپس کردی گئی، اور مارچ628ء میں فاتح ہرقل اس شان سے قسطنطنیہ واپس آیاکہ اس کے رتھ کوچارہاتھی کھینچ رہےتھے، اوربے شمارلوگ دار السلطنت کے باہرلیمپوں اورزیتون کی شاخوں کولیے ہوئے اپنے ہیروکے استقبال کے لیے موجودتھے۔(صفحہ94)
اس طرح قرآن نے رومیوں کے دوبارہ غلبہ کے متعلق جوپیشین گوئی کی تھی وہ ٹھیک اپنے وقت پر(دس سال کے اندر) مکمل طورپرپوری ہوگئی۔
گبن نے اس پیشین گوئی پرحیرت کااظہارکیاہے،مگراسی کے ساتھ اس کی اہمیت گھٹانے کے لیے اس نے بالکل غلط طورپراس کوخسروکے نام آپ کے دعوت نامے کے ساتھ جوڑدیاہے،وہ لکھتاہے:
“ایرانی شہنشاہ نے جب اپنی فتح مکمل کرلی تواس کومکہ کے ایک گمنام شہری کاخط ملا جس میں اس کودعوت دی گئی تھی کہ وہ محمدکوخداکے پیغمبرکی حیثیت سے تسلیم کرے،اس نے دعوت کونامنظورکردیا اورخط کوچاک کردیا، رسول عربی کوجب یہ خبرملی توانھوں نے کہا:”خدااسی طرح خسروکی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا اور اس کی طاقت کو برباد کردے گا۔‘‘ مشرق کی دو عظیم سلطنتوں کے عین کنارے بیٹھے ہوئے محمد ان دونوں حکومتوں کی باہمی تباہی سے اندرہی اندرخوش ہوتے رہے اور ایرانی فتوحات کےدرمیان میں انھوں نے پیشین گوئی کرنے کی جرأت کی کہ چند سال کے بعدفتح دوبارہ رومیوں کے جھنڈے کی طرف لوٹ آئے گی، اس وقت جب کہ یہ پیشین گوئی کی گئی، کوئی بھی پیشگی خبر اتنی بعیدوقوع نہیں ہوسکتی تھی،کیوں کہ ہرقل کے ابتدائی بارہ سال رومی شہنشاہیت کے خاتمہ کا اعلان کررہے تھے۔‘‘
Gibbon. pp.73-74
مگراسلامی تاریخ کاہرمورخ جانتاہے کہ اس پیشین گوئی کاخسروکے نام دعوت نامے سے کوئی تعلق نہیں ،کیوں کہ شہنشاہ ایران کے نام اسلام کادعوت نامہ ہجرت کے ساتویںسال صلح حدیبیہ کے بعدبھیجاگیاہے،جوسَن عیسوی کے لحاظ سے 628ء ہوتا ہے، جب کہ رومیوں کی فتح کی پیشین گوئی ہجرت سے پہلے مکہ میں 216ء میں نازل ہوئی تھی۔
)ا عجازقرآن پرانسائیکلوپیڈیاآف ریلیجن اینڈ ایتھکس میں مقالہ Quran جلد1، صفحات 54،541،545 قابل ملاحظہ ہیں (۔
3۔ قرآن کی تیسری خصوصیت جس کومیں اس کی صداقت کے ثبوت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ واقعہ ہے کہ قرآن باوجوديه کہ علمی ترقی سے بہت پہلے نازل ہوا،اس کی کوئی بات آج تک غلط ثابت نہ ہوسکی،اگریہ صرف ایک انسانی کلام ہوتاتوایساہوناناممکن تھا۔
چین کے نو جوان طلبہ کی ایک جماعت جوحکومت کے زیراہتمام کیلی فورنیایونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہی تھی، ان میں سے تقریباً بارہ افرادنے برکلے کے گرجاگھرمیں جاکر پادری سے کہاکہ وہ ان کے لیے اتوارکے دن ایک کلاس کاانتظام کرے،چینی نوجوان نے نہایت صفائی سے کہاکہ انھیں ذاتی طورپرعیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے،اورنہ وہ خود عیسائی بنناچاہتے ہیں ،البتہ وہ جانناچاہتے ہیں کہ اس مذہب نے امریکی تمدن پرکیااورکتنے اثرات ڈالے ہیں۔پادری نے اس جماعت کی ہفتہ وار تعلیم کے لیے ریاضیات اورفلکیات کے ایک عالم (Peter W. Stoner)کومقررکیا،اس واقعہ کے چارمہینے بعدتمام نوجوانوں نے عیسائیت قبول کرلی، اس غیرمعمولی تبدیلی کی وجہ کیاتھی،اس کوخودمعلم کی زبان سے سنیے:
“میرے سامنے سب سے پہلاسوال یہ تھاکہ اس طرح کے لوگوں کے سامنے مذہب کی کون سی بات رکھی جائے،کیوں کہ یہ نوجوان بائبل پرسرے سے ایمان ہی نہیں رکھتے، بائبل کی محض رواجی تعلیم بے فائدہ معلوم ہوتی تھی،ا س وقت میرے ذہن میں ایک خیال آیا، میں نے اپنی تعلیم کے زمانے میں بائبل کے پہلے باب (کتاب پیدائش)اورسائنس میں بہت قریبی مناسبت پائی تھی میں نے فیصلہ کیاکہ اس جماعت کے سامنے یہی بات پیش کروں۔
میں اورطلبہ قدرتی طورپراس حقیقت سے آگاہ تھے کہ کائنات کی پیدائش کے متعلق یہ مواد زمین وآسمان کے بارے میں سائنس کی موجودہ معلومات حاصل ہونے سے ہزاروں سال پہلے لکھا گیاہے،ہمیں یہ بھی احساس تھاکہ موسیٰ کے زمانے میں کائنات کے متعلق لوگوں کے جو خیالات تھے،اس کوموجودہ زمانے کی معلومات کی روشنی میں دیکھاجائے تووہ نہایت لغومعلوم ہوں گے۔
ہم نے پوراموسم سرماکتاب پیدائش کے پہلے باب میں گزاردیا،طلبہ کام لے کر یونیورسٹی کی لائبریری میں چلے جاتے اوربڑی محنت کے ساتھ جوابات تیار کر کے لاتے، موسم سرماکے خاتمہ پرپادری نے مجھے بتایاکہ طلباکی پوری جماعت اس کے پاس یہ کہنے کے لیے آئی تھی کہ وہ عیسائی بنناچاہتے ہیں ،انھوں نے اقرار کیا کہ ان کے اوپریہ ثابت ہوگیاہے کہ بائبل خداکی الہامی کتاب ہے۔‘‘
The Evidence of God, p.137-138
مثال کے طورپرزمین کی ابتداکے بارے میں بائبل کی کتابِ پیدائش میں ہے:
“گہرائیوں پراندھیراچھایاہواتھا۔‘‘
Darkness was over the surface of the deep (Genesis 1)
یہ موجودہ معلومات کے مطابق اس وقت کی بہترین تصویرہے،جب زمین ابھی گرم تھی اوراس کی گرمی کی وجہ سے پانی بخارات بن کراڑگیاتھا،اس وقت ہمارے تمام سمندر کثیف بادلوں کی شکل میں فضامیں معلق تھے، اوراس کی وجہ سے روشنی زمین کی سطح تک نہیں پہنچ پاتی تھی۔
ہماراایمان ہے کہ انجیل اورتورات اصلاًاسی طرح خداکی کتابیں ہیں ،جیسے قرآن خداکی کتاب ہے، اس لیے ان میں علم الٰہی کے شرارے بلاشبہ موجودہیں ،مگران کتابوں کے اصل الفاظ محفوظ نہیں رہے، ہزاروں برس گزرنے کے بعدبائبل اب ہمارے سامنے ایک ایسی کتاب کی شکل میں ہے، جس میں کریسی ماریسن کے الفاظ میں ترجمہ (Translation) اورانسانی الحاق (Human Interpolation)کی وجہ سے اصل خدائی نسخہ کے مقابلے میں بہت فرق پیداہوچکاہے۔
