تجرباتی شہادت

اب ہم اس بحث کے آخری جزءپرآتے ہیں “کیاکوئی تجرباتی شہادت اس بات کی موجود ہے کہ موت کے بعددوسری زندگی ہے ‘‘۔اس کاجواب یہ ہے کہ ہماری پہلی زندگی خوداس کاسب سے بڑا ثبوت ہے، جولوگ دوسری زندگی کے منکرہیں۔وہ یقینی طورپرپہلی زندگی کااقرارکررہے ہیں ، پھرجوزندگی ایک بارممکن ہے، وہ دوسری بارکیوں ظہورمیں نہیں آسکتی۔ ایک تجربہ جس سے آج ہم دوچار ہیں ، وہی تجربہ اگردوبارہ ہمارے ساتھ پیش آئے تواس میں خلافِ عقل کون سی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات میں ا س سے زیادہ خلاف عقل بات اورکوئی نہیں ہوسکتی کہ ایک واقعہ کو آپ حال میں تسلیم کریں مگرمستقبل کے لیے اسی واقعہ کاانکارکردیں۔

یہ موجودہ انسان کاعجیب تضادہے کہ کائنات کی توجیہ کے لیے خودا س نے جو “خداگھڑے ہیں ، ان کے بارے میں تووہ پورے یقین کے ساتھ اس بات کااظہارکرتاہے کہ وہ واقعات کودوبارہ پیدا کر سکتے ہیں ، مگرمذہب جس خداکاتصورپیش کرتاہے، اس کے متعلق اسے یہ تسلیم نہیں ہے کہ وہ واقعات کو دوبارہ وجودمیں لے آئے گا۔جیمزجینزیہ بتاتے ہوئے کہ موجودہ زمین اوراس کے تمام مظاہر ایک”حادثہ‘‘ کے پیداکردہ ہیں ، اس نظریے کے حامیوں کی ترجمانی ان الفاظ میں کرتاہے— “ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ،اگرہماری زمین محض کچھ حادثات کے نتیجے میں وجودمیں آئی ہو،اگرکائنات اسی طرح لمبی مدت تک قائم رہے توکسی بھی قابل قیاس حادثے کاوقوع میں آناممکن ہے۔‘‘

“There is no wonder if our earth originated out of certain accidents. If the universe survives for a long period, any thinkable accident is likely to occur.”

(Modren Scientific Thought, p.3)

نظریۂ ارتقاکادعویٰ ہے کہ حیوانات کی مختلف نوعیں ایک ہی ابتدائی نوع سے ترقی کرکے وجود میں آئی ہیں ، چنانچہ ڈارون کی تشریح کے مطابق موجودہ زرافہ ابتدائي دوسرے سم دارچوپایوں کی مانند تھا، مگرتوالدوتناسل کے طویل عمل کے درمیان چھوٹی چھوٹی تبدیلوں (variations) کے جمع ہونے سے بالآخر وہ غیرمعمولی طورپرایک لمباڈھانچہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا،اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ اپنی کتاب کے ساتویں باب میں لکھتاہے— “میرے نزدیک یہ تقریباً یقینی ہے کہ (اگرلمبی مدت تک مطلوبہ عمل جاری رہے تو) ایک معمولی سم دارچوپائے کوزرافہ کی صورت میں تبدیل کیاجاسکتاہے۔‘‘

“It seems to me almost certain that (if the desired process goes on for a longer period) an ordinary hoofed quadruped might be converted into a giraffe.” (Origin of Species, p.169)

اسی طرح جس نے بھی زندگی اورکائنات کی کوئی توجیہ کی ہے،بالکل فطری طورپرا س کویہ بھی مانناپڑاہے کہ جن حالات کی موجودگی کووہ زندگی اورکائنات کاسبب قرار دیتا ہے، وہی حالات اگر دوبارہ فراہم ہوسکیں تویقیناًیہی واقعات دوبارہ وجودمیں آسکتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ عقلی طورپردوسری زندگی کاامکان اتناہی ہے جتناپہلی ز ندگی کا،کائنات کاجوخالق بھی ہم تسلیم کریں، ہم کومانناپڑے گاکہ وہ خالق انھیں واقعات کودوبارہ وجودمیں لا سکتا ہے، جس کواس نے ایک بارپیداکیاہے، اس اعتراف سے ہم صرف اسی صورت میں بچ سکتے ہیں ، جب کہ ہم پہلی زندگی کاانکارکردیں،پہلی زندگی کو مان لینے کے بعدہمارے پاس دوسری زندگی کونہ ماننے کی کوئی بنیادباقی نہیں رہتی۔

