اسم اعظم کی دعا

حدیث کی کتابوں میں اسم اعظم کے ذریعے کی جانے والی دعا کا بہت بڑا درجہ بتایا گیا ہے۔ اس کے متعلق رسولِ خدا نے یہ خبر دی ہے کہ وہ ضرور مقبول ہوتی ہے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3544)۔ احادیث میں مذکور اسم اعظم سے مراد معروف معنوں میں ’’اسم‘‘ نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد وہی چیز ہے، جس کو پوائنٹ آف ریفرنس کہا جاتا ہے۔ مثلا ًایک بندہ دعا کرتا ہے ، اور یہ کہتا ہے کہ خدایا! تونے مجھے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے (ص، 38:75)۔ اب کیا تیری رحمت کا تقاضا ہوگا کہ تو مجھے آگ میں ڈال دے۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ خدایا! میرے گناہوں کو معاف فرما۔ خدایا! میں تیری رحمت کے حوالے سے یہ دعا کرتا ہوں کہ فیصلے کے دن تو مجھ کو جنت میں داخل فرما۔

اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایسے حوالے کے ساتھ دعا کرنا، جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والا ہو۔ ایسی دعا ،جس میں بندہ اپنی غلطی کا آخری حد تک اعتراف کرے، اسی کے ساتھ اللہ کی رحمت کا آخری حد تک طلب گار بن جائے۔ ایسی دعا جو اپنے کسی عمل کے واسطہ کو ذریعہ بنا کر اللہ سے دعا نہ کی گئی ہو، بلکہ اللہ کی رحمت بے پایاں کو واسطہ بنا کر اپنے جائز مدعا کو پیش کیا گیا ہو۔  

اسم اعظم کی دعا وہ ہے، جو اللہ رب العالمین کی صفت کو حوالہ بناکر دعا کی گئی ہو۔ ایسی دعا کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پورے معنوں میں عاجز بن جائے۔ جو اللہ کی کمال قدرت کے مقابلے میں اپنے کامل عجز کا نمونہ ہو۔ اس قسم کی دعا بلاشبہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرنا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اس اسمِ اعظم کے حوالے سے دعا کرنے کی توفیق پائیں۔اسم اعظم کے ساتھ دعاکرنے کے مطلب ہے اللہ رب العالمین کی صفت اعظم کے ساتھ طالب دعا ہونا۔ جب آدمی اللہ رب العالمین کی کسی صفت کو شعوری طور پر دریافت کرے، اور اس کے حوالے سے اللہ سے اس کی رحمت کا طالب بنے تو ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom