فلکیات
قرآن میں کائنات کے آغازوانجام کو بیان کیا گیاہے۔ یہ تصورسوبرس پہلے تک انسان کے لیے بالکل نامعلوم تھااورنزول قرآن کے زمانے میں تواس کاتصوربھی کسی ذہن میں نہیں گزر سکتا تھا۔ مگرجدیدمطالعہ نے حیرت انگیزطورپراس کی تصدیق کی ہے، آغاز کائنات کے بارے میں قرآن کابیان یہ ہے:أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَا هُمَا (21:30)۔ یعنی کیا منکرین نہیں دیکھتے کہ زمین وآسمان دونوںملے ہوئے ( مُنضم الاجزاء) تھے، پھر ہم نے اس کو پھاڑ دیا۔
اس کانجام یہ بتایاگیا ہے:يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ (21:104)۔ یعنی، اس دن لپیٹ دیں گے ہم آسمان کوجیسے لپیٹتے ہیں طومار (scroll) میں کاغذ۔
ان الفاظ کے مطابق کائنات ابتدا میں ایک سمٹی ہوئی حالت میں تھی، اوراس کے بعد پھیلنا شروع ہوئی،اس پھیلاؤ کے باوجوداس کااصل مادہ اتناکم ہے کہ تھوڑی سی جگہ میں اس کودوبارہ سمیٹا جاسکتا ہے۔
کائنات کے بارے میں جدیدترین تصوریہی ہے،مختلف قرائن اورمشاہدات کی بنیادپر سائنسداں اس نتیجے پرپہونچے ہیں کہ ابتدامیں کائنات کامادہ جامداورسکون کی حالت میں تھا۔یہ ایک بہت ہی سخت سکڑی ہوئی اورگھٹی ہوئی انتہائی گر م گیس تھی،تقریباً پچاس کھرب سال پہلے ایک زبردست دھماکے سے وہ پھٹ پڑی اوراس کے ساتھ ہی اس کے ٹوٹے ہوئے اجزاء چاروں طرف پھیلنے لگے،جب ایک بار پھیلاؤ شروع ہوگیاتواس کا جاری رہنالازمی تھا،کیوں کہ اجزائے مادہ جیسے جیسے دورہوں گے،ان کاباہمی کشش کا اثر ایک دوسرے پرکم ہوتاجائے گا، آغازمیں کائنات کا جو مادہ تھا، اس کے مکانی دائرہ کا اندازہ تقریباًایک ہزارملین سالِ نورہے اور اب پروفیسرایڈنگٹن کے اندازے کے مطابق وہ سابقہ دائرہ کے مقابلے میں تقریباًدس گنابڑھ چکاہے({ FR 1590 })۔ یہ عمل توسیع مسلسل جاری ہے، پروفیسر ایڈنگٹن کے الفاظ میں — “ستاروں اورکہکشاؤں کی مثال ایک ایسے ربر کے غبارے کی سطح کے نشانات کی سی ہے جومسلسل پھیل رہاہو،اسی طرح اپنی ذاتی حرکت کے ساتھ تمام خلائی کرّے کائناتی پھیلاؤ کے ساتھ ہرآن دورہوتے جارہے ہیں”:
‘We can picture the stars and galaxies,’ says Professor Eddington, ‘as embedded in the surface of a rubber balloon which is being steadily inflated; so that apart from their individual motions and the effects of their ordinary gravitational attraction on one another, celestial objects are becoming farther and farther apart simply by the inflation.
The Limitations of Science, 1938, England, p. 27
دوسری بات بھی جدیدترین مطالعہ سے کائنات کے ڈھانچے کے عین مطابق ثابت ہوئی ہے، قدیم انسان یہ سمجھتاتھاکہ ستارے اتنے ہی فاصلوں پرہیں جیسے کہ وہ بظاہر نظر آتے ہیں ، مگراب معلوم ہواکہ وہ دوری کی وجہ سے قریب قریب دکھائی دیتے ہیں ، ورنہ وہ ایک دوسرے سے بے انتہا بعید فاصلے پرواقع ہیں ، اوریہی نہیں بلکہ وہ اجسام جوبظاہرسالم نظرآتے ہیں ، ان کابھی ایک بڑاحصہ درحقیقت خلاہے،جس طرح شمسی نظام میں بہت سارے سیارے اورسیارچے ایک دوسرے سے دور دور فاصلوں پررہتے ہوئے ایک نظام کے تحت گردش کرتے ہیں ،اسی طرح ہرمادی جسم چھوٹے پیمانے کے بے شمارشمسی نظاموں کامجموعہ ہے، جن کو “ایٹم‘‘کہتے ہیں۔
نظام شمسی کاخلاہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں ، مگرایٹمی نظام کاخلا، انتہائی چھوٹا ہونے کی وجہ سے نظرنہیں آتا۔ گویاہرچیز،خواہ وہ بظاہر ٹھوس نظرآرہی ہو،اندرسے کھوکھلی ہے۔ مثلاًچھ فٹ لمبے چوڑے انسان کا جسم جن ایٹموں کا مجموعہ ہے، ان کے الکٹران اور پروٹان کو اگر اس طرح ملا دیا جائے کہ ان کے درمیان خلایامکان (Space) باقی نہ رہے تو اس کی حقیقت صرف ایک ایسے دھبہ(spot) کی ہوگی، جس کو صرف خوردبین (microscope) سے دیکھا جاسکے۔
اسی طرح فلکی طبیعیات کے ماہرین(Astrophysicists)نے کائنات میں پھیلے ہوئے پورے مادہ کاحساب لگایاہے،ان کاکہناہے:
“If all this were squeezed without leaving any space,the size of the universe will be only thirty times the size of the sun.”
