انفارمل ایجوکیشن
موجودہ زمانے میں مختلف رہ نماؤں نے فارمل ایجوکیشن کے بڑے بڑے تعلیمی ادارے بنائے۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ اِن اداروں میں ملّت کے نوجوانوں کو تربیت دے کر ایک ترقی یافتہ نسل بنا سکیں گے۔ مگر یہ تمام خواب منتشر ہو کر رہ گئے۔ کوئی بھی ادارہ مطلوب نئی نسل کو وجود میں لانے کا ذریعہ نہ بن سکا۔ ایسا صرف اِس لیے ہوا کہ یہ منصوبہ غیر فطری تھا، اور کوئی بھی غیر فطری منصوبہ اِس دنیا میں کبھی کامیاب ہونے والا نہیں۔
ایجوکیشن کی دو قسمیں ہیں، فارمل ایجوکیشن اورانفارمل ایجوکیشن۔میرا تجربہ ہے کہ صرف فارمل تعلیم ، علم کے حصول کے لیے کافی نہیں۔ خواہ وہ سیکولر تعلیم ہو یا دینی مدرسے کی تعلیم۔ جو فارمل تعلیم اداروں میں ہوتی ہے،اس میں آدمی کسی دوسرے کی بتائی ہوئی باتوں کا علم حاصل کرتا ہے۔ مگر علم کا خزانہ اس سے بہت زیادہ ہے، جتنا کہ کسی بتانے والے نے آپ کو بتایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی فارمل ایجوکیشن کے بعد خود مطالعہ کرے۔ خود مطالعے سے آدمی ، خود دریافت کردہ علم کو حاصل کرے گا۔ اور خود دریافت کردہ علم ہی سے آدمی کو حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے۔اس سے انسان مسائل پر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے۔یہ لوگ معاملات کو گہرے انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں۔فکروفہم ان کی غذاہوتی ہے۔وہ کسی بات کو اسی وقت مانتے ہیں جب کہ اس کو ان کی فکری سطح پر قابل فہم بنا دیا گیا ہو۔
الرسالہ مشن کی حیثیت انفارمل ایجوکیشن کی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن پائے ہوئے لوگوں کو انفارمل ایجوکیشن مہیا کی جائے، تاکہ ان کے اندر آرٹ آف تھنکنگ پیدا ہو۔ دونوں طریقوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ دونوں تعلیمی طریقے ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دونوں طریقوں کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔مثلاً مدرسے کی تعلیم سے اگر دین کا روایتی علم حاصل ہوتا ہے تو انفارمل ایجوکیشن کے ذریعہ آدمی دور جدید سے واقفیت حاصل کرتا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ کسی انسان کے لیے دونوں ہی ضروری ہے۔