Man Does not stand Alone, p. 120
اس طر ح یہ صحیفے پوری شکل میں اصل حیثیت کوکھوچکے ہیں ، اوریہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کتابوں کومنسوخ کرکے ہمارے لیے اپنی کتاب کاتصحیح شدہ ايڈیشن (قرآن) نازل کیا،قرآن اپنی صحت اورجامعیت کی وجہ سے بدرجہ اتم ان خصوصیات کاحامل ہے،جن کی صرف ایک جھلک اب کتب قدیمہ میں باقی رہ گئی ہے۔
یہاں میں قرآن کی اسی خصوصیت کواس کی صداقت کی تیسری دلیل کے طورپرپیش کرنا چاہتا ہوں قرآن باوجوديه کہ علمی ترقی سے بہت پہلے نازل ہوااس کی کوئی بات آج تک غلط ثابت نہ ہوسکی، اگریہ انسانی کلام ہوتاتوایساہوناممکن نہیں تھا۔
قرآن ایک ایسے زمانے میں اتراجب انسان عالم فطرت کے بارے میں بہت کم جانتا تھا،اس وقت بارش کے متعلق یہ تصورتھاکہ آسمان میں کوئی دریاہے، جس سے پانی بہہ کرزمین پر گرتا ہے،اوراسی کانام بارش ہے،زمین کے بارے میں سمجھاجاتاتھاکہ وہ چپٹی فرش کی مانند ہے، اور آسمان اس کی چھت ہے جوپہاڑوں کی چوٹیوں کے اوپرکھڑی کی گئی ہے، ستاروں کے متعلق یہ خیال تھاکہ وہ چاندی کی چمکتی ہوئی کیلیں ہیں ،جوآسمان کے گنبد میں جڑی ہوئی ہیں یاوہ چھوٹے چھوٹے چراغ ہیں ،جورات کے وقت رسیوں کی مددسے لٹکائے جاتے ہیں ، قدیم اہل ہندیہ سمجھتے تھے کہ زمین ایک گائے کی سینگ پرہے،اورجب گائے زمین کوایک سینگ سے دوسری سینگ پر منتقل کرتی ہے تواس کے سرکی جنبش سے زلزلہ آجاتا ہے، کوپرنیکس(1473-1543) تک یہ نظریہ تھاکہ سورج ساکن ہے،اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔
اس کے بعدعلم کی ترقی ہوئی، انسان کے مشاہدے اورتجربے کی قوت بڑھ گئی جس کی وجہ سے بے شمارنئی نئی معلومات حاصل ہوئیں،زندگی کاکوئی شعبہ اورعلم کاکوئی گوشہ ایسا نہیں رہاجس میں پہلے کے مسلمات بعدکی تحقیق سے غلط ثابت نہ ہوگئے ہوں— اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزاربرس پہلے کاکوئی بھی انسانی کلام ایسانہیں ہوسکتا جوآج بھی اپنی صحت کوپوری طرح باقی رکھے ہوئے ہو— یوں کہ آدمی اپنے وقت کی معلومات کی روشنی میں بولتاہے، وہ شعورکے تحت بولے یالاشعورکے تحت، بہرحال وہ وہی کچھ دہرائے گا، جواس نے اپنے زمانہ میں پایاہو،چنانچہ ڈیڑھ ہزار برس پہلےكي کوئی بھی انسانی کتاب آج ایسی موجودنہیں ہے،جو غلطیوں سے پاک ہو— مگر قرآن کامعاملہ اس سے مختلف ہے،وہ جس طرح ڈیڑھ ہزاربرس پہلے کے دورمیں برحق تھا، آج بھی وہ اسی طرح برحق ہے، زمانے کے گزرنے سے اس کی صداقت میں کوئی فرق نہیں آیا، یہ واقعہ اس بات کاقطعی ثبوت ہے کہ یہ ایک ایسے ذہن سے نکلاہواکلام ہے جس کی نگاہ ازل سے ابدتک محیط ہے— جوسارے حقائق کواپنی اصل شکل میں جانتاہے، جس کی واقفیت زمانے اور حالات کی پابند نہیں اگریہ محدودنظررکھنے والے انسان کاکلام ہوتا توبعدکازمانہ اسی طرح اس کوغلط ثابت کردیتا، جیسے ہرانسانی کلام بعدکے زمانے میں غلط ہوچکاہے۔
