آرٹ آف ڈفرینس مینجمنٹ
طلاق کے بارے میں ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے: أَبْغَضُ الْحَلَالِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى الطَّلَاقُ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر2178)۔ یعنی اللہ کے نزدیک حلال میں سب سے ناپسندیدہ عمل طلاق ہے۔ طلاق ایک ابغض (سب سے نا پسندیدہ) عمل کیوں ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح کا طریقہ اس لیے رکھا گیا تھا کہ انسان نکاح کے ذریعے اپنی تربیت کا کورس مکمل کرے۔ وہ کورس یہ ہے کہ موجودہ دنیا کے بارے میں خالق کا نقشۂ تخلیق یہ ہے کہ آدمی اس راز کو جانے کہ اختلاف کو مینج کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ زندگی میں لازمی طور پر اختلافات پیش آتے ہیں۔ یہ اختلافات اس لیے نہیں ہیں کہ آدمی لڑنا بھڑنا شروع کردے۔ بلکہ اس لیے ہیں کہ آدمی پرامن انداز میں ان کو مینج (manage)کرے۔
یہ اختلافات کسی کی سازش کی وجہ سے نہیں ہیں، بلکہ وہ نظامِ فطرت کا لازمی نتیجہ ہیں۔ ان اختلافات کے بارے میں یہ مطلوب نہیں ہے کہ آدمی ان سے لڑنا شروع کردے یا ان کو برائی (evil) سمجھ کر شادی کے بارے میں منفی رائے قائم کر لے۔ بلکہ آدمی کی ساری پلاننگ اس بنیاد پر ہونا چاہیےکہ جو شادی ہوگئی ، اس کے ساتھ اس کو نباہ کرنا ہے۔ کوئی دوسرا آپشن اس کے لیے ممکن نہیں۔
شادی کا مقصد زندگی کی خوشی حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ زندگی کو سمجھ کر انسان مثبت انداز میں اس کی تعمیر کرے۔ ایسی تعمیر جو پوری انسانیت کے لیے مفید ہو۔ شادی دو انسانوں کے درمیان اجتماع کا نام نہیں ہے، بلکہ شادی ایک سماجی ذمے داری ہے۔ شادی سماج کے عمومی عمل کا ایک حصہ ہے۔ شادی مستقبل کی منصوبہ بندی ہے، نہ کہ وقتی طور پر خوشیوں کی ایک دنیا بنانا۔ خوشیوں کی دنیا بنانے کا نظریہ ایک ایسا نظریہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے:
Prima facie it stands rejected.
چنانچہ دنیا میں کوئی شادی اس معیار پر پوری نہیں اترتی۔ ہر شادی اس معیار پر قابلِ رد قرار پاتی ہے۔