2۔نفسیاتی تحقیق،جس کاہم نے اوپرذکرکیاہے،ا س کے مطابق لاشعوریادوسرے لفظوں میں انسان کے حافظہ کے خانے میں اس کے تمام خیالات ہمیشہ کے لیے محفوظ رہتے ہیں ،یہ واقعہ صریح طورپرثابت کرتاہے کہ انسان کاذہن اس کے جسم کاحصہ نہیں ہے،جسم کایہ حال ہے کہ اس کے ذرات ہرچندسال بعدبالکل بدل جاتے ہیں ، لیکن لاشعور کے دفترمیں سوبرس بعدبھی کوئی تغیر، کوئی دھندلاپن، کوئی مغالطہ یاشبہ پیدانہیں ہوتا،اگریہ دفترحافظہ جسم سے متعلق ہے تووہ کہاں رہتا ہے، جسم کے کس حصّے میں ہے،اورجسم کے ذرات جب چند سال بعدغائب ہوجاتے ہیں تووہ غائب کیوں نہیں ہوتا،یہ کون ساریکارڈ ہےکہ ریکارڈکی تختی ٹوٹ کرختم ہوجاتی ہے،مگروہ ختم نہیں ہوتا۔ جدیدنفسیات کایہ مطالعہ صریح طورپرثابت کرتاہے کہ انسانی وجودحقیقۃًاس جسم کانام نہیں ہے،جس پرگھساؤ اورموت کاعمل طاری ہوتاہے،بلکہ اس کے علاوہ اس کے اندرایک اورچیزہے، جس کے لیے فنانہیں ہے، اور جو زوال میں مبتلاہوئے بغیراپنے وجودکومستقل طورپریکساں حال میں باقی رکھتاہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ فاصلہ اوروقت کے قوانین صرف ہماری موجودہ دنیاکے اندررائج ہیں ، اور اگرموت کے بعدکوئی اوردنیاہے تووہ ان قوانین کے دائرہ عمل سے باہر ہے۔موجودہ زندگی میں ہمارا ہرشعوری فعل وقت اورفاصلہ کے قوانین کے مطابق سرزد ہوتا ہے۔ لیکن فرائڈکے نظریے کے مطابق، اگر ہماری کوئی ذہنی زندگی ایسی ہے جوان قوانین کی پابندی سے آزادہے تواس کا مطلب صاف طور پریہ ہے کہ ہماری یہ زندگی موت کے بعدبھی جاری رہے گی۔ ہم موت کے بعدبھی زندہ رہیں گے، ہماری موت خودفاصلہ اوروقت کے قوانین کے عمل کانتیجہ ہے۔چوںکہ ہماری اصل ہستی یا فرائڈ کے الفاظ میں ہمارالاشعوران قوانین کے عمل سے آزادہے۔اس لیے ظاہرہے کہ موت اس پر وارد نہیں ہوتی، بلکہ صرف جسدِ عنصری پرواردہوتی ہے۔لاشعورجواصل انسان ہے، وہ اس کے بعدبھی باقی رہتا ہے۔ مثلاً ایک واقعہ جو25سال پہلے گزراتھا— یاایک خیال جو میرے ذہن میں 20 سال پہلے آیا تھا،اوراب میں اسے بالکل بھول چکاتھا۔اس کوآج میں خواب میں دیکھتا ہوں، نفسیاتی نقطۂ نظر سے اس کامطلب یہ ہے کہ وہ میرے حافظہ (لاشعور) کے خانے میں بجنسہ موجود تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ حافظہ کہاں ہے، اگروہ خلیوں کے اوپرثبت تھا،جیسے گراموفون کے ریکارڈکے اوپر آوازثبت رہتی ہے،تووہ خلیے جو25سال پہلے ان خیالات کا ریکارڈ بنے تھے، وہ بہت پہلے ٹوٹ کر اورمردہ ہو کرمیرے جسم سے نکل گئے،اب نہ ان خلیوں کابحیثیت خلیہ کہیں وجودہے، اورنہ میراان سے کوئی تعلق ہے، پھر یہ خیال میرے جسم کے کس مقام پرتھا۔یہ ایک تجرباتی شہادت اس بات کی ہے کہ جسم کے ماوراایک اوردنیاہے،جوبذات خوداپناوجودرکھتی ہے، جوجسم کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہوتی۔

3۔اسی طرح سائی کیکل تحقیق (Psychical Research)کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ، وہ بھی خالص تجرباتی اورمشاہداتی سطح پرموت کے بعدزندگی کے وجود کو ثابت کرتے ہیں۔ اس میں مزیددلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ نتائج صرف موت کے بعد کی زندگی کو ثابت نہیں کرتے، بلکہ وہ یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ جس انسان کے اندر مرنے سے پہلےجو شخصیت تھی،وہی شخصیت مرنے کے بعد بھی باقی رہے گی:

What is most interesting is that such research does not merely establish survival; rather it establishes the survival of exactly the same personality—the entity that was known to us before death.

انسان کی بہت سی ایسی خصوصیات ہیں جوبذاتِ خودتوپہلے سے موجودتھیں مگران پر سائنسی انداز سے غوروفکرنہیں ہواتھا،مثلاًخواب دیکھناانسان کی قدیم ترین خصوصیت ہے، مگرجدیددورمیں خواب کے مطالعہ سے جونفسیاتی حقائق معلوم کیے گئے ہیں ، ان سے قدیم دورکے لوگ ناآشناتھے، اسی طرح کچھ اورمظاہرہیں ،جن کے متعلق موجودہ زمانے میں باقاعدہ اعدادشمارجمع کیے گئے اورسائنسی انداز سے ان کاتجزیہ کیاگیا،اس طرح جدیدمطالعہ کے ذریعہ ان واقعات سے نہایت اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں ، اسی میں سے ایک سائی کیکل ریسرچ ہے،جوجدیدنفسیات کی ایک شاخ ہے، اور جس کا مقصد انسان کی مافوق العادت صلاحیتوں کاتجرباتی مطالعہ ہے۔ اس قسم کی تحقیقات کے لیے سب سے پہلا ادارہ 1882ء میں انگلینڈمیں قائم ہوااور1889ء میں اس نے سترہ ہزاراشخاص سے رابطہ قائم کرکے وسیع پیمانے پراپنی تحقیقات شروع کردیں،یہ اب بھی مطالعۂ نفسیات کا ادارہ (Society for Psychical Research) کے نام سے موجودہے، اوراسی نوعیت کے دوسرے ادارے دوسرے ملکوں میں کام کررہے ہیں ، ان اداروں نے مختلف مظاہروں اورتجربات کے ذریعہ ثابت کیاہے کہ مرنے کے بعدانسان کی شخصیت کسی پراسرارشکل میں باقی رہتی ہے۔

ایک سفری ایجنٹ مسوری (امریکا) میں سینٹ جوزف ہوٹل کے ایک کمرے میں بیٹھا ہوا اپنے آڈرنوٹ کررہاتھاکہ”یکایک‘‘ وہ لکھتاہے”مجھے احساس ہواکہ میرے دائیں جانب کوئی بیٹھا ہوا ہے،میں نے تیزی سے مڑکردیکھاتوصاف طورپرمجھے نظرآیاکہ وہ میری بہن ہے‘‘اس کی یہ بہن 9سال پہلے مرچکی تھی، کچھ دیربعدبہن کایہ پیکراس کے سامنے سے غائب ہوگیا۔ مگراس واقعہ سے وہ اتنا متاثر ہواکہ اپناسفرجاری رکھنے کے بجائے وہ دوسری ٹرین سے اپنے وطن سینٹ لوئی (St. Louis) واپس ہو گیا،گھرآکراس نے واقعہ کی پوری تفصیل اپنے اعزہ کوبتائی،جب وہ کہتے کہتے اس جملہ پر پہنچا کہ”میں نے بہن کے چہرے کے دائیں طرف سرخ رنگ کی ایک روشن خراش دیکھی “تواس کی ماں یکایک کانپتے ہوئے قدموں کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور اس نے بتایاکہ لڑکی کی موت کے بعدایک اتفاقی سبب سے مجھ سے یہ خراش اس کے چہرے پر پڑگئی تھی، اس بدنمائی کا مجھے سخت احساس ہوا، اور فوراً پاؤڈرلگاکرمیں نے خراش کے تمام آثاراس کے چہرے سے مٹادیے اور پھر کبھی کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا۔‘‘({ FR 38 })

