بعد حین
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ، وَدَعْوَةُ المَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ:وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ(جامع الترمذی، حدیث نمبر 2526) ۔ یعنی تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔ عادل امام، روزہ دار جب کہ وہ افطار کرے، اور مظلوم کی دعا۔ وہ اس کو بادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں،پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عزت کی قسم ! میں ضرور تمہاری مدد کروں گا اگرچہ کچھ عرصے کے بعد کروں۔
اس حدیث رسول سے دعا کی قبولیت کا اصول معلوم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ دعا خواہ بالکل درست ہو، مگر اس کی قبولیت میں ہمیشہ وقت لگتاہے۔کسی فرد کی دعا جب قبول کی جاتی ہے، تو وہ صرف ایک دعا کا معاملہ نہیں ہوتا ہے۔ اللہ رب العالمین پورے عالم کو مینج (manage)کررہا ہے۔ کوئی ایک دعا جب بھی قبول کی جاتی ہے تو وہ اس وقت اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے جب کہ تمام متعلق تقاضے پورے ہوچکے ہوں۔
مثلاًاللہ رب العالمین کا یہ فیصلہ تھا کہ مکہ میں رسول اللہ بعثت کے بارے میں پیغمبر ابراہیم کی دعا قبول کی جائے (البقرۃ، 2:129)۔ لیکن اس دعا کی قبولیت میں وقت لگا۔ پیغمبر اسلام کا ظہور عملاً دعا کے تقریباً ڈھائی ہزار سال بعد پیش آیا۔کیوں کہ یہ ضروری تھا کہ اس سے پہلے تمام متعلق تقاضے پورے ہوچکے ہوں۔ تاریخ کے بڑے بڑے واقعات ہمیشہ اسی طرح لمبی مدت کے بعد ظہور میں آتے ہیں۔ بڑی بڑی دعاؤں کے لیے پوری انسانی تاریخ کو مینج کرنا پڑتا ہے۔
ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی خوب دعائیں کرے، لیکن دعا کی قبولیت کے معاملے کو وہ اللہ کے حوالے کر دے۔ اگر بظاہر کسی آدمی کی دعا کی قبولیت میں دیری ہورہی ہے تو اس کو یقین کرنا چاہیے کہ اللہ اس کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتا ہے۔ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کسی بندے کے لیے خیر کیا ہے (البقرۃ، 2:216)۔ انسان صرف اپنی خواہشوں کو جانتا ہے، نہ یہ کہ اس کے ليے خیر کس چیز میں ہے۔