بے ہمتی نہیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (3:139)۔ یعنی اور ہمت نہ ہارو اور غم نہ کرو، تم ہی کامیاب رہو گے اگر تم مومن ہو۔’ وھن ‘ کے معنی ضُعف کے ہیں۔خواہ یہ ضعف عمل کا ہو یا ارادے کا۔ یہ آیت جنگ و قتال کے بارے میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ زندگی کی جدو جہد کے بارے میں ہے۔ اس جدو جہد کے لیے مومنانہ اصول کیا ہیں۔ اس کو یہاں بیان کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خالق کی اس دنیا میں ہمیشہ عسر کے ساتھ یسر موجود رہتا ہے۔ یعنی مسئلے کے ساتھ اس کا حل۔زندگی کی جدوجہد میں ہمیشہ ایسے لمحات پیش آتے ہیں، جو مومن کو وقتی طور پر بے ہمت کرنے والے ہوں، لیکن مومن کا اعتماد اللہ رب العالمین کی نصرت پر ہوتا ہے۔ وہ ہر حال میں یہ امید رکھتا ہے کہ اگر وہ سچائی کے راستے پر ہے تو اللہ ضرور ا س کی مدد کرے گا، اور اس کو کامیابی کی منزل تک پہنچائے گا۔ بندے کی طرف سے جدو جہد کے مرحلے میں یہ شرط ہے کہ وہ ہمت نہ ہارے۔
’’ اگر تم مومن ہو‘‘ ا مطلب یہ ہے کہ مومن کو اپنی طرف سے یہ ثابت کرنا پڑتاہے کہ وہ اللہ پر بھروسہ کرنے والا ہے۔ وہ اللہ پر ہرحال میں یقین رکھے ہوئے ہے۔ اللہ کی مدد پر یہ یقین اللہ کی رحمت کو انووک (invoke)کردیتا ہے۔ وہ اللہ کی مدد کو یقینی بناتا ہے۔
ایک مومن بندہ کا طریقہ کیا ہونا چاہیے، اس سلسلے میں ایک رہنما حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَهُ كُلَّهُ خَيْرٌ، وَلَيْسَ ذَاكَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ، فَكَانَ خَيْرًا لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ، صَبَرَ فَكَانَ خَيْرًا لَهُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2999)۔ یعنی،مومن کا معاملہ عجیب ہے۔ بیشک اس کے تمام معاملے میں خیر ہے۔ اور یہ کسی اور کے لیے نہیں ہے، سوائے مومن کے۔ اگر اس کو خوشی پہنچی تو اس نے شکر کیا، یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ اوراگر اس کو مصیبت پہنچی تواس نے صبر کیا۔ یہ اس کے لیے بہتر ہے ۔