ڈائری 1986

5مارچ1986

آج کل میرے یہاں دہلی کے دو انگریزی اخبار روزانہ آتے ہیں۔ایک ہندوستان ٹائمس اور دوسرا ٹائمس آف انڈیا۔ٹائمس آف انڈیا میں صفحہ8 پر ہر روز کسی کا قول نقل کیا جاتا ہے۔اس کی اشاعت(4مارچ1986)میں ولیم لا(William Law) کا یہ قول نقل کیا گیا تھا— برائی کا آغاز ہمیشہ گھمنڈ سے ہوتا ہے اور اس کا خاتمہ ہمیشہ تواضع سے:

Evil can have no beginning, but from pride, nor any end but from humility.

اس کو پڑھتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اسلام(بالفاظ دیگر سچا مذہب) آفاقی صداقتوں کا ہی  آسمانی زبان میں اظہار ہے۔جو آدمی ایک کو جانتا ہو اس کے لیے دوسرے کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔مثلاً ولیم لا نے اپنے مذکورہ مقولہ میں جو بات نفسیات کی زبان میں کہی ہے وہی حدیث میں مذہبی زبان میں اس طرح بیان کی گئی ہے:لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ ‌مِثْقَالُ ‌حَبَّةٍ ‌مِنْ ‌خَرْدَلٍ ‌مِنْ ‌كِبْرٍ(مسند احمد، حدیث نمبر 4310)۔ یعنی، وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے برابر بھی تکبر ہو۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ فخروغرور سب سے بڑی برائی ہے اور انکساری اور تواضع سب سے بڑی نیکی۔اسی سے تمام دوسری چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ دنیا کی ترقی اور آخرت کی نجات دونوں کا انحصار اسی پر ہے۔یہاں میں اضافہ کروں گا کہ غرور یا تواضع کا صحیح پتہ عام حالات میں نہیں چلتا ۔اس کا صحیح پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ آدمی کے ساتھ غیر معمولی حالات پیش آئیں۔جب آدمی کی انا پر چوٹ پڑے اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ وہ متکبر تھا یا نہیں۔اور جب حق کی خاطردوسرے کے آگے جھکنے کی ضرورت پیش آئے اس وقت اندازہ ہوگا کہ آدمی متواضع تھا یا وہ تواضع کا جھوٹا لبادہ اوڑھے ہوئے تھا۔

6مارچ1986

میری لڑکی فریدہ خانم آج جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں گئی تھی۔واپس آکر اس نے بتایا کہ میں لائبریری کے ریڈنگ روم میں بیٹھ کر کچھ پڑھ رہی تھی،مگر پڑھنا مشکل ہو گیا۔میں پڑھتی جاتی تھی مگر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ قریب کی میز پر ایک لڑکی چند لڑکوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔وہ لوگ بلند آواز سے باتیں کر رہے تھے۔خاص طور پر لڑکی کا یہ حال تھا کہ مسلسل زور زور سے بول رہی تھی اور قہقہے لگا رہی تھی۔ اس کی وجہ سے ریڈنگ روم میں سکون کا ماحول بالکل ختم ہوگیاتھا۔

یہ واقعہ سن کر مجھے وہ بات یاد آئی جو ایک سیاح نے لکھی ہے۔اس نے لکھا ہے کہ میں امریکا گیا۔وہاں ایک لائبریری میں بھی گیا اور اس کے ریڈنگ روم میں کچھ دیر بیٹھا۔وہاں ریڈنگ روم میں نوجوان لڑکیاں آتی جاتی تھیں،مگر وہ حد درجہ محتاط تھیں۔وہ چلنے میں اس کا بھی لحاظ کرتی تھیں کہ ان کے کپڑوں کی سرسراہٹ سے خلل نہ ہو۔اسی طرح جو لڑکے اورلڑکیاں میزوں پر جھکے ہوئے مطالعہ کر رہے تھے وہ مطلق کوئی گفتگو نہیں کرتے تھے۔حتیٰ کہ جب انہیں اپنی زیر مطالعہ کتاب کا ورق الٹنا ہوتا تھا تو اس کو بھی نہایت آہستگی سے الٹتے تھے تاکہ کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ نہ پیدا ہو۔ریڈنگ روم کا ہر شخص حد درجہ اس کا خیال کر رہا تھا کہ اس کا کوئی فعل دوسرے لوگوں کے لیے خلل اندازی کا باعث نہ ہو۔

کتنا فرق ہے ایک انسان میں اور دوسرے انسان میں۔کتنا فرق ہے ایک معاشرے میں اور دوسرے معاشرہ میں۔

7مارچ1986

قرآن مجید میں ہے:وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر  (7:188) ۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لیے حاصل کرلیتا۔

یہ بہت بامعنی الفاظ ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا کے فوائد کا بہت گہرا تعلق غیب سے ہے۔اکثر ناپسندیدہ حالات صرف اس لیے پیش آتے ہیں کہ آدمی پیشگی طور پر ان کا اندازہ نہ کر سکا تھا۔

بعض اوقات آدمی غیر متوقع طور پر انتہائی شدید حالات میں گھر جاتا ہے۔وہ اس سے اتنا زیادہ پریشان ہوتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حوصلہ کھو دے گا۔مگر تجربہ بتاتا ہے کہ ناخوش گوار صورت حال اکثر اس سے بہت کم ناخوش گوار ہوتی ہے جتنا آدمی اس کے بارے میں سمجھ لیتا ہے۔

آدمی پر جب کوئی افتاد پیش آتی ہے تو پریشانی میں وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ ایک بھیانک مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔حتیٰ کہ بعض لوگ آنے والے قیاسی خطرات سے گھبرا کر خودکشی کر لیتے ہیں یا کم از کم اپنی صحت برباد کر لیتے ہیں۔مگر میرا تجربہ یہ ہے کہ اس طرح کے مواقع پرعموماً ایسا ہوتا ہے کہ مستقبل اس سے کم خطرناک نکلتا ہے جیسا کہ آدمی نے متاثر ذہن کے تحت اس کو سمجھ لیا تھا۔جب کہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مشکل میں ایک آسانی نکل آتی ہے۔کھونا اپنے انجام کے اعتبار سے پانا بن جاتا ہے۔

8مارچ1986

آج میری کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘ کا انگریزی ترجمہ پہلی بار چھپ کر آیا۔اس کا نام ہے:

Mohammad: The Prophet of Revolution (Presently available as The Life of Muhammad)

میں نے اس کو دیکھا توا للہ کا شکر ادا کیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ صرف اللہ کا فضل خاص ہے کہ اسلامی مرکز کا کام اس طرح چل رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔ورنہ میرے اپنے بس میں تو کچھ بھی نہ تھا۔

غالباً 1970ءکی بات ہے۔مجھے یہ خیال آیا کہ میں اپنی بعض کتابوں کا انگریزی ترجمہ شائع کروں۔اس سلسلے میں مختلف مترجمین سے رابطہ کیا۔مگر کوئی مجھے پسند نہ آ سکا۔آخرکار معلوم ہوا کہ اردو سے انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے سب سے بہتر شخص ڈاکٹر آصف قدوائی ہیں۔وہ مولانا علی میاں اور دوسرے حضرات کی دینی کتابوں کا ترجمہ کر رہے تھے۔اس طرح اس میدان کا خصوصی تجربہ رکھتے تھے۔میں نے ان کو خط لکھا۔ان کا چند سطور کا جواب آیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میرے پاس ترجمے کے لیے اتنے کام جمع ہیں کہ اگر میں مزید15سال زندہ رہوں تو صرف موجودہ کتابوں کے ترجموں کو مکمل کرپاؤں گا۔جب کہ مزید کتابوں کی آمد بدستور جاری ہے۔

بظاہر ایسا محسوس ہوا کہ مجھے یہ خوش قسمتی کبھی حاصل نہ ہوگی کہ میری کوئی کتاب انگریزی میں عمدہ زبان میں شائع ہو۔مگر اس کے بعد حالات میں تبدیلی ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے انگریزی کے لیے ایسے اعلیٰ انتظامات فراہم کر دیے کہ یقین کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیغمبر انقلاب جیسی عمدہ انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر چھپی ہے ویسی عمدہ انگریزی زبان میں ابھی تک کسی بھی اسلامی ادارے کی کوئی کتاب شائع نہ ہو سکی۔الحمدللہ علی ذالک۔

9مارچ1986

آج ہندستان ٹائمس کے سنڈے میگزین میں ایک کتاب پر تبصرہ شائع ہوا ہے:

The Viceroys of India by Mark Bence-Jones, pp. 343, 1982

یہ کتاب ہندستان کے برٹش راج کا تفصیلی ریکارڈ ہے۔ ہندستان میں برٹش راج 175سال تک رہا۔اس مدت میں کل 29 گورنر جنرل (وائسرائے) مقرر ہوئے۔پہلے برٹش گورنر جنرل وارن ہیسٹنگر(Warren Hastings, 1732-1818)تھے جو 1774ء میں کلکتہ آئے اور آخری برٹش وائسرائے لوئی ماؤنٹ بیٹن(Louis Mountbatten, 1900-1979)تھے جو جون 1948ء میں شاندار الوداعی پارٹی کے بعد دہلی سے واپس ہو کر انگلستان گئے۔

انگریزوں نے ایک طرف قومی شعور کا زبردست ثبوت دیا۔اپنے مرکز سے غیر معمولی دوری کی بنا پر ہر وائسرائے کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ بغاوت کرکے ہندستان میں اپنی آزاد حکومت قائم کر لے۔مگر29 وائسرائے میں سے کسی نے بھی اس قسم کا باغیانہ منصوبہ نہیں بنایا۔مگر یہی لوگ جو آپس میں لڑنے کو حد درجہ غلط سمجھتے تھے انہوں نے ہندستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کا جو سب سے بڑا راز دریافت کیا وہ یہ تھا:’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘(Divide and Rule

لارڈ ڈفرن(Lord Dufferin, 1826-1902)نے 1885ءمیں ہندو مسلم جھگڑے شروع کروائے۔اس کے بعد وہ بڑھتے ہی رہے۔انگریزی حکومت1947ءمیں ختم ہو گئی،مگر ہندو مسلم جھگڑےآج بھی ختم ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔شاید ہمالیہ کی سرزمین فرقہ وارانہ جھگڑوں کے لیے بہت زرخیز ہے۔

10مارچ1986

تقریباً روزانہ میری نیند فجر سے پہلے کھل جاتی ہے۔ابھی میں بستر ہی پر ہوتا ہوں کہ دل سے دعا کے کلمات نکلنے لگتے ہیں،اور یہ بالکل بے ساختہ طورپر ہوتا ہے۔یہ گویاقرآن کے الفاظ ’’ وَعَلٰي جُنُوْبِھِمْ‘‘( 3:191) کا ایک تجربہ ہوتا ہے، اور یہ روزانہ مجھ پر گزرتا ہے۔یعنی، اوروہ اپنے پہلوؤں پر لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔

آج فجر سے پہلے نیند کھلی۔میں ابھی بستر پر لیٹا ہوا تھا۔کمرہ میں،میں بالکل تنہا تھا اور کمرہ میں اندھیرا تھا۔مگر دل سے مسلسل دعائیں نکلنے لگیں،بالکل ویسے ہی جیسے کسی مادہ سے اس کی فطری خاصیت اپنے آپ ظاہر ہو۔خدایا مجھے بخش دے،خدایا مجھ پر رحم فرما،خدایا تو دنیا و آخرت میں میرا مددگار ہو جا۔

میں ان دعاؤں میں مشغول تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ دعا کائنات کا ایک انوکھا مظہر ہے۔ جس طرح مادہ سے ایک خاصیت کا ظاہر ہونا ،اس مادہ کے اندر ایک متعین خاصیت کی موجودگی کا ثبوت ہوتا ہے ،اسی طرح انسان کے اندر دعا کا نکلنا خدا کی موجودگی کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے۔

دعا کیا ہے؟ دعا ایک ہستی کو دیکھے بغیر پکارنا ہے۔ایک ہستی جو آس پاس کہیں نظر نہ آ رہی ہو، اس سے اس طرح ہم کلام ہونا جیسے کہ وہ ہمارے بالکل قریب موجود ہے۔اس طرح انسان کسی اور کو نہیں پکارتا۔نہ اپنے دوستوں کو، نہ کسی حکمراں کو،نہ سورج اور چاند کو۔کسی کی غیر موجودگی میں اس کو پکارنا اور اس سے ہم کلام ہونا خاص الخاص صرف خدا کے لیے ہوتا ہے۔حتیٰ کہ مشرک اور ملحد بھی نازک وقتوں میں اپنی مزعومہ ہستیوں کونہیں پکارتے۔ایسے موقع پر ان کے دل سے بھی جب پکار نکلتی ہے تو خدا ہی کے لیے نکلتی ہے۔

یہ اس بات کا نفسیاتی ثبوت ہے کہ یہاں ایک عظیم ہستی ہے جو سنتی اور جانتی ہے اور جس کو ہر قسم کا اختیار حاصل ہے۔

11مارچ1986

علی گڑھ سے ایک نوجوان آئے۔وہ مسلم یونیورسٹی میں انجینئرنگ کے فائنل ایئر میں ہیں۔ گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ علی گڑھ کے مسلمان طلبا اپنی تحریک ہمیشہ اسلام کے نام پر چلاتے ہیں۔حالاں کہ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔انہوں نے علی گڑھ کے مسلم طلبا کی حمایت کی اور کہا کہ آپ کی یہ بات درست نہیں۔ہمارے یہاں کے طلبا میں زبردست اسلامی جذبہ ہے۔اس ملک میں وہ اسلامی زندگی کا نشان ہیں،وغیرہ وغیرہ۔

میں نے کہا کہ علی گڑھ کے مسلم طلبا اسلام کا نام تو ضرور لیتے ہیں مگر ان کی سرگرمیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کی مثال دیجیے۔میں نے کہا کہ ہاں میں آپ کو ایک متعین مثال دیتا ہوں۔

اس کے بعد میں نے کہا کہ پروفیسر عرفان حبیب (پیدائش 1931ء)کے مسئلے کو لیجیے۔ جن کے خلاف مسلم لڑکوں نے اتنے ہنگامے کیے کہ یونیورسٹی بند کر دینی پڑی۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اخبار انڈین اکسپریس(3جنوری،1981) میں پروفیسر عرفان حبیب کا ایک انٹرویو چھپا۔اس انٹرویو پر علی گڑھ کے مسلم طلبا کو سخت اعتراض ہوا۔میں پور ے اعتماد کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ اس انٹرویو میں خالص حقیقت کے اعتبار سے کوئی قابل اعتراض بات نہ تھی۔تاہم اس سے قطع نظر اس انٹرویو کے خلاف مسلم طلبا نے جو کچھ کیا وہ سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف تھا۔مثلاً مسلم طلبا نے پروفیسر عرفان حبیب پر اسٹک سے حملہ کیا۔اگرچہ اتفاقی طور پر وہ بچ گئے۔

اب میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اگر تم بدلہ لینا چاہو تو اس کے مثل بدلہ ہو جو تمہارے ساتھ کیاگیا ہے۔اس قرآنی حکم کے مطابق اسلامی طریقہ یہ تھا کہ آپ پروفیسر عرفان حبیب کے مضمون کے جواب میں خود بھی ایک مضمون شائع کر دیتے۔مگر قلم کا جواب ڈنڈے سے دینا اس قرآنی حکم کے سراسر خلاف ہے۔پھر ایسی تحریک کو آپ کس طرح اسلامی تحریک کہہ سکتے ہیں۔اس کے جواب میں وہ خاموش ہو گئے۔

12مارچ1986

اخبار ٹائمس آف انڈیا کا ایک سپلیمنٹWomanکے نام سے نکلا۔یہ 8مارچ 1986 کے اخبار کے ساتھ مجھے ملا تھا۔مگر فوراً میں اس کو نہ پڑھ سکا تھا۔اب آج اس کو دیکھا۔اس میں ایک طویل مضمون مدھو کشور(پیدائش 1951ء) کا ہے۔یہ ایک ہندو خاتون ہیں جو منوشی (Manushi) نامی فیمینزم میگزین کی ایڈیٹر ہیں۔اس مضمون کا عنوان ہے:

Another Look at the Shah Bano Controversy

محترمہ مدھو کشور کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ کافی آزاد خیال ہیں۔حتیٰ کہ جناب توقیر صاحب کے بیان کے مطابق وہ میرج کے انسٹی ٹیوشن میں یقین نہیں رکھتیں۔ان کے اس مضمون میں جو بات سب سے زیادہ ابھری ہوئی ہے وہ ان کے الفاظ میں عورت پر مرد کے تسلط کے خلاف احتجاج ہے۔اس مضمون میں گویا انہوں نے مرد کے خلاف اپنا بخار نکالا ہے۔ان کا ایک جملہ یہ ہے:

Through centuries, most men have used religion to legitimise their unjust domination of women in most parts of the world.

غور کرنے سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ہر گروہ ایک ہی مقام پر ہے۔مدھو کشور شاہ بانو کے معاملہ کو آڑ بنا کر مرد کے خلاف اپنا بخار نکال رہی ہیں۔ہندو عناصر اس معاملہ کو لے کر مسلمانوں کے خلاف اپنا بخار نکال رہے ہیں اور مسلم پرسنل لا کا تحفظ کرنے والے لوگ شاہ بانو کیس کو بہانہ بنا کر ہندوؤں کے خلاف اپنا بخار نکال رہے ہیں۔

ہرآدمی اپنے دل کا بخار نکالنے میں مصروف ہے۔فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کے خلاف اپنا بخار نکال رہا ہے اور کوئی شخص دوسرے کے خلاف۔

13مارچ1986

احمداللہ بختیاری (رائچوٹی)ایک نوجوان ہیں۔وہ آج ملنے کے لیے آئے۔وہ ریاض (سعودی عرب) کی جامعہ الامام سے فارغ ہیں۔وہاں انہوں نے سات سال رہ کر عربی ادب کی تکمیل کی ہے۔انہوں نے بتایاکہ وہاں ان کے ایک استاد ڈاکٹر محمد علی الہاشمی تھے جو کہ ڈاکٹر طہٰ حسین کے شاگرد ہیں۔ڈاکٹر محمد علی الہاشمی نے ادیب کی تعریف ان الفاظ میں کی: الادیب ما یلعب بالالفاظ( ادیب وہ ہے جو الفاظ کے ساتھ کھیلے)۔اس کو الفاظ پر اتنا قابو ہو کہ جس لفظ کو جہاں چاہے رکھے اور جہاں سے چاہے ہٹائے۔

میں نے کہا کہ ادب کی یہ تعریف ادب کے قدیم تصور پر مبنی ہے۔ادب کا ایک تصور وہ ہے جس کی نمائندگی مقامات حریری جیسی کتابیں کرتی ہیں۔ان میں سارا زور الفاظ پر ہوتا ہے۔اس کے مطابق ادب کا کمال یہ ہے کہ وہ مسجع اور مقفیٰ عبارت لکھ سکے۔ پہلا جملہ جس لفظ پر ختم ہوا ہے دوسرے جملے کے خاتمے کے لیے بھی اس کو ویسا ہی لفظ مل جائے۔مثلاً قدیم عرب کے مشہور مقرر قس بن ساعدہ ایادی کی تقریر کا ایک جملہ یہ ہے:طَحَنَهُمُ ‌الثَّرَى بِكَلْكَلِهِ، وَمَزَّقَهُمْ بِتَطَاوُلِهِ(دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد2، صفحہ 109)۔

قدیم زمانہ میں شاعری کا زور تھا۔اس لیے قدیم زمانہ میں الفاظ کی موزونیت باعتبار آہنگ پر زور دیا جاتا تھا۔موجودہ زمانے میں سائنس کا زور ہے۔اس لیے اب الفاظ کی موزونیت باعتبار معنی پر زور دیا جاتا ہے۔قدیم تصور کے مطابق ذخیرۂ الفاظ کی زیادہ اہمیت تھی ،مگر اب ادراک معنیٰ کی زیادہ اہمیت ہے۔قدیم تصور ادب کے مطابق آدمی کے پاس الفاظ کا ڈھیر جتنا زیادہ ہو اتنا ہی زیادہ وہ موزوں جملے بنا سکتا تھا۔مگر جدید تصور ادب کے مطابق جس شخص کا ادراک جتنا زیادہ بڑھا ہوا ہو اتنا ہی زیادہ موزوں الفاظ(appropriate words) اس کی زبان وقلم سے ظاہر ہوںگے۔

14مارچ1986

میں تذکیرالقرآن(سورہ العنکبوت) کے کتابت شدہ صفحات برائے تصحیح دیکھ رہا تھا۔ درمیان میں اس کے ایک صفحہ کی نقل لینے کی ضرورت پیش آئی۔ہمارے دفتر میں فوٹو کاپی مشین ہے۔میں نے انٹرکام (intercom)پر نیچے بتایا۔نیچے کے دفتر سے ایک آدمی آیا۔اس کو میں نے مذکورہ صفحہ دیا۔وہ صفحہ کو لے گیا اور اسی وقت اصل اور کاپی لا کر مجھے دے دی۔

مذکورہ صفحہ کی نقل ایک منٹ بعد میرے سامنے موجود تھی۔عین وہی صفحہ بالکل صاف اور صحیح شکل میں چھپا ہوا تھا۔اس کو دیکھ کر مجھ پر عجیب تاثر ہوا۔میں نے کہا— قدیم زمانہ میں کسی صفحہ کی ایسی ایک نقل حاصل کرنا کس قدر دشوار اور کتنا دیر طلب کام تھا۔آج یہ حال ہے کہ آدمی اس کو ایک منٹ میں حاصل کر لیتا ہے۔یہ بلا شبہ خدا کا معجزہ ہے۔ان واقعات کی موجودگی میں جو لوگ معجزہ طلب کریں وہ اندھے ہیں۔اگر وہ بینا ہوتے تو یقیناً انہیں واقعات میں وہ معجزۂ خدا وندی کو دیکھ لیتے۔

پھر میں نے سوچا کہ نزول قرآن سے پہلے خدا کی طرف سے برابر معجزے آتے رہے۔مگر نزول قرآن کے بعد معجزات کی آمد بند ہو گئی۔اس کی وجہ غالباًنزول قرآن کے بعد دور سائنس کا آنا اور اس کے ذریعے قدرت کے بے شمار عجائبات ظہور میں آنا ہے۔قرآن کے بعد سائنس کا زمانہ آ رہا تھا،اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بعد معجزات کو بھیجنا بند کردیا۔

15مارچ1986

جماعت اسلامی کے دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تقسیم ہند کے وقت مدراس میں ایک تقریر کی تھی،جس میں انہوں نے ہندستان میں تحریک اسلامی کا لائحہ عمل بتایا تھا۔اس میں انہوں نے کہا تھا کہ آزاد ہندستان میں سب سے پہلا کام یہ ہوگا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قومی کشمکش کو ختم کیا جائے،اس کے بغیر ہندستان میں اسلامی دعوت کا کام نہیں کیا جا سکتا۔

