با اصول انسان
زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی فطرت کے قانون کو سمجھے، اور اس کی پیروی کرتا ہوا زندگی گزارے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی کسی اصول کا پابند نہ ہو، جو اس کے جی میں آئے، اس کو وہ کرے۔ اس کو نہ جھوٹ اور سچ کی تمیز ہو، اور نہ وہ صحیح اور غلط میں فرق کرے۔
یہ دونوں روش اپنے انجام کے اعتبار سے یکساں نہیں ہے۔ جو آدمی اصول کا پابند ہو، وہ اصول کے مطابق زندگی گزارے، وہ اللہ کے یہاں کامیاب انسان قرار پائے گا۔اس حقیقت کو قرآن میں اہل جنت کے حوالے سےان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (79:40)۔ یعنی اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ اس کے لیے اللہ کے یہاں جنت ہے ۔ اس کے برعکس، جو انسان صحیح اور غلط میں تمیز نہیں کرے۔ وہ صرف اپنی خواہش کو جانے، اور اس کی پیروی میں زندگی گزارے، ایسا آدمی اللہ کی نظر میں ناکام انسان ہے۔ اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی( 79:37-39)۔
با اصول انسان ہونا کیا ہے۔ اللہ نےانسان کو پیداکرکے اس دنیامیں رکھا،اور اس کو کامل آزادی دی ۔ یہ کامل آزادی ایک انتہائی انوکھا اختیار ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کامل آزادی کے باوجود اپنی آزادی کو ڈسپلن کے اندر استعمال کرے۔یعنی کسی جبر کے بغیر خود اپنے اختیار سے وہی کرنا، جو خدا انسان سے کروانا چاہتا ہے۔ انسان کو اپنے اختیار سے وہی کرنا ہے، جو دوسری مخلوق جبلی فطرت (instinct)کی بنا پر کررہی ہے۔ اس کو خود اختیار کردہ اخلاقیات (self-imposed ethics) کہاجاسکتا ہے۔
قرآن(67:2) میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ دیکھے کہ کون لوگ احسن العمل (best in conduct)ہیں۔ احسن العمل کا مطلب ہے با اصول زندگی گزارنے والے افراد۔ مثلاًوہ آدمی جو غصہ دلائے جانے کے باوجود غصہ کو قابو میں رکھے، وغیرہ۔