عظیم خوش خبری
یوسف بن یعقوب ایک اسرائیلی پیغمبر ہیں۔ ان کی زندگی کی کہانی کو قرآن کی سورہ یوسف میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور اس کو قرآن میں احسن القصص (12:3)کا ٹائٹل دیا گیا ہے، یعنی ایک بہترین سرگزشت (best story) ۔یہ ایک واقعہ ہے کہ حضرت یوسف کی کہانی انسان کے لیے بہترین سبق والی کہانی ہے۔اس کہانی کے سبق آموز پہلو کو راقم الحروف نے اپنی تفسیر تذکیر القرآن میں کسی قدر تفصیل سے بیان کیا ہے۔
سورہ یوسف کے آخر میں اس احسن القصص کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے: حَتَّى إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَشَاءُ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ (12:110)۔ یعنی یہاں تک کہ جب رسول مایوس ہوگئے اور وہ خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کو ہماری مدد آپہنچی۔ پس نجات ملی جس کو ہم نے چاہا اور مجرم لوگوں سے ہمارا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ حد آجائے کہ بندے پر انتظار کی گھڑیاں شاق گزریں تو بلاتاخیر اللہ کی نصرت آجاتی ہے ۔اللہ رب العالمین کی طرف سے یہ عظیم خوش خبری صرف پیغمبروں کے لیے نہیں ہے، صرف پیغمبر کے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے ہے، جو قرآن کی اس سورہ کا مطالعہ کریں، اور اس میں جو سبق (takeaway) ہے، اس کو دریافت کرکے اپنی زندگی میں اپنائیں۔ غالباً اس پیغمبرانہ قصے کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اللہ کی رحمت اور نصرت اس کے سچے طالب کے اوپر ضرور آتی ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ وہ سچے طالب کی طرف نہ آئے۔ البتہ یہ شرط ہے کہ طالب کو چاہیے کہ وہ پورے یقین اور صبر کے ساتھ خدا کی نصرت کا انتظار کرے، وہ کسی بھی حال میں مایوسی کا شکار نہ ہو، وہ ہر حال میں اللہ رب العالمین کی رحمت کا امید وار بنا رہے۔ اللہ نے آغازِ تخلیق میں یہ اعلان کردیا تھا :إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3194) ۔ یعنی بیشک میری رحمت میرے غضب کے اوپر غالب ہے۔
اللہ کی نصرت کا یہ قانون کیوں ہے کہ بندے کی دعا اس وقت قبول ہوتی ہے، جب کہ بندے کے اوپر مایوسی کی آخری حد آجائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت تو یقینی طور پر بندے کے لیےاللہ کا عطا کیا ہوا ایک حق ہے، وہ ضرور پورا ہوکر رہتا ہے، کبھی ایک شکل میں اور کبھی دوسری شکل میں۔ مثلاً پیغمبر سلیمان پر اللہ کی رحمت کسی شدید امتحان کے بغیر آئی۔ اس کے برعکس ، کئی دوسرے پیغمبروں پر اللہ رب العالمین کی رحمت شدید امتحان کے بعد آئی۔ یہاں تک کہ اس وقت جب کہ پیغمبر اور ان کے ساتھی مایوسی کی حالت کو پہنچ گئے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر اچھی چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، اور اللہ کی رحمت سب سے زیادہ عظیم نعمت ہے۔ اس لیے اس کا استحقاق بھی عظیم قیمت کی ادائیگی کے بعد ہوتا ہے، اور وہ قیمت یہ ہے کہ بندے کو اللہ کی قدرت اور اس کی رحمت پر اتنا زیادہ یقین ہو کہ شدید حالات کے باوجود وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، وہ آخری حد تک اللہ کی رحمت کا امیدوار بنا رہے۔
مذکورہ آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مایوسی کی آخری حد پر پہنچنے کے بعد اللہ کی نصرت آتی ہے۔ اس مایوسی کا مطلب کیا ہے۔ اس میں دراصل اللہ کے قانونِ فطرت کو بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ کی نصرت داعی کو ضرور پہنچتی ہے۔ لیکن اس کا پراسس یہ ہے کہ دوسرے انسانوں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک عمل جاری کیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں داعی کو مطلوب نصرت کبھی تاخیر سے حاصل ہوتی ہے۔ خالق کی طرف سے اس عمل کی تکمیل میں ہمیشہ وقت درکار ہوتا ہے۔ داعی کو چاہیے کہ اس وقت کو وہ انتظار کے خانے میں ڈالے۔ یہ انتظار اگر مایوسی کی آخری حد تک پہنچ جائے، تب بھی داعی کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس کا رب اس کو تباہی سے بچائے گا، اور اپنے وقت پر وہ ضرور اپنی نصرت کو نازل فرمائے گا، جو داعی کے لیے منزل تک پہنچنے کا سبب بن جائے گا۔ صبر دراصل داعی کی طرف سےانتظار کی مدت کا نام ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اپنی امید کو برقرار رکھے۔ رب کی طرف سے نصرت کی نزول سے وہ مایوس نہ ہو۔