عقل کی اہمیت
وہب بن منبہ (34-114ہجری)مشہور تابعی ہیں۔ان کا شمار اسلام کے ابتدائی مور خین اور قدیم آسمانی کتابوں کے عالموں میں ہوتا ہے۔ ان کاایک قول ان الفاظ میں آیا ہے: مَا عُبِدَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ بِشَيْءٍ أَفْضَلَ مِنَ الْعَقْلِ(العقل و فضلہ لابن ابی الدنیا، اثر نمبر21)۔ یعنی اللہ کی عبادت کا سب سے بہتر ذریعہ عقل ہے۔ یہاں عقل سے مراد شعور ہے۔ یعنی سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ انسان کو سچائی کی شعوری دریافت ہو، اور وہ شعور کی سطح پر اللہ کی عبادت کرے۔
ایک عبادت وہ ہے کہ آدمی ایک فارم کا اپنے آپ کو عادی بنالے، اور اس فارم کو دہرا کر اللہ کی عبادت کرے۔ یہ فارم کی سطح پر اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ مبنی بر فارم عبادت بھی عبادت کا ایک درجہ ہے۔ لیکن زیادہ بڑی عبادت یہ ہے کہ آدمی قرآن اور سنت کی تعلیمات پر غور کرے۔ وہ شعور کی سطح پر اللہ رب العالمین کو دریافت کرے۔ پھرشعوری دریافت کی سطح پر اللہ کے وجود پر یقین کرے، اور اس کا عبادت گزار بن جائے۔
جب آدمی فارم کی سطح پر عبادت کرتا ہے، تو وہ ایک ایسی عبادت ہوتی ہے، جو اس کے شعور کو نہیں چھوتی۔ اس کا شعور الگ ہوتاہے، اور اس کی عبادت الگ۔ مگر جو عبادت دریافت کی سطح پر ادا کی جائے، وہ انسان کے پورے وجود کا اظہار بن جاتی ہے۔ فارم کی عبادت میں عبادت الگ ہوتی ہے، اور انسان کی شخصیت الگ۔ لیکن جو عبادت شعوری دریافت کےتحت کی جائے، وہ عبادت فرشتوں کے درجے کی عبادت ہوتی ہے۔ ایسی عبادت میں انسان کا احساس انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ انسان بظاہر اعضا و جوارح (body organs)کا مجموعہ ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ انسان کی شخصیت شعوری دریافت کے نتیجہ میں بنتی ہے۔ ایسی عبادت میں انسان کی ہستی اور اس کا شعور دونوں ایک ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ عبادت ہے، جب کہ انسان خدا کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے لیے قرآن میں واسجد واقترب کے الفاظ آئے ہیں(96:19)۔ یعنی، سجدہ کر اور خدا سےقریب ہوجا۔