مذہب اورتمدّنی مسائل
تمدّنی مسائل کے سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ اس کاقانون کیاہو،تمدّنی مسائل انسانوں کے باہمی روابط سے پیداہوتے ہیں ، اوران روابط کوجوچیزمنصفانہ طورپرمتعین کرتی ہے،وہ قانون ہے، مگریہ حیرت انگیزبات ہے کہ آج تک انسان اپنی زندگی کاقانون دریافت نہ کرسکا،کہنے کواگرچہ ساری دنیامیں قانونی حکومتیں قائم ہیں ،مگریہ تمام “قوانین‘‘ نہ صرف یہ کہ اپنے مقصدمیں بری طرح ناکام ہیں بلکہ جبری نفاذ کے سواان کی پشت پرکوئی حقیقی وجہ جوازبھی موجودنہیں ،یہ ایک حقیقت ہے کہ، رائج الوقت قوانین اپنے حق میں علمی اورنظریاتی بنیادسے محروم ہیں۔ فلر (Lon Luvois Fuller, 1902-1978)کے الفاظ میں قانون نے ابھی اپنے آپ کونہیں پایاہے، اس نے ایک کتاب لکھی ہے، جس کانام ہے۔”قانون خوداپنی تلاش میں۔‘‘
The Law in Quest of Itself
Chicago:The Foundation Press, 1940, p. 207.
دورِجدیدمیں اس پربے شمار لٹریچر تیارہواہے۔بڑے بڑے دماغ اپنی اعلیٰ صلاحیتیںاور اپنے بہترین اوقات اس کے لیے صرف کررہے ہیں ، اورچیمبرز انسائیکلوپیڈیا کے مقالہ نگارکے الفاظ میں “قانون کو ایک زبردست فن کی حیثیت دے کراس کوعظیم ترقی تک پہونچادیاہے‘‘۔ مگراب تک کی ساری کوششیں قانون کاکوئی متفقہ تصور حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں ،حتیٰ کہ ایک عالم قانون کے الفاظ میں ”اگردس قانون دانوں کوقانون کی تعریف بیان کرنے کے لیے کہا جائے تو بلامبالغہ ہم کوگیارہ مختلف قسم کے جوابات سننے کے لیے تیاررہنا چاہیے‘‘۔ ماہرین قانون کی مختلف اقسام کو الگ کرنے کے لیے انھیں مختلف مکاتیب فکرمیں تقسیم کیا جاتا ہے،مگران کی قسمیں اتنی زیادہ ہیں کہ بہت سے مصنفین اس طرح کی اختیارکردہ وسیع ترین تقسیم کی حدبندیوں میں بھی نہیں آتے،مثال کے طورپر جان آسٹن (John Austin, 1790-1859)کے متعلق پروفیسرجی۔ ڈبلیو۔ پیٹن (G. W. Paton)نے لکھاہے کہ وہ ہماری وسیع قسم بندی (Broad Division)میں سے کسی ایک میں بھی پوری طرح موزوں نہیں بیٹھتا۔‘‘
A Textbook of Jurisprudence, 1905, p. 5
اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ماہرینِ قانون کوو ہ صحیح اساس ہی نہیں ملی جس کی بنیادپروہ مطلوبہ قانون کی تشکیل کرسکیں۔ وہ قانون کے اندرجن ضروری قدروں (values) کویکجاکرناچاہتے ہیں ، جب وہ ا نھیں یکجاکرنے کی کوشش کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ وہ یکجانہیں ہورہی ہیں۔اس سلسلے میں ماہرینِ قانون کی مثال اس شخص کی سی ہے،جوزندہ مینڈکوں کو ترازو میں رکھ کر تولنے کی کوشش کررہا ہو۔ظاہرہے کہ وہ پانچ مینڈکوں کو یکجا کرے گاتودوسرے پانچ اس کے پلڑے میں سے پھدک کرنکل چکے ہوں گے۔ ا س طرح معیاری قانون کوحاصل کرنے کی کوششیں اب تک صرف ناکامی پرختم ہوئی ہیں۔ فرائڈمین(W. Friedmann)کے الفاظ میں :”یہ ایک حقیقت ہے کہ مغربی تہذیب کو اس مسئلہ کاکوئی حل اب تک اس کے سوانہیں مل سکاکہ وہ گاہ بگاہ ایک انتہا سے دوسری انتہاکی طرف لڑھک جایاکرے۔‘‘
The only ‘solution’ that western civilization has found, says, W. Friedmann, is to ‘‘keep wavering from one extreme to the other.” (Legal Theory, p.18)
جان آسٹن جس کی کتاب پہلی بار1861ء میں شائع ہوئی،اس نے دیکھاکہ قوت نافذہ کے بغیرکوئی قانون،قانون نہیں بنتا،اس لیے اس نے قانون کی تعریف یہ کی:”قانون ایک حکم ہے جوسیاسی طورپراعلیٰ شخص (political superior) نے سیاسی طورپر ادنیٰ شخص(political inferior)کے لیے نافذکیاہو۔‘‘
“Law is what is imposed by a superior on an inferior, be that superior the king or the legislature.” (A Textbook of Jurisprudence, p. 56)
جان پیٹن کے مطابق، اس تعریف میں قانون بس ایک صاحب اقتدار کا فرمان ( Command of the Sovereign) بن کررہ گیا ہے۔
G. W. Paton, A Textbook of Jurisprudence, p. 6
چنانچہ اس پرشدیداعتراضات کیے گئے۔نیزحکمرانوںکی بدعنوانی دیکھ کرذہنوں میں یہ تصور ابھرا کہ قانون سازی میں عوام کی مرضی کو بھی جگہ ملنی چاہیے۔ ایسے علمائے قانون پیداہوئے جنھوں نے کسی ایسے ضابطہ وقاعدہ کوقانون تسلیم کرنے سے انکارکیاجس کی پشت پرقوم کی رضامندی نہ ہو۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ ایک ضابطہ تمام اہل علم اورمعلمین اخلاق کے نزدیک صحیح اور مفید ہونے کے باوجودمحض اس لیے رائج نہیں کیا جاسکتا تھا، کیوں کہ رائے عامہ ا س کے خلاف ہے۔ مثلاً امریکا میں شراب کی پابندی کے قانون کوامریکی قوم کی رضامندی نہ ملنے کی وجہ سے قانون کی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔اسی طرح برطانیہ میں قتل کی سزامیں ترمیم کرنی پڑی اور ہم جنسي جیسی قبیح حرکت کے لیے قانونی طور پر اجازت دینی پڑی۔حالانکہ ملک کے جج اورسنجیدہ لوگ ا س کے خلاف تھے۔
اسی طرح یہ بات بھی زبردست بحث کاموضوع رہی ہے کہ قانون قابل تغیّرہے یا ناقابل تغیّر— قرونِ وسطیٰ اورزمانۂ ماقبل تجدید(Post Renaissance Period) میں قانونِ طبعی یاقانونِ فطرت کوکافی فروغ حاصل ہوا،اس کامطلب یہ تھاکہ انسان کی جو فطرت ہے،وہی قانون کابہترین ماخذہے:
“فطرت کاتقاضایہ ہے کہ ہرشے پرحکومت کاحق خوداسی کے فطري تقاضوں اور رہنما اصولوں کوپہونچتاہے،اورانسان کے لیے قدرت نے یہ رہنمااصول اس کی عقل کی صورت میں پیداکیے ہیں لہٰذاانسان پرحکومت خوداپنی عقل کے زورسے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔‘‘
Jurisprudence by Bodenheimer, p. 164
اس تصورنے قانون کوایک آفاقی بنیادفراہم کردی،یعنی وہ ا یک ایسی چیزسمجھاجانے لگاجس کوہمیشہ ایک ہی رہناچاہیے،یہ سترہویں اوراٹھارہویں صدی کاتصورقانون تھا، اس کے بعد دوسرا مکتب فکرپیداہوااوراس نے دعویٰ کیاکہ قانون کے آفاقی قواعدمعلوم کرنابالکل ناممکن ہیں ، کوہلر(Kohler) لکھتاہے:
“یہاں کوئی ابدی قانون (eternal law)نہیں ہے،ایک قانون جو ایک عہدکے لیے موزوں ہو،وہی لازمی طورپردوسرے عہدکے لیے موزوں نہیں ہوسکتا، ہم صرف ا س بات کی کوشش کرسکتے ہیں کہ ہرکلچرکے لیے اس کے مناسب حال نظام قانون کوفراہم کریں،کوئی چیزجوایک کے لیے خیر ہو، وہی دوسرے کے لیے مہلک ہوسکتی ہے۔‘‘
Philosophy of Law, p. 5
اس تصورنے فلسفۂ قانون کاسارااستحکام ختم کردیا،یہ تصورانسانی فکرکواندھا دھند تغیر پذیری (Relativism) کی طرف لے جاتاہے،اورچوں کہ یہ کسی بنیادسے محروم ہے، اس لیے اس کی کوئی منزل نہیں ،یہ تصورزندگی کی تمام اقدارکوتلپٹ کرکے رکھ دیتاہے۔
پھرایک گروہ نےعدل کے پہلوکوبہت زیادہ اہمیت دی، اور یہ سمجھا کہ وہ فلسفہ قانون کاآخری راز پاگیا ہے— لارڈرائٹ (Lord Wright)نے ڈین راسکو پاونڈ (Dean Roscoe Pound)کاایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتاہے:
“راسکوپاونڈایک ایسی بات کہتاہے جس کی صداقت پرمیں اپنے تمام تجربات اور قانونی مطالعہ کے نتیجے میں بالکل مطمئن ہوچکاہوں،وہ یہ قانون کاابتدائی اور بنیادی مقصد عدل کی تلاش (Quest of Justice)ہے۔‘‘
Interpretation of Modern Legal Philosophies, NY, 1947, p. 794
مگریہاں پھریہ سوال پیداہوتا ہےکہ انصاف کیاہے،اوراس کوکیسے متعین کیا جاسکتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بات گھوم پھرکردوبارہ وہیں پہنچ جاتی ہے،جہاں آسٹن کوہم نے چھوڑا تھا،اس طرح سیکڑوں برس کی تلاش وتحقیق کے باوجودانسان اب تک قانون کی تشکیل کے لیے کوئی واقعی بنیادفراہم نہ کرسکا۔یہ احسا س روزبروزبڑھ رہاہے کہ جدیدفلسفہ، مقاصد قانون کے اہم مسئلہ کوحل کرنے میں ناکام رہاہے۔ پروفیسرپیٹن (George Whitecross Paton)لکھتے ہیں :
“کیامفادات (interests)ہیں جن کاتحفظ ایک معیاری قانونی نظام کو کرنا ہے؟ یہ ایک ایساسوال ہے،جواقدار(values)سے متعلق ہے،اوروہ فلسفہ ٔ قانون کے دائرہ ٔبحث میں آتاہے،مگراس معاملے میں ہم فلسفہ سے جتنی زیادہ مددلیناچاہتے ہیں اتناہی اس کاحصول مشکل ہوتاہے، کوئی بھی قابل قبول پیمانہ اقدار (Scale of Values)اب تک دریافت نہیں ہوسکاہے، درحقیقت صرف مذہب ہی میں ایساہے کہ ہم اس کی ایک بنیاد پاسکتے ہیں ، مگرمذہب کی صداقتیں عقیدہ یاوجدان کے تحت قبول کی جاتی ہیں ،نہ کہ منطقی استدلال کی بنیادپر۔‘‘
A Textbook of Jurisprudence, p. 104
آگے وہ کچھ علمائے قانون کایہ خیال نقل کرتاہے کہ وہ مدتوں فلسفہ قانون کی بھول بھلیوں میں گردش کرنے کےبعدیہ کہنے پرمجبور ہوئے ہیں کہ فلسفۂ قانون کے مقصدکے فلسفیانہ مطالعہ کی جو کوشش کی ہے، وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچتی۔ (صفحہ106) پھروہ سوال کرتا ہےکہ”کیاکچھ معیاری اقدار(ideal values)ہیں ، جوارتقائے قانون میں اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔‘‘(صفحہ108)ایسی اقداراگرچہ اب تک دریافت نہیں ہوسکیں لیکن وہ قانون کے لیے ناگزیرہیں ، مگردقت یہ ہے کہ مذہب کوالگ کرنے کے بعداس کے حصول کی کوئی صورت نظرنہیں آتی،اس کے الفاظ یہ ہیں :
The Orthodox Natural Law Theory based its absolutes on the revealed truths of religion.If we attempt to secularise jurisprudence, where can we find an agreed basis of values. (A Textbook of Jurisprudence, p. 109)
یہ طویل تجربہ انسان کودوبارہ اسی طرف لوٹنے کااشارہ کرتاہے،جہاں سے اس نے انحراف کیاتھا،قدیم زمانے میں قانون کی تدوین وتشکیل میں مذہب کابہت بڑاحصہ ہوتاتھا،چنانچہ تاریخ قانون کا ماہرسرہنری مین (Sir Henry Maine)لکھتاہے:
“تحریری طورپرمنضبط قانون کاکوئی ایسانظام،چین سےپیرو (Peru)تک ہمیں نہیں ملتاجواپنے دورآغازہی سے مذہبی رسو م و عبادات کے ساتھ ہم رشتہ نہ رہا ہو ‘‘۔
Early Law and Custom, p. 5
اب وقت آگیاہے کہ اس حقیقت کوتسلیم کیاجائے کہ خداکی رہنمائی کے بغیرانسان خوداپنے لیے قانون وضع نہیں کرسکتا،لاحاصل کوشش کومزیدجاری رکھنے کے بجائے اب ہمارے لیے بہترہوگاکہ، ڈاکٹرفرائڈمین کے الفاظ میں ،ہم اعتراف کرلیںکہ:
“ان مختلف کوششوں کاجائزہ لیاجائے تویہی نتیجہ برآمدہوتاہےکہ انصاف کے حقیقی معیارکومعین کرنے کے لیے مذہب کی رہنمائی حاصل کرنے کے سوا دوسری ہر کوشش بے فائدہ ہوگی،اورانصاف کے مثالی تصورکوعملی طورپرمتشکل کرنے کے لیے مذہب کی دی ہوئی بنیاد بالکل منفرد طورپرحقیقی اورسادہ بنیاد ہے۔‘‘
Legal Theory, p. 450
مذہب کے اندر ہم کووہ تمام بنیادیں نہایت صحیح شکل میں مل جاتی ہیں ، جوایک معیاری قانون کے لیے ماہرین تلاش کررہے ہیں ،مگروہ اب تک اسے نہ پاسکے۔
1۔قانون کاسب سے پہلا اورلازمی سوال یہ ہے کہ قانون کون دے،وہ کون ہو جس کی منظوری (sanction) سے کسی قانون کوقانون کادرجہ عطاکیاجائے،ماہرین قانون اب تک اس سوال کاجواب حاصل نہ کرسکے،اگرحاکم کوبحیثیت حاکم یہ مقام دیں تونظری طورپراس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ایک یاچنداشخاص کودوسرے تمام لوگوں کے مقابلے میں یہ امتیازی حق کیوں دیاجائے کہ وہ جوچاہے،قانون بنائے اورجس طرح چاہے نافذ کرے،اوراگرمعاشرہ اوراجتماع کو”قانون ساز‘‘ قراردیں تویہ اورزیادہ مہمل بات ہے، کیوں کہ معاشرہ بحیثیت مجموعی وہ علم و عقل ہی نہیں رکھتا جو قانون سازی کے لیے ضروری ہے،قانون بنانے کے لیے بہت سی مہارتوں اور واقفیتوں کی ضرورت ہے جس کی نہ عام لوگوں میں صلاحیت ہوتی ہے،اورنہ ان کواتناموقع ہوتاہے کہ وہ ان میں درک حاصل کر سکیں،اسی طرح عملًابھی یہ ممکن نہیں ہے کہ معاشرہ کی کوئی ایسی رائے معلوم کی جاسکے جو سارے معاشرہ کی اپنی رائے ہو۔
موجودہ زمانے میں اس مسئلے کایہ حل نکالاگیاہے کہ پوری آبادی کے عاقل اوربالغ افراد اپنے نمائندے منتخب کریں اوریہ منتخب لوگ اجتماع کے نمائندے کی حیثیت سے اجتماع کے لیے قانون بنائیں،مگراس اصول کی غیرمعقولیت اسی سے ظاہرہے کہ 51فیصد کو صرف دوعددکی اکثریت کی بناپریہ حق مل جاتاہے کہ وہ49فیصد کی نام نہاداقلیت پر حکمرانی کریں،مگربات صرف اتنی ہی نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس طریقے کے اندراتنے خلاہیں کہ عمومًا51فیصد کی اکثریت بھی حاصل نہیں ہوتی اورمطلق اقلیت کویہ موقع مل جاتاہے کہ وہ ا کثریت کے اوپرحکومت بنائے۔
اس طرح فلسفۂ قانون کوآج تک اس مسئلہ کاکوئی واقعی حل معلوم نہ ہوسکا،مذہب اس کا جواب یہ دیتاہے کہ قانون کاماخذخداہے،جس نے زمین وآسمان کااورساری طبیعی دنیا کا قانون مقرر کیا ہے،اسی کوحق ہے کہ وہ انسان کے تمدن ومعاشرت کاقانون وضع کرے، اس کے سواکوئی بھی نہیں ہے،جس کویہ حیثیت دی جاسکے،یہ جواب اتناسادہ اورمعقول ہے کہ وہ خودہی بول رہاہے کہ اس کے سوااس مسئلہ کاکوئی اورجواب نہیں ہوسکتا،یہ جواب اس سوال پراسی طرح بالکل راست آرہا ہے، جیسے کوئی ڈھکّن غلط شیشیوں پربیٹھ نہ رہاہو، اورجیسے ہی اس کے اصل مقام پراسے لایا جائے وہ ٹھیک ٹھیک اس پربیٹھ جائے۔
اس جواب میں قانون بنانے اورحکم دینے کاحق ٹھیک اس جگہ پہونچ گیاجہاں نہ پہنچنے کی وجہ سے ہماری سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ ہم اس کوکہاں لے جائیں،انسانوں کے اوپر انسان کوحاکم اور قانون سازنہیں بنایاجاسکتا،اس کاحق صرف اسی کوہے جوسارے انسانوں کاخالق اوربالفعل ان کا طبیعی حاکم ہے۔
2۔ قانون کاایک بہت بڑاسوال یہ ہے کہ کیا اس کاساراحصہ اضافی ہے یااس کاکوئی جزءحقیقی نوعیت بھی رکھتاہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہرقانون جوآج رائج ہے کل بدلا جاسکتاہے یااس کا کوئی حصہ ایسابھی ہے جوناقابل تغیرہے۔ اس سلسلے میں طویل ترین بحثوں کے باوجودآج تک کوئی قطعی بنیاد حاصل نہ ہوسکی۔علمائے قانون اصولی طورپراس کوضروری سمجھتے ہیں کہ قانون میں ایک ایسا عنصر ضروری ہے جودوامی نوعیت رکھتاہو،اوراسی کے ساتھ اس میں ایسے اجزاء بھی ہونے چاہئیں جن میں لچک ہو، تاکہ بدلتے ہوئے حالات پرانھیں بآسانی اپلائی کیاجاسکے— دونوںمیں سے کسی ایک پہلو کی کمی بھی قانون کے لیے سخت مضرہے۔امریکا کے ایک جج مسٹرکارڈوزو(Justice Cardozo)لکھتے ہیں :
“آج قانون کی اہم ترین ضروریات میں سے ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ ایک ایسا فلسفہ ٔ قانون مرتب کیاجائے جوثبات اورتغیرکے متحارب تقاضوں کے درمیان توافق پیدا کرے۔‘‘
The Growth of the Law, Benjamin Nathan Cardozo
ایک اورعالم قانون لکھتاہے:
“قانون کوضرورمستحکم ہوناچاہیے،لیکن اس کے باوجوداس میں جمودنہیں پیدا ہونا چاہیے، اسی وجہ سے قانون کے متعلق مفکرین نے اس بارے میں کافی جدوجہدکی ہےکہ کس طرح استحکام اورتبدیلی کے دوطرفہ تقاضوں میں ہم آہنگی پیداکی جائے۔‘‘
Roscoe Pound, Interpretation of Legal History, p. 1
مگرحقیقت یہ ہے کہ انسانی قوانین میں اس قسم کافرق پیداکرناناممکن ہے،کیوں کہ قانون کے کسی حصہ کے بارے میں یہ کہناکہ یہ دائمی اورناقابل تغیرہے،کوئی دلیل چاہتا ہے، اورانسانی قانون ایسی کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجزہے، آج کچھ لوگ ایک قانون کواپنی عقل سے دائمی قراردیں گے، اورکل کچھ لوگوںکی عقل کونظرآئے گاکہ وہ دائمی ہونے کے قابل نہیں ہے، اوروہ دوبارہ اس کے قابلِ تغیرہونے کااعلان کردیں گے۔
خداکاقانون ہی اس مسئلے کاواحدحل ہے،خداکاقانون ہم کو وہ تمام بنیادی اصول دے دیتاہے جو غیرمتبدل طورپرہمارے قانون کالازمی جزءہوسکیں۔یہ قانون کچھ بنیادی امور کے بارے میں بنیادی پہلوؤں کاتعین کرتاہے،اوربقیہ اموراوردیگرپہلوؤں کے بارے میں خاموش ہے، اس طرح وہ اس فرق کاتعین کردیتاہے کہ قانون کاکون ساحصہ دائمی ہے، اورکون ساحصہ قابل ِتغیرہے،پھروہ خداکاقانون ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھ یہ ترجیحی دلیل بھی رکھتاہے کہ کیوں ہم اس تعین کومبنی برحق سمجھیں اوراس کولازمی قراردیں۔
یہ خدائی قانون کی بہت بڑی دَین ہے، بلکہ ایک ایسی دَین ہے، جس کا بدل فراہم کرنا انسان کے لیے قطعی ناممکن ہے۔
3۔ اسی طرح قانون کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس اس بات کی کوئی معقول وجہ موجودہو کہ وہ کیوں کسی جرم کو”جرم‘‘قراردیتاہے۔انسانی قانون کے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ جوعمل”امن عامہ یانظم مملکت‘‘ میں خلل ڈالتاہووہ جرم ہے، اس کے بغیر اس کی سمجھ میں نہیں آتاکہ کسی فعل کوجرم کیسے قراردے،یہی وجہ ہے کہ قوانین مروجہ کی نگاہ میں زنااصلًاجرم نظر نہیں آتا بلکہ وہ صرف اس وقت جرم بنتاہے،جب کہ طرفین میں سے کسی نے دوسرے پر جبر کیا ہو، گویاانسانی قانون کے نزدیک اصل جرم زنانہیں بلکہ جبرواکراہ ہے۔ جس طرح زبردستی کسی کے مال پرہاتھ ڈالناجرم ہے، اسی طرح زبردستی اس کے جسم پردست درازی بھی جرم ہے۔لیکن باہمی رضامندی سے جس طرح ایک کا مال دوسرے کے لیے جائز ہوجاتا ہے، اسی طرح گویاقانون کی نظرمیں فریقین کی رضامندی سے ایک کا جسم بھی دوسرے کے لیےحلال ہو جاتا ہے۔ اس باہمی رضامندی کی شکل میں قانون،زنا کا حامی ومحافظ بن جاتا ہے، اور اگر تیسراشخص زبردستی مداخلت کرکے انھیں روکناچاہے تو الٹا وہی شخص مجرم بن جائے گا۔
زناکاارتکاب سوسائٹی میں زبردست فسادپھیلاتاہے،وہ ناجائزاولادکے مسائل پیدا کرتاہے، وہ رشتۂ نکاح کوکمزورکردیتاہے،وہ سطحی لذتیت کاذہن پیداکرتاہے،وہ چوری اور خیانت کی تربیت کرتاہے، وہ قتل اوراغواکوفروغ دیتاہے، وہ سارے سماج کے دل ودماغ کو گندا کر دیتا ہے، مگر اس کے باجودقانون اسے کوئی سزانہیں دے سکتا،کیوں کہ اس کے پاس زنا بالرضاکوجرم قراردینے کے لیے کوئی بنیادنہیں ہے۔
اسی طرح انسانی قانون کے لیے یہ طے کرنامشکل ہے کہ وہ شراب نوشی کوجر م کیوں قرار دے۔ کیوں کہ کھاناپینا انسان کاایک فطری حق ہے،ا س لیے وہ جوچاہے کھائے پیے۔ اس میں قانون کومداخلت کرنے کی کیاضرورت۔اس لیے اس کے نزدیک نہ شراب پینا جرم ہے، اورنہ اس سے پیدا شدہ بدمستی اصلاًقابل مواخذہ ہے۔ البتہ نشے کی حالت میں اگر مخمورکسی سے گالم گلوج کر بیٹھا یا ہاتھا پائی کی نوبت آگئی،یاعام راستے پروہ اس طرح جھومتا ہواچلاکہ اس کی حرکات سے دوسروں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے، تب کہیں جاکرقانون اس پرہاتھ ڈالناجائزسمجھے گا۔گویاانسانی قانون کی رو سےدر حقیقت شراب نوشی کا فعل قابل گرفت نہیں ہے، بلکہ اصل قابل گرفت جرم دوسروںکوایک خاص شکل میں ایذا پہنچانا ہے۔
شراب نوشی صحت کوتباہ کرتی ہے،وہ مال کے بربادی اوربالآخرمعاشی بربادی تک لے جاسکتی ہے۔ اس سے اخلاق کا احساس کمزور پڑتا ہے، اور انسان دھیرے دھیرے حیوان بن جاتا ہے، شراب مجرمین کی ایک بہترین مددگارہے،جس کوپینے کے بعدلطیف احساسات مفلوج ہو جاتے ہیں ، اورپھرقتل،چوری،ڈاکہ اورعصمت دری کے واقعات کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے،مگرقانون اسے بندنہیں کرسکتا۔کیوںکہ اس کے پاس اس بات کاکوئی جواب نہیں ہے کہ وہ کیوں لوگوں کے کھانے پینے کےپسند و ناپسند پر روک لگائے۔
اس مشکل کاجواب صرف خداکے قانون میں ہے۔کیوں کہ خداکاقانون مالک کائنات کی مرضی کااظہارہوتاہے،کسی قانون کاخداکاقانون ہونابذات خوداس بات کی کافی وجہ ہے کہ وہ بندوں کے اوپر نافذہواس کے بعداس کے لیے کسی اورسبب کی ضرورت نہیں ، اس طرح خدائی قانون، قانون کی اس ضرورت کوپوراکرتاہے کہ کس بنیادپرکس فعل کوقانون کی زدمیں لایاجائے۔
4۔قانون کبھی اخلاق سے بے نیاز نہیں ہوسکتا،مختلف اسباب کی بناپرقانون کے ساتھ اخلاق کاتعلق ہونا ضروری ہے۔
(الف) مثلاًایک مقدمہ قانون کے سامنے آتاہے۔ اس وقت اگرخالص سچائی منظرِ عام پرنہ آئے توقانون کاعادلانہ مقصدکبھی پورانہیں ہوسکتا۔ اگرفریقین اورگواہ عدالتوں میں سچ بولنے سے گریزکریں توانصاف کاخاتمہ ہوجائے گا،اوراس کے قیام کی ساری کوششیں بیکارثابت ہوں گی گویاقانون کے ساتھ کسی ایسے ماورائے قانون کاتصورکی بھی لازمی ضرورت ہے،جولوگوں کے لیے سچ بولنے کامحرک بن سکے۔سچائی کے لازمۂ قانون و انصاف ہونے کااعتراف دنیابھرکی عدالتیں اس طرح کرتی ہیں کہ وہ ہرگواہ کومجبورکرتی ہیں کہ وہ سچ بولنے کی قسم کھائے اورحلف اٹھاکراپنابیان دے۔ قانون کے لیے مذہبی اعتقادات کی اہمیت کی یہ ایک نہایت واضح مثال ہے۔ مگر جدید سوسائٹی میں مذہب کی حقیقی اہمیت چوں کہ ہرپہلوسے ختم کردی گئی ہے، اس لیے عدالتوں کی مذہبی قسمیں اب صرف ایک روایت بلکہ مسخرہ بن کررہ گئی ہیں ،اوران کاکوئی واقعی فائدہ باقی نہیں رہاہے۔
(ب) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ قانون جس فعل کوجرم قراردے کراس پر سزا دینا چاہتا ہے، اس کے بارے میں خودسماج کے اندربھی یہ احساس موجودہوکہ یہ فعل جرم ہے،محض قانونی کوڈ میں چھپے ہوئے الفاظ کی بناپروہ فضاپیدانہیں ہوسکتی،جوکسی جرم پر سزاکے اطلاق کے لیے درکار ہے، ایک شخص جب جرم کرے تواس کے اندراحساسِ جرم ( guilty mind)کاپایاجاناضروری ہے،وہ خود اپنے آپ کومجرم سمجھے اورساراسماج اس کومجرم کی نظرسے دیکھے، پویس پورے اعتماد کے ساتھ اس پر دست اندازی کرے، عدالت میں بیٹھنے والاجج پوری آمادگیٔ قلب کے ساتھ اس پرسزاکاحکم جارے کرے،دوسرے لفظوں میں ایک فعل کے “جرم‘‘ ہونے کے لیے اس کا”گناہ‘‘ ہوناضروری ہے، قانون کے تاریخی مکتب ِفکرکایہ کہنا کہ— قانون سازی اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب کہ وہ ان لوگوں کے داخلی اعتقادات (internal convictions)کے مطابق ہو،جس کے لیے قانون وضع کیا گیا ہے، اگروہ اس سے غیرمتعلق ہوتوایسے قانون کاناکام ہونایقینی ہے۔‘‘
A Texbook of Jurisprudence, p. 15
اپنے مخصوص مکتب فکرکے استدلال کے طورپرتوصحیح نہیں ہے مگراس میں ایک خارجی صداقت بیشک موجودہے۔
(ج) ان سب چیزوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قانون کے عمل درآمدسے پہلے سماج کے اندرایسے محرکات موجودہوں جولوگوں کوجرم کرنے سے روکتے ہوں،صرف پولیس اورعدالت کاخوف اس کے لیے کافی محرک نہیں بن سکتا،کیوں کہ پوليس اورعدالت کے اندیشہ سے تو رشوت، سفارش، غلط وکالت اورجھوٹی گواہیاں بھی بچاسکتی ہیں ، اوراگران چیزوں کواستعمال کرکے کوئی شخص اپنے آپ کوجرم کے قانونی انجام سے بچالے جائے تو پھراسے مزیدکوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا۔
خدائی قانون میں ان تمام چیزوں کاجواب موجودہے،خدائی قانون کے ساتھ مذہب وآخرت کاعقیدہ وہ ماورائے قانون فضاپیداکرتاہے،جولوگوں کوسچائی پرابھارے،وہ اس درجہ موثرہے کہ اگرکوئی شخص وقتی مفادکے تحت جھوٹاحلف اٹھائے تواپنے دل کوملامت سے نہیں بچاسکتا،ویسٹرن سرکٹ کی عدالت میں ایک پتھرنصب ہے جواس واقعہ کی یاد تازہ کرتاہے کہ ایک گواہ نے قسم کے عام کلمات دہرانے کے بعدیہ بھی کہاتھاکہ “اگرمیں جھوٹ بولوں توخدامیری جان یہیں قبض کرلے‘‘۔چنانچہ وہ شخص وہیں دھڑام سے گرا اور گر کر اس کاخاتمہ ہوگیا۔
The Changing Law, p. 103
اسی طرح جرم کے فعل شنیع ہونے کاعام احساس بھی محض اسمبلی کے پاس کردہ ایکٹوں کے ذریعہ پیدانہیں ہوسکتا،اس کی بھی واحدبنیادخدااورآخرت کاعقیدہ ہے، اسی طرح جرم نہ کرنے کا محرک بھی صرف مذہب ہی پیداکرسکتاہے،کیوں کہ مذہب صرف قانون نہیں دیتابلکہ اسی کے ساتھ یہ تصوربھی دلاتاہے کہ جس نے یہ قانون عائدکیاہے،وہ تمہاری پوری زندگی کودیکھ رہاہے،تمہاری نیت، تمہاراقول،تمہاری تمام حرکتیں اس کے ریکارڈمیں مکمل طورپرمنضبط ہوچکی ہیں ، مرنے کے بعدتم اس کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور تمہارے لیے ممکن نہ ہوگاکہ تم اپنے جرائم پرپردہ ڈال سکو،آج سزاسے بچ گئے تووہاں کی سزاسے کسی طرح بچ نہیں سکتے،بلکہ دنیامیں اپنے جرم کی سزاسے بچنے کے لیے اگرتم نے غلط کوششیں کیں توآخرت کی عدالت میں تمہارے اوپر دہرا مقدمہ چلے گا، اور وہاںایک ایسی سزاملے گی جودنیاکی سزاکے مقابلے میں کروڑوں گناسخت ہے۔
5۔ انگلستان کی تاریخ کاایک واقعہ ہے۔ جیمزاول ( James1) نے اعلان کیاکہ وہ مطلق العنان بادشاہ کی طرح حکومت کرسکتاہے،اورعدالتوںمیں استغاثہ اورمرافعہ کے بغیر معاملات میں آخری فیصلے دے سکتاہے۔ یہ مشہورچیف جسٹس لارڈکوک (Coke) کا زمانہ تھا،وہ ایک مذہبی آدمی تھے،اوراپنے دن کاایک چوتھائی حصہ عبادت میں بسرکیا کرتے تھے۔ انھوں نے بادشاہ سے کہا:”تمہیں فیصلہ کرنے کاکوئی حق نہیں ہے،تمام مقدمات عدالت میں جانے چاہئیں‘‘۔بادشاہ نے کہا:”میرا خیال ہے اوریہی میں نے سنا بھی ہے کہ تمہارے قوانین کی بنیادعقل پررکھی گئی ہے، توکیامجھ میں ججوںسے کم ترعقل ہے‘‘۔ چیف جسٹس نے جواب دیا:”تم بلاشبہ بہت علم وصلاحیت کے مالک ہو، لیکن قانون کے لیے بڑے تجربے اورمطالعہ کی ضرورت ہے، یہ توایک سنہری پیمانہ ہے، جس سے رعایا کے حقوق کی پیمائش کی جاتی ہے، اور خود جناب والاکی حفاظت کی جاتی ہے‘‘۔ بادشاہ نے انتہائی غصہ سےکہا:”کیامیں بھی قانون کاماتحت ہوں،ایساکہناتوغداری ہے‘‘۔ لارڈ کوک نے بریکٹن (Bracton) کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا:
“بادشاہ کسی آدمی کاماتحت نہیں ،مگروہ خدااورقانون کاماتحت ہے۔‘‘
The Changing Law by Sir Alfred Denning (1953) p. 117-118
حقیقت یہ ہے کہ اگرہم خداکوقانون سے الگ کردیں توہمارے پاس یہ کہنے کی کوئی معقول بنیادنہیں رہتی کہ — بادشاہ قانون کے ماتحت ہے”کیوں کہ جن افراد نے خود اپنی رایوں سے قانون بنایاہو،جن کے اذن(Sanction)سے وہ قانونی طورپرجاری ہواہو، جواس کوباقی رکھنے یابدلنے کاحق رکھتے ہوں، آخرکس بناپروہ اس کے ماتحت ہوجائیں گے۔جب انسان ہی قانون سازہوتوبالکل فطری طورپروہ خدااورقانون دونوں کاجامع ہو جاتاہے،وہ خودہی خدااورخودہی قانون ہوتاہے۔ایسی حالت میں قانون سازوں کوقانون کے دائرے میں لانے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔
یہی وجہ ہے کہ تمام جمہوریتوں میں شہری مساوات کے اصول کوتسلیم کرنے کے باوجود قانونی طورپرسب یکساں نہیں ہیں ،اگرآپ ملک کے صدر،گورنر،وزیریاکسی افسراعلیٰ پر مقدمہ چلانا چاہیں توآپ اسی طرح ان کے خلاف مقدمہ نہیں چلاسکتے جیسے ایک عام شہری کے خلاف آپ کرلیتے ہیں ،بلکہ ایسے کسی مقدمے کوعدالت میں لے جانے سے پہلے حکومت سے اس کی اجازت لینی ہوگی۔ دوسرے لفظوں میں ،اگرآپ کسی اعلیٰ سیاسی یا انتظامی شخصیت پر مقدمہ چلاناچاہیں توخودانھیں سے پوچھناہوگاکہ آپ کے اوپرمقدمہ چلایا جائے یانہیں۔
یہ ملک کے قانونی نظام کانقص نہیں ہے بلکہ انسانی قانون کانقص ہے،اوریہ نقص ہراس جگہ پایاجاتاہے، جہاں انسانی قانون سازی کااصول رائج ہے۔صرف خدائی قانون میں یہ ممکن ہے کہ ہر شخص کی حیثیت قانون کی نظرمیں یکساں ہو، اورایک حاکم پراسی طرح عدالت میں مقدمہ چلایاجاسکے جس طرح محکوم پرچلایاجاتاہے،کیوں کہ ایسے نظام میں قانون سازخداہوتاہے،بقیہ تمام لوگ یکساں طورپراس کے ماتحت۔
6۔قانون کی آخری اورسب سے بڑی خصوصیت جس کوہمارے ماہرین صدیوں سے تلاش کر رہے ہیں ، اوراب تک وہ اسے حاصل نہ کرسکے وہ بھی صرف مذہبی قانون میں موجود ہے— یعنی قانون کی منصفانہ بنیاد،یہ سمجھاجاتاہے کہ منصفانہ قانون کی بنیاد کا حاصل نہ ہوناتلاش کے نامکمل ہونے کاثبوت ہے، نہ کہ اس بات کاثبوت کہ انسان اسے حاصل ہی نہیں کرسکتا۔مگرجب ہم دیکھتے ہیں کہ طبعی قوانین کی دریافت میں انسان نے بے حساب ترقی کی ہے،اوراس کے مقابلے میں تمدنی قوانین کی دریافت میں اس درجہ کی بلکہ اس سے زیادہ کوششوں کے باوجودایک فی صد بھی کامیابی نہیں ہوئی،توہم یہ ماننے پرمجبورہوتے ہیں کہ یہ محض تلاش کے نامکمل ہونے کاثبوت نہیں ہے،بلکہ اس بات کاثبوت ہے کہ جوچیزتلاش کی جارہی ہے اس کاپاناانسان کے بس میں نہیں۔
دنیامیں سب سے پہلافوٹوایک فرانسیسی سائنسداں نے 1826ء میں کھینچا،اس میں آٹھ گھنٹے کا وقت لگا۔اس نے اپنے کمرے کے برآمدے کافوٹوکھینچاتھا،لیکن تصویرکشی (photography) کی موجودہ رفتارکاحال یہ ہے کہ آج کا کیمراایک سيکنڈمیں دوہزار سے بھی زیادہ تصویریں کھینچ لیتا ہے۔ ا س کامطلب یہ ہوا کہ پہلے جتنی دیرمیں صرف ایک تصویر کھینچی جاسکتی تھی، اتنی دیرمیں آج چھ کرورتصویریں لی جاسکتی ہیں۔ گویارفتارکے معاملے میں 140سال میں انسان نے چھ کرورگناترقی کی ہے۔ امریکا میں بیسویں صدی کے آغازمیں سارے ملک میں صرف چارموٹرکاریں تھیں،اب تقریباًدس کرورکاریں وہاں سڑکوں پردوڑتی ہیں ، انسان کی باریک بینی کایہ حال ہے کہ آج وہ سيکنڈ کو بھی ہزارویں (1/10,00,000) حصے تک تقسیم کرسکتاہے۔ یعنی، ایک سيکنڈکے دس لاکھویں حصے کا ہزارواں حصہ۔ چنانچہ زمین کی گردش میں فرق پڑنے سے اگر ایک سيکنڈکے دس لاکھویں حصے کے بقدر چھوٹا یا بڑا رصدگاہوں میں اسے معلوم کرلیا جاتا ہے۔ آج ایسے حساس آلے دریافت ہوچکے ہیں کہ اگرتیس جلدوں کی انسائیکلوپیڈیا میں کسی ایک صفحہ پردوالفاظ بڑھائے جائیںتواس کی سیاہی سے وزن میں جوفرق پڑے گا، اس کووہ فوراً بتادیں گے— یہ طبیعی قوانین کی دریافت میں انسان کی ترقی کاحال ہے، مگرجہاں تک تمدنی قوانین کامعاملہ ہے،وہ اس میں ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکا۔
یہاں میں چندتقابلی مثالیںدوں گا،جن سے اندازہ ہوگاکہ یہ دعویٰ کس قدرصحیح ہے کہ صرف خدائی مذہب ہی وہ حقیقی بنیادہے،جس سے ہم انسانی زندگی کاقانون اخذکرسکتے ہیں۔