کیسا عجیب اسلام
ایک مسلم ملک کا واقعہ ہے۔وہاں’’ اسلامی انقلاب‘‘ آیا۔ اس کے بعد اس ملک میں جو نئی تبدیلیاں آئیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں کے پبلک مقامات کی سیٹرھیوں پر امریکا، روس اور اسرائیل کے جھنڈوں کی تصویریں بنائی گئیں ، تاکہ لوگ ان کو روند کر عمارتوں میں داخل ہوں۔ (کوثر ، بنگلور، رمضان 1404ھ)
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کون سا دین ہے جس کو موجودہ زمانہ کے مسلمانوں نے دریافت کیا ہے۔ وہ نفرت کا دین ہے۔ ان کے نز دیک اسلام کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مفروضہ دشمنان اسلام کی انا (ego) کو ٹھیس پہنچائی جائے۔اگرابتدائی اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو رسول اللہ کا طریقہ اس کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے کسی صحابی کو کسی کام سے بھیجتے تو یہ نصیحت کرتے تھے: بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1732)۔ یعنی، لوگوں کو بشارت دو،ان کو ناگواري میں نہ ڈالو، ان کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرو، سختی کا نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا اسلام یہ تھا کہ انھوں نے لوگوں کی خیر خواہی میں ان کے لیے دعائیں کیں۔ وہ اس لیے تڑپے کہ لوگ ہدایت کو قبول کر کےاللہ کی جنت میں داخل ہوں ۔ انھوں نے اپنے دشمنوں سے بھی محبت کا سلوک کیا تاکہ ان کا دل اسلام کے لیے نرم ہو۔انھوں نے بگڑے ہوئے لوگوں کے ساتھ تالیف قلب کا معاملہ کیا تاکہ ان کی فطرت کو جگایا جاسکے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلم قائدین نے ایک ایسا اسلام دریافت کر رکھا ہے جو انسانوں کو اسلام سے مزید دور کردیتا ہے۔
آج کی دنیا میں اسلام کے نام پر دوسروں سے نفرت کرنے والے بہت ہیں مگر اسلام کے لیے دوسروں سے محبت کرنے والا کوئی نہیں۔ اسلام کے نام پر جھنڈا اٹھانے والے بے شمار ہیں مگر کوئی اللہ کا بندہ ایسا نہیں جو اسلام کے لیے اپنے جھنڈے کو نیچا کر لے۔ اسلام کے نام پر دوسروں سے لڑنے والے ہر طرف دکھائی دیتے ہیں مگر اسلام کے لیے صلح کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اسلام کے نام پر بولنے والوں سے خدا کی زمین بھر گئی ہے مگر وہ انسان ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا جو اسلام کی خاطر چپ ہو گیا ہو۔اسلام کے نام پر لوگوں کو پیروں سے روندنے والے بہت ہیں مگر خدا کا وہ بندہ کہیں دکھائی نہیں دیتا جو اسلام کی خاطر لوگوں کو اپنے سینہ سے لگا لے۔