استطاعت کا اصول
قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جو احکام ہیں ، وہ سب کے سب ’’استطاعت‘‘ پر مبنی ہیں۔ یعنی خدا کے دین میں عمل بقدر استطاعت کا اصول ہے۔ استطاعت سے زیادہ کا مکلف بنانا اللہ کا طریقہ نہیں(البقرہ،2:286 ؛ التغابن،64:16)۔ یہ اصول فرد (individual) کے لیے بھی ہے، اورسوسائٹی کے لیے بھی۔
فقہاء کا اتفاق ہے کہ دینی عمل کی ادائیگی کی شرط استطاعت ہے(اتفق الفقهاء على أن الاستطاعة شرط للتكليف)۔ لہٰذا جو انسان کسی عمل کو انجام دینے کی استطاعت نہیں رکھتا اس کے اوپراس عمل کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ اصول قرآن و سنت کے بہت سارے نصوص سے ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن (2:286) میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: اللہ کسی پر ذمہ داری نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت کے مطابق (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، جلد 3، صفحہ 330)۔
استطاعت کا مطلب ہے— کسی خاص عمل کی انجام دہی کےلیے انسان میں جسمانی یا ذہنی کام کو کرنے کی صلاحیت یا قوت یا طاقت کا موجود ہونا:
An aptitude or ability for a particular activity, capacity or power to do a physical or mental thing.
مسلم علما کے نزدیک استطاعت کا مطلب ہے کہ انسان کسی چیز کو جان یا مال کے ذریعے سے کرنے پر قادر ہو۔ یہ حالت بدلتی رہتی ہے، لوگوں کے حالات کے بدلنے سے، اور نتائج کے بدلنے سے ( المستطيعُ هو القادِرُ في مالِه وبَدَنِه، وذلك يختلِفُ باختلافِ أحوالِ النَّاسِ، واختلافِ عوائِدِهم)الموسوعة الفقهية للسقاف، جلد2، صفحہ44۔
’’عمل بقدر استطاعت‘‘ کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ زندگی کا یہی واحد فطری اصول ہے۔ انسان جب دنیا میں کوئی عمل کرنا چاہتا ہے تو یہ ہمیشہ ففٹی ففٹی کا معاملہ ہوتاہے۔انسان اتنا ہی کرسکتاہے، جتنا خارجی حالات اس سے موافقت کریں۔ خارجی حالات کی موافقت کے بغیر انسان کوئی کام نہیں کرسکتا۔
اسی طرح فرد اور اجتماع کا معاملہ بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ جہاں تک فرد کا تعلق ہے، اس کے ذاتی معاملات پر اس کو پورا اختیار ہوتا ہے۔ ایک فرد کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات کے لیے جس چیز کو درست سمجھے، اس کو مکمل طور پر اختیار کرے۔ مثلاً اپنی حیثیت کے مطابق عادل بننا ہر آدمی کے اپنے اختیار کی چیز ہے۔ اس کے برعکس، سماجی سطح پر عدل کا نظام قائم کرنا پورے سماج کا معاملہ ہے۔ پہلی چیز فرد کے ذاتی اختیار پر منحصر ہے، اور دوسری چیز سماج کے مجموعی اختیار پر۔
ایک شخص کی ذمہ داری صرف اسی قدر ہے جو اس کے بس میں ہو۔ جو چیز اس کے بس میں نہ ہو، اس کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں۔انسان کسی عمل کے وقت جتنی استطاعت رکھے گا،خدا کے نزدیک اتنا ہی وہ اس عمل کا مکلف ہوگا۔ مثلاً عام حالات میں وضو کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہے، مگر آدمی جب بیمار ہو یا وہ ایسی جگہ پر ہو جہاں پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرکے نماز پڑھ لے۔
اجتماع کا معاملہ فرد کے برعکس ہے۔ اجتماعی یا سماجی معاملہ ہمیشہ کئی لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔ سماج کے معاملے میں وہی طریقہ چل سکتا ہے، جس پر سب کا اتفاق ہو۔ اس کے برعکس کوئی طریقہ اگر خارجی طور پر کسی کی طرف سے سماج کے اوپر نافذ کیا جائے تو لازماً لوگوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا۔ ایسے موقع پر سماج کے اندر پہلے اختلاف آئے گا، پھر ٹکراؤ آئے گا، پھر نفرتیں بڑھیں گی، اور پھر آخر میں تشدد (violence) کی نوبت آجائے گی۔ گویا مطلوب چیز تو حاصل نہ ہوگی، البتہ اس کا برعکس نتیجہ فساد کی صورت میں سامنے آجائے گا۔ یہ حقیقت ایک حدیث رسول میں اِس طرح بتائی گئی ہے: مِنْ حُسْنِ إِسْلامِ الْمَرْءِ، تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ (مسند احمد، حدیث نمبر 1737)۔ یعنی آدمی کا حسنِ اسلام یہ ہے کہ وہ اُس عمل کو ترک کردے جو بے نتیجہ ثابت ہونے والا ہو۔
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ فرد اور اجتماع دونوں کے تقاضے کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔ فرد کے لیے اس کے ذاتی دائرہ میں معیار کا اصول ہو، اور اجتماع کے لیےاستطاعت (قابلِ عمل) کا اصول۔ اس فارمولے کو ایک لفظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:
Idealism at the individual level, pragmatism at the social level.
استطاعت کے اصول کو آج کی زبان میں نتیجہ رخی عمل (result-oriented action) كها جاسکتا ہے۔ (مولانا فرہاد احمد)