قرآن کااصل موضوع اخروی سعادت ہے، اس لحاظ سے وہ دنیاکے معروف علوم و فنون میں سے کسی کی تعریف میں نہیں آتا،مگراس کامخاطب چوں کہ انسان ہے، اس لیے قدرتی طورپروہ اپنی تقریروں میں ہراس علم مس (touch) کو کرتاہے جس کاتعلق انسان سے ہے،یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے کیوں کہ آدمی اپنی گفتگومیں اگرکسی فن کو مس (touch)کررہاہے توخواہ وہ اس پرکوئی تفصیلی کلام نہ کرے،اگراس کی معلومات ناقص ہیں ، تویقینی طورپر وہ ایسے الفاظ استعمال کرے گا جوصورت واقعہ سے ٹھیک ٹھیک مطابقت نہ رکھتے ہوں، مثلاًارسطونے عورت کی کمتری ثابت کرنے کے لیے یہ کہاکہ—”اس کے منہ میں مردسے کم دانت ہوتے ہیں۔‘‘ ظاہرہے کہ یہ بیان علم الاجسام سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، یہ ایک ایسابیان ہے جوعلم الاجسام سے ناواقفیت کاثبوت دیتاہے۔کیوں کہ یہ معلوم ہے کہ مرداورعورت کے منہ میں دانت کی تعداد یکساں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس،یہ حیرت انگیزبات ہے کہ قرآن اگرچہ مختلف انسانی علوم کو بیان کرتاہےیا اس کی طرف اشارہ کرتا ہے، مگراس کے بیانات میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں آنے پائی، جوبعدکی وسیع تر تحقیقات سے یہ ثابت کرے کہ یہ ایسے شخص کاکلام ہے، جس نے کم ترمعلومات کی روشنی میں اپنی باتیںکہیں تھیں۔صاف معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک بالاترہستی کاکلام ہے، جواس وقت بھی جانتاتھا،جب کوئی نہیں جانتا تھا، اور ان چیزوںکوبھی جانتاتھا، جس سے اب تک لوگ ناواقف ہیں۔
یہاں میں مختلف علوم سے متعلق چندمثالیں دوں گاجس سے اندازہ ہوگاکہ ایک علم کو مس (touch) کرتے ہوئے بھی قرآن کس طرح حیرت انگیزطورپران صداقتوں کااحاطہ کیے ہوئے ہیں ، جوقرآن کے نزول کے وقت معلوم شدہ نہیں تھیں،بلکہ بعدکودریافت ہوئیں۔
اس بحث سے پہلے بطورتمہیدیہ عرض کردینامناسب ہوگاکہ جدیدتحقیقات سے قرآنی الفاظ کی مطابقت اس مفروضہ پرمبنی ہے کہ یہ تحقیقات متعلقہ واقعہ کاسراغ لگانے میں کامیاب ہوچکی ہیں ، اوراس طرح مادی کائنات کے بارے میں قرآن کے اشاراتی الفاظ کی تفسیرکے لیے ہم کوضروری موادحاصل ہوگیاہے، اب اگرمستقبل کامطالعہ کسی موجودہ تحقیق کو مکمل طور پریاجزئی طور پرغلط ثابت کردے تواس سے کسی بھی درجہ میں قرآن کی تغلیط نہیں ہوگی،بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہوگاکہ قرآن کے مجمل اشارہ کے تفصیلی تعین میں غلطی ہو گئی تھی،ہم کویقین ہے کہ آئندہ کی صحیح ترمعلومات قرآن کے اشاراتی الفاظ کوزیادہ صحیح طورپر واضح کرنے والی ہوں گی، وہ کسی اعتبارسے اس سے مختلف نہیں ہوسکتیں۔
اس سلسلے میں قرآن کے جوبیانات ہیں ،ان کوہم دوقسموں میں تقسیم کرسکتے ہیں ، ایک وہ جوان امورسے متعلق ہے،جن کے متعلق انسان کونزول قرآن کے وقت کسی قسم کی معلومات حاصل نہیں تھیں۔اوردوسرے وہ جن کے متعلق وہ سطحی اورظاہری معلومات رکھتا تھا۔
کائنات کی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق دورِسابق کے لوگ کچھ نہ کچھ جانتے تھے— مگران کایہ علم ان دریافتوں کے مقابلے میں بے حدناقص اور ادھورا تھا، جو بعدکے زمانے میں علمی ترقی کے دورمیں انسان کے سامنے آئیں۔قرآن کی مشکل یہ تھی کہ وہ کوئی سائنسی کتاب نہیں تھی، اس لیے اگروہ عالم فطرت کے بارے میں یکایک نئے نئے انکشافات لوگوں کے سامنے رکھناشروع کردیتا تو انھیں چیزوں پربحث چھڑجاتی اور اس کااصل مقصد— انسان کی اصلاح— پس پشت چلاجاتا،یہ قرآن کااعجازہے کہ اس نے علمی ترقی سے بہت پہلے کے زمانے میں اس طرح کی چیزوں پرکلام کیا، اور ان کے بار ے میں ایسے الفاظ ستعمال کیے جس میں دورِ سابق کے لوگوں کے لیے کنفیوزن کاکوئی سامان نہیں تھا،اوراسی کے ساتھ بعدکے انکشافات کابھی وہ پوری طرح احاطہ کیے ہوئے تھے۔
)الف) قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پرپانی کاایک خاص قانون بیان کیاگیا ہے۔ایک مقام پر یہ الفاظ ہیں :
وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا (25:53)۔ یعنی، اوروہی ہے جس نے ملائے دودریا، ایک کاپانی میٹھاخوش گوار ہے اورایک کاکھاری تلخ،اوردونوں کے درمیان ایک آڑ(barrier) رکھ دی۔
دوسری جگہ یہ الفاظ ہیں :
وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا (27:61)۔ یعنی دوسمندروں کے درمیان آڑ ڈال دیا۔
سورہ الرحمٰن میں یہ الفاظ ہیں :
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ (55:19-20)۔ یعنی، اس نے چلائے دودریاملتے ہوئے دونوں کے درمیان ایک آڑہے، جس سے وہ تجاوزنہیں کرسکتے۔
ان آیات میں جس مظہرقدرت کاذکرہے،وہ قدیم ترین زمانے سے انسان کومعلوم تھا،وہ یہ کہ دودریاؤں کے پانی باہم مل کربہتے ہیں تووہ ایک دوسرے میں شامل نہیں ہو جاتے مثال کے طورپرچاٹگام(بنگلہ دیش) سے لے کرارکان(برما)تک دودریامل کر بہتے ہیں ، اوراس پورے سفرمیں دونوںکاپانی بالکل الگ الگ نظرآتاہے،دونوں کے بیچ میں ایک دھاری سی برابر چلی گئی ہے، ایک طرف کاپانی میٹھااوردوسری طرف کا کھاری۔ اسی طرح سمندرکے ساحلی مقامات پر جو دریا بہتے ہیں ، ان میں سمندرکے اثرسے برابر مدوجزر (جوار بھاٹا)آتارہتاہے،مدکے وقت جب سمندر کا پانی ندی میں آجاتاہے تو میٹھے پانی کی سطح پرکھاری پانی بہت زورسے چڑھ جاتاہے، لیکن اس وقت بھی دونوں پانی الگ الگ رہتے، اوپرکھاری رہتاہے،نیچے میٹھا، اس کے بعدجب جزرہوتا ہے تواوپر سے کھاری پانی اتر جاتا ہے، اورمیٹھاپانی جوں کاتوںرہتاہے، الٰہ آبادمیں گنگااورجمناکے سنگم کے مقام پرمیں نے خود دیکھاکہ دونوں دریاملنے کے باوجودالگ الگ بہتے ہوئے نظر آتے ہیں ،اوردرمیان میں ایک لکیرمسلسل چلی گئی ہے۔
یہ بات قدیم ترین زمانے سے انسان کے مشاہد ے میں آچکی ہے،مگریہ واقعہ کس قانون فطرت کے تحت واقع ہوتاہے،یہ ابھی حال میں دریافت کیاگیاہے،جدیدتحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ رقیق اشیامیں سطح کا تناؤ(Surface Tension)کاایک خاص قانون ہے، اوریہی دونوں قسم کے پانی کو الگ الگ رکھتاہے— چوں کہ دونوں سیالوں کا تناؤ (tension) مختلف ہوتا ہے۔ اس لیے وہ دونوں کو اپنی اپنی حدمیں رکھتاہے۔ قرآن (55:20) نےاس فطری قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ‘‘ (دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے جس سے وہ آگے نہیں بڑھتے)۔ یہ الفاظ بول کرقرآن نے اس فطری قانون کی ایسی تعبیرکی ہے، جوقدیم مشاہدے کے اعتبارسے بھی ٹکرانے والی نہیں تھی، اوراب جدید دریافت اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔کیوں کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ برزخ (آڑ) سے مرادسطح کاتناؤ (Surface Tension) ہے، جو دونوں قسم کے پانی کے درمیان پایا جاتاہے،اورجودونوں کومل جانے سے روکے ہوئے ہے۔
سطحی تناؤکے قانون کوایک سادہ سی مثال سے سمجھیے،اگرآپ گلاس میں پانی بھریں تووہ کنارے تک پہنچ کرفوراًبہنے نہیں لگے گا،بلکہ ایک سوت کے بقدراٹھ کرگلاس کے کناروں کے اوپر گولائی میں ٹھہرجائے گا، یہی وہ چیزہے جس کوشاعرنے “خط پیمانہ‘‘ کہاہے:
اندازۂ ساقی تھا کس درجہ حکیمانہ ساغرسے اٹھیں موجیں بن کر خط پیمانہ
گلاس کے کناروں کے اوپرپانی کی جومقدارہوتی ہے،وہ کیسے ٹھہرتی ہے۔بات یہ ہے کہ رقیق اشیاکی سطح کے سالمات(Molecules)کے بعدچوں کہ کوئی چیز نہیں ہوتی اس لیے ان کارخ اندر کی طرف ہوجاتاہے،اس طرح کے سالمات کے درمیان کشش اتصال بڑھ جاتی ہے،اورقانون اتصال(Cohesion) کے عمل کی وجہ سے پانی کی سطح کے اوپرایک قسم کی لچک دارجھلی(Elastic Film)سی بن جاتی ہے،اور پانی گویااس کے غلاف میں اس طرح ملفوف ہوجاتاہے،جیسے پلاسٹک کی سفیدجھلی میں پساہوانمک ملفوف ہوتاہے،سطح کا یہی پردہ اوپرابھرے ہوئے پانی کوروکتا ہے،یہ پردہ اس حدتک قوی ہوتاہے کہ اس کے اوپر سوئی ڈال دی جائے تووہ ڈوبے گی نہیں ، بلکہ پانی کی سطح پرتیرتی رہے گی۔اسی کوسطح کا تناؤ (Surface Tension) کہاجاتاہے، اوریہی وہ “آڑ‘‘ یا فطری قانون ہے جس کی بناپرتیل اورپانی ایک دوسرے میں گھلتا ملتا نہیں ، اور یہی وہ “آڑ‘‘ہے، جس کی وجہ سے کھاری پانی اور میٹھے پانی کے دودریامل کربہتے ہیں مگر ایک کاپانی دوسرے میں شامل نہیں ہوتا۔
