عظیم معافی
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ(39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو ! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔ اس آیت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کی سب سے زیادہ پرامید آیت ہے(الاتقان للسیوطی،جلد6، صفحہ2161)۔ علی بن ابی طالب کا قول ہے: مَا فِي الْقُرْآن أوسع آيَة من هذه (تفسیرالدرالمنثور، جلد7، صفحہ238)۔ یعنی قرآن میں اس سے زیادہ وسعت والی آیت نہیں۔ عبد اللہ بن مسعود کا قول ہے: أَكْبَرُ آيَةٍ فِي الْقُرْآنِ فَرَجًا (مصنف عبد الرزاق، اثر نمبر6002)۔ یعنی قرآن میں سب سے کشادگی والی آیت۔
قرآن کی یہ آیت مجھ کو بے حد عجیب معلوم ہوتی ہے۔ انسان کے تمام گناہوں کو بخش دینا بلاشبہ اللہ کی اتنی بڑی عنایت ہے کہ اس سے بڑی کوئی عنایت نہیں ہوسکتی۔ میں اس آیت پر سوچ رہا تھا ۔ میرے دل نے کہا کہ شاید ایسا ہو اکہ اللہ کی رحمت نے چاہا کہ وہ اس انسان کو اپنی سب سے بڑی عنایت دے، جس کو اس نے، قرآن کے مطابق، اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے (38:75)۔مگر اللہ نےدیکھا کہ انسان کا کوئی عمل ایسا نہیں، جس کو وہ اس عظیم عنایت کا ریزن بنائے۔ تو اللہ نے یہ کیا کہ اس کو یک طرفہ طور پر اپنی رحمت کے خانے میں ڈال دیا، اور کہا کہ میںاپنی رحمت سے انسان کے لیے اس بڑی عنایت کا اعلان کرتا ہوں۔ وہ یہ کہ ’’بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے‘‘ ۔
انسان اپنے کسی عمل کی بنیاد پر اتنی بڑی عنایت کا مستحق نہیں ہوسکتا تھا کہ اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں۔ تو گويا اللہ نے کہا کہ میں انسان کے لیے اپنی خصوصی رحمت اور خصوصی فضل کا اعلان کرتا ہوں، یعنی میں انسان کے تمام گناہوں کو بخش دوں گا۔اس اعلانِ عام کے ذریعہ اللہ تعالی یہ کہہ رہا ہے کہ اے انسان! تونے خواہ کوئی بھی غلطی کی ہو، تو میرے پاس مغفرت کا طالب بن کر آجا، میں اپنی رحمتِ خاص سے تیرے سب گناہوں کو بخش دوں گا۔ اور میں بخشش کوتجھے بطور تحفہ دے دوں گا۔