Human Personality and its Survival of Bodily Death

by F. W. H. Myers (N. Y. 1930, vol llP. 27-30

اس طرح کے اوربہت سے واقعات ہیں ،جومرنے کے بعدشخصیتوں کی موجودگی کاثبوت فراہم کرتے ہیں ، اس طرح کے واقعات کووہم وخیال نہیں کہاجاسکتا،کیوں کہ چہرے کی خراش کاعلم یا توماں کوتھایامردہ لڑکی کو،تیسراکوئی بھی شخص اس کوقطعاً نہیں جانتاتھا۔

دوسرے قسم کے واقعات جوزندگی بعدموت کاتجرباتی ثبوت فراہم کرتے ہیں ،وہ ایسے لوگ ہیں ، جن کوخودکار(automatists)کہاجاتاہے،یہ وہ مردیاعورتیں ہیں ، جن سے ایسے افعال ظاہر ہوتے ہیں ، جویہ ثابت کرتے ہیں کہ کسی مرنے والے کی روح اس کے اندررہتی ہے،ایساشخص اپنے تجربہ کرنے والے کے سامنے چندایسے واقعات پیش کرتاہے،جن کوصرف ایک مرا ہوا آدمی جانتاہے، اورجوچنددن بعدصحیح ثابت ہوتے ہیں۔ اسی طرح مثلاًدیکھاجاتاہے کہ وہ کسی شخص سے بات کررہاہے،اوراسی کے ہاتھ میں پنسل لیے ہوئے بالکل دوسرے موضوع پرلکھ رہا ہے، جس کے مضمون کی اسے خودبھی اس وقت تک اطلاع نہیں ہوتی جب تک کہ وہ لکھنے کے بعد اسے پڑھ نہ لے، گویااس کے اندراس کے سواکوئی اورشخصیت ہے، جواس کے ہاتھ سے لکھوا رہی ہے۔

A Philosophical Scrutiny of Religion, p.407-10

اس استدلال کوقبول کرنے میں بہت سے جدیدذہنوں کوتامل ہے،سی ڈی، براڈ (C. D. Broad) لکھتاہے:

“سائی کیکل ریسرچ کے مشتبہ استثنا کے علاوہ سائنس کی مختلف شاخوں میں سے کوئی شاخ زندگی بعدموت کاادنیٰ امکان بھی ثابت نہیں کرتی۔‘‘

Religion Philosophy and Psychical Research, London 1953, p.235

اگریہ استدلال ایساہی ہے،جیسے کہاجائے کہ”سوچنا‘‘ایک مشتبہ فعل ہے۔کیوں کہ انسان کے سواکوئی ایساوجوداس کائنات میں ہمارے تجربے میں نہیں آیاہے، جو “سوچنے‘‘ کے مظہرکی تصدیق کرتاہو۔ظاہرہے کہ زندگی کاباقی رہنایاباقی نہ رہناایک نفسیاتی مسئلہ ہے، اس لیے نفسیات ہی سے اس کاثبوت یاعدم ثبوت ملے گا، کسی اورسائنس میں اس کی تصدیق ڈھونڈنا ایساہی ہے،جیسے سوچنے کے فطری مظہرکوسمجھنے کے لیے نباتات اور فلزیات (metallography)سے تصدیق طلب کی جائے،یہی نہیں بلکہ خودانسان کے جسمانی حصّے کے مطالعہ کوبھی اس کی تصدیق یاتردیدکے لیے بنیادبنایانہیں جاسکتا۔ کیوں کہ جس چیزکی بقاکایہ دعویٰ کیاگیاہے،وہ موجودہ مادی جسم نہیں ، بلکہ وہ روح ہے، جوجسم سے ماسواجسم کے اندرموجودرہتی ہے۔

چنانچہ دوسرے بہت سے سائنس داں جنھوں نے ان شواہدکاغیرجانبدارانہ مطالعہ کیاہے وہ زندگی بعد موت کوبطورواقعہ تسلیم کرنے پرمجبورہوئے ہیں ،راؤن یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر سی، جے، ڈوکاس (C. J. Ducasse)نے اپنی کتاب کے سترھویں باب میں زندگی بعد موت کے تصور كا فلسفیانہ اورنفسیاتی جائزہ لیاہے،پروفیسرموصوف اگرچہ مذہب کے معنوں میں اخروی زندگی کے تصور پر عقیدہ نہیں رکھتے،مگران کاخیال ہے کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ مذہب کے عقیدے سے الگ کرکے زندگی کے بقاکوہمیں ماننا پڑتاہے، اس باب کے آخری حصے میں وہ سائی کیکل ریسرچ کی تحقیقات کاجائزہ لینے کے بعدلکھتے ہیں :

“کچھ بہت ہی ذہین اورنہایت ذی علم افرادجنھوں نے سالہاسال تک نہایت تنقیدی نظرسے متعلقہ شہادتوں کامطالعہ کیاہے،وہ بالآخراس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ کم از کم کچھ شواہد ایسے ضرورہیں ،جن میں صرف بقائے روح کامفروضہ (survival of hypothesis) ہی معقول اور ممکن نظرآتاہے۔ ان کی دوسری کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ اس فہرست کے انتہائی نمایاں افراد میں سے چندکے نام یہ ہیں :

الفرڈرسل ویلس (Alfred Russel Wallace)

سرولیم کروکس (Sir William Crookes)

 ایف،ڈبلیو،ایچ،میرس(F.M.H. Myers)

 کیسرلومبراسو(Cesare Lombroso)

 کیمل فلیمیرین(Camille Flammarion)

 سراولیورلاج(Sir Oliver Lodge)

 ڈاکٹررچرڈہاگسن(Dr.Richard Hodgson)

 مسزہنری سڈوک (Mrs Henry Sidgwick)

 پروفیسرہسلوپ(Professor Hyslop)

اس سے معلوم ہوتاہے کہ موت کے بعدزندگی کاعقیدہ جس کوبہت سے لوگ مذہبی طور پر مانتے ہیں ،نہ صرف یہ کہ صحیح ہوسکتاہے بلکہ شایدوہ ایک ایساعقیدہ ہے،جس کو تجرباتی دلیل (empirical proof) سے ثابت کیاجاسکتاہے،اوراگرایساہے توقطع نظراس من گڑھت کے جو زندگی بعدموت کی نوعیت کے متعلق اہل مذاہب نے فرض کرلی ہے، قطعی معلومات بالآخراس کے بارے میں حاصل ہوسکیں گی، مگرایسی صورت میں اس کی مذہبی نوعیت کومانناضروری نہیں ہوگا۔‘‘

A Philosophical Scrutiny of Religion, p. 412

یہاں تک پہنچنے کے بعدزندگی بعدموت کے متعلقین مذہبی عقیدے کونہ مانناایساہی ہے، جیسے کسی دیہاتی آدمی کااصرارہوکہ ایسی کوئی صورت نہیں ہوسکتی کہ دوآدمی ہزاروں میل دوربیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کریں،اس کے بعداس کے ایک عزیزکودورکے شہرسے ٹیلی فون کرکے رسیوراس کے کان پرلگادیاجائے،مگرجب وہ بات کرچکے توکہے — “کیاضروری ہے کہ وہ میرے عزیزکی آوازہوممکن ہے،کوئی مشین بول رہی ہو۔‘‘

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom