عرضِ ناشر
فروری 1955ء کا واقعہ ہے۔ لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام ایک عمومی اجتماع ہوا۔ اس موقع پر اسلام کے عقلی اثبات پر مصنف کی ایک تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد جب اعلان کیا گیا کہ وہ چھپی ہوئی صورت میں یہاں بُک اسٹال پر موجود ہے تو انسانوں کا ہجوم اس کو لینے کے لیے اسٹال پر ٹوٹ پڑا۔ تقریر کے مطبوعہ نسخے ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوگئے۔ بعد کو یہ تقریر پمفلٹ کی صورت میں شائع ہوئی۔ اردو میں اس کا نام تھا “ نئے عہد کے دروازہ پر ‘‘ ہند ی میں “ نویگ کے پردیش دوار پر ‘‘ اور انگریزی میں:
On the Threshold of a New Era
یہ پہلا موقع تھا جب کہ مصنف کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جدید الحاد کے جواب میں عصری انداز میں ایک کتاب تیار کرنی چاہیے۔ اس کے لیے مطالعہ اور مواد جمع کرنے کا کام اسی وقت سے شروع ہوگیا۔ اس کے بعض اجزاء متفرق طورپر بعض ماہناموں میں شائع ہوتے رہے۔ جمع شدہ مواد کی باقاعدہ کتابی ترتیب کا کام 1963میں شروع ہوا اور اگست 1964میں مکمل ہوگیا۔
یہ کتاب پہلی بار 1966میں ادارہ تحقیقات و نشریات ِ اسلام ( لکھنؤ) سے”علم جدید کا چیلنج ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ پہلی بار 1970ءمیں کویت کے ناشر “دار البحوث العلمیہ ‘‘ نے الاسلام یتحدیٰ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے بعد وہ بیروت اور قاہرہ سے چھپتی رہی۔ اب تک اس کے ایک درجن ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ دوسری کئی عالمی زبانوں میں بھی اس کے ترجمے چھپ چکے ہیں۔ “ الاسلام یتحدیٰ ‘‘ نصف درجن عرب یونیورسٹیوں میں داخِل نصاب ہے۔
کتاب کی اشاعت کے بعد سیکڑوں تبصرے مختلف عالمی جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک تبصرہ جزئی طورپر ٹائٹل کے آخری صفحہ پر نقل کیا جارہا ہے۔ یہ تبصرہ معروف مصری ادیب احمد بہجت کے قلم سے ہے اس کو قاہرہ کے اخبار الاہرام ( 2 جولائی 1973) نے اپنے کالموں میں شائع کیا تھا۔