ارضیات

پہاڑوں کے بارے میں قرآن مجیدمیں متعددمقامات پرکہاگیاہے کہ وہ زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ہیں ،مثلاًفرمایا:وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ (31:10)۔ یعنی اورزمین میں پہاڑبنادیے،تاکہ زمین تم کولے کرجھک نہ پڑے۔

ان الفاظ کے نزول کے پورے تیرہ سوبرس تک انسانی علم پہاڑوں کی اس حیثیت کے بارے میں بالکل بے خبرتھا۔مگراب جغرافیہ اس سے آشناہوچکاہے، اورجدیدجغرافیائی اصطلاح میں اس کو توازن (Isostasy)کہاجاتاہے اگرچہ اس سلسلے میں انسان کاعلم ابھی ابتدائی منزل میں ہے،تاہم انگلن کے الفاظ میں “یہ سمجھاجاتا ہے کہ زمین کی سطح پرجوہلکامادہ تھا،وہ پہاڑوں کی شکل میں ابھرا آیا اور جو بھاری مادہ تھا، وہ گہری خندقوںکی صورت میں دب گیاجن میں اب سمندرکاپانی بھراہواہے،اس طرح ابھاراوردباؤ نے مل کرزمین کاتوازن برقرارکھاہے۔‘‘

O. R. Van Engeln, Geomorphology, New York 1948, p.26-27

ایک اورمصنف لکھتا ہے:

“جیسے خشکی پروادیاں ہیں ،اسی طرح سمندرکے نیچے بھی وادیاںہیں ، مگر سمندرکی تہہ کی اکثروادیاں زیادہ گہری اورانسان کے تجرباتی دائرہ کے لحاظ سے بہت دور ہیں ، ایسامعلوم ہوتاہے کہ کسی غیرمعمولی دباؤ سے سمندروں میں گہرے غارہوگئے ہیں۔یہ وادیاں سمندر سے 35ہزارفٹ تک گہری ہیں ،یہ گہرائی کسی بھی پہاڑکی بلندی سے زیادہ ہے،بعض مقامات پریہ گھاٹیاں اتنی گہری ہیں کہ اگرزمینی پہاڑکی سب سے اونچی چوٹی ماونٹ ایورسٹ کو جو 29031.7فٹ بلندہے، وہاں ڈال دیاجائے تواس کے اوپر ایک میل کی اونچائی تک پانی بہتارہے گا۔حیرت یہ ہے کہ یہ سمندری خندقیں (oceanic trenches)دو سمندرکے درمیان واقع ہونے کے بجائے خشکی کے قریب قریب پائی جاتی ہیں ، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون ساعظیم دباؤ تھا،جس نے سمندرکی تہہ میں یہ زبردست غار پیدا کر دیے، مگر جزائری سلسلوں اور آتش فشاں پہاڑوں سے ان کی قربت ظاہرکرتی ہے کہ پہاڑی بلندیوں اور سمندری خندقوں میں کوئی باہمی تعلق ہوناچاہیے،گویاکہ زمین اونچائی اورگہرائی کے ذریعہ اپنے توازن (balance)کوقائم رکھتی ہے،جغرافیہ کے بعض مستندعلما کاخیال ہے کہ سمندری گہرائیاں آئندہ ابھرنے والے خشکی کی علامتیں ہوسکتی ہیں ،کیوں کہ پانی کے نیچے ان اندھیرے غاروں میں صدیوں سے بہہ بہہ کرخشکی اورسمندرکی تہہ کی گاد (sediment) تہہ به تہہ جمع ہورہی ہے، اورمیلوں پاٹتی چلی جارہی ہے، اس لیے کسی وقت عدم توازن کی بناپرہوسکتاہے کہ سمندرکے نیچے اتھاہ گہرائیوں میں جمع ہونے والے مادے کادباؤ پڑنے سے نئے پہاڑ ابھر آئیں یانئے جزائری سلسلے پیداہوجائیں، ساحل کے بعض پہاڑوں میں اس طرح کی سمندری گاد کے نشانات پائے جاتے ہیں ،مگرانسان کی موجودہ معلومات کے دائرے میں کوئی بھی نظریہ سمندری خندقوں کی مکمل توجیہ نہیں کرتا،یہ دائمی سرداوردائمی تاریک غارجوفی مربع انچ سات ٹن بوجھ کے نیچے دبے ہوئے ہیں ، وہ ابھی انسان کے لیے سمندرکے دوسرے معمّوںمیں سے ایک معمّاہیں۔‘‘