میں نے کہا کہ یہ ایک نہایت اہم اور بنیادی بات تھی مگر جماعت اسلامی ہند اس پر نہ چل سکی۔ جماعت اسلامی ہند اگرچہ اسلامی دعوت کا نام لیتی ہے،مگر اس کے ساتھ وہ مسلمانوں کی ان نام نہاد ملّی سرگرمیوں میں بھی شریک ہے جو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قومی کشمکش پیدا کرنے والے ہیں۔مولانا مودودی کی رہنمائی اگرچہ بذات خود صحیح تھی،مگر وہ پوری بات نہ کہہ سکے۔معاملہ کے نصف تک ان کی نظر پہنچی،مگر معاملہ کا دوسرا نصف ان کی نگاہوں سے اوجھل رہ گیا۔

ہندوستان میں قومی کشمکش کا ختم ہونا بلاشبہ انتہائی ضروری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کو کون ختم کرے۔ہمارے تمام مسلم قائدین قومی کشمکش کے خاتمہ کا نام لیتے ہیں،مگر وہ چاہتے ہیں کہ دونوں قومیں اس کو ختم کریں،اور یہ یقینی طور پر ناممکن ہے۔اس طرح کی چیزیں جب بھی ختم ہوتی ہیں، یک طرفہ طور پر ختم ہوتی ہیں۔مسلمان اگر یک طرفہ طور پر اپنے تمام جھگڑے ختم کر دیں تو قومی کشمکش بھی ختم ہو جائے گی اور اسلامی دعوت کے لیے موافق ماحول پیدا ہو جائے گا۔لیکن اگر مسلمان یک طرفہ طور پر اس کشمکش کو ختم نہ کریں تو وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔اور نہ یہ ممکن ہے کہ اس ملک میں کبھی اسلامی دعوت کے لیےوسیع موافق میدان پیدا ہو۔

17مارچ1986

پروفیسرکارل سگن(Carl Sagan, b. 1934) ایک ممتاز امریکی فلکیات داں ہیں۔وہ اس وقت نیویارک کی کارنیل یونیورسٹی میں خلائی مطالعہ کے استاد ہیں۔ کارل سگن کا ایک مضمون ہندوستان ٹائمس 15مارچ1986 میں شائع ہوا ہے ،جس کاعنوان ہے:

Are there other planetary systems?

اس مضمون میں انہوں نے دکھایا ہے کہ کائنات کی ساری وسعتوں کے باوجود ابھی تک اس میں ہمارے شمسی نظام کے سوا کسی اور شمسی نظام کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔زبردست زمینی اور خلائی مشاہدات کے باجود ابھی تک سائنس داں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری زمین جیسا کوئی کرہ یا شمسی نظام جیسا کوئی نظام وسیع کائنات میں موجود ہے بھی یا نہیں۔زمین جیسا سیارہ(Earth like Planet) ہماری کائنات کا انتہائی نادر واقعہ ہے۔وہ لکھتے ہیں:

If other planetary systems are absent, we might have to reconcile ourself to a long cosmic loneliness.

اگر دوسرے سیاراتی نظام موجود نہیں ہیں تو ہمیں ایک طویل کائناتی تنہائی پر راضی ہو جانا چاہیے۔

زمین یا سیاراتی نظام کا کائنات میں ایک مستثنیٰ واقعہ ہونا واضح طور پر ارتقائی پیدائش کی تردید ہے۔کوئی استثنائی واقعہ شعوری تخلیق کا نتیجہ ہوتا ہے، نہ کہ اندھے ارتقائی عمل کا نتیجہ۔اندھا ارتقائی عمل لازماً یکسا نیت چاہتا ہے۔اندھے ارتقائی عمل میں اس طرح کا بامعنیٰ استثناء ہر گز ممکن نہیں جیسا بامعنی استثناء ہماری زمین ہے۔

18مارچ1986

مولانا محمدرفیق کانپوری ایم اے،ایل ایل بی، ملنے کے لیے آئے۔وہ آج کل سعودی عرب میں رہتے ہیں۔وہ عجیب وغریب صلاحیتوں کے آدمی ہیں۔وہ کئی زبانیں جانتے ہیں اور بیک وقت روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں۔

وہ اپنی زندگی کے مختلف واقعات سناتے رہے۔کبھی اپنا کوئی واقعہ سناتے ہوئے اپنی کوئی گفتگو انگریزی میں دہرانے لگے۔کبھی کسی دوسرے واقعہ کا ذکر ہوا جس میں انہوں نے عربی میں کلام کیا تھا اور وہ اس کو عربی میں نقل کرنے لگے۔پھر انہوں نے اپنی ایک ہندی تقریر کا قصہ بتایا اور اس کے بعد وہ بے تکلف ہندی میں بولنے لگے۔

اسی طرح وہ کبھی اردو میں،کبھی انگریزی میں،کبھی عربی میں اورکبھی ہندی میں بولتے رہے۔ میں نے سوچا کہ انسان کو بھی اللہ تعالیٰ نے کیسی عجیب صلاحیت دی ہے۔ریڈیو پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ہندی نشریات سن رہا تھا اور پھر سوئچ گھما کر انگریزی نشریات سننے لگا۔دوبارہ سوئچ گھمائی تو عربی نشریات سنائی دینے لگیں۔انسانی دماغ بھی گویا اسی قسم کا زیادہ اعلیٰ(superior) ریڈیو ٹیپ ہے۔وہ ایک زبان سے دوسری زبان،دوسری سے تیسری زبان اور تیسری زبان سے چوتھی زبان کی طرف منتقل ہوتا رہتا ہے بغیر اس کے کہ اس میں کوئی تاخیر ہوئی ہو۔

ریڈیو تو بولی ہوئی آواز کو دہراتا ہے،مگر انسان کا دماغ خود اپنے شعور کے تحت مختلف زبانوںمیں کلام کی تخلیق کرتا ہے اور اس کو زبان کے ذریعہ سامنے لاتا ہے۔کیسا عجیب ہے یہ دماغ اور کیسا عجیب ہے وہ خالق جس نے اس دماغ کو خلق کیا۔

19مارچ1986

19مارچ1986 کو میں نے انڈین ایئر لائنز کے ذریعہ دہلی سے پونے کا سفر کیا۔میرا ٹکٹ نمبر0582/8736912تھا۔ یہ ٹکٹ دہلی کے دفتر سے2128 روپیہ میں لیا گیا تھا۔مگر اس کے چند دن بعد انڈین ایئر لائنز نے اعلان کیا کہ 18مارچ سے اس نے اپنی تمام پروازو ں کے کرائے بڑھا دیے ہیں۔یہ ٹکٹ یکم مارچ کو خریدا گیا تھا۔مگر سفر چونکہ 19مارچ کو ہوا اس لیے ہم کو اضافہ شدہ کرایہ مزید ادا کرنا پڑا۔

میں نے سوچا، اگر میں انڈین ایئر لائنز سے شکایت کروں کہ آپ نے ٹکٹ کی خریداری کے وقت مزید رقم کیوں نہ لی تو یہ ایک احمقانہ بحث ہوگی۔کیونکہ کرایہ سفر کی قیمت ہے۔اس لیے کرایہ کا اعتبار وقت سفر کے لحاظ سے ہوگا، نہ کہ وقت خریداری کےلحاظ سے۔

’’یکم مارچ‘‘ کو میں اس ٹکٹ کے ذریعے سفر کرنے کا مجاز تھا۔مگر’’19مارچ‘‘ کو میں اس ٹکٹ کے ذریعے سفر کرنے کا مجاز نہ رہا،الاّ یہ کہ میں اضافہ شدہ رقم ادا کروں۔اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے،چنانچہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں باربارغلطیاں کرتے ہیں۔وہ پرانے ٹکٹ پر نیا سفر کرنا چاہتے ہیں۔اور جب انہیں سفر کی اجازت نہیں ملتی تو وہ دوسروںکی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔حالاں کہ یہ ظلم نہیں،یہ زندگی کا ایک اصول ہے۔جو لوگ اس کو ظلم کہیں وہ صرف یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ زندگی کی حقیقت کو نہیں جان سکے۔

20مارچ1986

آج(20مارچ1986) کو مجھے حسب پروگرام پونہ میں درس قرآن دینا تھا۔کئی روز سے میں اس سوچ میں تھا کہ قرآن کے کس حصہ کا درس دیا جائے۔پچھلی رات کو دہلی میں خواب دیکھا کہ بہت سے لوگ کسی مقام پر جمع ہیں اور میں ان کے درمیان قرآن کا درس دے رہا ہوں۔یہ درس سورہ آل عمران کے آخری رکوع(آیات 190-200)کا تھا۔

یہ گویا غیبی اشارہ کے تحت اس بات کا تعین تھا کہ کس حصہ قرآن کا درس دیا جائے۔چنانچہ میں نے مذکورہ رکوع کو عربی تفسیر وںمیں دیکھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس کے تحت صحابہ وتابعین کے بڑے قیمتی اقوال اور واقعات موجود ہیں۔چنانچہ میں نے ان کو نوٹ کر لیا اور ان کے مطابق درس کی تیاری کی۔

جدید نظریہ یہ ہے کہ اس قسم کا خواب لاشعور کا کرشمہ ہوتا ہے۔مگر ایمانی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ خدائی بشارت ہے۔میرے اس طرح خواب کے ذریعہ نہ صرف درس کے لیے رکوع کا تعین آسان ہو گیا،بلکہ خود میرے لیے معرفت کا نیا دروازہ کھلا۔خاص طور پر’’تفسیر ابن کثیر ‘‘میں اتنے قیمتی اقوال ملے کہ اس کو پڑھتے ہوئے آنکھیں تر ہو گئیں۔

21مارچ1986

21مارچ کو میں پونا میں تھا۔ایک مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔گفتگو کے دوران ایک صاحب بولے،جن کا نام آفتاب احمد تھا۔انہوں نے میرے بارے میں اپنی معلومات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

’’مولانا وحیدالدین صاحب وہ شخصیت ہیں جن کو آج ساری دنیا جانتی ہے۔وہ ایک سفر کے دوران افریقہ کےایک ہوائی اڈہ پر پلین کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔اس ہوائی اڈہ سے لیبیا کے صدر معمر قذافی کا گزر ہوا۔ان کو معلوم ہوا کہ مولانا یہاں ہوائی اڈہ پر ہیں تو ہوائی جہاز سے اتر کر مولانا کے پاس آئے اور عقیدت مندی کے ساتھ ملاقات کی‘‘۔

جناب آفتاب صاحب نے مذکورہ بات عین میری موجودگی میں کہی۔انہیں اپنے اس بیان پر صد فیصد یقین تھا۔حالاں کہ یہ سراسر بے بنیاد واقعہ ہے۔اس قسم کا کوئی واقعہ میرے ساتھ کبھی پیش نہیں آیا۔اس بیان میں کوئی ادنیٰ صداقت بھی نہیں ہے۔

میرے ساتھ اس طرح کےدوسرے بہت سے واقعات گزرے ہیں جن سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ بزرگوں کی بابت جو قصے کہانیاں عام طور پر مشہور ہیں یا کتابوں میں درج ہیں ان کی حقیقت کیا ہے۔یہ وہی بات ہے جس کو کسی نے اپنے فارسی مقولہ میں اس طرح بیان کیا ہے:

پیراں نمی پرند مریداں می پرانند

یعنی، پیر نہیں اڑتے بلکہ مرید ان کو اڑاتے ہیں۔ عقیدت مند لوگ اپنی صاحب عقیدت شخصیت کے بارے میں بطور خود افسانے بنا لیتے ہیں اور اس کو لوگوں سے بیان کرنے لگتے ہیں۔یہ افسانے بعد کے زمانہ میں مقدس ہو کر اس طرح مان لیے جاتے ہیں جیسے کہ وہ واقعہ ہوں۔

22مارچ1986

پونا میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔وہ انگریزی تعلیم یافتہ ہیں اور سائنس سے دلچسپی رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں قرآنی تفسیر کے بارے میں ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔میری بہت سی تحقیقات ہیں جو میں نے قرآن اور سائنس کے بارے میں کی ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ اس کو قلم بند کروں۔

میں نے پوچھا کہ کوئی تحقیق بطور مثال بتائیے۔انہوں نے قرآن کی سورۃ الہمزہ کی یہ آیت پڑھی:كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ(104:4)۔اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے: ہرگز نہیں، وہ ضرور پھینکا جائے گا روندنے والی جگہ میں۔

انہوں نے کہاکہ لوگ اس آیت کو سمجھ نہیں سکے۔یہاں حطمہ سے مراد ایٹم ہے۔’’وہ حطمۃ میں پھینکا جائے گا‘‘ کا مطلب ہے وہ ایٹم میں پھینک دیا جائے گا۔یعنی ایٹمی بھٹی میں۔چونکہ حطمۃ اور ایٹم میں صوتی مشابہت ہے اس لیے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ حطمۃ سے مراد ایٹم ہے۔

انہوں نے بڑے جوش اور یقین کے ساتھ اپنی یہ تفسیر بیان کی اور میں یہ سوچتا رہا کہ جوش اور یقین بھی کیسی عجیب چیز ہے،وہ ایسی باتوں پر بھی پیدا ہو سکتا ہے جس کی سرے سے کوئی بنیاد ہی نہ ہو۔

موجودہ زمانہ میں اس قسم کے بہت سے نام نہاد مفسرین پیدا ہو گئے ہیں جو بزعم خود قرآن کی سائنسی تفسیر کر رہے ہیں۔ان کی اسی قسم کی بے معنی باتوں کی وجہ سے دینی طبقہ کو سائنسی تشریح کے لفظ سے چڑھ ہو گئی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ سائنسی تشریح مذکورہ قسم کی باتوں کا نام ہے۔حالاں کہ یہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے جاہلانہ تشریح ہے، نہ کہ سائنسی تشریح۔

23مارچ1986

آج ایک صاحب ملنے کے لیے تشریف لائے۔وہ جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔نیز جماعت اسلامی کے شعبہ تصنیف وتالیف سے وابستہ ہیں۔اسلام کے موضوع پر ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔

گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے امت مسلمہ کا نصب العین حکومت الٰہیہ کا قیام بتایا ہے۔مگر یہ نصب العین کسی بھی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں ہوتا ۔

میں نے کہا، اس میں شک نہیں کہ آپ حضرات نے اس کے حق میں بہت سی دلیلیں دی ہیں،مگر وہ سب کی سب استنباطی ہیں اور استنباطی دلیل اس معاملہ میں قابل اعتبار نہیں۔

میں نے کہا کہ فقہاءنے استدلال کے چار طریقے بتائے ہیں:عبارت النص،اشارۃ النص، دلالۃ النص اور اقتضاء النص۔مگر یہ چار حقیقتاً صرف دو ہیں۔ایک براہ راست استدلال (direct argument) اور دوسرا بالواسطہ استدلال(indirect/inferential argument)۔اب دینی امور کے دو حصے ہیں۔ایک کلیاتِ دین (basics of religion) اور دوسرا جزئیاتِ دین (nonbasics of religion)۔ بالواسطہ استدلال یا بالفاظ دیگر استنباطی استدلال صرف جزئیاتی امور میں کارآمد ہے۔جہاں تک کلیات دین کا تعلق ہے اس میں صرف براہ راست استدلال ہی قابل اعتبار ہے۔کلیاتِ دین (مثلاً خدا ایک ہے) کو براہ راست استدلال سے ثابت ہونا چاہیے۔ اگر وہ استنباطی استدلال سے ثابت ہو تو وہ ثابت ہی نہیں ہوا۔

میں نے کہا کہ آپ حضرات کے تمام استدلالات استنباطی ہیں۔مگر نصب العین جیسے معاملہ میں استنباطی استدلال معتبر نہیں۔مثلاً مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے’’تفہیم القرآن‘‘ میں ’’ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ‘‘ کی آیت کے تحت کئی صفحات لکھے ہیں۔مگر وہ سب کے سب استنباطی نوعیت سے تعلق رکھتے ہیں۔میں نے کہا کہ اگر آپ کو اس سے اتفاق نہ ہو تو مجھے کوئی ایک ایسی کتاب یا مضمون بتائیے جس میں اس معاملہ کو براہ راست استدلال سے ثابت کیا گیا ہو۔مگر وہ کسی ایسی کتاب یا مضمون کا حوالہ نہ دے سکے۔تعجب ہے کہ اس علمی افلاس کے باوجود لوگوں کایقین برہم نہیں ہوتا۔

24مارچ1986

ممبئی سے شائع ہونے والے مرہٹی اخبار ’’ترون بھارت‘‘ میں شیو سینا کے لیڈر مسٹر بال ٹھاکرے کا ایک بیان شائع ہوا ہے۔اس کا اردو ترجمہ پندرہ روزہ ’’حالات‘‘(بھیونڈی) نظر سے گزرا۔

مسٹر بال ٹھاکرے نے کہا کہ مسلمان مطلقہ عورت کے معاملہ میں اسلامی شریعت کے قانون کا نفاذ چاہتے ہیں۔ہماری رائے ہے کہ ان پر ہر معاملہ میں اسلامی شریعت نافذ کر دی جائے۔پاکستان اور عرب ملکوں میں جرائم کے اوپر اسلامی سزائیں دی جاتی ہیں۔مسٹر بال ٹھاکرے نے مشورہ دیا کہ یہی ہندوستان میں بھی مسلمانوں کے لیے کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ شریعت کے مطابق وہ مسلمان چوروں کے ہاتھ کاٹ دے،مسلمان زانی کو سنگسار کرے اور مسلمان شرابی کوکوڑے مارے، وغیرہ۔مسلمانوں کے لیے اس قسم کے جرائم پر وہی سزا مقرر کی جائے جو ان کی شریعت میں مقرر ہے۔

مسٹر بال ٹھاکرے کی یہ بات تجویز نہیں بلکہ طنز ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ واقعتاً یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مسلمان مطلقہ عورت کو گزارہ نہ دینے کے لیے زبردست مطالبہ کر رہے ہیں اور اس کے لیے بہت بڑے پیمانے پر متحد ہو گئے ہیں۔لیکن یہی مسلمان اس وقت بھاگ کھڑے ہوں گے جب یہ کہا جائے کہ آئندہ سے مسلم مجرمین کو شریعت کے مطابق کوڑا مارا جائے گا اور سنگسار کیا جائے گا اور ان کے ہاتھ کاٹے جائیں گے۔مسلمانوں کا موجودہ متحدہ مطالبہ صرف اس لیے ہے کہ خود ان کے اوپر اس کی زد نہیں پڑ رہی ہے لیکن اگر ان کو اپنی پیٹھ کے لیے بھی کوڑے کا خطرہ ہو اور ہاتھ کٹنے اور سنگسار کیے جانے کا اندیشہ ہو تو یہ متحدہ مطالبہ اچانک ختم ہو جائے گا۔

کیسے عجیب ہیں وہ مسلمان جنہوں نے اپنی نادان سیاست سے اسلام کو دوسروں کی نظر میں مضحکہ خیز بنا دیا ہے۔

26مارچ1986

ڈاکٹر این ۔جے۔خان(پیدائش 1932ء) انگلینڈ میں میڈیکل پریکٹس کرتے ہیں۔آج وہ ملاقات کے لیے آئے۔ان سے بہت سی دلچسپ اور مفید باتیں معلوم ہوئیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان میں ان کے والد صاحب کے زمانہ سے خاندانی اجتماع کا نظام قائم ہے۔خاندان کے افراد وقفہ وقفہ سے ایک گھریلو اجتماع میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اجتماع کا صدر وہ شخص ہوتا ہے جو عمر میں سب سے زیادہ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے گھر میں کوئی جھگڑا نہیں۔ہمارے یہاں بھی خاندان کے ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان وقتی شکایتیں ہوتی ہیں مگر وہ بڑھنے سے پہلے ختم ہو جاتی ہیں۔کیوں کہ خاندانی اجتماع میں لوگ اپنی ہر بات کو کھلے طور پر بیان کرتے ہیں۔اس کے بعد اجتماع کا صدر (گھرکا بڑا) جو فیصلہ کرتا ہے،اس کو سب لوگ بلا بحث مان لیتے ہیں۔

مزید سوالات کے بعد انہوں نے بتایا کہ اس نظام کو کامیابی کے ساتھ چلانے کا خاص راز ہے— ریزن کے سامنے سر جھکا دینا اوراپنی غلطی کو فوراً مان لینا۔

انہوں نے کہا کہ میں اس کو سب سے بڑا انسانی کیریکٹر سمجھتا ہوں۔مجھے ڈاکٹر خان صاحب کی یہ بات بہت پسند آئی۔حقیقت یہ ہے کہ اگر ہر خاندان میں اس قسم کا نظام قائم ہو جائے تو تمام خاندانی جھگڑے اپنے آپ مٹ جائیں گے۔

ڈاکٹر خان صاحب کی شادی1959ء میں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میرے والد نے ایک روز 11بجے رات کو مجھے اپنے کمرے میں بلایا۔انہوں نے کہا کہ میں تمہارا نکاح کرنا چاہتا ہوں۔یہ بتاؤ کہ تم گھر کا چراغ چاہتے ہو یا شمع محفل۔انہوں نے جواب دیا کہ میں شمع محفل لے کر کیا کروں گا۔مجھ کو تو گھر کا چراغ چاہیے۔اس کے بعد ان کے والد صاحب نے اپنے انتخاب سے ایک خاتون کے ساتھ ان کا نکاح کر دیا۔کاش یہی اسپرٹ ہمارے تمام نوجوانوں میں پیدا ہو جائے۔

27مارچ1986

آج دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔دونوں وکیل ہیں اور دینی مزاج رکھتے ہیں۔انہوں نے مولانا ابوالحسن علی ندوی صاحب کی کتاب’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ کا ذکر کیا۔میں نے کہا کہ یہ کتاب مولانا مودودی کے فکر کی تردید میں لکھی گئی ہے۔مگر عملاً وہ اس فکر کی تردید نہیں،بلکہ تصدیق بن گئی ہے۔یہ کتاب ایک مضبوط کیس کی کمزور وکالت ہے۔

میں نے کہا کہ اس وقت عالم اسلام میں بنیادی طور پر دو قسم کے دینی فکر پائے جاتے ہیں۔ایک تبلیغی جماعت کا دینی فکر اور دوسرا ابوالاعلیٰ مودودی کا دینی فکر۔جس میں،میں مولانا علی میاں کوبھی شامل سمجھتا ہوں۔مولانا علی میاں کا فکر بدلے ہوئے الفاظ میں مولانا مودودی ہی کا فکر ہے۔

میں نے کہا کہ سوچنے کے دو طریقے ہیں— ایک انقلاب فرد اور دوسرا انقلاب نظام۔تبلیغی فکر کے مطابق دینی دعوت کا اصل نشانہ یہ ہے کہ فرد کے اندر انقلاب پیدا کیا جائے گا۔مودودی فکر کے مطابق دینی دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ نظام کےاندر انقلاب لایا جائے۔

انقلابِ نظام کا فکر سراسر غیر دینی ہے۔مگر بدقسمتی سے مولانا علی میاں کا فکر بھی بنیادی طور پر یہی ہے۔اور اگر یہ نہ ہو تو وہ یقینی طور پر غیر واضح ہے۔دین کا اصل کام یہ ہے کہ فرد کے اندر فکریانقلاب پیدا کیا جائے۔فرد کے اندر خدا پر یقین اور آخرت کی فکر پیدا کیا جائے۔تبلیغی جماعت اصلاً یہی کام کر رہی ہے اور بلاشبہ یہی کرنے کا اصل کام ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom