بے خبری کا مسئلہ
قدیم زمانے میں ملکی اعتبار سے کوئی مسلّمہ سرحدی حد بندی موجود نہ تھی۔ اس کی وجہ سے دنیا میں وہ کلچر رائج تھا، جس کو ایک قدیم فارسی شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ہَر کِہ شَمشیر زَنَد سِکَّہ بَنَامَش خَوَانَندْ (جو شخص تلوار چلاتا ہے، اُسی کے نام کا دنیا میں سکہ چلتا ہے)۔ اس کلچر نے عملاً دنیا میں ایک قسم کی انارکی قائم کررکھی تھی۔ دنیا میں مسلّمہ اصول کی بنیاد پر قائم شدہ سرحدیں موجود نہ تھیں۔اس بنا پر قدیم دنیا میں کبھی کوئی بڑی ترقی نہ ہوسکی۔ کیوں کہ دنیا میں جغرافی استحکام (stabiliy) موجود نہ تھا، اور استحکام کے بغیر کوئی ترقی ممکن نہیں۔
پهلي جنگِ عظیم (1914-1918ء) کے بعد دنیا کے مدبرین نے اس مسئلے پر سوچنا شروع کیا۔ اس سوچ کا یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا میں جغرافی حدبندی کا تصور رائج ہوا، جس کو مبنی بر وطن قومیت (Nation State) کہا جاتا ہے۔ اس اصول کو عملاً تمام ملکوں میں تسلیم کرلیا گیا۔ لیکن اس معاملے میں مسلم لیڈروں کا استثنا ہے، جو اس معاملے میں عدم وضوح کی کیفیت میں مبتلا رہے۔ مثلاً جمال الدین افغانی، امیر شکیب ارسلان، محمد اقبال، اور سید ابوالاعلیٰ مودودی، وغیرہ۔ اس لیے وطنی قومیت کا تصور مسلمانوں میں ڈیولپ نہ ہوسکا۔
راقم الحروف کے نزدیک پهلي جنگ عظیم نے ایک جبر (compulsion) پیدا کیا۔ اس کی وجہ سے مبنی بر وطن قومیت کا تصور رائج ہوا۔ یہ بلاشبہ ایک جغرافی نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ مگر اس زمانے میں مسلم لیڈروں میں اینٹی برٹش سوچ کا غلبہ تھا۔ اس منفی سوچ کی بنا پر مسلم لیڈر وطنی قومیت کے بارے میں بھی بروقت کوئی فیصلہ نہ لے سکے۔اور مسلمانوں میں وطنی قومیت کا مسئلہ ایک ناپسندیدہ تصور کی حیثیت سے رائج ہو گیا۔ آج مسلمان اسی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ان کی قومی وفاداری آج کل ہر جگہ مشکوک سمجھی جاتی ہے۔ مسلمانوں میں غالباً مولانا حسین احمد مدنی تھے، جنھوں نے کہا تھا کہ فی زمانہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ لیکن ان کے شاگردوں نے ان کی وفات کے بعد یہ اعلان کرکے ان کی بات کو غیر موثر بنا دیا کہ حضرت نے یہ بات بطور خبر کہی تھی، بطور انشاء نہیں ۔
جغرافی حد بندی کے بعد ایک اور مسئلہ باقی تھا۔ وہ تھا ، عالمی امن (world peace) کا مسلّمہ اصول۔ یہ مسئلہ دوسری جنگ عظیم کے ذریعے طے ہوا۔ دوسری جنگ عظیم (1939-1945ء) نے ہتھیار کا نیا تصور قائم کیا۔وہ تھا ویپنز آف ماس ڈسٹرکشن(weapons of mass destruction)۔ یعنی دنیا میں جو ہتھیار رائج ہوئے، وہ عمومی تباہی کے ہتھیار تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب ایسے ہتھیار بن گئے، جو دو طرفہ تباہی کرتے تھے۔ یعنی آپ دشمن کو ماریں، تو آپ خود بھی اس کا شکارہوتے ہیں۔
اس صورتِ حال نے دوبارہ لوگوں کے اندر یہ سوچ پیدا کی کہ اب جنگ ایک ایسی چیز ہے، جس میں کسی فریق کو کوئی فائدہ نہیں۔ اس صورتِ حال نے یہ عالمی ذہن پیدا کیا کہ اب جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے۔ کیوں کہ جنگ کسی کے لیے مفید نہیں ہے۔ برطانیہ کے سابق پرائم منسٹر چمبرلین (1869-1940ء) نے کہا تھا کہ جنگ میں کوئی بھی سائڈ اپنے آپ کو فاتح کہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگ میں کوئی جیتنے والا نہیں ہے ، تمام لوگ ہارنے والے ہیں:
In war, whichever side may call itself the victor, there are no winners, but all are losers.
سابق امریکی صدر لنڈن بی جانسن (1908-1973ء)نے اس سنگین حقیقت کو اس طرح بیان کیا تھاکہ جدید جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہے، صرف بچ جانے والے ہیں:
In modern warfare there are no victors; there are only survivors.
اس طرح عالمی جنگ اول اور عالمی جنگ ثانی دونوں نے ایسا کمپلشن (compulsion)پیدا کیا، جس نے لوگوں کو اس اصول کو ماننے پر مجبور کیا کہ اب جنگ بند کرو۔ کیوں کہ جنگ میں کوئی جیتنے والا نہیں ہوگا۔ سب ہارنے والے ہوں گے۔ اس طرح پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں ٹریویل ڈکومنٹ کا اصول رائج ہوا۔ یعنی جس کے پاس پاسپورٹ اور ویزا ہو، اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ یہ دونوں اصول دعوت الی اللہ کے مشن کے لیے بے حد مفید تھے۔ اس اصول کے رواج نے پہلی بار دنیا میں عالمی دعوت کے امکان کو واقعہ بنایا۔ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے اس اصول کو اپنے انٹرسٹ کے لیے جانا، لیکن دعوت الی اللہ کے لیے اس کی اہمیت کو وہ نہ سمجھ سکے۔ یہ بلاشبہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی سب سے بڑی بے خبری ہے۔