(ب) قرآن میں آیاہے:
اللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِعَمَدٍ تَرَوْنَھَا(13:2)۔ یعنی اﷲ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بلند کیا، بغیرایسے ستونوں کے جنھیں تم دیکھ سکو۔
دورِ قدیم کے انسان کے لیے یہ الفاظ اس کے ظاہری مشاہدے کے عین مطابق تھے۔ کیوں کہ وہ د یکھتاتھاکہ اس کے سرکے اوپرسورج،چانداورستاروںکی ایک دنیا کھڑی ہے، مگر کہیں اس کاپایہ اورکھمبانظرنہیں آتااوراب جدیدترین معلومات رکھنے والے انسان کے لیے بھی اس میں مکمل معنویت موجودہے،کیوں کہ جدیدترین مشاہدہ بتاتاہے کہ اجرام سماوی ایک لامحدودخلامیں بغیر کسی سہارے کے قائم ہیں ،اورایک “عمدغیرمرئی‘‘یعنی کشش ثقل (gravitational pull)ان کوبالائی فضامیں سنبھالے ہوئے ہے۔
(ج) اسی طرح سورج اورتمام ستاروں کے بارے میں کہاگیاہے:
کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ(21:33)۔ یعنی سب کے سب ایک آسمان میں تیررہے ہیں۔
دورقدیم میں بھی انسان اجرام سماوی کوحرکت کرتاہوادیکھتاتھا،اس لیے ان الفاظ سے اس کوتوحش نہیں ہوا،مگرجدیدمعلومات نے ان الفاظ کواورزیادہ بامعنی بنادیاہے،بسیط اور لطیف خلامیں اجرام سماوی کی گردش کے لیے”تیرنے‘‘سے بہترکوئی تعبیرنہیں ہوسکتی۔
(د)رات اوردن کے متعلق قرآن میں ہے:
یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَیَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا (7:54)۔ یعنی اﷲ اوڑھاتاہے رات پردن کہ وہ اس کے پیچھے لگاآتاہے دوڑتاہوا۔
یہ الفاظ قدیم انسان کے لیے صرف رات دن کی ظاہری آمدورفت کوبتاتے تھے، مگراس میں نہایت عمدہ اشارہ زمین کی محوری گردش کی طرف بھی موجودہے، جوجدیدمشاہدے کے مطابق رات اوردن کی تبدیلی کی اصل وجہ ہے،یہاںمیں یاددلاؤںگاکہ روس کے پہلے خلائی مسافرنے خلاسے واپسی کے بعد اپنے جومشاہدات بیان کیے تھے، اس میں ایک یہ بھی تھاکہ زمین کواس نے ا س شکل میں دیکھاکہ سورج کے سامنے محوری گردش کی وجہ سے اس کے اوپر اندھیرے اوراجالے کی آمدورفت کاایک تیز تسلسل (rapid succession) جاری تھا۔ اس طرح کے بیانات قرآن میں کثرت سے موجود ہیں۔
دوسری مثالیں وہ ہیں ،جن کے متعلق پچھلے زمانے کے لوگ قطعاًکوئی معلومات نہیں رکھتے تھے۔ قرآن نے ان کاذکرکیا،اورایسی باتیںکہیں جوحیرت انگیز طورپر جدید انکشافات سے صحیح ثابت ہوتی ہیں ،یہاں میں مختلف علمی شعبوں سے ا س کی چندمثالیں پیش کروں گا۔