The World We Live In, New York 1965

اسی طرح قرآن میں یہ کہاگیاہے کہ زمین پرایک وقت ایساگزراہے جب کہ اﷲ تعالیٰ نے اس کوپھاڑکرپھیلادیا:وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا۔ أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا (79:30-31)۔ یعنی اس کے بعدخدانے زمین کوپھیلایااوراس میں سے اس کاپانی اور چارہ نکالا۔

یہ الفاظ جدیدترین نظریۂ انتشاربراعظم (Theory of Drifting Continents) کے عین مطابق ہیں ، اس نظریہ کامطلب یہ ہے کہ ہمارے تمام براعظم کسی زمانے میں ایک بڑی زمین کے حصّے تھے، اس کے بعدوہ پھٹ کرسطح زمین پراِدھراُدھرپھیل گئے اور بھرے ہوئے سمندروں کے اردگردبراعظموں کی ایک دنیاآبادہوگئی۔

 اس نظریے کوپہلی بارباقاعدہ طورپر1915ء میں ایک جرمن ماہرارضیات الفرڈ ویگنر (Alfred Wegener)نے پیش کیا، اس کی دلیل یہ تھی کہ براعظموں کواگر قریب کیا جائے تووہ سب کے سب جگسا پزل (Jigsaw Puzzle)کی طرح آپس میں جڑ جاتے ہیں۔مثلاً جنوبی امریکا کامشرقی ساحل افریقہ کے مغربی ساحل سے مل رہاہے۔

اس قسم کی اوربھی بہت سے مشابہتیں ہیں جووسیع سمندروں کے دونوں طرف پائی گئی ہیں۔ مثلاًایک قسم کے پہاڑیکساں ارضیاتی سال کی چٹانیں،ایک قسم کے جانوراورمچھلیاں اورایک طرح کے پودے۔چنانچہ علم نباتات کاماہرپروفیسر رونالڈگڈ (Ronald Good) اپنی کتاب میں لکھتاہے:

“نباتات کے ماہرین کاتقریباًمتفقہ نظریہ ہے کہ مختلف پودے جوزمین کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں ، ان کی توجیہ اس کے بغیرنہیں ہوسکتی کہ ہم یہ فرض کریں کہ زمین کے ٹکڑے ماضی میں کبھی باہم ملے ہوئے تھے۔‘‘

Geography of the Flowering Plants

اب توحجری کشش (Fossil Magnetism)سے تصدیق حاصل ہونے کے بعد اس کو قطعی سائنسی نظریہ کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے،پتھرکے ذرات کے رخ کامطالعہ کر کے یہ معلوم کر لیا جاتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں اس کی چٹان کاعرض البلداورطول البلد کیاتھا، اس مطالعہ سے معلوم ہوا کہ زمین کے موجودہ ٹکڑے ماضی میں ان مقامات پرنہیں تھے، جہاں وہ آج نظرآتے ہیں ، بلکہ ٹھیک ان مقامات پرتھے،جہاں براعظموں کے انتشار کا نظریہ تقاضا کرتاہے،امپیریل کالج (لندن) میں فزکس کے استادپروفیسر پی۔ ایم۔ ایس۔ بلیکٹ (Patrick Maynard Stuart Blackett, 1897-1974)نے کہاہے:

“ہندستانی پتھرکی پیمائش یقینی طورپربتاتی ہے کہ70ملین سال پہلے ہندستان خط استوا کے جنوب میں واقع تھا،جنوبی افریقہ کی چٹانوں کامشاہدہ ثابت کرتاہے کہ افریقی براعظم تین سوملین سال پہلے قطب جنوبی سے ٹوٹ کرنکلاہے۔‘‘

(ریڈرز ڈائجسٹ، جون 1961ء)

اوپرہم نے جوآیت نقل کی ہے، اس میں اﷲ تعالیٰ نے “دحو‘‘ کالفظ استعمال کیاہے۔ دحوکے معنی کسی مجتمع چیزکوپھیلانے اوربکھیردینے کے ہیں ، عربی میں کہاجاتاہے:دَحَا الْمَطَرُ الْحَصَى عَنْ وَجْهِ الْأَرْضِ‘‘(معجم مقاییس اللغۃ لابن فارس، جلد 2، صفحہ333)۔ یعنی بارش زمین پرسے کنکریوں کوبہالے گئی۔تقریباًیہی مفہوم انگریزی لفظ (drift)کابھی ہے،جواس جغرافی نظریے کی تعبیرکے لیے موجودہ زمانے میں اختیارکیاگیاہے،قدیم ترین ماضی اورحال میں اس حیرت انگیزیکسانیت کی توجیہ اس کے سوااورکیاہوسکتی ہے کہ یہ ایسی ہستی کاکلام ہے،جس کاعلم ماضی اورحال سب پرمحیط ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom