تکرار
’’گیتان جلی‘‘ رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941ء)کی مشہور کتاب ہے ۔ اس کتاب کے انگریزی ترجمہ پر ان کو نوبل انعام ملا تھا۔ یہ کتاب اصلاً بنگلہ زبان میں لکھی گئی تھی، اس کے بعد اس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں ہوا۔ اس کی ایک نظم (نمبر 38)کا ابتدائی مصرعہ یہ ہے :
That I want thee, only thee—let my heart repeat without end.
میں تجھ کو چاہتا ہوں ، صرف تجھ کو اور کسی کو نہیں ،میرے دل کو اس کی تکرار بے انتہا کرنے دے۔
کسی چیز سے جب آدمی کا تعلق دل چسپی اور محبت کے درجہ کا ہو جائے تو وہاں تکرار (repetition) کا تصورختم ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی ہر تکرار آدمی کو نیا لطف دیتی ہے۔ اس کی تکرار سے آدمی کبھی نہیں اکتا تا۔ اس کی ایک عام مثال سگرٹ ہے۔ آدمی سگرٹ کو بار بار پیتا ہے اور روزانہ پیتا رہتا ہے۔ مگر اس کو کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ وہ ایک چیز کی تکرار کر رہا ہے۔ حالاں کہ اسی شخص کو اگر کوئی غیر مرغوب چیز دی جائے تو چند بار کے استعمال کے بعد وہ اس سے اکتا جائے گا اور اس کو تکرار کہہ کر چھوڑ دے گا۔
میں نے کئی بار ایسے نوجوان دیکھے ہیں جنھوں نے ابھی کوئی پکچر(movie) دیکھی تھی ۔ اگرچہ ان میں سے ہر ایک اس پکچر (movie)کو دیکھے ہوئے تھا مگر وہ اس کی کہانی اور اس کے مکالمے اس طرح ایک دوسرے کو سنا ر ہے تھے جیسے کہ وہ کوئی نئی بات کہہ رہے ہوں اور سننے والے اس کو اس طرح سن رہے تھے جیسے وہ بالکل نئی بات سن رہے ہوں۔پکچر (movie)کے ساتھ ان کی بڑھی ہوئی دل چسپی نے ان کے لیے تکرار کا تصور حذف کر دیا تھا۔
جب کسی کے سامنے کوئی بات کہی جائے اور وہ اس کو ’’ تکرار‘‘ کہہ کر بے لطف ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ یہ بات اس کی زندگی میں دل چسپی بن کر داخل نہیں ہوئی ہے۔ اگر وہ اس کے لیے حقیقی دل چسپی کی چیز ہوتی تو اس کی ہر تکرار اس کو نیا لطف دیتی ،نہ یہ کہ وہ اس کو بے لطف بنا دے۔