گرین لینڈ، ایک وارننگ
اٹلانٹک اور آرکٹک کے درمیان واقع گرین لینڈ دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ اس کے نزدیک ترین ممالک کینیڈا اور آئس لینڈ ہیں۔ یہ جغرافی طور پر شمالی امریکہ کے براعظم کا حصہ ہے۔ تاہم ، سیاسی لحاظ سے یہ جزیرہ ڈنمارک کا حصہ ہے۔یہ دنیا میں برف پرمشتمل دنیا کی دوسری سب سے بڑی برفانی شیٹ بھی ہے۔اس کے کل رقبے کا 81 فیصد برف کی چادروں سے ڈھکاہوا ہے۔ مگر اب یہاں کی صورتِ حال تبدیل ہورہی ہے۔ بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر چھپی ایک رپورٹ (26 جنوری 2019ء) کے مطابق، گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان گرین لینڈ میں برف کی چادر میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے۔ 2003ء سے 2013ء تک گرین لینڈ کی برفانی چادر میں چار گنا کمی واقع ہوئی ہے۔ 2004ء سے سن 2013ء کی دہائی میں یہ عمل مسلسل اور شدید تھا جس کی مثال پچھلے 350 برسوں میں کسی ایک دہائی میں نہیں ملتی ہے...تحقیق سے حاصل شدہ نتائج کے مطابق گرین لینڈ کا جنوب مغربی حصہ جو اب تک اس حوالے سے بڑا خطرہ تصور نہیں کیا جا رہا تھا اس کے بارے میں اب یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مستقبل میں سمندر کی سطح بلند کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
کچھ دنوں پہلے ایک اور تشویشناک رپورٹ سامنے آئی ہے۔ گرین لینڈ میں برف کا پگھلنا نہ صرف اوپر سے جاری ہے، بلکہ اندرونی طور پر بھی یہ پگھلاؤ جاری ہے۔ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ گرین لینڈ کی برفانی پرتیں نیچے سے تیزی سے پگھل رہی ہیں اوروہاں پانی جمع ہونے سے پوری آئس شیٹ کا پگھلاؤ تیزی سے بڑھے گا اور اس سے عالمی سمندروں کی سطح مزید اونچی ہوگی۔گرین لینڈ کی برفیلی چادروں کا مجموعی رقبہ 50 ہزار مربع کلومیٹر ہے لیکن ان کی گہرائی معلوم کرنا اب بھی ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس کی ماڈلنگ اور نقشہ سازی نہیں کی گئی تھی۔
اب کیمبرج یونیورسٹی کے سائنسدانوں، پال کرسٹوفرسن اور ان کے ساتھیوں نے گرین لینڈ کی برف کی جڑوں کا پگھلاؤ معلوم کرنے کا ایک طریقہ ڈھونڈا ہے۔ انھوں نے لیزر کے ذریعہ اس کی گہرائی اور کیفیت معلوم کی ہے۔پال نے جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نیچے جو برف پگھل کر پانی بہہ رہا ہے وہ پرانے اندازہ سے بھی 100 گنا زائد ہے،اور اس کی رفتار براہِ راست دھوپ سے پگھلنے والی برف سے زیادہ تھی۔ اس کی دو وجوہات ہیں ۔ اول، اوپر کا گرم پانی نیچے جمع ہوکر مزید برف پگھلا رہا ہے۔ دوم، قوت کشش سے بھی برف گھل رہی ہے۔ اس تحقیق سے يه نتيجه نكالا گيا هے كه جہاں جہاں آئس لینڈ جیسی برفانی پرتیں ہیں وہاں بھی برف پگھلنے کی رفتار اتنی ہی تیز ہوسکتی ہے۔ (urlty.co/mJTW)
مولانا وحید الدین خاں صاحب گلوبل وارمنگ کے تعلق سے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:’’ یہ صورت حال زمین کے اوپر ہر قسم کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرہ ہوگی۔ کوئی بھی انسانی تدبیر ان کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے گی۔ بالواسطہ یا براہِ راست طورپر اس کا اثر تمام انسانی آبادیوں تک پہنچ جائے گا۔حالات بتاتے ہیں کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے۔‘‘ (الرسالہ، مئی 2008)، اور وہ دن آجائے جب کہ تمام لوگ اپنی زندگی کا حساب دینے کے لیے، قرآن کے الفاظ میں ،خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے (83:6)۔
اس لیے یہ وقت کا تقاضا ہے کہ انسان اس دن کے آنے سے پہلے اپنے لیے ضروری تیاری کرلے تاکہ وہاں کسی قسم کی ناکامی کا سامنا نہ پیش آئے۔مولانا وحید الدین خاں صاحب لکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی عیسوی میں کہا تھا کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ انسان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے ( صحیح البخاری،حدیث نمبر 6505)۔ گلوبل وارمنگ کا ظاہرہ بتاتا ہے کہ یہ فاصلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ جدید سائنس جس موسمیاتی تبدیلی (clamatic change) کی خبر دے رہی ہے، وہ تبدیلی سائنس دانوںکے بیان کے مطابق، اب اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس کو دوبارہ الٹی طرف لوٹانا ممکن نہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان اپنے آپ کو بدلے۔حالات کی یہ خاموش پکار ہے کہ انسان اپنے آپ کو درست کرلے، اِس سے پہلے کہ اپنے آپ کو درست کرنے کا موقع اس کے لیے باقی نہ رہے (دیکھیے:الرسالہ جولائی 2008) ۔ ڈاکٹر فریدہ خانم، نئی دہلی