یعنی اگرسارے کائنات کواس طرح سمیٹ دیاجائے کہ اس میں خلاباقی نہ رہے تو سب کا حجم موجودہ سورج سے صرف 30گنازیادہ ہوگا،جب کہ کائنات کی وسعت کایہ حال ہے کہ شمسی نظام سے بعیدترین کہکشاں جواب تک دیکھی جاسکی ہے،وہ سورج سے کئی ملین سال نورکے فاصلے پرواقع ہے۔
دورِ جدید کے ماہرین فلکیات (astronomers) اپنے مشاہدات (observations) اور ریاضیاتی اندازے(mathematical estimate) کی بنا پر اس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ اجرام سماوی (astronomical object) جس قانون کے تحت گردش کررہے ہیں ، ا س کے مطابق مستقبل میں ایک وقت آنے والاہے،جب چاندزمین کے بہت قریب آجائے گا، اور دوطرفہ کشش کی تاب نہ لاکر پھٹ جائے گااوراس کے ٹکڑے زمین کے گردفضامیں پھیل جائیں گے۔
Man does not Stand Alone, p.34
“شق قمر‘‘کایہ واقعہ اسی قانون کشش کے تحت ہوگا،جس کامظاہرہ جواربھاٹے کی شکل میں سمندروں میں ہوتارہتاہے،چاندبالائی فضامیں ہماراقریب ترین ہمسایہ ہے،یعنی زمین سے اس کا فاصلہ صرف دولاکھ چالیس ہزارمیل ہے،اس قربت کی وجہ سے اس کی کشش کا اثر سمندروں پر پڑتا ہے، اوردن میں دوبارپانی اوپراٹھ کرغیرمعمولی تموج پیدا کرتا ہے، یہ موجیں بعض مقامات پرساٹھ فٹ کے قریب اوپرتک اٹھ جاتی ہیں ، اورخشکی کی سطح بھی اس قمری کشش سے چندانچ تک متاثر ہوتی ہے۔
چانداورزمین کا موجودہ فاصلہ بہت مناسب مقدارپرہے،اوراس کے بہت سے فوائد ہیں ، اس کے بجائے اگریہ فاصلہ گھٹ جائے مثلاً پچاس ہزارمیل پرآجائے تو سمندروں میں ا س شدت سے طوفان برپاہوکہ خشکی کا بیشتر حصہ اس میں غرق ہوجائے اور طوفانی موجوں کے مسلسل ٹکراؤ سے پہاڑ کٹ کر ریزے ریزے ہوجائیں،اورزمین ا س کی کشش سے پھٹنے لگے۔
ماہرین فلکیات کااندازہ ہے کہ زمین کی ابتدائی پیدائش کے وقت چانداسی طرح زمین کے قریب تھا،اوراس وقت زمین کی سطح پریہ سب کچھ ہوچکاہے،اس کے بعدفلکیاتی قانون نے اسے موجودہ دوری پرپہنچادیا، ان کاخیال ہے کہ ایک بلین سال تک یہ صورت باقی رہے گی،اوراس کے بعدیہی فلکی قانون دوبارہ چاندکوزمین کے قریب لائے گا،اوراس وقت زمین اور چاندکی باہمی کشش کانتیجہ یہ ہوگاکہ چاندپھٹ جائے گااورٹکڑے ہوکرزمین کے گردایک حلقہ کی شکل میں پھیل جائے گا۔
یہ نظریہ حیرت انگیزطورپراس پیشین گوئی کی تصدیق ہے، جوقرآن میں آیاہے،یعنی قیامت جب قریب آئے گی توچاندپھٹ جائے گااوراس کاپھٹناقرب قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہوگا({ FR 43 })۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں :اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ۔ وَإِنْ يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ (54:1-2)۔ یعنی، قیامت نزدیک آگئی اور چاند پھٹ گیااوریہ لوگ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تواس سے اعراض کرتے ہیں ،اورکہتے ہیں کہ یہ جادوہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